Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

13 - 14
***
تابعیت امام ابوحنیفہ
مولانا عبدالوحید، پشاوری
سراج الامة، امام الائمہ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے جان نثاروں کی زیارت کی اور اسی طرح آپ ایک بڑی بشارت نبوی صلی الله علیہ وسلم کے مستحق بن گئے ۔ حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:”ولاتمسن النار مسلماً رانی او رای من رانی“․
” اس مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے میری زیارت کر لی اور ( اسے بھی نہیں چھوئے گی) جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھ لیا۔“
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد میں جہاں صحابہ کرام کے لیے عظیم بشارت کا اعلان ہے وہیں ان لوگوں کے لیے بھی خوش خبری ہے جنہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو تابعین کہلاتے ہیں ،جنہوں نے صحابہ کرام کی دل وجان سے اتباع کی اور ان کے تابع ہو کر چلے اور زندگی کے ہر دائرے میں صحابہ کرام کے نقش قدم اور نقش عمل کو تلاش کیا۔
حضرت امام صاحب اور قرآنی بشارت
الله تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا ابداً ذالک الفوز العظیم﴾․ (سورہ توبہ، آیت:100)
” اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلی ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جوان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ الله راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں، رہا کریں گے ان ہی میں ہمیشہ یہی ہے، بڑی کامیابی“۔
اس آیت میں الله تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام مہاجرین ہوں یا انصار اوران کی اتباع کرنے والوں سے اپنی رضا کا اظہار فرمایا ہے ، حضرت امام ابوحنیفہ بھی ان حضرات میں شامل ہیں جنہوں نے دل وجان سے صحابہ کرام کی اتباع کی اور تابعی کہلائے، چناں چہ علامہ محمد بن یوسف صالحی امام صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿قلت فابوحنیفة من اعیان التابعین وداخل قولہ تعالیٰ والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضواعنہ واعد لھم جنت تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا ابداً، ذالک الفوز العظیم﴾․
ترجمہ… میں کہتا ہوں کہ کہ امام ابوحنیفہ اجلہ تابعین میں سے ہیں اور آپ الله تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہیں کہ ﴿والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنھم ورضواعنہ… ﴾․
اور علامہ ابن حجر مکی ”الخیرات الحسان“ میں فرماتے ہیں:
﴿وحینئد فھو من اعیان التابعین الذی شملہ قولہ تعالیٰ والذین التبعوھم بإحسان… ﴾․
ترجمہ… اور امام ابوحنیفہ مخصوص تابعین میں سے ہیں جو الله تعالیٰ کے فرمان : ﴿والدین اتبعوھم بإحسان… ﴾ کے مصداق ہیں۔“
تابعی کی تعریف
امام ابوحنیفہ  کی تابعیت کو سمجھنے کے لیے پہلے تابعی کی تعریف کرنا مناسب ہو گا ، تابعی کی تعریف میں اختلاف واقع ہوا ہے ، علامہ محمد بن یوسف شافعی  تابعی کی تعریف یوں فرماتے ہیں۔
”تابعی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے صحابی سے ملاقات کی ہو، اگرچہ صحبت نہ اٹھائی ہو ، حافظ ابو عمر وعثمان بن صلاح نے فرمایا کہ یہی بات انسب ( زیادہ مناسب) ہے اور امام نووی نے فرمایا کہ یہی بات اظہر ( زیادہ ظاہر وواضح) ہے۔“
امام صاحب کی تابعیت کے متعلق اختلاف تابعی کی تعریف کے اختلاف پر مبنی ہے ، بعض نے رویت ( دیکھنے) کے ساتھ روایت کی بھی شرط لگائی ہے، لیکن یہ قید صحیح نہیں ہے، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف رویت ہی کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ:” لا تمس النار مسلما رانی أو رای من رانی“․
ترجمہ… اس مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے میری زیارت کی اور اسے بھی نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھنے والوں کی زیارت کی۔
اس حدیث میں صرف رویت ( دیکھنے کا) ذکر ہے، روایت کا کوئی ذکر نہیں ، اسی بنا پر جمہور علما نے صحابی اور تابعی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے، جب کہ تابعی کی تعریف صحابی کی تعریف ہی سے ماخوذ ہے۔ ”من لقي النبی صلی الله علیہ وسلم مومنا بہ، ومات علی الاسلام، ولو تخللت ردة“․
ترجمہ… صحابی وہ ہے جس نے بحالت ایمان حضور صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر وفات پائی اگرچہ درمیان میں ارتداد پیش آگیا ہو۔
اس تعریف میں صرف ملاقات کا اعتبار کیا گیا ہے، اگر اس کے ساتھ روایت کی قید کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو حضرات صحابہ کی کثیر تعداد رتبہ صحابیت سے نکل جائے گی کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت محمد بن ابوبکر کی عمر صرف چھ ماہ تھی، جن کی حضور صلی الله علیہ وسلم سے کوئی روایت نہیں، پس وہ صحابی ہیں۔ روایت نہ ہونے کی بنا پر ان کو صحابیت سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی  نے صحابی کی تعریف کوسامنے رکھ کر تابعی کی یوں تعریف کی ہے:” التابعی ھو من لقی الصحابی“․
ترجمہ… تابعی وہ ہے جس نے صحابی سے ملاقات کی ہو ۔
اس تعریف کے متعلق حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ: ”ھذا ھو المختار، خلافا لمن اشترط فی التابعی طول الملازمة وصحة السماع“․
ترجمہ… یہ بہترین تعریف ہے، ہاں! ان کے خلاف ہے، جو تابعی کے لیے طول صحبت اور صحت سماع کی قید لگاتے ہیں۔
حافظ ابن حجر مکی نے بھی اس تعریف کو اکثر محدثین کامسلک قرار دیا ہے ۔
تابعیت ابوحنیفہ پر تاریخی شہادات
تاریخ وسیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ تابعیت کے شرف سے مشرف ہوئے ہیں اور آپ نے مختلف صحابہ کا زمانہ پایا ہے، امام صاحب کی تاریخ پیدائش پر نظر ڈالنے سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ نے صحابہ  کا زمانہ پایا ہے ، امام صاحب کے سن پیدائش میں اختلاف ہے، بعض نے سن 61ھ اور بعض نے سن 70ھ بیان کی ہے، مگر سب سے راجح قول کے مطابق آپ کا سن پیدائش80ھ ہے، یہ وہ زمانہ ہے، جب بہت سے صحابہ کرام اس دنیا میں تشریف فرماتھے، متعدد علمائے کرام نے ایسے تمام صحابہ کو نام بنام گِنوایا ہے جو اس وقت بقیدحیات تھے، چند کے نام یہ ہیں:
1…حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ، متوفی93ھ․
2… حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنہ، متوفی87ھ․
3… حضرت سہیل بن سعد رضی الله عنہ ،متوفی 88ھ․
4… حضرت ابوطفیل رضی الله عنہ، متوفی110ھ․
5… حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ ،متوفی85ھ․
6…حضرت مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ، متوفی87ھ․
7… حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ، متوفی86ھ․
8… حضرت عمرو بن حریث رضی الله عنہ، متوفی85ھ․
9…حضرت عبدالله بن بسر رضی الله عنہ ،متوفی96یا88 ھ․
10… حضرت بسر بن ارطاة رضی الله عنہ، متوفی86ھ․
11… حضرت عبدالله بن حارث بن جزء رضی الله عنہ، متوفی85 یا99ھ․
12…حضرت عتبیٰ بن عبدالسلمی رضی الله عنہ، متوفی87 یا90ھ․
13… حضرت اسعد بن سہل رضی الله عنہ، متوفی100ھ․
14… حضرت سائب بن یزید رضی الله عنہ، متوفی91ھ․
15… حضرت طارق بن شہاب بجلی کوفی رضی الله عنہ، متوفی82 یا93ھ․
16… عبدالله بن ثعلبہ رضی الله عنہ، متوفی87 یا89ھ․
17… عبدا لله بن الحارث بن نوفل رضی الله عنہ، متوفی99ھ․
18…حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ، متوفی 83ھ․
19… حضرت مالک بن حویرث رضی الله عنہ متوفی94ھ․
20…حضرت محمود بن لبید رضی الله عنہ، متوفی96 ھ․
21… حضرت مالک بن اوس رضی الله عنہ، متوفی92ھ․
22… حضرت قبیصہ بن ذویب رضی الله عنہ ․
حضرت امام ابوحنیفہ نے مندرجہ بالا تمام صحابہ کرام کا زمانہ پایا ہے، لہٰذا امام صاحب کی صحابہ کرام سے ملاقات عین ممکن ہے۔ چناں چہ علامہ محمد بن اسحق المعروف بابن ندیم فرماتے ہیں:”وکان من التابعین، لقی عدة من الصحابة، وکان من الورعین الزاھدین“․
ترجمہ… حضرت ابوحنیفہ تابعین میں سے ہیں اور آپ نے بہت سے صحابہ سے ملاقات کی ہے ، آپ متورع اور زاہدین میں سے تھے۔
علامہ قسطلانی صاحب رحمة الله علیہ نے بھی امام ابوحنیفہ کو تابعین کے زمرے میں شمار کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :”ومن التابعین الحسن البصری، وابن سیرین، والشعبی، وابن المسیب، وعطاء، وابوحنیفہ“․
ترجمہ… اور تابعین میں سے حسن بصری، ابن سیرین ، شعبی، ابن المسیب ، عطا ء ابن ابی رباح اور ابوحنیفہ رحہمھم الله ہیں۔
علامہ محمد بن یوسف صالحی شافعی رحمہ الله نے بھی آپ کے تابعی ہونے کی صراحت فرمائی ہے، وہ فرماتے ہیں:
”اعلم۔ رحمک الله۔ ان الامام ابا حنیفہ  من اعیان التابعین“․
ترجمہ… جان لو، الله تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔
مشہور مفسر علامہ ابن کثیر نے بھی حضرت امام صاحب کو تابعین میں سے شمار کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ”لانہ ادرک الصحابة، ورای انس بن مالک“۔
ترجمہ… کیوں کہ حضرت امام صاحب نے صحابہ کو پایا ہے اور حضرت انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے۔
حافظ ذہبی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:”انہ رای انس بن مالک مراراً“․
ترجمہ… امام صاحب نے حضرت انس کو بار بار دیکھا ہے۔
امام ذہبی ایک دوسری جگہ حضرت امام صاحب کو تابعین کے زمرہ میں شمار کرتے ہوئے کیسی محبت وعقیدت کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں ۔
فقیہ العصر، وعالم الوقت ابی حنیفہ، ذی الرتبة الشریفة والنفس العفیفة، والدرجة الحنیفة، النعمان بن ثابت، مفتی اہل الکوفة ولد رضی الله عنہ وارضاہ، وانفذ ما وضعہ من الدین الحنفی، وأمضاہ فی سنة ثمانین فی خلافة عبدالملک بن مروان بالکوفة، وذلک فی حیاة جماعة من الصحابة رضی الله عنہم، وکان من التابعین لھم ان شاء الله باحسان، فانہ صح انہ رای انس بن مالک اذ قدمھا انس، قال محمد بن سعد: حدثنا سیف بن جابر ان ابا حنیفة یقول: رأیت انسا رضی الله عنہ“․
اس عبارت میں جو چاشنی ہے وہ عربی زبان کے جاننے والے ہی ملاحظہ کر سکتے ہیں او رمقصود یہی ہے کہ امام صاحب اس وقت اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے جب زمین پر صحابہ کرام  کی ایک جماعت تشریف فرماتھی اور امام صاحب نے ان کی زیارت کی اور آخر میں سیف بن جابر کی روایت سے امام صاحب کا ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت انس۔ رضی الله عنہ۔ کی زیارت کی ہے ۔
امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے سلسلے میں حافظ صاحب ( ابن حجر عسقلانی) کا ایک تفصیلی فتوی بھی موجود ہے چناں چہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ الله فرماتے ہیں :
”ورفع ھذا السؤالُ الی الحافظ ابن حجر فأجاب بما نصہ: أدرک الإمام ابوحنیفة جماعة من الصحابة، لانہ ولد بالکوفة ثمانین من الھجرة، وبھا یومئذٍ من الصحابة عبدالله بن ابی اوفی، فانہ مات بعد ذلک بالاتفاق، وبالبصرة یومئذٍ انس بن مالک، ومات سنة تسعین او بعدھا،،․
ترجمہ… امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا سوال حافظ ابن حجر کے سامنے اٹھایا گیا تو انہوں نے جواب دیاکہ ” امام صاحب نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے، کیوں کہ وہ 80ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور اس وقت کوفہ میں عبدالله بن ابی اوفی موجود تھے، اس لیے کہ بالاتفاق ان کا انتقال80ھ کے بعد ہوا ہے اور بصرہ میں اس وقت حضرت انس موجود تھے اور ان کا انتقال 95 میں یا اس کے بعد ہوا ہے ۔
آگے جاکر ابن حجر فرماتے ہیں کہ:”فھو بھذا الاعتبار من التابعین“․
ترجمہ… اس لحاظسے امام صاحب تابعین میں سے ہیں ۔
اور حافظ صاحب نے بخاری کی شرح ” فتح الباری“ میں ”باب الصلوٰة فی الثیاب“ کے تحت بیان فرمایا کہ یہی جمہور کا مسلک ہے۔
حافظ صاحب کے ایک معاصر علامہ ابن الوزیر الیمانی امام صاحب کے بارے میں یوں گوہر افشانی کرتے ہیں۔
”وکان الإمام ابوحنیفة  من اھل اللسان القدیمة واللغة الفصیحة، فقد ادرک زمان العرب وعاصر جریراً والفرزدق ورای انس بن مالک خادم رسول الله صلی الله علیہ وسلم مرتین، وقد توفی انس سنة ثلاث وتسعین من الھجرة، والظاہر ان ابا حنیفة ماراہ وھو فی المہد، وإنما رآہ بعد التمییز“․
ترجمہ… امام ابوحنیفہ اہل زبانتھے، ان کی زبان درست اور فصیح تھی، انہوں نے اہل عرب کا زمانہ پایا،جریر اور فرزدق کے معاصر رہے ، حضور صلی الله علیہ وسلم کے خادم حضرت انس کی دو مرتبہ زیارت کی ، حضرت انس کی وفات 93ھ میں ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو گہوارے میں نہیں دیکھا، بلکہ ہوش اور تمیز کے بعد دیکھا ہے۔
امام ابوحنیفہ کی بعض صحابہ سے روایت حدیث
مختلف علمائے کرام نے حضرت امام صاحب کی مرویات ، جو آپ نے صحابہ سے روایت کی ہیں، اپنی کتابوں میں ذکر کی ہیں اور بعض علما نے ان مرویات کی تعداد پچاس بتلائی ہیں ، مرویات کی تعداد جتنی بھی ہو اس سے ہمیں سروکار نہیں ہے، لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب نے صحابہ کی زیارت کی ہے، علامہ خوار زمی فرماتے ہیں : ”اتفق العلماء علی انہ روی عن اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، لکنھم اختلفوا فی عددھم“․
ترجمہ… علماکا اس پر اتفاق ہے کہ امام صاحب نے صحابہ کرام سے روایات نقل کی ہیں، لیکن ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کہ امام صاحب کی مرویات پر محدثین کرام نے اعتراضات بھی قائم کیے ہیں، لیکن: ”قدبینا الإمکان ثابت، والناقل عدل، والثبت اولی من النافی“․
ترجمہ… ہم نے بیان کر دیا کہ امکان موجود ہے اور ناقل عادل ہے او رمنفی کے مقابلہ میں مثبت کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔ چناں چہ ہم مثبت پوزیشن میں ہی ہیں، اس لیے ہمارے دلائل کو زیادہتقویت حاصل ہے ۔
کوفہ کے آخری صحابی حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنہ ہیں، ان کی تاریخ وفات89ھ ہے، اس وقت امام صاحب کی عمر 9 سال تھی، امام صاحب نے ان کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث سنی ہے اور صبی وبچے کا سماع حدیث کرنا محدثین کرام کے یہاں قابل اعتبار ہے، چناں چہ امام بخاری نے کتاب العلم میں ایک باب باندھا ہے ۔
” متی یصح سماع الصغیر؟“
اس میں محمود بن ربیع کا پانچ سال کی عمر میں سماع حدیث کرنا نقل کیا ہے، اس لیے پانچ سال کی عمر میں تحمل حدیث کرنے پر اجماع ہے ، چناں چہ مقدمہ ابن صلاح میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے :”وھوالذی استقر علیہ اھل الحدیث“․
ترجمہ… بچہ کا تحمل حدیث کرنے پر محدثین کا اجماع ہے۔
لہٰذا امام صاحب کا حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے سماح حدیث کرنا ثابت ہے ،اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔
ذیل میں حضرت امام صاحب کی صرف دو مرویات بطور مثال ذکر کی جاتی ہیں ۔ علامہ جلال الدین السیوطی نے یہ حدیث لکھی ہے، جو امام صاحب سے روایت کی گئی ہے۔
عن ابی حنیفہ عن انس بن مالک قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول:” طلب العلم فریضة علی کل مسلم“․
ترجمہ… امام ابوحنیفہ سے روایت ہے، وہ انس سے بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کا حصول ہر مسلمان کے اوپر فرض ہے۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے حضرت عبدالله بن الحارث سے یہ حدیث سنی ہے کہ:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے الله کے دین میں فقاہت بہم پہنچائی الله اس کے غم میں کافی ہو گا اور اس کو ایسی جگہ سے روزی پہنچائے گا کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا۔
امام دارقطنی کی رائے او ر تحقیق
امام دارقطنی امام ابوحنیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں : ” لم یلق ابوحنیفة احداً من الصحابة الا انہ رای انسا بعینہ، ولم یسمع منہ“․
ترجمہ… امام ابوحنیفہ نے کسی صحابی سے ملاقات نہیں کہ البتہ انہوں نے حضرت انس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، مگر ان سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
لیکن دارقطنی کی یہ رائے انصاف اور تحقیق پر مبنی نہیں ہے ، انہوں نے سوائے حضرت انس کے سارے صحابہ کی زیارت کی نفی کی ، ہم سب سے آخری صحابی صرف ابوطفیل کی بات کو لیتے ہیں، آپ کی وفات 110ھ میں ہوئی ہے اور صاحب درمختار کے بقول امام صاحب نے کل 55 حج کیے ہیں اور پندرہ حج حضرت ابو طفیل کی حیات میں کیے ہیں، ابوطفیل مکہ مکرمہ میں ہوا کرتے تھے اور امام ابوحنیفہ نے 15 سال کی عمر میں پہلا حج اپنے والد کی معیت میں کیا ہے، لہٰذا عقل اس بات کو کس طرح تسلیم کرے کہ امام صاحب کی ملاقات سوائے حضرات انس کے کسی صحابی سے نہیں ہوئی ہے، جب کہ حضرت ابو طفیل مسجد حرام میں تشریف رکھتے ہوں اور امام صاحب بالغ بھی ہوں اور پھر بھی صحابہ کی ملاقات سے گریز کرتے رہیں ؟ اس مدت میں تو سماع حدیث بھی یقینی ہے اور دارقطنی کا یہ قول کہ حضرت انس کو امام صاحب نے دیکھا، مگر ان سے کوئی حدیث نہیں سنی ، سواس کا جواب بھی ہو گیا ، نیز ہم نے اوپر علامہ سیوطی کے حوالے سے حضرت امام صاحب کی حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت کو بیان کر دیاہے۔
پس جس طرح امام صاحب کو حضرات صحابہ کی ملاقات کے مواقع حاصل ہوئے، آپ کے ہم عصر دوسرے ائمہ کو حاصل نہیں ہوئے اور حضرت انس کی ملاقات کا معاملہ تو مخالفین کو بھی تسلیم ہے، چناں چہ نواب صدیق حسن خان صاحب رقم طراز ہیں:
امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک کی زیارت کی ہے ۔
تمام بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ باتفاق محدثین کرام حضرت امام صاحب تابعی ہیں اور صحابہ کرام کے ساتھ آپ کی ملاقات ثابت ہے، جیساکہ مفتی عبدالرؤف سکھروی کے والدگرامی مفتی عبدالحکیم صاحب سکھروی رقم طراز ہیں:
” کہ امام ابوحنیفہ تابعی ہیں اور حافظ ذہبی ،علامہ ابن حجر عسقلانی، علامہ قسطلانی اور علامہ دارقطنی، یہ تو حفاظ ہیں اور علامہ ابن جوزی، خطیب بغدادی، ابن سعد، ابن خلکان، علامہ یافعی، علامہ ابن حجر مکی اور شیخ جزری رحمہم الله سب کی شہادت موجود ہے کہ امام صاحب نے صحابہ کا زمانہ پایا ہے اور حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے۔
آخر میں امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت عبدالله بن مبارک کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
کفی نعمان فخراً ما رواہ
من الاخبار عن غرر الصحابة
امام ابوحنیفہ کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ نے اکابر صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں ۔
وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین․

Flag Counter