Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

14 - 14
***
دار فور ۔۔ سنہری تاریخ کی ایک جھلک
اہل مغرب کا دارفور میں فتنہ انگیزی کا سبب
مولانا حفظ الرحمن ندوی اعظمی
میں سمجھتا ہوں کہ سبھی لوگ مدینہ منورہ سے واقف ہیں اور شاید بعض ”ابیارِ علی“ سے بھی واقف ہوں گے جو باشند گانِ مدینہ منورہ کی میقات ہے جہاں حج یا عمرہ کرنے والا نیت کرکے احرام باندھتا ہے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اس جگہ کا نام ذوالحلیفہ تھا ( حدیث وفقہ کی کتابوں میں یہی نام مشہور ومعروف ہے) بعض لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ذوالحلیفہ کا موجودہ نام ” ابیارِ علی“ حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کی طرف منسوب ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام علی بن دینار کی طرف منسوب ہے۔
علی بن دینار اس میقات پر 1898ء میں حج کے موقع پر آئے تھے تو میقات کو خستہ حالت میں پایا تھا ، اس لیے وہاں پر کنوے کھدوائے تاکہ حجاج ان سے پانی استعمال کریں اور وہ ان کو وہاں پر کھانا کھلائیں اور اسی موقع پر مسجد ذوالحلیفہ کی ازسرِ نو تعمیر کی، جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے حج کے لیے مدینہ منورہ سے نکل کر نمازادا کی تھی اور احرام باندھا تھا، علی بن دینار نے اس جگہ قیام کیا اور اس کو آباد کیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ علی بن دینار کون ہیں
علی بن دینار دارفور کے سلطان ہیں ، دارفور وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں صرف آج کل سننے میں آرہا ہے ، جب دنیا والوں نے اس کا تذکرہ کیا، ہم اسے مغربی سوڈان میں بے آب وگیاہ چٹیل میدان تصو رکرتے ہیں ۔ دارفور1898ء سے 1917ء تک اسلامی سلطنت تھا، جس کے سلطان علی بن دینار تھے ۔ جب مصر نے غلافِ کعبہ بھیجنے میں تاخیر کی تو انہوں نے دارفور کی راجدھانی الفاشر میں غلاف کعبہ تیار کرنے کا کارخانہ قائم کیا، اس کارخانہ سے تقریباً بیس سال تک غلافہ کعبہ مکہ مکرمہ بھیجتے رہے۔
دارفور کا رقبہ جمہوریہ فرانس کے رقبہ کے برابر ہے ، اس کی آبادی ساٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ، جس میں مسلمانوں کا تناسب99 فی صد ہے۔ قارئین کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ کسی مسلم ملک میں سب سے زیادہ حفاظ کی جو تعداد پائی جاتی ہے وہ دارفور میں ہی موجود ہے ۔ دارفور کی نصف آبادی حفاظ پر مشتمل ہے جو قرآنِ کریم کو زبانی یاد رکھتے ہیں ، یہاں تک کہ افریقا کے مسلمان اس علاقہ کو ”مصحف“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ازہر شریف میں ماضی قریب تک ایک ہاسٹل تھا جس کا نام ” رواق دارفور“ تھا، اہلِ دارفور برابر وہاں قیام کرکے ازہر شریف میں علم حاصل کرتے تھے۔
دارفور کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پر کچھ عربی نسل کے قبائل آباد ہیں جو کاشت کاری کرتے ہیں او رکچھ افریقی نسل کے قبائل ہیں جو جانور پالتے اور ان کوچراتے ہیں ۔ جیسا کہ عموماً ساری دنیا کے جنگلوں کا حال ہے کہ کاشت کاروں اورچرواہوں کے درمیان چراگاہ کے سلسلے کشمکش رہتی ہے اور معمولی بات پر قبائل ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہو جاتیہیں۔
کوئی حکومت اس قسم کے نزاع کو فوری طور پر ختم کرسکتی ہے، لیکن ایسا سوڈان میں نہیں ہوا، بلکہ بات بڑھتی گئی جیسا کہ آپ سنتے اور دیکھتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ سوڈان براعظم افریقا میں خوراک کا مرکز ہے ، سوڈان زراعت کے میدان میں دنیا کا سب سے سرسبز علاقہ ہے ، سوڈان میں کچھ عرصہ پہلے بہت زیادہ مقدار میں پٹرول کا انکشاف ہوا ہے او راسی مقدار میں شمالی دارفور میں یورینئیم کا بھی پتہ چلا ہے اس لیے دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں چین وسکون قائم رہے، یا سوڈان خودکفیل ہو اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو ، لہٰذا ریشہ دوانی کرکے ملک کے اطراف میں شورش برپا کر رہے ہیں تاکہ اس سرزمین کو آخر کار چار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیں۔
برادرانِ اسلام! یہ کہانی ہے گراں قدر سر زمین دارفور کی ، جس میں کتاب الله کے یاد رکھنے والے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں اور جو کسی زمانے میں ایک اسلامی سلطنت تھی اور اس کا ایک عظیم سلطان تھا جس کا نام علی بن دینار تھا جو کعبہ کو غلاف پہنانا تھا۔ (بشکریہ ماہنامہ ہدایت)

Flag Counter