Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

12 - 14
***
قواعدِ عربی، ایک مبتدی کی نظر سے ۔۔ علم الصرف
محترم محمد خلیل الرحمن
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج عہد جدید تک ہم ذہن انسانی کے ارتقا او راس کی نشوونما کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا اور بنیادی عنصر جس کی ذہن انسانی کو ضرورت تھی وہ ہے رابطہ اور رابطے کی زبان۔ جس کے بغیر شاید یہ عمل ممکن نہ ہوتا۔ جانوروں کے برعکس جنہیں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رابطے کے لیے صرف چند اشاروں اور کچھ آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے ، انسانی ذہن کو اپنا ما فی الضمیر مکمل طور پر بیان کرنے کے لیے یقینا ایک مکمل زبان کی ضرورت ہوئی ۔ اس طرح گویا انسانی رابطے کے اہم ترین طریقے یعنی زبان کا فطری ارتقا عمل پذیر ہوا۔ جب ہم فطری انداز کی بات کرتے ہیں تو یقینا ہمارا واضح اشارہ امر ربی کی جانب ہے۔ الله رب العزت نے تخلیق انسانی کے بعد اسے بیان کی قدرت عطا فرمائی:﴿خلق الانسان علمہ البیان﴾․
جس کی تفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کچھ یوں کرتے ہیں۔
”ایجاد ( وجود عطا فرمانا) الله کی بڑی نعمت بلکہ نعمتوں کی جڑ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ ایجادِ ذات اور ایجادِ صفت۔ تو الله تعالیٰ نے آدمی کی ذات کو پیدا کیا اوراس میں علم بیان کی صفت بھی رکھی۔ یعنی قدرت دی کہ اپنے ما فی الضمیر کو نہایت صفائی وحسن و خوبی سے ادا کرسکے اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔ اس صفت کے ذریعے سے وہ قرآن سیکھتا اور سکھاتا ہے اور خیر وشر، ہدایت وضلالت ، ایمان وکفر اور دنیا وآخرت کی باتوں کو واضح طور پر سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔“( از تفسیرِ عثمانی)
تخلیقِ آدم ہوئی، پھر بی بی حوا تخلیق کی گئیں پھر ان دونوں کے ملاپ سے کنبہ اور خاندان بنے اور اس سے قبیلے اور ذاتیں وجود میں آئیں۔ قرآنِ کریم میں الله تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿یایھا الناس انّا خلقنٰکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعوباً وقبائلً لِتعارفوا﴾․
ترجمہ… ”اے آدمیو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے، تاکہ آپس کی پہچان ہو۔“
آپس کی پہچان او راپنا مافی الضمیر ادا کرنے اور دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے انہیں زبان عطا ہوئی او رپھر جب ان کی تعداد بڑھی تو اسرائیلی روایات اور عہدنامہ عتیق کے مطابق وہ زمین میں پراگندہ ہو گئے اور ان کی زبان میں اختلاف ہوا۔
# اور تمام زمین پر ایک ہی زبان او رایک ہی بولی تھی۔
عہد نامہ عتیق۔ تکوین۔
# آؤ ہم اتریں اور وہاں ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں۔
# اور خدا وند نے انہیں اس جگہ سے تمام زمین پر پراگندہ کیا اور وہ شہر کے بنانے سے رک گئے۔
# اس لیے اس کا نام بابل ہوا، کیوں کہ وہاں خدا وند نے ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خدا نے انہیں تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔ (عہد نامہ عتیق۔ تکوین:11/7-9)
جب بنی نوع آدم اس زمین پر ذاتوں اور قبیلوں میں بٹے اور پھیلے اور ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر دور ہوئے تو انہیں اپنے اپنے ماحول کے مطابق مختلف زبانیں بارگاہِ خدا وندی سے عطا ہوئیں۔
اس طرح گویا دنیا کی مختلف زبانوں کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔ ہمیں دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ کہیں کچھ لوگ جمع ہوئے ہوں اور انہوں نے کسی زبان کی ایجاد کی کوشش بھی کی ہو ۔ (1887ء میں ایک پولش ڈاکٹر ذامن ہاف نے ، اسپیرانٹو کے نام سے ایک زبان ایجاد تو ضرور کی ، لیکن وہ زبان اپنی موت آپ مر گئی اور آج سو ، سوا سو سال بعد کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا۔) ہاں! البتہ انسان نے شعوری طور پر ان رائج زبانوں کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی، جس کے نتیجے میں لسانی قواعد وضوابط ضابطہ تحریر میں آئے۔ اس طرح گویا گرامر ایجاد ہوئی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس طرح گرامر دریافت ہوئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح سائنسی قوانین (قوانین فطرت) انسان نے ایجاد کیے، بلکہ دریافت کیے۔ کشش ثقل اور اس کے قوانین انسانی ایجاد نہیں بلکہ انسانی دریافت ہیں ۔ بعینہ لسانیات کے ماہرین نے سرجوڑ کر مروجہ زبان کے طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں گرامر اور لسانیات کے قواعد دریافت کیے۔
قرآن کریم میں الله باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿فطرت الله التی فطر الناس علیھا لاتبدیل لخلق الله﴾․ ( سورہ روم)
ترجمہ…” وہی تراش الله کی جس پر تراشا لوگوں کو۔ بدلنا نہیں الله کے بنائے ہوئے کو۔“
کیا وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور پیدا ہونے والی اور پھلنے پھولنے والی تہذیبوں میں ایک دوسری تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہونے اور دوسری تہذیب کے کسی طرح کے اثرات قبول نہ کرسکنے کے باوجود ہر تہذیب وتمدن میں اچھائی وبرائی کے تصورات ایک جیسے ہیں ۔ اچھائی واچھی قدریں ہر تہذیب وہر زمانے میں اچھے تصورات واقدار ہی ہیں اور برائی اوراس سے جنم لینے والی بری اقدار وبرے تصورات ہر تہذیب و ہر دور میں برے ہیں، بدی ہر دور اور ہر تہذیب میں بدی ہے اور نیکی ہر دور اور ہر تہذیب میں نیکی ہے۔ اچھے خیالات، نیکی ، سچائی، احسان ، ہمدردی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے محبت وشفقت، کمزور کی طرف داری، غلط قدروں اور غلط تصورات کے خلاف آواز اٹھانا، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں، قتل وغارت گری، چوری، ڈاکہ زنی وغیرہ پر سزا ہر دوراور معاشرے میں اچھی اقدار کے طور پر موجود رہی ہیں، جن پر بجا طور پر فخر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح دوسری طرف برے خیالات، بدی، جھوٹ، مکر وفریب، دغا بازی، شقاوت، سنگ دلی، ظلم وجور، بدتمیزی، فحاشی وعریانی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، قتل وخون وغیرہ سب معاشرے کی برائیاں اور ناسور خیال کیے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ اشارہ نہیں کرتی کہ مندرجہ بالا خیالات تصورات واقدار کسی ایک تہذیب وتمدن سے دوسری تہذیب وتمدن میں کسی طور بھی منتقل ہوئے ہوں۔ یہ اقدار ہر تہذیب کی اپنی پیداوار سمجھی جاسکتی ہیں۔ خواہ وہ قدیم یونانی ومصری تہذیبیں ہوں ، ان کا وسیمری وحطیطی تہذیبیں ہوں، چین وجاپان وہندوستان کی تہذیبیں ہوں یاز مانہ جدید کی مشرقی ومغربی تہذیبیں ہوں۔ اچھی اقدار اچھی ہیں اور بری اقدار بری ہی سمجھی جاتی ہیں ۔ گویا #
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں
اور یہ کوئی معشوق، بجا طور پر خدائے لم یزل الله باری تعالیٰ کی ذات کے علاوہ او رکون سی ہستی ہو سکتی ہے۔
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیر عثمانی میں مندرجہ بالا آیت کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
”الله تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اورقبول کرنا چاہے تو کرسکے اور بدءِ فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخم ہدایت کے ڈال دی ہے اور اگرگردوپیش کے احوال وماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہوا اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقینا دینِ حق کو اختیار کرے اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ”عہدِ الست“ کے قصے میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔“
یعنی عہدِ الست ہی وہ واحد موقع ہے جب ان تمام تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی یعنی حضرتِ انسان کی تمام نوع، تمام ارواح نے ایک مقام پر یکجا ہو کر ایک زبان اور ایک آوازے کے ساتھ الله رب العزت کے سوال ﴿الست بربکم؟﴾ کے جواب میں ﴿بلیٰ﴾ کہا تھا۔ اسی الله رب العزت نے قوموں کو تہذیب، تمدن ، اقدار وتصورات عطا فرمائے اور تہذیبوں کی نشوو نما اور پروان وپرداخت کا مالک بنا۔
اسی طرح الله رب العزت نے انسانی تہذیبوں کو مختلف زبانیں عطاکیں اور ان زبانوں کی پروان وپرداخت کا مالک بنا۔ زبانوں کے ایک دوسری سے مکمل طور پر الگ ہونے کے باوجود ہمیں ان گنت الفاظ وترکیبات وخیالات کی یکسانی پر حیرت ہوتی ہے۔
ماں، ماتا، ام، مادر، مدر، ممی، جیسے ملتے جلتے الفاظ ماں کے لیے ، دنیا کی مختلف زبانوں میں استعمال ہو تے ہیں۔
عزت وتکریم کے لیے جمع کا صیغہ دنیا کی کئی زبانوں میں مستعمل ہے ، یعنی انگریزی میں وی (we) اردو میں ہم، عربی میں نحن وغیرہ کا استعمال نہ صرف الله رب العزت کی زبانی ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے، بلکہ دنیوی دیگر بادشاہوں اور متبرک ہستیوں کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے۔
ذیل میں ایک جدول کے ذریعے اردو ،انگریزی ، عربی وعبرانی کے چند الفاظ درج ہیں جو ایک جیسے ہی ہیں۔
اردو
انگریزی
عربی
…
عبرانی
الله
God
الله
Llah
Elah
واحد
One
احد
Ahud
Ikhud
یوم۔ دن
Day
یوم
Yaum
Yaum
سلام
Peace
سلام
Slam
Shaloam
او۔وہ
Oh He
یاھو
Ya Huwa
Yahowa
(مندرجہ بالا جدول شیخ احمد دیدات کے خطبات سے لیا گیا ہے۔)
اب اگر مذکورہ بالا مبحث اور دلائل کی روشنی میں منصوبہ خدا وندی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بے جانہ ہو گا۔
معاہدہ ازلی سے بہت پہلے جب الله رب العزت نے قرآن کریم کو لوحِ محفوظ میں ودیعت فرمایا، اسی دن گویا بارگاہ ایزدی میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس قرآن کو اپنے محبوب بندے حضرتِ محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمانے کے لیے زبانِ عربی ہی مناسب ترین زبان ہے ۔ لہٰذا بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی، عربی زبان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ سے کم وبیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی۔
درآں حالیکہ جب نبی امی صلی الله علیہ وسلم کو اہلِ عرب میں مبعوث فرمانے اور قرآنِ کریم کو ان پر عربی زبان میں نازل فرمانے کا وقت آیاتو اس وقت عربی زبان نہ صرف دنیا کی سب سے بہترین زبان کی شکل میں موجود تھی ، بلکہ اس وقت وہ اپنے عروجِ کمال کوپہنچی ہوئی تھی ۔ چناں چہ اہلِ عرب اپنی زبان پر بجا طور پر فخر کرتے تھے اور اپنے آپ کو فصیح اور دیگرعالم کو عجم یعنی گونگا سمجھتے تھے۔
مندرجہ بالا صورت حال کا ادراک واظہار نہ صرف عربوں نے بلکہ زمانہ قدیم وجدید کے غیر عربوں اور غیر مسلموں نے بھی برملا کیا، چناں چہ مشہور مستشرق دو بوئر اپنی کتاب تاریخِ فلسفہ اسلام میں رقم طراز ہے:
”عربی زبان جس کے لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور انصراف کی صلاحیت پر عربوں کو خاص طور پر ناز تھا، دنیا میں ایک اہم حیثیت حاصل کرنے کے لیے بہت موزوں تھی۔ اسے دوسری زبانوں خصوصاً ثقیل لاطینی اور پر مبالغہ فارسی کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں مختصر اور مجرد اوزان موجود ہیں۔ یہ بات علمی اصطلاحوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی ۔ عربی زبان میں باریک سے باریک فرق ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔“
آگے چل کر فاضل مصنف لکھتا ہے۔
”عربی جیسی فصیح، پر معنی اور مشکل زبان نے شامیوں اور ایرانیوں کی تعلیمی زبان بن کر بہت سے نئے مسائل پیدا کر دیے ۔ اول تو قرآن کے مطالعے، تجوید اور تفسیر کے لیے زبان پر عبور ضروری تھا، کفار کو یقین تھا کہ وہ کلام الله میں زبان کی غلطیاں دکھا سکتے ہیں ، اس لیے جاہلیت کے اشعار اور بدویوں کے روز مرہ سے مثالیں جمع کی گئیں، تاکہ قرآنی عبارت کی صحت ثابت کی جائے اور اسی سلسلے میں زبان دانی کے عام اصولوں سے بھی بحث کی گئی۔“ (از تاریخِ فلسفہ اسلام از ٹ، ج، دوبوئر۔ مترجم ڈاکٹر عابدحسین)
عربی زبان کی وہ انصراف کی صلاحیت اور مجرد او رمختصر اوزان کی خصوصیت کیا ہے؟ اس صلاحیت وخصوصیت کو ہم ایک جادوئی لفظ ”ثلاثی مجرد“ سے ظاہر کریں تو بے جانہ ہوگا۔
ثلاثی مجرد سے مراد وہ سہ حرفی مادہ ہے جو عربی زبان کے نوے فیصد افعال منصرفہ اور اسمائے مشتقہ کی بنیاد ہے۔
اب پیرایہ، خیال اور نفسِ مضمون کے اندررہتے ہوئے مندرجہ بالا مبحث کا مزید جائزہ لینے کے لیے علم الصرف کی اہم اصطلاحات کی آسان تعریف کردی جائے تو بے جانہ ہو گا۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے”الصرف ام العلوم“ یعنی علم الصرف تمام علوم کی ماں ہے ۔ دراصل صیغوں کی پہچان کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں جس سے لفظوں کو گرداننے کا طریقہ اور ایک صیغہ سے دوسرا صیغہ بنانے کا قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔
فعل دو قسم کا ہوتا ہے ، ماضی او رمضارع۔ ماضی جس میں کام کا ہو چکنا معلوم ہوتا ہے اور کام اگر اب تک ہوا نہیں ، بلکہ ہو رہا ہے یا ہو گا تو اس صورت میں مضارع کا فعل استعمال ہوتا ہے۔
فعل میں عموماً تین حروفِ اصلیہ ہوتے ہیں، مگر بعض فعلوں میں چار بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسم میں اصلی حروف عام طو رپر تین ، چار یا پانچ ہوتے ہیں ۔
ثلاثی: اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں تین اصلی حروف ہوتے ہیں ۔ جیسے ضرب، نصر وغیرہ۔
رباعی: اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں جس میں چار اصلی حروف ہوتے ہیں جیسے بعثر، دحرج وغیرہ۔
خماسی: اس اسم کو کہتے ہیں جس میں پانچ اصلی حروف ہوتے ہیں۔
اب ان ثلاثی، رباعی او رخماسی الفاظ میں سے ہر ایک کی دو ، دو قسمیں ہیں، ثلاثی مجرد اور ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرد اور رباعی مزید فیہ، خماسی مجرد اور خماسی مزید فیہ۔
اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں صرف تین یا چار حرفِ اصلی موجود ہیں اور کوئی حروفِ زائدہ نہ ہو تو اسے مجرد کہتے ہیں، جیسے ضرب، نصر ثلاثی مجر د ہیں۔ بعثر دحرج رباعی مجرد ہیں۔ لیکن اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں حروف اصلیہ کے ساتھ کوئی حرف زائد بھی ہو تو اسے مزید فیہ کہا جاتا ہے ۔ جیسے اجتنب، استنصر، ثلاثی مزید فیہ اور تسربل، تذندق رباعی مزید فیہ کی مثالی ہیں۔
لفظ کے حروف اصلیہ کو مادہ کہتے ہیں ۔ گویا کم از کم صرف تین حرف پر مشتمل ایک مختصر ترین لفظ جو حروف اصلیہ پر مشتمل ہوتا ہے ، لفظ کا مادہ کہلاتا ہے ۔ اور پھر اسی مادے سے مصدر اور اس کے تمام مشتقات کے علاوہ افعال کی تمام حالتیں وجود میں آجاتی ہیں ۔ پھر ایک بڑا کمال یہ ہے کہ فعل کے ہر صیغے میں فاعل کی ضمیر موجود ہوتی ہے ، جو ضمائر مرفوعہ متصلہ کہلاتی ہیں۔
اب ان مختصر ترین حروفِ اصلیہ اور ان کے ساتھ متصل چند حروفِ زائدہ اور ضمائر مرفوعہ متصلہ کے ادغام سے عربی زبان کے وہ تمام جامع ترین الفاظ وجود میں آتے ہیں جو کسی اسم وفعل کی تمام ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور اردو زبان کی طرح فعل کے ساتھ کرنا“ کالاحقہ لگانے کی حاجت بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ صرف ایک مختصر ترین لفظ ضرب کا مکمل ترجمہ اس ایک مردنے مارا یا اس ایک مرد نے بیان کیا ، ہوتا ہے ۔ اب جب اسی ایک مختصر ترین لفظ سے حاضر، غائب اور متکلم کے چودہ صیغے ( واحد مذکر غائب ، تثنیہ مذکرغائب، جمع مذکر غائب، واحد مونث غائب ، تثنیہ مونث غائب ، جمع مونث غائب، واحد مذکر حاضر ، تثنیہ مذکر حاضر، جمع مذکر حاضر، واحد مونث حاضر ،تثنیہ مونث حاضر ، جمع مونث حاضر ، واحد مذکر ومونث متکلم، تثنیہ وجمع مذکر ومونث متکلم)وجود میں آتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح سے کہ اس مختصر ترین لفظ کے لیے ہر صیغے سے اثبات ماضی معروف، اثبات ماضی مجہول، نفی ماضی معروف ، نفی ماضی مجہول ، اثبات مضارع معروف، اثبات مضارع مجہول ، نفی مضارع معروف ، نفی مضارع مجہول ، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل معروف ، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل مجہول ، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل معروف، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نون ثقیلہ مستقبل معروف ، لام تاکید بہ نون ثقیلہ مستقبل مجہول ، لام تاکید بہ نون خفیفہ مستقبل معروف ،لام تاکید بہ نون خفیفہ مستقبل مجہول، امر معروف، امر مجہول ، امر معروف بہ نونِ ثقیلہ ، امر مجہول بہ نونِ ثقیلہ ، امر معروف بہ نونِ خفیفہ ، امر مجہول بہ نونِ خفیفہ ، نہی معروف، نہی مجہول، نہی معروف بہ نونِ ثقیلہ ، نہی مجہول بہ نونِ ثقیلہ، نہی معروف بہ نونِ خفیفہ ، نہی مجہول بہ نونِ خفیفہ کے علاوہ مختلف اقسام کے اسم جن میں اسم فاعل، اسم مفعول، اسم تفضیل،ا سم ظرف، اسم ِ آلہ ، اسم مبالغہ اور صفت مشبہ جیسے تمام الفاظ وجود میں آتے ہیں ۔ یہ تمام الفاظ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سو الفاظ بنتے ہیں ۔ گویا ایک مادے سے کم وبیش پانچ سو الفاظ وجود میں آسکتے ہیں۔مولانا مشتاق چرتھاولی نے اپنی کتاب صفوة المصادر میں تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ مصادر تحریر کیے ہیں۔ عربی میں الفاظ خاص طور پر مختصر الفاظ کے اتنے بڑے ذخیرے کی موجودگی میں یہ بات خاص طو رپر نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس وسیع زبان میں ایک ایک لفظ کے کئی معانی او رایک معنی کے کئی الفاظ کثرت سے موجود ہیں، یعنی اس زبان میں باریک سے باریک فرق کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
جناب طالب ہاشمی نے اپنی کتاب” اصلاحِ تلفظ اور املا“ میں اردو کے ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جو عربی سے اردو میں آئے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے عربی کے سہ حر فی، چار حرفی، پانچ حرفی، چھ حرفی، چھ حرفی اور سات حرفی مصادر کے 56 اوزان سے تقریباً ساڑھے چھ سو الفاظ رقم کیے ہیں ، لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب الفاظ اپنی موجودہ حالت ہی میں اردو میں وارد ہوئے ہیں اور اس خاص مصدر کے باقی عربی الفاظ اردو کے الیے جنبی ہی ہیں۔ یہ بات اردو کی کوتاہ دامنی کی طرف اشارہ کرے یانہ کرے، عربی کی وسیع دامنی کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہے۔
امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہو پایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد ومدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن وسنت کی زبان ہے ، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے ۔ حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ“ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی ، پھر اگر اسے اس کے محاسن وخوبیوں کو پرکھتے ہوئے، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔

Flag Counter