اللہ رے دستور عملداری کا
اک جال ہے پھیلا ہوا عیاری کا
حق بات بھی کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ہوجائے نہ اعلان گرفتاری کا
٭
دنیا کی دغا سے نہ بلا سے محروم
اک لمحہ نہیں جور و جفا سے محروم
محرومِ عنایات نہیں دل لیکن
ہے شیوۂ تسلیم و رضا سے محروم
٭
دن رات عطا ہوتی ہے نعمت تیری
٭
اے ذاتِ خدا ہم پہ یہ شفقت تیری
انساں کو کبھی دیکھ کے فاقوں سے نڈھال
آغوش میں لے لیتی ہے رحمت تیری
٭
علّامہ جو اپنے کو رقم کرتے ہو
سر اپنی بلندی کا قلم کرتے ہو
اک جہل مرکب ہے نظر میں دنیا
عزت کو بڑھاتے ہو کہ کم کرتے ہو
٭
جزرنگتِ گل حسنِ گلستاں کیسا
وہ قلب کی تفریح کا ساماں کیسا
افلاس کے ماروں کا ذرا درد نہیں
یہ حال ہے انساں کا تو انساں کیسا
٭
کیوں شکوۂ ہر شام سویدا کیجے
کیوں آہ و بکا ہر روز ہویدا کیجے
جو سلسلۂ غم کی تلافی کردے
تدبیر کوئی سوچیے، پیدا کیجے
٭
چاہے جو سنبھلنا تو سنبھل سکتا ہے
یا قعرِ مذلت سے نکل سکتا ہے
ہے دفتر قانونِ خدا کی تحریر
چاہے جو بدلنا تو بدل سکتا ہے