٭
دل رکھتے ہیں وحشی نہ جگر رکھتے ہیں
مسکن کہیں ہوتا ہے نہ گھر رکھتے ہیں
کچھ بھی نہیں رکھتے ہیں یہ مانا لیکن
نالوں میں قیامت کا اثر رکھتے ہیں
٭
جب وقت ِ سحر بہرِ اذاں اُٹھتا ہے
ہر مرغِ چمن گریہ کناں اٹھتا ہے
جاری ہے ابھی برقِ تپاں کی یورش
یوں ہی نہیں گلشن سے دھواں اُٹھتا ہے
٭
پہچان سکے کوئی بشر کی صورت
ایسی تو نہیں قلب وجگر کی صورت
دیکھیں تو بڑی دور درندے بھاگیں
صد حیف یہ آدم کے پسر کی صورت
٭
ہیں تابعِ شیطان، الٰہی توبہ
کچھ صاحبِ ایمان الٰہی توبہ
جو غیر خدا کو بھی خدا سمجھے ہیں
ایسے ہیں مسلمان الٰہی توبہ
٭
ہنگامہ فزا کفر کا طوفاں کب تک
اسلام چراغِ تہِ داماں کب تک
ا ے خالقِ کونین خبر لے جلدی
آخر یہ مسلمان پریشاں کب تک
٭
شیشے میں مئے ناب کہاں باقی ہے
آلودۂ غم لطف ترا ساقی ہے
بدعت کو بھی ہے درجۂ سنت حاصل
اب دین بھی خالص نہیں الحاقی ہے
٭