٭
سامانِ صد وقار کیے جارہا ہوں میں
خود کو بڑا شمار کیے جا رہا ہوں میں
اظہارِ اضطرار کیے جارہا ہوںمیں
دامن کو تار تار کیے جارہا ہوںمیں
رنگینیٔ بہارِ چمن سے غرض نہیں
بستی کو لالہ زار کیے جا رہا ہوں میں
ہے نیستی بھی جیسے شئیِ غیر معتبر
ہستی کا اعتبارکیے جا رہا ہوں میں
باطل سے جنگ موجِ حوادث سے چھیڑ چھاڑ
دو کام شاندار کیے جارہا ہوںمیں
اعلان لاشریک لہٗ سے جھجھک نہیں
روزانہ پانچ بار کیے جا رہا ہوںمیں
صنفِ سخن کو سونپ کے جدت طرازیاں
تشکیلِ یادگار کیے جا رہا ہوںمیں
دیتا ہوں ہر کسی کو سبق دوڑ دھوپ کا
افلاس کا شکار کیے جارہا ہوںمیں
کرتا ہوں جمع خانۂ دل میں متاعِ غم
اپنے کو مالدار کیے جارہا ہوںمیں
کرنا ہے ذبح اور اسیرانِ دام کو
چاقو کی تیز دھار کیے جارہا ہوں میں
رہبرؔ کہاں وہ راہ کی حد تعینات
ترمیم بے شمار کیے جارہا ہوںمیں
٭
ملتفت گردشِ ایام ہوئی جاتی ہے
زندگی فلسفۂ جام ہوئی جاتی ہے
منتشر زلفِ سیہ فام ہوئی جاتی ہے
شام کا وقت نہیں شام ہوئی جاتی ہے
گمرہی عام نہ تھی عام ہوئی جاتی ہے
زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے
جوشِ نفرت ہے بہم رو بترقی یارب!
قوم بیگانۂ انجام ہوئی جاتی ہے