٭
کیفیت تھی یہ شدتِ غم کی
ڈبڈبا آئی آنکھ شبنم کی
ہم کو سوجھی رفاہِ عالم کی
ہرخوشی نذر ہوگئی غم کی
زندگی تو ملے کوئی دم کی
ہم الٹ دیں بساط عالم کی
ہر کسی کا ہے چاک پیراہن
حد نہیں کچھ گلوں کے ماتم کی
زندگی کی بسر خموشی میں
کی جہاں بات بھی بہت کم کی
کر لیا چاند کا سفر ہم نے
یہ اعانت ہے عزمِ محکم کی
شکل اپنی نظر نہیں آتی
روشنی میں بیاضِ عالم کی
چاہتا بھی ہے کون سنّاٹا
کیا ضرورت ہے امنِ عالم کی
ضرب کاری سے نشتر غم کی
یاد بس رہ گئی ہے مرہم کی
کرکے بند آنکھ راہ چل رہبرؔ
یہ روِش ہے جناب عالم کی
٭
ہوش اظہار کا نہیں ہوتا
جی میںہونے کو کیا نہیںہوتا
درد جب تک عطا نہیں ہوتا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
چاہتا ہے تو کیا نہیںہوتا
وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا
حاصل لم یلد و لم یولد
ایک سے دو خدا نہیں ہوتا