Deobandi Books

کلیات رہبر

66 - 98
صدیاں گزرگئیں نہ کھلا رازِ ارتقا
عالم تمام سر بگریباں ابھی تو ہے
ایسا نہیں کہ ہوگئی معدوم راستی
جو شے تھی اپنی شان کے شایاں ابھی تو ہے
راز طلسمِ وعدہ کھلا ہی نہ آج تک
انساں فریب خوردۂ انساں ابھی تو ہے
رہبرؔ رہِ سخن کے سفر ہی کیا کیے
دلبستگی کا خیر یہ ساماں ابھی تو ہے
 ٭ 
پیرو تھا میں جب تک نگہِ فتنہ نگر کا
ہر خیر میں پہلو نظر آیا مجھے شر کا
اندیشہ رہِ عشق میں ہے جی کے ضرر کا
بھولے سے بھی کوئی نہ کرے قصد اِدھر کا
مقصود پئے عزتِ دنیا ہے سفر کا
منزل ہے کدھر راہرو رُخ ہے کدھر کا
انسان ترس جاتے ہیں لمحاتِ سکوں کو
آرائشِ عالم کا جنوں درد ہے سر کا
اک غیرت خورشید کی ہے ذرّہ نوازی
ہر ذرّہ ستارا ہے مری راہگزر کا
افلاس کے مارے ہوئے انسان کی امید
پیوند ہے اک شام کے دامن میں سحر کا
زنجیر سیاست میں ہیں جکڑے ہوئے لاکھوں
کیا درد میں حصّہ نہ رہا نوعِ بشر کا
رشکِ مہ و خورشید ہے رہبرؔ مری منزل
ہر ذرّہ ستارا ہے مری راہگزر کا
 ٭ 
زندگی حاصل ہوئی خود کو فنا کرنے کے بعد
یہ تماشا دیکھتے مَیں جی اٹھا مرنے کے بعد
طوق زنجیر و سلاسل کے سوا کچھ بھی نہیں
موت ہی آتی ہے آگے موت سے ڈرنے کے بعد

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 کلیات رہبر 2 1
3 پیش لفظ 6 1
4 انتساب 10 1
5 دعاء 11 1
6 نعتیں 12 1
9 غزلیں 41 1
10 متفرق نظمیں 79 1
11 میں کوئی شاعر نہیں 80 1
12 اردو زباں 81 1
13 رباعیات 89 1
14 قطعات 93 1
15 رہبرؔ صاحب کے اپنے پسندیدہ اشعار 98 1
Flag Counter