٭
عرب میں چین میں ہندوستاں میں
مری شہرت ہوئی سارے جہاں میں
قناعت ہے مری فطرت میں داخل
فراخی مجھ کو حاصل ہے جہاں میں
ریا نے کردیا مفلوج ورنہ
مری پرواز ہوتی آسماں میں
نظر آیا قفس خوابِ گراں میں
ملے ٹوٹے ہوئے پر آشیاں میں
بلندی پر ہے پروازِ تخیل
سیاحت کر رہا ہوں آسماں میں
نہیں بے وجہ رہبرؔ تیزگامی
یقینا حوصلہ ہے کارواں میں
٭
تشویشِ غم سے نوعِ بشر لب کشا نہ ہو
ٹوٹے جو آبگینۂ دل تو صدا نہ ہو
طرزِ روِش ہی آپ نے کی ایسی اختیار
ممکن نہیں کہ فتنۂ محشر بپا نہ ہو
لے کر چلا ہوں اس لیے دنیا سے داغِ عشق
شاید مرے مزار پہ بتّی دِیا نہ ہو
ایسی تو کوئی شے نظر آتی نہیں مجھے
جو عالمِ وجود میں آئے فنا نہ ہو
ڈرتا ہوں بے شعوریِ گلچیں سے اے خدا
گلشن میں فصلِ گل کو پیامِ قضا نہ ہو
اے طائرِ نصیب تعلّی نہ چاہیے
تیرا جو شاخِ سدرہ پہ بھی آشیانہ ہو
پائے وہ خاک منزلِ مقصود کا پتا
رہبرؔ جو رہ نوردِ رہِ مصطفی نہ ہو