Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 10
برصغیر ہند میں دینی نظام تعلیم کے مجدد متکلم اسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور خلافت عثمانیہ ترکی !
 برصغیر ہند میں دینی نظام تعلیم کے مجدد متکلم اسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور خلافت عثمانیہ ترکی

تاریخ عالم میں بارہا ہوا ہے کہ کسی قوم یا ملک کے زوال پذیر معاشرہ، بلکہ کئی مرتبہ ایسے سخت حالات اور وقت میں، جب اس قوم کے باشندوں اور اس ملک میں ملت کے افراد کے لئے امید کی کوئی کرن مستقبل کی کوئی امنگ اور نوید باقی نہیں رہتی،اچانک کوئی ایک شخص نمودار ہوتا ہے جو اپنی بے لوث خدمت، بے پناہ صلاحیت، مستقبل بینی اور دور اندیشی کی غیر معمولی فطری صلاحیتوں کے ذریعہ سے، آنے والے وقت کے بگاڑ وزوال کا ادراک واندازہ کرلیتاہے اور دیکھ لیتا ہے کہ یہ جو جہالت وبے راہ روی اور دین سے بیزاری کی فضا بنی ہے، اگر ابھی سے اس کے مقابلہ کا منصوبہ نہ بنایا گیا اور آنے والے متوقع طوفان کے لئے اگر ابھی سے فکر وکوشش نہ کی گئی، ابھی سے باندھ نہ بنایا گیا، تو آنے والے وقت میں حالات کا یہ بہاؤ، بگاڑ کے یہ سامان اور زوال کی یہ روش، قوم وملت اور ملک کے باشندوں کو اپنے ساتھ بہاکر لے جائے گی اور ہوسکتا ہے کہ پھر اس درخت کی جڑیں جمانا اور اس سے نئی پود، نئی نسل تیار کرنا، دشوار ہوجائے، ایسے وقت میں یہ غیر معمولی (عبقری) افراد، کوئی ایسی تدبیر، ایسا راستہ اور ایسا نظام تلاش کرلیتے ہیں، جس کے ذریعہ سے قوم وملت کو راہ نجات تلاش کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور پھر یہی طریقہ ، یہی نظام آہستہ آہستہ مقبول ہوکر، قوم وملت کے مستقبل کی حفاظت کے پشتہ اور بندھ کا کام کرتا ہے اور اسی سے وابستہ رہ کر ملت صدیوں تک اپنی دینی ،علمی، اصلاحی اور سیاسی سفر پورے عزم وحوصلہ، ثبات واستقلال کے ساتھ طے کرتی رہتی ہے۔
برصغیر ہند وپاکستان کے ایسے ہی نہایت منتخب روزگار اور برگزیدہ افراد میں سے، ایک بہت ممتاز نام، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ واسعہ کا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم، ہندوستان کے ایک ممتاز باعزت، صدیقی خاندان کے فرد، جلیل القدر عالم، حدیث وفقہ کے عالی مرتبہ ماہر، تصوف کے رمز شناس، علوم اسلامی کے شناور، اسرار شریعت کے رازداں، زوال ملت کے نبض شناس، میدان جنگ کے حوصلہ مند سپاہی اور مجاہد، نیز مغلیہ دور حکومت کے بعد، ہندو پاکستان کے سب سے بڑے معروف، سب سے بافیض، دینی علمی ادارہ بلکہ ملت اسلامیہ کی آبرو، دارالعلوم دیوبند کے قافلہ سالار تھے۔
خاندان ونسب
حضرت مولانا محمد قاسم کا ایک قدیم صدیقی خاندان سے رشتہ ہے، جو اہل خاندان کی روایت واطلاع کے مطابق، ہندوستان کے لودھی خاندان کے بادشاہ، سکندر لودھی کے دور حکومت میں، ۸۷۸ھ (۷۴/۱۳۷۳ء) ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان کے ہندوستان آنے والے پہلے شخص شیخ مظہر الدین صدیقی تھے، صدیقیان نانوتہ کی خاندانی روایت ہے کہ سکندر لودھی نے ان کے علم وکمالات کی شہرت سنی تو ان کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی، جس کو قبول کرتے ہوئے وہ ہندوستان آگئے تھے۔ (۱) ان کے فرزند، قاضی میران بڑے سہارنپور دہلی، کی ایک نواحی بستی نانوتہ کو اپنا مسکن بنایا، (جواب ایک ضلع سہارنپور اترپردیش میں شامل ہے) قاضی میران بڑے کی نانوتہ میں، رجب ۹۰۲ھ (مارچ ۱۴۹۷ء) کو وفات ہوئی، ان کی اولاد میں شیخ محمد ہاشم ایک عالم تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا، ان کی اولاد کی تمام شاخوں میں بڑے بڑے علماء، مصنّفین اور اہل کمال پیدا ہوئے۔ وہ علماء مصنّفین اور اہل کمال، جو بعد میں برصغیر ہند کی دینی علمی تاریخ کے ماہ وانجم ثابت ہوئے اور جن کی خدمات، برصغیر کی تاریخ کے صفحات پر اس طرح مرقوم ومرتسم ہیں، کہ اب ان کے تذکرہ کے بغیر نہ ہندوستان کی کسی علمی تحریک کا تذکرہ مکمل ہوسکتا ہے، نہ کاروان علم واخلاص کا۔ یقینا یہ حضرات ایسے لوگوں میں شامل ہیں جن کو یہ کہنے کا حق ہے کہ:
ثبت است بر جریدہ ٴ عالم دوام ما
اس خاندان اور اس بستی کے اس علمی کارواں نے آخر میں ایک کہکشاں کی صورت اختیار کرلی تھی، جس میں کئی ایک آفتاب وماہتاب گردش کررہے تھے، ان میں سب سے پہلا اور ممتاز ترین نام، حضرت مولانا محمد مملوک العلی نانوتو ی (ولادت:۱۲۰۷ھ/وفات:۱۲۶۷ھ) کا ہے۔ جنہوں نے ہندوستان میں خاندان حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد، ایک نئے علمی دبستان کی رہنمائی وسربراہی کی، مسلمانوں کو عصر حاضر کی ضروریات اور دین پر ثبات واستقامت، دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ایسا متوازن سبق دیا، کہ اس کے اثرات آج تک ہندوستان کے ہرایک تعلیمی ادارہ پر گویا نقش ہیں۔ ہندوستان میں برطانو ی حکومت ونظام کے خلاف، برپا ایک بڑی جد وجہد (تحریک ۱۸۵۷ء) کے بعد سے ہمارے اس ملک میں مسلمانوں نے جو بھی تعلیمی ادارے، دارالعلوم، مدرسے اور کالج قائم کئے، وہ تمام مولانا مملوک العلی کی تربیت کا اثر، ان کے عالی مرتبہ شاگردوں کی کوششوں کا ثمرہ اور یادگار ہیں۔
حضرت مولانا مظہر نانوتوی حضرت مولانا مملوک العلی کے ایک اور قریبی عزیز، مولانا مظہر نانوتوی تھے جو اس عہد کے ایک اور بہت برگزیدہ عالم اور محدث، حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی، مہاجر مدنی، نواسہ حضرت شاہ عبد العزیز بن حضرت شاہ ولی اللہ (ولادت:۴/شوال ۱۱۱۴ھ/چہار شنبہ، وفات: ۲۹/محرم الحرام ۱۱۷۶ھ شنبہ ۱۲/اگست ۱۷۶۲ء) کے عزیز شاگرد اور خدمت ودرس حدیث میں اپنے دور میں بہت مشہور وممتاز تھے اور ہندوستان کا ایک بڑا دینی ادارہ، مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور گویا مولانا کی محنتوں، محبوبیت اور وسیع حلقہ ٴ درس کا ہی ایک مظہر ہے۔ حضرت مولانا محمد مظہر کی بڑی علمی درسی خدمات ہیں، ان کے بڑے بڑے عالی مرتبہ شاگرد ہیں، جو ہندوستان کی دینی علمی تاریخ کا فخر شمار کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا کی علمی خدمات میں سے ایک دو بڑی اہم خدمات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، حضرت مولانا نے احیاء العلوم امام غزالی کا کئی قلمی نسخوں سے مقابلہ کرکے صحیح متن مرتب کیا، اس پر مختصر حاشیہ لکھا اور اس کو شائع کرایا، مولانا کی ایسی ہی ایک اور بڑی خدمت مجمع البحار، علامہ محمد طاہر پٹنی کی تصحیح واشاعت ہے۔اور مولانا محمد مظہر سنہ ۱۲۳۷ھ (۲۲-۱۸۲۱ء) میں پیدا ہوئے تھے، محمد مظہر تاریخی نام ہے۔ ۲۴/ذی الحجہ ۱۳۰۳ھ (۳/اکتوبر ۱۸۸۵ء) کو وفات ہوئی، سہارنپور میں دفن کئے گئے۔ (۲)
مولانا یعقوب نانوتوی مولانا مملوک العلی کے فرزند، ۱۳/صفر ۱۲۴۹ھ (۲/جولائی ۱۸۳۳ء کو پیدا ہوئے) مولانامحمد یعقوب بھی اسی کاروان علم وعمل کا ایک دمکتا ہوا ستارہ تھے، جو اپنے فخر اقران والد کے شاگرد، ممتاز عالم، دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدر مدرس تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یافتہ اصحاب، نوید صبح اور خوشبو کی طرح پورے ملک میں پھیل گئے، اور اس برصغیر میں جگہ جگہ درس کے حلقے، مدرسے اور علم وافادہ کے مرکز قائم کر لئے جن میں سے اب تک بھی زندہ اور سرگرم کار ہیں۔
ولادت اور تعلیم
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، اسی خاندان اور ماحول میں (غالباً شوال ۱۲۴۸ھ/مارچ ۱۸۳۳ء) پیدا ہوئے، جب اس خاندان میں بڑے بڑے علماء موجود تھے اور ہرطرف علم اور تعلیم کا چرچا رہتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نے فارسی وعربی کی ابتدائی درسی کتابیں، مولانا مہتاب علی دیوبندی (وفات: ۱۱۹۳ھ/۱۸۷۶ء) اور مولوی محمد نواز سہارنپوری سے پڑھیں۔
محرم ۱۲۶۱ھ (جنوری ۱۸۴۵ء) میں اپنے خاندان کے عالم اور دہلی کالج کے صدر مدرس، مولانا مملوک العلی نانوتوی کی سرپرستی اور نگرانی میں مزید تعلیم کے لئے دہلی پہنچے، دہلی میں کافیہ ابن حاجب سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ مولانا محمد قاسم اپنی فطری لیاقت وصلاحیت کی وجہ سے، تعلیم میں اپنے ہم سبق ساتھیوں اور ہم عمر طلبہ سے بھی آگے رہتے تھے۔ جب کسی ساتھی یا کسی اور مدرسے کے طالب علم سے بحث وگفتگو ہوتی، تو اکثر اس مقابل (طالب علم) کو مولانا سے بحث ومباحثہ کی سوچتا، مولانا سے شرمندہ ہونا پڑتا تھا، اسی طرح تیز رفتار مگر اعلیٰ درجہ کی تفہیم وتعلیم اور لیاقت سے تعلیم مکمل کی۔ مولانا کے استاذزادے اور عزیز، مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے لکھا ہے:
”پھر تو مولوی صاحب ایسا چلے کہ کسی کو ساتھ ہونے کی گنجائش نہ رہی۔ معقول کی مشکل کتابیں، زواہد، (میر زاہد کی تصانیف) قاضی مبارک کی شرح قطبی (از میر زاہد) صدرا (صدر الدین شیرازی) اور شمس بازغہ (ملا محمود جون پوری) ایسا پڑھا کرتے تھے، جیسے حافظ منزل سناتا ہے۔“(۳)
عقلی علوم، خصوصاً ہندسہ (Geometry)کو استاذ کے بغیر خود ہی دیکھ کر پڑھ لیا تھا، فقہ، منطق وکلام اور جملہ درسی کتابوں کو مکمل کرنے اور ان علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد، حضرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی مہاجر مدنی (ولادت:۱۲۲۴ھ/۱۸۱۹ء وفات:۱۲۹۶ھ/۱۸۷۸ء) سے حدیث شریف خصوصاً صحاح ستہ پڑھیں۔
علمی تدریسی زندگی کا آغاز
حضرت مولانا محمد قاسم نے اس وقت کی عملی روایت کے مطابق، پڑھنے کے زمانہ میں ہی ابتدائی کتابیں پڑھانی شروع کردی تھیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس دور میں علماء کا عام معمول، مطالعہ سے اعلیٰ علمی کتابوں کے متون کی تصحیح، ان پر حاشیے لکھنے، اور ان کی عمدہ طباعت کی نگرانی کرنے کا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم بھی درس کی ذمہ داریوں کے ساتھ، اپنے استاذ حدیث، حضرت مولانا احمد علی محدث سہانپوری (صحیح بخاری کے محشی اور ہندوستان کے نامور محدث اور خادم حدیث) کے مطبع احمدی سے وابستہ ہوگئے تھے، اس مطبع میں مولانا نے قیمتی خدمات انجام دیں اور اس کی حیثیت ایک بڑے مرکز علمی اور تحقیقی تصنیفی اکیڈمی کی تھی۔ مشہور ہے کہ حضرت مولانا نے اور علمی کاموں کے علاوہ اپنے استاذ محترم، حضرت مولانا احمد علی کی فرمائش پر، حاشیہ صحیح بخاری کی تکمیل میں بھی کچھ حصہ لیا تھا۔
حضرت مولانانے مولانا احمد علی کے مطبع احمدی کے علاوہ ہندوستان کے ایک بڑے ناشر کتب، منشی ممتاز علی صاحب کے مطبع مجتبائی اور پھر مطبع ہاشمی میرٹھ میں تصحیح کتب کی خدمت انجام دی اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اسی کام میں مشغول رہے۔
سلوک ومعرفت
ہندوستان کے علماء میں خدا طلبی کا ذوق اور سلوک ومعرفت کی چاشنی حاصل کرنے کا، جو معمول اور اہتمام صدیوں سے چلا آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نے اپنے اساتذہ اور رفقاء کی طرح، اس پر بھی پورا عمل کیا اور اس کے لئے اپنے زمانہ کے ایک بڑے مرشد، معرفت وسلوک کے امام اور طریقہ ٴ سفر کے کامل رہنما، حضرت حاجی امداد اللہ فاروقی تھانوی کا ہاتھ پکڑا۔ حضرت حاجی صاحب جملہ سلاسل تصوف کے عالی مرتبہ شیخ تھے، حضرت مولانا نے، حضرت حاجی صاحب کی سرپرستی میں تصوف کے سبق لئے اور مرشد کامل کی تعلیمات وہدایات سے روشنی حاصل کرکے، ایسے منور وتابناک بنے کہ شیخ امداد اللہ نے مولانا کو اجازت وخلافت سے نوازا، اور اپنے متوسلین کو مولانا سے استفادہ کی ہدایت کی۔ پیرو مرشد (حضرت حاجی امداد اللہ) کی نگاہ میں حضرت مولانا محمد قاسم کا کیا مقام ومرتبہ تھا، اس کا حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریروں اور مکتوبات سے اندازہ ہوتا ہے۔ حاجی صاحب نے مولانا محمد قاسم کے والد ماجد شیخ اسد علی نانوتوی کو ایک خط میں لکھا تھا، اور اپنی ایک اہم تصنیف ضیاء القلوب میں یہاں تک لکھ دیا کہ:
”بخدمت بھائی صاحب مکرم معظم جناب شیخ اسد علی صاحب سلمہ! بعد سلام ونیاز مبارکباد ،واللہ تعالیٰ آں جناب را توفیق اتباع سنت نبوی ا داد، امید قوی ست کہ ہمیں عمل خیر ومسئلہ نجات جناب شود، عجب نیست، وشکر کنند کہ خدا تعالیٰ شمارا یک ولی کامل عطا فرمودہ کہ ببرکت انفاس اوایں چنیں اعمال نیک ورضا مندی اللہ ورسول بظہور آمد، والا ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ ہند“۔ (۴)
”نیز ہرکس کہ ازیں فقیر محبت وعقیدت وارادت دارد مولوی رشید احمد صاحب سلمہ ومولوی محمد قاسم صاحب سلمہ راکہ جامع جمیع کمالات ظاہری وباطنی اند بجائے من فقیر راقم اوراق، بلکہ بمدارج فوق از من شمارند۔ اگرچہ بظاہر معاملہ برعکس شد کہ اوشان بجائے من ومن بمقام اوشان شدم، وصحبت اوشان را غنیمت دانند، کہ ایں چنیں کساں دریں زمان نایاب اند، واز خدمت بابرکت ایشاں فیضیاب بودہ باشند“۔ (۵)
مگر اپنے تمام کمالات سلوک وتصوف میں اختصاص کے باوصف، حضرت مولانا نے خود کو چھپانے کی ہمیشہ اور آخری حد تک کوشش کی۔ حضرت مولانا نہیں چاہتے تھے کہ مولانا کے فضل وکمال اور روحانی نسبت وپرواز کا کسی کو پتہ چلے اور لوگ ان سے رجوع کریں۔ حضرت مولانا پر تواضع اور خود شکنی کا اس قدر غلبہ تھا کہ کسی کو بیعت کرنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے، چند علماء اور اہل کمال بصد اصرار بیعت ہوئے اور انہوں نے حضرت مولانا سے امکان بھر استفادہ بھی کیا، بالآخر ایک وقت آیا کہ یہ متوسلین اس لائق ہوگئے کہ ان کو حصول نسبت کی بشارت دی جائے اور اجازت وخلافت سے نوازا جائے، مگر حضرت مولانا اس مرحلہ پر بھی اپنی ذات کو پیچھے رکھنا اوران متوسلین اور سالکان راہ طریقت کا ہاتھ، اپنے شیخ ومرشد، حضرت حاجی امداد اللہ کے ہاتھ میں ہی دے دینا چاہتے تھے اور چاہتے تھے، کہ میں خود کسی کو اجازت وخلافت نہ دوں، جس کے لئے بھی اس نعمت ودولت کا فیصلہ ہو، وہ حضرت پیر ومرشد کی زبان سے ہو، اس لئے حضرت مولانا کے جس متوسل کی سیر سلوک مکمل ہوجاتی، اس کو ہدایت فرماتے کہ وہ مکہ مکرمہ حاضر ہوکر، حضرت حاجی امداد اللہ کی خدمت میں اپنی کیفیت عرض کرے اور خود حضرت کو لکھ دیتے تھے کہ میں ان صاحب کو اس لائق سمجھتا ہوں، مگر فیصلہ آنجناب کی صواب دید اور رائے عالی پر ہے، اگر اطمینان ہو تو ان کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمائیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم کے تقریباً تمام خلفائے کرام اسی طرح کے ہیں کہ اگرچہ ان کی تربیت واصلاح باطن حضرت مولانا کے زیر دامن ہوئی، مگر ان کو خلافت اور اجازت وبیعت کا پروانہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے ملا۔
انگریزوں کے خلاف برپا جد وجہد ۱۸۵۷ء میں شرکت
ابھی مولانا کو تعلیم سے فارغ ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ ہندوستان پر مسلط انگریزی حکومت واقتدار کے خلاف وہ جذبہ، جو تقریباً پچاس برس سے عوام خواص کے دلوں میں پرورش پارہا تھا، یکلخت شعلہ ٴ جوالہ بن کر پھوٹ پڑا، اور پورے ملک میں ۱۸۵۷ء /۱۲۷۲ھ میں انگریزوں کی حکومت اور سیاست واقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے خلاف، ایک پُر زور جد وجہد شروع ہوگئی۔ اس موقع پر علماء اور اہل باطن کے لئے دین وشریعت کی ذمہ داری، مسلمانوں کی عام دینی ملی ضرورت اور وقت کے تقاضہ سے غفلت، ناممکن تھی، اس لئے اس ضمن میں ایک بڑی اور منظم آواز، حضرت مولانا کے پیرو مرشد حضرت حاجی امداد اللہ کے وطن تھانہ بھون (ضلع مظفر نگر) سے بھی اٹھی، جس میں حضرت حاجی امداد اللہ قائدانہ شریک تھے اور حضرت حاجی صاحب کے علاوہ، حضرت کے خاص خلفائے کرام اور متوسلین بھی اس کے دست وبازو بنے ہوئے تھے۔
یہ تحریک پوری منصوبہ بندی اور مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھ کر، بلند حوصلہ کے ساتھ برپا کی گئی تھی، اس تحریک کا اثر دہلی سے ملحق دریائے جمنا کے کنارہ سے بڑھتا ہوا، ہمالیہ کے دامن تک پہنچا، اور دہلی کے شمال مشرق کا تقریباً ساڑھے تین سو،چار سو کلو میٹر علاقہ اس جد وجہد کا میدان بنا، جس میں ان مجاہدین نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے اور بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
یہ تحریک جو پوری طاقت اور بڑے تدبر سے چلائی اور آگے بڑھائی گئی تھی اور کیونکہ عوام علماء کی آواز پر لبیک کہتے تھے، اس لئے ہر طبقہ کے لوگوں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا اور اس کے زیر اثر مجاہدین کا انگریز افسران اور فوجوں سے ایسا پر پیچ اور کامیاب مقابلہ ہوا، جس کی بعد میں خود دشمن افسران نے داد دی، اس فوج یا کمان کے ذمہ دار کمانڈروں میں حضرت مولانا محمد قاسم بھی شامل تھے، ان حضرات نے تھانہ بھون کے قریب ایک انگریزی فوج کے ایک نسبتاً چھوٹے کیمپ اور خزانہ کو اپنا نشانہ بنایا، وہاں کامیاب حملہ کیا، انگریز دستہ کو شکست ہوئی اور اس پورے علاقہ پر انگریزوں کا قبضہ اور اقتدار ختم کرکے مجاہدین کا پرچم لہرادیا گیا، انگریز فوج کے سو سے زیادہ سپاہی اور افسر مارے گئے، ان کے اسلحہ خانہ اور خزانہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا اور میدان جنگ کے ساتھ ہی یہ پورا علاقہ مجاہدین کے انتظام میں آگیا تھا، اس جنگ میں حضرت حاجی امداد اللہ کے ایک بڑے خلیفہ حافظ محمد ضامن تھانوی اور مسلمانوں کی ایک جماعت شہید ہوئی، مگر کچھ دنوں کے بعد انگریزوں نے تازہ دم فوج اور بڑی تیاری سے دوسرا حملہ کیا، جس میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، یہاں تک کہ وہ تھانہ بھون کو بھی جو ان کا مرکز تھا، چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس تمام معرکہ آرائی میں شروع سے آخر تک حضرت مولانا محمد قاسم بھی برابر شریک رہے، جنگ کے دوران، حضرت مولانا کی ناک پر گولی لگی تھی، آخر عمر تک اس کا نشان موجود تھا۔
۱۸۵۷ء کی یہ جد وجہد اور تحریک ایک بڑی، انقلابی اور نہایت دوررس تحریک تھی، جس نے اس وقت کے ہندوستان کے مزاج، خصوصاً ہندی ملت اسلامیہ کو، اس شدت، قوت اور گہرائی سے متاثر کیا کہ اب تک اس کے اثرات موجود ہیں۔ ہندو پاکستان وبنگلہ دیش کی ہرایک دینی علمی سیاسی جد وجہد میں خصوصاً مسلمان اور دینی طبقہ ۱۸۵۷ء کی تحریک اور اس کے رہنماؤں کے طریقہ ٴ کار، تعلیمات اور اصولوں سے روشنی لے کر چلتے اور آگے بڑھتے ہیں اور ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک اور اس کے بعد سے آج تک مسلم سیاست اسی محور پر رقص کرتی رہی ہے۔
دارالعلوم اور مدارس اسلامیہ کا قیام اور ہندی
ملت اسلامیہ کے دینی علمی مستقبل کی تعمیر وتشکیل
۱۸۵۷ء کی تحریک پسپا ہونے کے نتیجہ میں انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اور ہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کر گئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کا نشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کا شکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہ ٴ کار وضع نہ کیا گیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کا باقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ ء صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اور اس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔
یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ دار العلوم کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے ، بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جد وجہد کی بھر پور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمد قاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا اور پروان چڑھایا، یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا کہ اب ہندو پاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیر سایہ ، اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین کا سفر طے کررہا ہے اور یہ بات بلاتکلف کہی جاسکتی ہے کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندو پاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔
اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں ا سکی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جد وجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول ا کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتاردیں۔
اس مدرسہ دیوبند دارالعلوم کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء کو بے سروسامانی کی حالت میں آغاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سوسال پرانی مسجد ”چھتہ“ کے صحن میں موجود، انار کے ایک درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی (۶) مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دور اندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندو پاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردیئے اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہٴ عمل اور ایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفر کررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی اس قدر پذیرائی، تحسین اور پُر جوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا او ران میں ہرایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہٴ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم وتربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیا کے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی ، ملی خدمات پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔
دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں علمی عملی تحریک بھی تھی
دارالعلوم دیوبند، جس کی ابتداء مسلمانوں کو دین وشریعت سے جوڑنے اور علوم نبوی کے احیاء کے لئے ہوئی تھی، بعد میں ایک بڑی، بہت بافیض، بہت طاقتور اور کثیر الجہت تحریک بن گئی تھی، جس نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی کے ہرشعبہ کو متاثر کیا، دینی فکر ومزاج، اتباع شریعت وسنت، علوم اسلامیہ کی خدمت وآبیاری، وعظ وارشاد، اصلاح وتربیت، تذکیر وتصنیف، حکومت وسیاست، اختلاف نظریات وعقائد، کلام ومعقولات، یعنی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی عمومی زندگی اور شعورکا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متاثر نہ کیا ہو اور آج جب دارالعلوم کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سوسال ہوچکے ہیں، دارالعلوم کی آواز، اس کا پیغام اور اس کے نظریات وتعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں، دنیا کا شاید کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے، وہاں کے فارغ طلباء، علماء اور دارالعلوم سے وابستہ اربابِ فضل وکمال نہ پہنچے ہوں اور اس خطہ کی دینی ، علمی اصلاحی فضاؤں پر اپنے گہرے نقوش نہ ثبت کئے ہوں۔
دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت ہے، ایک تحریک ہے، ایک جد وجہد ہے، ایک نصب العین ہے، جس کے ساتھ مقاصد ومستقبل کی تعمیر کا، ایک بامعنی خوب تجربہ کیا ہوا اور ایسا طریقہٴ ٴ عمل ہے کہ اس کی ایسی جامع، مؤثر، دیرپا ،عالم گیراور اثر انداز مثال تلاش کرلینا آسان نہیں، اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت، ہمہ گیریت، مقاصد کے تنوع اور بلند نگہی اور تاثیر ونفع میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے، اگر مدرسہ دیوبند کو اول دن سے حضرت مولانا کی سرپرستی اور رفاقت حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہرطرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
دیگر دینی خدمات
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دینی ملی معاملات میں اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر، حساس اور دردمند عالم تھے، حضرت مولانا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی اہم دینی ملی معاملہ سامنے آئے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں، درس وتعلیم کی مسند ہو، خانقاہ وارشاد کی تعلیمات ہوں، وعظ واصلاح کا میدان ہو، تصنیف وتالیف کی جلوہ فرمائی ہو، مناظرہ ومباحثہ کی ضرورت ہویا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے اسلام وشریعت پرسوالات واعتراضات کا جواب، حضرت مولانا ہرایک میں نمایاں اور پیش پیش رہتے تھے، جہاں جس طرح کی ضرورت ہو اس کا بروقت احساس اور اس کا ویسا ہی علاج اور دفاع فرماتے تھے، جیسی ضرورت وتقاضہ ہو، مسلمانوں کے وہ طبقات ہوں جو عقائد وکلام کے معاملات میں راہ سے بے راہ ہوگئے تھے یا بدعات ورسوم کے خوگر افراد ہوں، اہل تشیع یا کوئی اور! دینی معاملہ، عقیدہ سلف واہل سنت سے انحراف کی بات ہو یا دین وشریعت کے مسائل ومباحث اور عقائد کے کلام کی گفتگو، ان کو قرآن وسنت سے حل کرنے اور ان کی عقلی توجیہ کی ضرورت، حضرت مولانا کا ہرایک میں سرگرم اور بڑا حصہ رہتا تھا۔
اس دور میں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک نوزائدہ جماعت آریہ سماج نے خصوصاً اسلام کے خلاف ایک پُر زور محاذ کھولا ہوا تھا، ان کے پادری اور پنڈت جگہ جگہ عیسائیت اور ہندو مذہب کی منادی کرتے مسلمان علماء کو مناظرہ کا چیلنج دیتے اور عیسائیت واسلام کے مسائل وموضوعات پر بحث وگفتگو کے لئے چھیڑتے تھے۔ حضرت مولانا ان کا مقابلہ کرنے، جواب دینے اور ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے، ہمیشہ تیار رہتے تھے، جہاں علی الاعلان بحث ومقابلہ کی بات ہوتی وہاں اس کا اہتمام کرتے، جہاں لکھنے اور گلی کوچوں میں اطلاعات کا کام ہوتا، وہاں اس کا انتظام فرماتے تھے۔
حضرت مولانا کے عیسائی پادریوں اور ہندوپنڈتوں سے کئی نہایت کامیاب مناظرے بھی ہوئے، جس میں عیسائیوں سے مباحثہ شاہجہاں پور اور مشہور ہند وسماجی مصلح اور مذہبی پیشوا، سوامی دیانندسر سوتی سے گفتگو اور جوابات کی ملک بھر میں شہرت ہوئی، بعد میں حضرت مولانا نے ان مباحث میں پیش آئے سوالات پر کتابی صورت میں لکھا، ان میں سے ہرایک تصنیف اپنی جگہ جوے رواں اور علم وبصیرت کا شاہکار ہے۔
حضرت مولانا نے اپنی کتابوں میں قرآن مجید، حدیث، سنت وشریعت کی جو گرہ کشائی فرمائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت کا ایک منفرد حصہ ہے، خصوصاً شریعت اور عقائد واعمال کی حکمتوں اور اسرار وحکم پر حضرت مولانا کے افادات وتحریرات، ایک نئے اور مستقل علم کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب کا جامع مطالعہ کرکے، ایک لڑی میں پروکر، امت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے عقلی کلامی ذخیرہ میں ایک وقیع اضافہ ہوگا، بلکہ اس کی اساس پر اور بھی کئی مباحث ومسائل حل کئے جاسکیں گے۔
حواشی:
۱…مفصل حالات کے لئے دیکھئے: استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی: تالیف نور الحسن راشد کاندھلوی ص:۶۵ کاندھلہ انڈیا ۲۰۰۹ء۔
۲…مولانا کے مفصل حالات کے لئے دیکھئے: تذکرہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی۔ تالیف نور الحسن راشد کاندھلوی کاندھلہ انڈیا ۱۴۲۸ھ
۳…حالات طیب حضرت مولانا محمد قاسم: تالیف مولانا محمد یعقوب نانوتوی۔ بحواشی نور الحسن راشد کاندھلوی ص:۱۸۰-۱۷۹ مشمولہ: قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار وباقیات متعلقات کاندھلہ:۲۰۰۰ء
۴…مرقومات امدادیہ، مکتوب اٹھارواں ص:۴۹-۴۸ جامع مکتوبات، مولانا وحید الدین رامپوری۔ترتیب جدید:نثار احمد فاروقی مکتبہ برہان، دہلی ۱۹۷۹ء
۵…ضیاء القلوب، مشمولہ کلیات امدادیہ ص:۶۰ (فخر المطابع لکھنؤ ۱۳۲۴ھ)
۶…دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اردو، عربی اور انگریزی میں بارہ تیرہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ تفصیلا ت ان میں درج ہیں۔
(مأخوذ از ماہنامہ دارالعلوم دیوبند)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: توہینِ رسالت اوررحم کی اپیل !
Flag Counter