Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 10
فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب … لمحہ فکریہ!
فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب … لمحہ فکریہ

نبی اکرم ا نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے، شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے، سود خوری کریں گے اور اس کو نام کچھ اور دے دیں گے۔ غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بدترین صورت ہوتی ہے، کیوں کہ ا سمیں بھلائی کے لبادے میں برائی کی جاتی ہے، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روا رکھا جاتا ہے، آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم وبیش یہی حالت تھی، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے۔
جب کوئی انسانی گروہ گناہ کا عادی ہوجاتا ہے اور جان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا طریقہ ٴ کار یہی ہوتا ہے کہ وہ بدی کو نیکی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کررکھی ہے، آج بہت سی مسلمہ اخلاقی برائیاں، تہذیب وثقافت کے نام سے رائج ہوگئی ہیں، جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں، اسے براجانتے ہوں، ان کو تہذیب جدید سے نا آشنا، بنیاد پرست اور انتہاء پسند جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ پوری قوت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ طوعاً یا کرہاً مغربی ثقافت وتہذیب کو اہل مشرق پر مسلط کر دیاجائے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ”فحاشی اور بے حیائی“ کا فتنہ ہے جو ”روشن خیالی“ کے نام سے پروان چڑھایاجارہا ہے۔قرآن کریم میں جابجا ”فحاشی“ کی مذمت اور اسے شیطان کا عمل قراردیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ان الله یأمرکم بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی…“ (النحل:۹۰)
ترجمہ:”اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کااوربھلائی کرنے کا اورقرابت والوں کے دینے کا اورمنع کرتا ہے بے حیائی سے اورنامعقول کام سے اور سرکشی سے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں: ۱…بے حیائی سے ، ۲…منکر یعنی ناجائز کام سے،۳…سرکشی سے۔فحشاء، ہراس برے اور بے حیائی کے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہائی درجہ کو پہنچی ہوئی ہو اور عقل وفہم اور فطرتِ سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح ہو اور منکر کا اطلاق اس قول وفعل پر ہوتا ہے جس کے حرام اور ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو۔دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
”الشیطٰن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء“ ۔ (البقرہ:۲۶۸)
ترجمہ:…”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے“۔
ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
”ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمر بالفحشاء والمنکر“۔ (النور:۲۱)
ترجمہ:…”جو شخص شیطان کے پیچھے چلے تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کی تلقین کرے گا“۔
غور کیا جائے تو لفظ منکر کے تحت فحشاء بھی داخل ہے،اس کے باوجود قرآن کریم کی مختلف آیات میں فحشاء کو الگ اور مستقل ذکر کیا گیا ہے اور دوسری منہیات سے مقدم فرمایا، اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ فحشاء اور بے حیائی بہت سے منکرات اور معصیتوں کا ذریعہ بنتی ہے، جب کسی معاشرے میں فحشاء کا رواج ہو وہاں بے غیرتی وبے حمیتی عام ہوجاتی ہے، جذبہٴ دینی ماند پڑ جاتا ہے، اسلام وایمان کے لئے زندہ رہنے کی فکر وقوت کمزور ہوجاتی ہے اور کئی گناہوں اور معصتیوں کی شناعت دل سے اٹھ جاتی ہے۔
دوسری طرف اسلام نے فحشاء کے برعکس حیا کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اسے جزء ایمان قرار دیا۔ نبی اکرم ا کا ارشاد ہے:
”الحیاء شعبة من الایمان“ (صحیح مسلم:۷۵) یعنی حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”اذا لم تستحیی فافعل ما شئت“ (ابوداؤد:رقم الحدیث:۴۷۹۷)یعنی اگر آپ میں حیا نہیں تو جو جی میں آئے کریں۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک خداداد پاکستان میں فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب جس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، یہ ایک افسوس ناک اور خطرناک صورت حال ہے، جس کا سد باب ضروری ہے، ورنہ فحاشی اور بے حیائی کا یہ سیلاب پورے ملک کو لے ڈوبے گا۔ کسی غیر اسلامی معاشرہ میں فحاشی اور بے حیائی کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، مگر کسی اسلامی ملک میں خصوصاً وہ ملک جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو فحاشی اور بے حیائی کا ابھرنا ایک لمحہ فکریہ ہے!! جنسی اشتعال انگیزی پر مشتمل حیا باختہ عورتوں کی تصاویر اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ گھریلو استعمال کی عام اشیاء کو بھی ان سے آلودہ کردیا گیا، اخبارات ورسائل کے سر ورق پر فلمی اور ماڈلنگ کی دنیا کی نیم عریاں تصویروں کا چھپنا ایک عام معمول ہے، جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی، وہ ٹی وی چینلوں اور فیشن شوزنے پوری کردی، فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے برقی آلات گھر گھر عام کردیئے گئے ہیں، انٹرنیٹ اور موبائل کمپنیوں کے نت نئے پیکجز اور اسکیمیں اس وبا کو عام کرنے میں مؤثر کردار ادا کررہی ہیں اور یہ برقی آلات جس قدر کم قیمت پر پاکستان میں میسر ہیں، پوری دنیا میں اس کی نظیر نہیں، یہ مغربی قوتوں کا ایک خاص منصوبہ ہے جس کے تحت یہ سب کچھ بڑھایاجارہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ذوالحجہ جیسے حج کے مقدس مہینے کے پہلے ہفتہ کو ”فیشن ویک“ منانے کے لئے منتخب کیا گیا، اس مقدس مہینے کے پہلے دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل ہوتے ہیں، یہ مسلمانوں کے لئے عبادت وطاعت، بندگی وعجز کے اظہار کے خاص دن ہیں، لیکن ظالموں نے ان ہی مقدس دنوں کو ”فیشن ویک“ کی بے حیائی کی نذر کردیا۔مزید افسوس اور حیرت تو اس پر ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کے اس سیل رواں کے آگے بند باندھنے والا اور اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے والوں کو روکنے والا کوئی نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے اکثر باشعور طبقہ پر مجرمانہ بے حسی طاری ہوچکی ہے… لیکن دوسری طرف یہ دیکھ کر ایک ڈھارس بندھتی ہے اور امید کی کرن نظر آتی ہے کہ اب بھی چند درد دل رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو ایسی بے حیائی اور بدتہذیبی کا ادراک کرتے ہیں اور اپنے تئیں اس فحاشی اور بے حیائی کو روکنے کی فکر کرتے ہیں، ایک مشہور صحافی انصار عباسی صاحب اس موضوع پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں درددل کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فیشن شوز اور Catwalk کے نام پر عریانیت اور بے حیائی پھیلانے کا جو دھند ا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”روشن خیالی“ کے نام پر جس انداز میں زور پکڑتا جارہا ہے، اگر اس کا فوری سدباب نہ کیاگیا تو عریانیت کی یہ آگ مہذب گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ بدتہذیبی اور جاہلیت کی ان حدوں کو ہم بھی جلد چھولیں گے جو مغربی معاشرہ کی اخلاقی اقدار کی تباہی کا باعث بن چکی ہیں اور جہاں حیوانیت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اکثر پیدا ہونے والے بچوں کو اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا، مرد اور عورتیں بغیر شادی کئے ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کا رواج زور پکڑتا جارہا ہے۔ فحاشی وعریانیت ان معاشروں میں اب بالکل بے معنی ہوکر ان کے رواج وسماج کا حصہ بن چکی ہیں، جنہیں اب وہاں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ایک غیر اسلامی اور کفر کے معاشرہ میں اس بدتہذیبی اور جاہلیت کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، مگر اس قسم کے رجحانات کا کسی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں پنپنا یقینا لمحہٴ فکریہ ہے۔ حضرت محمد ا کا فرمان ہے کہ ہر دین کا ایک مخصوص شعار ہوتا ہے اور اسلام کا شعار ”حیا“ ہے۔ سورة النور اور سورة الاحزاب میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنی نظروں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے، جب کہ مؤمن عورتوں کو صاف صاف انداز میں بتایاگیا ہے کہ ان کا ڈریس کوڈ (Dress Code) کیا ہے اور کس حلیہ میں ان کو اپنے گھروں سے باہر نکلنا چاہئے۔ سورة الاحزاب میں بے پردگی کو جاہلیت کے اس زمانہ سے جوڑا گیا ہے جب عورتیں بناؤ سنگھار کرکے باہر نکلتی تھیں، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا کے”حیا اور بے پردگی“ کے بارے میں ان واضح احکامات کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ذوالحجہ کے مقدس مہینہ کے پہلے عشرہ کو ”فیشن ویک“ منانے کے لئے چنا گیا۔ جیسے رمضان کے مہینے کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے اسی طرح ذوالحجہ کا پہلا عشرہ بھی عام دنوں کے مقابلے میں نیکیوں کے اجرو ثواب کے لئے نہایت اہم ہے۔ مگر ہم نے ان دنوں کو فیشن کے نام پر بے حیائی اور عریانی پھیلانے کے لئے منتخب کیا۔ اللہ کی عبادت اور نیکی کے لئے خصوصی طور پر مختص ذوالحجہ کے مقدس پہلے عشرہ کو اسلام کی سرزمین پاکستان میں فیشن ویک میں بدلنے پر نہ کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں آیا اور نہ ہی کسی اور ذمہ دار کی طرف سے کارروائی کی گئی۔ فیشن ویک بھی ایسا جیساکہ بے لباسی کا مقابلہ ہو۔ ٹی وی اسکرین پر عریانیت اور بے حیائی کے اس مقابلے کی جھلکیاں دیکھ کر اپنی مسلمانیت پر شبہ ہونے لگا اور پاکستان بننے کا مقصد دھندلاساگیا۔ جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ گھر سے باہر نکلتے وقت باپردہ ہوکر نکلیں، نیم برہنہ ہوکر فیشن شوز میں حصہ لیتی دکھائی دی گئیں جب کہ وہ مومن مرد جن کو اپنی آنکھیں نیچی رکھنے کا حکم دیاگیا، وہ ان بے حیائی کے شوز میں تماش بینوں کا کردار ادا کررہے تھے۔ بے حیائی کے اس شو کو بڑا کامیاب گردانا گیا اور اس میں حصہ لینے والوں نے امید ظاہر کی کہ عریانیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یہ کہ فیشن انڈسٹری کی کامیابی سے پاکستان بہت پیسہ کماسکتا ہے۔ اللہ ایسی ترقی اور دولت سے بچائے، آمین… دکھ اس بات کا نہیں کہ مغرب زدہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہمارے معاشرتی اقدار کو کس انداز میں تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، مگر رنج تو یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ا کے واضح احکامات اور آئین پاکستان کے اس وعدے کے باجود کہ پاکستان میں دینی شعار اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جہاں مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں، اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے والوں کو کوئی روکنے والا نہیں۔ کچھ معلوم نہیں کس نے اس طرز کے فیشن شوز کو منعقد کرنے کی اجازت دی۔ کچھ سالوں سے فیشن شوز اور کیٹ واک کا سلسلہ پاکستان میں چل نکلا ہے اور کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے مغرب اور انڈیا کی طرح عریانیت کی طرف نکل گیا ہے۔ ٹی وی اسکرینزپر اس بے ہودگی کو دیکھنے کے باجود کسی نے ان کی مذمت کی نہ ہی کوئی احتجاج ہوا، نہ تو کوئی حکمران بولا نہ ہی اپوزیشن لیڈر، اسلامی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی خاموش رہے، جب کہ پارلیمنٹ بھی انتظامیہ کی طرح بے حس رہی۔ اعلیٰ عدلیہ اس پر سوموٹو ایکشن لینے سے کیوں قاصر ہے؟ آخر پاکستان کا میڈیا اس برائی کو برائی سمجھنے سے کیوں قاصر ہے؟ ان سوالوں کا کم از کم میرے پاس تو کوئی جواب نہیں! تعجب اس بات پر ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں کی اکثریتی آبادی پڑھی لکھی اور شعور رکھتی ہے، کوئی ایک شخص بھی اس عریانیت پر پُر امن احتجاج کے لئے سڑک پر نہیں نکلا۔ اگر ہمارے سیاست دان، پارلیمنٹ، حکومت ، عدلیہ، میڈیا اور عوام اسی بے حسی کا شکار رہے تو پھر مغرب کی طرح ہم بھی اخلاقی پستی کی حدوں کو چھوکررہیں گے۔ہمارے پاس تو ویسے بھی شرم وحیا اور اخلاقی ومعاشرتی اقدار کے علاوہ اب کچھ بچاہی نہیں! ہمارے یہی اقدار ہمیں مغرب سے نمایاں کرتے ہیں۔ اگر آج ہم نے ان کی حفاظت نہ کی اور اپنے آپ کو ہوا کے سپرد کردیا کہ جہاں چاہے اڑالے جائے تو ہم مکمل تباہ ہوجائیں گے۔ یہ موجودہ خاموشی اور یہ بے حسی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کاش ہمیں احساس ہوجائے کہ اگر اس عریانیت اور فحاشی پر آج ہم اس لئے خاموش رہے کہ فیشن شوز اور واہیات ٹی وی چینلز پر کام کرنے والی لڑکیاں اور عورتیں ہماری اپنی بچیاں نہیں تو یادرہے کہ کل ان لڑکیوں اور عورتوں کی جگہ آج کے تماش بینوں اور بے حس معاشرہ کے دوسرے افراد اور ذمہ داروں میں سے کسی کی بھی بیٹی، بیوی، بہن یا ماں نیم عریاں لباس میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کیٹ واک کررہی ہوگی“! (روز نامہ جنگ ۲۲/ نومبر ۲۰۱۰)
مذکورہ بالا اقتباس میں صاحب تحریر نے فحاشی اور بے حیائی نہ روکنے پر اوراس پر خاموش رہنے کی صورت میں جن خطرات سے آگاہ کیا ہے، ان خطرات کے آنے سے قبل ہی ہمیں اس کا سدباب کرنا ہوگا اور اس کے لئے انفرادی واجتماعی، حکومتی اور عوامی سطح پر کوشش کرنا ہوگی ورنہ یہ سیل رواں بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، اللہ تعالیٰ اس وقت سے ہماری حفاظت فرمائے۔ سردست چند ایسے انقلابی اقدامات کا ذکر کیا جاتاہے جو آنے والے اس سڑے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھ سکیں:
۱:…ہرآدمی اپنے اور اپنے گھر کی حد تک ضرور کچھ نہ کچھ اثر رکھتا ہے اور اپنے زیر اثر حلقے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر شخص مکلف بھی ہے، گھر کی بیٹی، بہن، بیٹے، بھائی اور افرادِ خانہ کو نئی تہذیب کی اس سڑاند سے محفوظ رکھنا، گھر کے ہرباشعور بڑے کی ذمہ داری بنتی ہے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! اپنے اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے“۔ افراد معاشرے سے اور معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور ایک صالح معاشرہ، فرد کی ذمہ داری کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ جب تک فرد میں برائی روکنے کا احساس پیدا نہ ہوگا، جب تک اس کے دل میں معمارانِ ملت کے مستقبل کے لئے اس زہر قاتل تمدن پر کڑھن پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک انسداد فحاشی وبے دینی کا صحیح سدباب نہیں ہوسکتا۔ برائی کے عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرنے کے بجائے، معاشرہ اس کو یکسر رد کردے اور وہ اسے اسی وقت رد کرے گا جب معاشرے کے افراد کو اپنے دین ، اپنی تہذیب اور اپنی روایات اور تعلیمات کی فکر ہوگی۔
۲:…شہروں کے اندر خیر وبھلائی کی قوتیں ہی لوگوں میں یہ فکر واحساس پیدا کرسکتی ہیں، مساجد کے ائمہ، اصلاحی مجالس کے واعظین اور دعوت وتبلیغ کے مبلغین اگر پوری دل سوزی کے ساتھ فواحش ومنکرات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات لوگوں کے سامنے بیان کریں اور صحافی واہل قلم مجلات واخبارات کے صفحات پر ”ہوشیار باش“ کی صداؤں کو عام کرنے لگیں تو اس سے عام لوگوں میں انسداد فواحش کا جذبہ بیدار ہوگا۔
۳:…بے دینی اور فحاشی کی روک تھام کے لئے ان اداروں پر دباؤ ڈالنا بھی بہت ضروری ہے جو اس کے پھیلانے اور عام کرنے میں سرگرم ہیں، قطع نظر اس کے کہ پس منظر میں کون سی قوتیں کار فرما ہیں، جن اداروں سے براہ راست شرپھوٹ رہاہے، ان کی سرکشی کو لگام دیئے بغیر یہ وبا رکے گی نہیں۔ ان اداروں پر دباؤ ڈالنے کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے معززین، ان اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کریں اور ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قانون ہاتھ میں لئے بغیر جمہوری طریقے سے ان اداروں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایاجائے۔ یہ کام وہ اسلامی جماعتیں بہت آسانی کے ساتھ کرسکتی ہیں جن کے پاس کارکنوں کا ایک منظم لشکر موجود رہتا ہے۔
۴:…اسمبلیوں میں دینی ذہن رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، بے حیائی اور بے دینی کی موجودہ لہر کے خلاف اس قومی پلیٹ فارم سے بھی موثر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو پالیسی ساز ذہن وہاں کے صدائے احتجاج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، دوسرے وہاں کی آواز ملک بھر میں سنائی بھی دیتی ہے۔ہمارے نزدیک اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ درددل رکھنے والے اسلامیانِ پاکستان، اس فضائے معاصی کے خلاف سراپاصدائے احتجاج بن جائیں، ہر شخص اپنا ایک حلقہ اثر رکھتا ہے، اپنے گھر، اپنے محلہ، اپنے قبیلہ، اپنی مسجد، اپنی جماعت میں اس آگ کو بجھانے کے لئے آواز بلندکی جائے، خطباء منبر ومحراب، واعظین، مقررین اسٹیج اور اہل علم اپنے قلم سے اس وبا سے بچانے کے لئے صدائیں لگائیں، ان نالوں کا زیادہ نہ سہی، اثر ضرور پڑے گا۔ اس لئے کہ ہم سب کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ جس مسلم معاشرے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے والے نہ رہیں، قدرت کی طرف سے اس کی تباہی میں پھر زیادہ دیر نہیں لگتی۔ وما علینا الا البلاغ
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter