Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 10
دل کے آپریشن میں ”خنزیر“ کے دل کا ”والو“ استعمال کرنا !
دل کے آپریشن میں ”خنزیر“ کے دل کا ”والو“ استعمال کرنا

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں: جناب میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ایک دل کے ہسپتال میں کام کرتا ہوں، وہاں دل کے آپریشن ہوتے ہیں، دل کے آپریشن میں ”والو“ بھی تبدیل ہوتے ہیں۔یہ والو دو قسم کے ہوتے ہیں: ۱․․․دھات اور پلاسٹک کا ، ۲․․․․سوٴر (خنزیر) کے دل کا والو (محفوظ کیا ہوا) ان دونوں کے فائدے اور نقصان علیحدہ علیحدہ ہیں۔
۱․․․پلاسٹک اور دھات کے والوکافائدہ: صرف ایک مرتبہ آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے، پھر ساری زندگی یہ کام کرتا رہتا ہے۔
نقصان: اس والو کے ساتھ ایک دوا بھی ساری زندگی کھانی ہوتی ہے جو خون کو پتلا کرتی ہے، اس وجہ سے مریض کو ہر مہینے ہسپتال میں آنا پڑتا ہے اور خون کا ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے۔ ہمارے اکثر مریض اندرون سندھ اور پورے پاکستان سے آتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ مریض دوا لے رہا ہے یا نہیں؟
اس دوا کے لینے سے اگر خون بہت پتلا ہوجائے تو منہ سے، ناک سے، کان سے، مقعد سے، اور کسی بھی زخم سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے، جسے روکنا بہت مشکل ہوتاہے، اگر خون گاڑھا ہوجائے تو وہ والو پر جم جاتا ہے اور والو کو بند کردیتا ہے، جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
مندرجہ بالا دوا سے اسقاط حمل ہوجاتا ہے اور یہ آپریشن (والو کی تبدیلی) عام طور پر خواتین کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین پریشان ہوتی ہیں۔ یہ دوا بھی آسانی سے نہیں ملتی اور ایک نمبر یا دو نمبر کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
۲:...سوٴر کے والو کافائدہ :اس والو کے لگانے کے بعد مندرجہ بالا دوا نہیں لیتے، اس وجہ سے مندرجہ بالا نقصان سے مریض محفوظ رہتا ہے۔
نقصان: اس والو کی ایک عمر ہے، ۱۰-۱۵ سال جس کے بعد دوبارہ آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم دونوں والو بتاکر انتخاب کا موقع دیں تو کیا سوٴر کا والو لگانا جائز ہے؟
نوٹ: تمام مسلمان ممالک میں اور خاص طور پر سعودی عرب میں سوٴر کا والو استعمال ہورہا ہے۔

والسلام: ڈاکٹر سعد اللہ، کراچی

الجواب ومنہ الصدق والصواب
واضح رہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے آپ پر حرام کرلینے میں نجات کا سبق نہیں دیا ہے، بلکہ خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حدود اللہ پر قائم رہنے کو انسانی اور روحانی کمال بتایا ہے، اس کی نگاہ میں انسان کا وجود اور اس کی حیات خود اس کے لئے ایک امانت خداوندی ہے، اس کی حفاظت صرف اس لئے ضروری نہیں کہ انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے ،بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے اس سے انحراف خدا کی ایک امانت کے ساتھ خیانت اور حق تلفی ہے، اس تصور کے تحت اسلام فن طب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور علاج کو نہ صرف جائز اور درست بلکہ بعض حالات میں واجب اور ضروری قرار دیتا ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
”الا شتغال بالتداوی لابأس بہ اذا اعتقد ان الشافی ہو اللّٰہ تعالی۔“
(ج:۵، ص:۲۵۴، الباب الثامن عشر)
اس لحاظ سے علاج کے لئے جو ادویہ اور اجزأ استعمال ہوتے ہیں، ان میں جمادات، نباتات، حیوانات اور اجزأ انسانی شامل ہیں، ان میں سے اجزأ انسانی کے استعمال کی شریعت نے کسی حال میں اجازت نہیں دی، اس کے علاوہ بعض کا بطور ادویہ یا اس کے اجزأ کا استعمال بعض کا حلال اور بعض کا حرام ہے تو جب تک حلال ادویہ اور اجزأ سے حتی الامکان علاج ممکن ہو تو حرام سے اجتناب بے حد ضروری ہے۔بالخصوص خنزیر جیسے جانوروں کے اجزأ کا استعمال کرنا اس کی تو سخت ترین ممانعت ہے۔
اس لئے ایسی ضرورت شدیدہ میں فقہ اسلامی اور شرعی اصول نے ضرورت انسانی کی رعایت کرتے ہوئے ازراہ علاج حرام و نجس اشیاء کے استعمال مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے:
۱․․․․ یہ کہ حالت اضطرار کی ہو، حرام کے استعمال نہ کرنے میں جان کا خطرہ ہو۔
۲․․․․ یہ خطرہ محض موہوم نہ ہو، بلکہ کسی معتمد حکیم یا ماہر ڈاکٹر کے کہنے کی بنا پر عادتاً یقینی جیسا ہو۔
۳․․․․ یہ کہ اس حرام کے استعمال سے جان بچ جانا بھی کسی معتمد یا ماہر ڈاکٹر کی تجویز سے عادتاً یقینی ہو۔
صورت مسئولہ میں سائل کی دی ہوئی معلومات کی رو سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خنزیر کے ”والو“ کو دل کے آپریشن میں لگانے کی صورت میں اگرچہ متواتر دوا کھانے کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن ۱۰، ۱۵ سال کے بعد دوبارہ آپریشن کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ پلاسٹک اور دھات کا ”والو“ استعمال کرنے کی صورت میں ایک دفعہ آپریشن کرنا کافی ہوتا ہے۔ البتہ خون پتلا رکھنے کے لئے دوا کا متواتر استعمال ضروری ہوتا ہے اور دوا کے استعمال میں بے احتیاطی سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر سے وقفہ وقفہ میں معائنہ کروانا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن مریض اہتمام سے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوا لیتا رہے تو خون کی بے اعتدالی سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور خنزیر جیسے نجس العین جانور کے اجزأ کے استعمال سے بھی بچا جاسکتا ہے، ایسی صورت حال میں خنزیر کے استعمال کو ضرورت شدیدہ یااضطرار کے نام پر جائز نہیں کہاجاسکتا ۔ لہٰذا خنزیر کے ”والو“ کے استعمال سے پرہیز کرنا لازم ہے۔جیساکہ بزازیہ میں ہے :
”یکرہ معالجة الجراحة....بانسان اوخنزیر لانہا محرم الانتفاع۔“(بزازیہ علی ہامش ہندیہ ج:۶، ص:۳۵۶، ، ج:۵، ص:۳۵۴، ط رشیدیہ)۔
فقط واللہ اعلم۔

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبدالمجید دین پوری محمد عبدالقادر

کتبہ

عنایت اللہ

متخصص فی الفقہ الاسلامی

جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: وفاقی شرعی عدالت کا مستحسن اقدام !
Flag Counter