Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 10
تبرکات کی شرعی حیثیت!
تبرکات کی شرعی حیثیت
برکت وتبرک عربی زبان کے الفاظ ہیں، ان کی شرعی حیثیت معلوم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ برکت وتبرک کے لغوی اور شرعی معنیٰ بیان کردئے جائیں۔ چنانچہ برکت کا لغوی معنی: زیادتی اور نیک بختی ہے۔ شرعی اصطلاح میں برکت کہا جاتا ہے، باطنی نفع اور زیادتی کو ،اگرچہ ظاہر میں زیادتی نہ ہو ۔یعنی شرعی اعتبار سے برکت کا مفہوم یہ ہے کہ : ”کوئی چیز اپنی قلت کے باوجود افادیت ونفع بخش ہونے میں زیادہ ثابت ہو“ پھر اسی سے تبرک ہے ،یعنی کسی چیز سے برکت اور باطنی نفع حاصل کرنا۔ تبرک باٰثار الصالحین کے بارہ میں تین فریق اور آراء ہیں:
پہلا فریق
جو غلو کرتے ہوئے بذات خود اس متبرک چیز سے ہی نفع ونقصان کا صادر ہونا سمجھتا ہے، حالانکہ نفع ونقصان کا مالک حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ ہے۔اس طبقے کے بعض جہلاء تو ان بابرکت چیزوں کی عبادت بھی کرنے لگ جاتے ہیں اور اسی طبقے کے بعض جہلاء ان تبرکات کا اپنے پاس ہونا ہی نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں ،حالانکہ یہ بات شریعت کے خلاف ہے۔
دوسرا فریق
جو اس بارہ میں تنگ نظری اور تفریط کا شکار ہے، چنانچہ تبرک بآثار الصالحین کو ناجائز بلکہ شرک تک کہہ دیتا ہے۔ موجودہ دور میں چونکہ بے ادبی کا دور دورہ ہے تو یہ فریق اسی بیماری میں مبتلا ہے،حالانکہ قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے یہ مسئلہ ثابت ہے، دین ادب واحترام ہی کا نام ہے ، بے ادب یہاں ذلیل وخوار ہوتا ہے بلکہ بسااوقات دین سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم گشت از فضل رب
یہ حضرات کہتے ہیں کہ تبرک بآثار الصالحین غیرمعقول بات ہے، لہذا یہ جائز نہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کے لئے دو ہی معیار ہیں: ۱…شریعت اسلامیہ۔ ۲…عقل سلیم۔جو عمل ان دونوں معیاروں کے مطابق اچھا ہو تو وہ اچھا اور قابل عمل ہوگا اور جوعمل ان دو معیاروں کے مطابق برا ہو تو ناقابل عمل ہوگا اور بعض اوقات ان دونوں معیاروں میں ٹکراؤ آجائے تو پھر شریعت اسلامیہ کو تقدم حاصل ہوگا اور شرعی اعتبار سے ہی اچھائی یا برائی کا تعین کیا جائے گا، صرف عقلی تصور اور ذہنی اختراع کو وجہ جواز بناکر حکم شرعی کا انکار جائز نہیں ہے۔ اسی قسم کے مسائل میں سے تبرک بآثار الصالحین بھی ہے، جس کا ثبوت قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ہے، البتہ جس حد تک ثابت ہے، اسی حد تک رکھنا چاہئے، غلو نہ کیا جائے۔
تیسرا فریق
حضور اکرم ا کے دور سے لے کر آج تک تمام اہل حق تبرک بآثار الصالحین کے قائل رہے ہیں، ہمارا دعویٰ یہ نہیں کہ تبرک بآثار الصالحین واجب ہے اورتبرک حاصل نہ کرنے والے کو تارک واجب سمجھیں،بلکہ ہمارا مدعی تو یہ ہے کہ اس کا انکار نہ کیا جائے اور آثار صالحین سے تبرک کے قائلین کو برا نہ کہا جائے بلکہ اس کام کو جائز سمجھتے ہوئے اس کی تصویب کی جائے۔اب ہم کچھ دلائل ذکر کریں گے جس سے ظاہر ہوگا کہ مختلف ذوات واشیاء میں برکت ہوتی ہے اور ان سے تبرک حاصل کرنا بھی جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” فتبٰرک اللہ رب العالمین“ (مؤمن:۶۵) ․․․بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اور جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول آیت مبارکہ میں کہ: ”وجعلنی مبارکاً اینما کنت“ (مریم:۳۱) ․․․ اور اللہ نے مجھے بابرکت بنایا ہے جہاں پر بھی میں ہوں“یہ ذات میں برکت کی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزوں میں برکت کے وجود پر آیات قرآنیہ دلالت کرتی ہیں، ان کو ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں چند اقسام کی طرف منقسم کرتے ہیں:
۱…برکت زمانے میں جیسے ”انا انزلناہ فی لیلة مبارکة“ (دخان:۳)
ترجمہ:…ہم نے اس قرآن مجید کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔
۲…برکت مکان میں جیسے :”الذی بارکنا حولہ“ (بنی اسرائیل:۱)
ترجمہ:…جس کا اردگرد ہم نے بابرکت بنادیا۔
۳…برکت اشیاء میں جیسے :”من شجرة مبارکة زیتونة لاشرقیة ولاغربیة“ (نور:۳۰)
ترجمہ:… مبارک زیتون کے درخت سے نہ سورج نکلنے کی طرف نہ ڈوبنے کی طرف۔
۱:…عن انس بن مالک قال کانت لی ذؤابة فقالت لی امی لا اجزہا کان رسول اللہ ا یمدہا ویاخذبہا “۔ (ابوداؤد،ج:۲،ص:۲۲۱)
ترجمہ:…حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرے سر میں ایک مینڈھی تھی (یعنی ابھرے ہوئے لمبے بال) میری والدہ نے کہا میں اس کو نہیں کاٹوں گی کہ حضور ا اس کو کھینچتے اور پکڑتے تھے۔
اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے اپنی کتاب بذل المجہود میں فرمایا کہ: ”ہذا من تلطفہ بخادمہ وحسن عشرتہ ا وفیہ تبرک بآثار الصالحین“ اس حدیث سے متبرک اشیاء کے محفوظ کرنے کی ترغیب معلوم ہوتی ہے۔ نیز حضرت سہارنپوری  فرماتے ہیں کہ ”وفیہ الاحتراص علی ادخار ما لمسوہ بایدیہم“ کہ جن چیزوں سے اہل اللہ اور صلحائے امت کا ہاتھ یا جسم اطہر مس ہوگیا تو ان چیزوں کو بطور تبرک وذخیرہ اندوزی کے محفوظ رکھنا مقصود ومطلوب ہے۔
۲:…عن انس بن مالک قال کان رسول اللہ ا اذاصلی الغداة جاء خدم المدینة باٰنیتہم فیہا الماء فمایوتی باناء الا غمس یدہ فیہ وربما جاء فی الغداة الباردة فیغمس یدہ فیہا۔“ (مسلم ج:۲،ص:۲۵۶)
ترجمہ:…”حضرت انس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب حضور ا صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مدینہ کے خادم اپنے برتن جن میں پانی ہوتا تھا، آپ کے پاس لاتے، ایسا کوئی برتن نہیں ہوتا جس میں آپ ا ہاتھ مبارک نہ ڈبوتے اور بسااوقات سردیوں کی صبح میں وہ پانی لاتے تو پھر بھی اس میں آپ ا اپنا ہاتھ مبارک ڈبوتے۔“
صحابہ کرام کے دل میں تبرک کی کس قدر اہمیت تھی ؟حضور ا ہاتھ مبارک پانی میں ڈالتے تھے تو یقینا یہ پانی دوسرے پانیوں سے ممتاز ہوجاتا تھا ،تب ہی تو ایسا کرتے تھے۔ ورنہ بے فائدہ کام حضورا اور صحابہ کرام نہ کرتے۔
۳:…صحابہ کرام حضور ا کے وضو کے باقی ماندہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ایسے ٹوٹ پڑتے جیسے جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق پر ٹوٹ پڑتا ہے، چنانچہ فرمایاکہ: ”واذا توضأ النبی ا کادوا یقتتلون علی وضوئہ“ (بخاری ج:۱،ص:۳۱) آپ غور فرمائیں کہ:”ویؤثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصة“ کا مظاہرہ کرنے والے اس موقع پر حضور ا کے تبرک پر کسی کو ترحیج نہ دیتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو ثواب سمجھتے تھے۔ بعض روایات میں تو ناک مبارک کے فضلہ کو جسموں پر ملنے کا بھی ذکر آیا ہے۔
۴:… وعن انس قال لقد رأیت رسول اللہ ا والحلاق یحلقہ واطاف بہ اصحابہ فما یریدون ان تقع شعرة الا فی ید رجل ۔ (مسلم ج:۲،ص:۲۵۶)
ترجمہ:…”حضرت انس  فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حلاق (نائی) آپ ا کا سرمونڈ رہا ہے اور صحابہ کرام آپ کے اردگرد جمع ہیں، سب یہی چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر نہ گرے بلکہ کسی صحابی  کے ہاتھ میں پڑے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ا کے موئے مبارک کو صحابہ کرام بطور تبرک لیا کرتے تھے، بلکہ اس کے لینے میں مسابقہ کی سی صورت بن جاتی تھی۔
۵:… حضرت عتبان  نے حضورا کو اپنے گھر میں ایک جگہ تبرکاً نماز پڑھنے کے لئے بلایا تو آپ ا نے وہاں جاکر دو رکعت نماز پڑھائی ۔ (بخاری ج:۱،ص:۹۲)
علامہ عینی  اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
”وفیہ التبرک لمصلی الصالحین ومساجد الفاضلین وفیہ ان من دعا من الصلحاء الی شئ یتبرک بہ منہ فلہ ان یجیب الیہ اذا امن العجب۔“ (عمدة القاری،ج:۱، ص:۴۲۸)
دیکھئے علامہ عینی جو احناف کے سروں کے تاج ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: نیک صلحائے امت نے جہاں جہاں نماز پڑھی، وہ جگہ بھی باعث خیر وبرکت ہے۔
حضرت عتبان  کی حدیث سے تبرک کا حصول معلوم ہوتا ہے، اگر یہ تبرک کا حصول اور صحابہ کرام کا عمل ناجائز ہوتا تو مجال ہے کہ حضور ا کے سامنے کوئی ناجائز عمل ہورہا ہو اور آپ ا خاموش رہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ عمل اس وقت بھی جائز تھا اور آج بھی جائز ہے اور تبرک کا یہ عمل خود حضور ا اور صحابہ کرام کے ساتھ خاص ہو، اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۶:…حضور ا نے حضرت کعب بن زہیر  کو ایک چادر دی تھی جو حضرت معاویہ  نے بیس ہزار درہم میں ان کے ورثاء سے خرید لی تو ظاہر ہے کہ تبرک حاصل کرنے کے لئے لی تھی۔
۷:… حضرت ام ہانی  نے اپنا روزہ حضور ا کا بچاہوا پانی پینے کے لئے توڑ ڈالا۔ (ترمذی، ج:۱، ص:۹۱)
۸:…حضرت عائشہ  نے حضور ا کا جبہ مبارک سنبھال رکھا تھا۔ (ابوداؤد ج:۲،ص:۲۰۶)
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ
”فیہ ادخار ثیاب الصالحین والتبرک بآثارہم وفضیلة التشبہ بہم فی الملابس والماٰٴکل“ (بذل المجہود ج:۶،ص:۳۸۰)
ترجمہ:…” اس حدیث سے بزرگوں کے کپڑوں کو بطور ذخیرہ اندوزی کے رکھنے اور ان سے تبرک حاصل کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے اور کھانے پینے کی چیزوں میں ان بزرگوں کی مشابہت اختیار کرنے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔“
حضرت نے صالحین کا لفظ استعمال فرمایا نہ کہ انبیاء کا، لہذا تخصیص نہ سمجھی جائے۔ علماء اسلام اور اہل حق ہمیشہ سے تبرک بآثار الصالحین کے قائل رہے ہیں، اب ہم علماء اسلام کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پوری امت کے علماء شروع سے آج تک تبرک بآثار الصالحین کے قائل رہے ہیں۔
علامہ نووی نے تو کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ ”وفیہ التبرک بآثار الصالحین“ لیکن یہاں پر ان کی صرف ایک عبارت نقل کی جاتی ہے۔ ہذا فیہ التبرک بآثار النبی ا اور آگے فرماتے ہیں کہ: ”وہذا نحو ما اجمعوا علیہ واطبق السلف والخلف علیہ“ (مسلم مع شرح ص:۱۷۷ مکتبہ رحمانیہ)اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں تبرک کا جواز معلوم ہوتا ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ اسی پر سلف وخلف کا اجماع ہے ۔ترجمان احناف علامہ آلوسی  تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ وہ تابوت جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے ،اس سے بنی اسرائیل تبرک حاصل کرتے تھے۔
”وکان عند بنی اسرائیل یتبرکون بہ“ (روح المعانی ج:۲،ص:۱۶۸)
حافظ ابن حجر  ایک حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ:
”محصل ذلک ان ابن عمر کان یتبرک بتلک الاماکن فہو حجة فی التبرک بآثار الصالحین“ ( فتح الباری حدیث ابن عمر رقم الحدیث :۴۹۲)
ترجمہ:…”خلاصہ یہ کہ حضرت ابن عمر  ان جگہوں سے تبرک حاصل کرتے تھے ،پس یہ حدیث تبرک بآثار الصالحین میں حجت ہے۔“
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ :
”قلت ولاشک ان بذکر اللہ تعالیٰ ورؤیة آثار الصالحین من الانبیاء واتباعہم تطمئن القلوب وتذہب عنہا وساوس الشیطان“۔ (تفسیر مظہری ج:۱، ص:۳۴۹)
ترجمہ:…”میں کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے ذکر سے اور صالحین کے آثار دیکھنے سے چاہے وہ انبیاء علیہم السلام ہوں یا ان کے متبعین ہوں، دل مطمئن ہوتے ہیں اور شیطان کے وساوس دور ہوتے ہیں۔“
قاضی صاحب نے اپنی عبارت میں صالحین کے لفظ میں عموم پیدا کیا ہے، لہذا یہ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام اور تمام صلحائے امت کے لئے عام ہوگا، کسی کے ساتھ خاص نہ ہوگا۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تبرکات سے شرک وبدعت پھیل سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا یہ خطرات حضور ا ، صحابہ کرام اور صلحائے امت کے دور میں نہیں تھے؟ نصوص صریحہ اور اجماع امت کی موجودگی میں صرف تصور وخیال کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ ا سے تبرک لیا جاسکتا ہے اور باقی حضرات سے تبرک لینا جائز نہیں ہے۔اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس تخصیص پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسراجواب یہ ہے کہ تعامل امت سے بھی تبرک میں عموم معلوم ہوتا ہے، جیساکہ علماء حضرات نے تبرک کی حدیث کے ذیل میں یہ فرمایا : ”فیہ التبرک بآثار الصالحین“ عام فرمایا، انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص نہیں فرمایا۔
باقی جو حضرات تخصیص کے قائل ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ تخصیص پر کوئی دلیل ہوا کرتی ہے جوکہ نہیں ہے، لہذا یہ تمام نصوص عموم پر محمول ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں افراط وتفریط سے بچاتے ہوئے برکات حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں اور اپنی برکات وعنایات سے ہمیں محروم نہ فرمائیں، آمین۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: امام العصر اور مسئلہ ختم نبوت !
Flag Counter