Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

10 - 10
مولانا محمد رفیع الحسینی (حضرو) کی رحلت !
مولانا محمد رفیع الحسینی (حضرو) کی رحلت

۱۷/دسمبر ۲۰۱۰ء مطابق ۱۰/محرم الحرام ۱۴۳۲ھ بروز جمعة المبارک حضرت مولانا احمد علی لاہوری ، اورحضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی کے شاگرد رشید، مہتمم جامعہ قاسمیہ اہل سنت والجماعت حضرو، امیر خدام اہل سنت والجماعت اٹک، سرپرست مدرسہ نصرت العلوم للبنات حضرو، خطیب جامع مدنی مسجد حضرو، خلیفہ ٴ مجاز حضرت مولانا محمد امین شاہ مخدوم پوروالے، حضرت مولانا حافظ محمدرفیع الحسینی بعد طلوع آفتاب صبح آٹھ بجے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس دنیاء فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔ان للّٰہ مااخذ ولہ مااعطی وکل شیٴ عندہ باجل مسمی
حضرت مولانا حافظ محمد رفیع الحسینی نور اللہ مرقدہ عالم دین، زاہد، متقی ، قرآن وحدیث سے زندگی بھر شغف رکھنے والے، ساقیء کوثر، سرور کونین ا سے بے حد عشق ومحبت اور سنت پر ہروقت کاربند رہنے والے ایک ولی اللہ انسان تھے۔آپ نے پوری زندگی دین متین کی لازوال خدمات سرانجام دیں اور آخر دم تک باطل فرقوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
موصوف ۲/ستمبر۱۹۴۰ء کو ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے تلمیذ خاص جامع المعقول والمنقول شیخ الحدیث حضرت مولانا حسین احمد کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی، خاندانی روایات کے مطابق کلام الٰہی کو یاد کرنے کی سعادت صرف ۹/ماہ کی مدت میں حاصل کی، پاکستان ہجرت کرنے کے بعد مزید علوم نبویہ کے لئے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۰ تک حضرت لاہوری کی خدمت میں رہے ۔ اس کے بعد حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی سے تلمذ کا شرف حاصل کیا، جہلم سے واپسی پر اپنے والد ماجد کے قائم کردہ جامعہ قاسمیہ اہل سنت والجماعت میں تدریس کا آغاز کیا، جہاں ان کے والد ماجد شیخ الحدیث تھے، جن کی تدریس کی برکت سے بڑے بڑے جید علماء تیار ہوئے اور ان میں قابل فخر شخصیت استاذ الحدیث حضرت مولانا سیدمصباح اللہ شاہ  بھی شامل ہیں۔
مدرسہ سے متصل حضرو شہر کی جامع مدنی مسجد میں ۵۰/سال تک موصوف نے خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں پر بڑے بڑے اکابرین علماء کرام کی تشریف آوری ہوتی تھی۔جن میں مولانا ہزاروی ، حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ، حضرت مولانا نفیس الحسینی شاہ اور شیخ موصوف کے پیر ومرشد بانی تحریک خدام اہل سنت والجماعت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب قابل ذکر ہیں۔
اکابرین علماء دیوبند سے محبت کا عالم یہ تھا کہ حضرات اکابرین کی زیارت کے لئے ۱۹۸۶ء میں شیخ الہند سیمینار میں تشریف لے گئے اور وہاں بڑے بڑے جبال العلم والعمل علماء وشخصیات کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔
حضرت نے اپنی حیات مبارکہ میں ۳۳/ حج اور متعدد عمرے کئے۔ ۱۹۷۲ء میں محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ساتھ مسجد نبوی میں معتکف رہے،حج پر جانے سے ایک ماہ قبل تمام حجاج کرام کو بعد از نماز جمعہ حج کے مسائل پر درس دیتے تھے،خاندانی اعتبار سے حضرت بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس میں کبار علماء کرام کے علاوہ محدث کبیر حضرت مولانا عبد الحنان اوکاڑہ والے حضرت کے حقیقی ماموں تھے ، فلکیات کے میدان میں آپ بہت زیادہ مہارت رکھتے تھے اور ماہر فلکیات پروفیسرعبد اللطیف صاحب کراچی کے مشورہ سے ہرسال نقشہ اوقات سحر وافطار مرتب کرنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، جو ہر سال تقریباً ۱۵/ سے ۲۰ ہزار کی تعداد میں شائع کرواتے تھے، مزید یہ کہ حضرت کی مرتب شدہ دائمی جنتری برائے اوقات نماز پورے ضلع اٹک میں مشہور ومعروف تھی۔
حضرت نے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ حضرت کی وصیت تھی کہ اگر میں صبح کو فوت ہوجاؤں تو غروب آفتاب سے پہلے مجھے دفن کردیا جائے۔ چنانچہ ان کی نماز جنازہ ۴/ بجے حضرو شہر کی عید گاہ میں ادا کئی گئی، جس میں ہزاروں علماء کرام، طلباء اور عوام الناس نے شرکت کی، اس کے بعد اس پیکر علم وعرفان کو سپرد خاک کردیاگیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو اپنے فضل وکرم سے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔اٰمین۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
شیخ الحدیث مولانا محمد خلیل کی رحلت
مدرسہ عربیہ زکریا مسجد، تبلیغی مرکز راولپنڈی کے شیخ الحدیث مولانا محمد خلیل بن حبیب اللہ ۱۴/ محرم الحرام ۱۴۳۲ھ بمطابق ۲۱/دسمبر۲۰۱۰ء بروز منگل بعد از نماز مغرب الشفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد میں مختصر علالت کے بعد انتقال فرماگئے، انا لله وانا الیہ راجعون
مولانا جموں کشمیر کے ضلع بارہ مولا اور مقام بانڈی پورہ میں رہائش پذیر تھے، آپ نے جماعت ہشتم تک اپنے علاقہ میں تعلیم حاصل کی اور اچھے نمبر حاصل کرکے اس وقت ۲۴/روپے انعام حاصل کیا۔آپ  نے ابتدائی تعلیم مولانا عبد الرحمن صاحب  کے پاس حاصل کی، اس کے بعد کشمیر گئے لیکن وہاں کی حکومت نے مولانا کو پاکستان بھیج دیا، بارڈر سے پاکستانی فوج نے مولانا کو پکڑ لیا اور جاسوس ہونے کے شبہ پر قید کردیا ۔ مولانا نو (۹) ماہ جیل میں رہے، جیل سے رہائی کے بعدان کا تعارف مفتی زین العابدین سے ہوا اور ان کے مشورے سے آپ نے خیر المدارس ملتان میں داخلہ لیا اورتعلیم کے ساتھ ساتھ تبلیغی اعمال میں شریک رہے۔
موصوف ۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۰ء تک خیر المدارس میں رہے۔صحیح بخاری مولانا خیر محمد صاحب سے،اور ترمذی وابوداؤد علامہ کشمیری صاحب سے پڑھی۔۱۹۶۰ء سے تبلیغ میں مستقل طور پر شریک ہوگئے اور ڈیڑھ سال جماعت میں لگایا جو اس وقت علماء کے لئے نصاب کے طور پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد تین سال تک مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں تدریس کی، اس وقت رائے ونڈ میں صرف تین استاد تھے۔۱:… مولانا احسان الحق صاحب، ۲:…مولانا ظاہر شاہ، ۳:…مولانا خلیل صاحب۔ اسی وقت زکریا مسجد کی تعمیر ہوئی اور مولانا کی ۱۹۷۰ء میں رائے ونڈ سے یہاں تشکیل ہوگئی اور آخر دم تک یہیں قیام فرمایا۔مولانا جب زکریا مسجد تشریف لائے تو زکریا مسجد انتہائی چھوٹی سی تھی، لیکن مولانا کی فکر وغم اور خداداد صلاحیتوں، للہیت واخلاص کی برکت سے کچھ ہی عرصہ بعد وہاں مدرسہ بھی قائم ہوگیا، ان مصروفیات کے علاوہ مولانا لوگوں پردین کی محنت کرتے رہے، مولانا کوجب معلوم ہوتا کہ فلاں علاقہ میں کوئی عالم ہے تو فورا ان کی ملاقات کے لئے نکل پڑتے، ایک مرتبہ مولانا نے فرمایا کہ مجھے راولپنڈی کی گلی گلی معلوم ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں، کیونکہ مولانا نے اتنی گشتیں کی تھیں کہ کوئی گلی نہیں چھوڑی۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا جو حصہ عطا فرمایا تھا وہ ان لوگوں پر مخفی نہیں جنہوں نے مولانا کے ساتھ تھوڑا سا وقت گذارا ۔ مولانا کا ہر بول حکمت سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور ان کی صبح وشام سنت رسول اکی پابندی میں گزرتی تھی،آپ طلباء پر نہایت ہی شفیق تھے اور دل وجان سے طلباء کی خدمت فرماتے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کو پُر فرمائے اور ان کے گھر والوں اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter