Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 10
توہینِ رسالت اوررحم کی اپیل !
توہینِ رسالت اوررحم کی اپیل
”قال تعالیٰ: ان الذین یؤذون الله ورسولہ لعنہم الله فی الدنیا والآخرة واعدلہم عذاباً مہیناً“۔ (الاحزاب:۵۷)
ترجمہ:…”بلاشبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی ایذاء رسانی کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے لئے دنیا وآخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا گیا ہے“۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی ایذاء رسانی کے مرتکبین کا حکم بیان کیا گیا ہے،
کہ ایسے مجرمین دنیا وآخرت میں لعنت خداوندی کے مستحق ہیں ۔ لعنت، رحمت کی ضد ہے ”لعنہم الله“ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اور اس کے رسول کی ایذاء رسانی جو توہین وتنقیص کو بھی شامل ہے، اتنا بڑا اور سنگین جرم ہے کہ ان کے لئے رحمت خداوندی میں کچھ جگہ نہیں ہے، حالانکہ رحمت خداوندی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول ا کی ایذاء رسانی یا توہین وتنقیص کرنے والے کے بارے میں رحم وکرم کی اپیل یا فیصلہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسی بنیاد پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ میں لکھا ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا صرف سزائے موت (قتل) ہے۔
آیت بالا میں بیان کردہ حکم کی دوسری شق میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب اور سزا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے مجرمین کے ساتھ عزت وتوقیر یا احترام واحتشام کا برتاؤ نہیں ہوسکتا۔
آج کل بعض خبطی قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ توہین رسالت کی سزا کا قرآن میں کہیں تذکرہ نہیں، ایسے نابلد اور بلید لوگ اگر مسلمان ہیں تو ان کے لئے یہی ایک آیت بھی کافی ہے، اگر وہ بلید ہونے کے باوجود غلط فہمی کا شکار ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم میں جن جن آیات میں رسول خدا اکی تعظیم ، وتکریم اور توقیر کا حکم دیا گیا، ان آیتوں کی رو سے آپ ا کی تعظیم فرض اور آپ ا کی توہین حرام ہے اور حرام بھی ایسا کہ جس کے مرتکبین کی سزا خود رحمة للعٰلمین ا کی حیات طیبہ میں موجود ہے۔
آپ ا نے ابوعفک، کعب بن اشرف، ابی بن خلف، ابورافع ، ابن خطل اور عصماء یہودیہ کے قتل کا حکم فرمایا تھا اس لئے کہ وہ آپ کی ہجو اور توہین کے مرتکب ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کے لئے خدا اور رسول کے دروازے بند ہیں، انہیں وہاں سے ”رحم“ نہیں مل سکتی تو دنیا کے کسی ادنیٰ واعلیٰ فرد کی کیا مجال ہے کہ وہ ایسے مجرمین کی سزا معاف کرے یا رحم کی اپیل کرے یا اس کی سماعت کرے؟ کیونکہ ایسے مجرموں کو قابل معافی سمجھنا، ان کے لئے رحم کی اپیل کرنا یا اس کی سماعت کرنا، یہ سب ناجائز ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ توہین رسالت کے مجرموں کے لئے سزائے موت کا قانون، قرآن وسنت اور ملکی آئین کا حصہ ہے، یہ وہ قانون ہے جسے دونوں ایوانوں (سینیٹ اور قومی اسمبلی) سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے۔ یہ قرار داد ۲/جون ۱۹۹۲ء کو قومی اسمبلی سے پاس ہوئی تھی اور ملکی آئین کا حصہ بنی ہوئی ہے۔
اگر اس قانون میں ترمیم وتنسیخ کی گئی تو اس کا مطلب قرآن وسنت اور نظریہ ٴ پاکستان سے بغاوت ہوگا، کیونکہ ایسی ترمیم قرآن وسنت سے بالاتر ہی ہوگی جوکہ قرار داد ِ مقاصد سے کھلا انحراف ہوگا، ایسے لوگ شرعی وآئینی مجرم شمار ہوں گے اور وہ پاکستان پر حکمرانی کے لئے شرعی وآئینی طور پر نااہل ہوجائیں گے، ان کے کسی قسم کے احکامات ماننا اہلِ پاکستان کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ بالفاظ دیگر سول نافرمانی شرعاً وقانوناً جائز ہوجائے گی۔
ناموس رسالت کا مسئلہ یہ خالص مذہبی معاملہ ہے اور مذہب سے ہر مسلمان کا تعلق اولین درجہ میں ہے اور سیاسی وابستگی ثانوی درجہ میں ہے، اگر خدانخواستہ قانون توہین رسالت میں ترمیم یا تخفیف کی گئی تو پھر فیصلہ مسلمان خود کرنا شروع کردیں گے، اس لئے ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ قانون عوام کے ہاتھ میں نہ دیاجائے ورنہ ایک جرم کے ازالے کے لئے کئی کئی جرائم جنم لینے لگیں گے۔
ارباب اقتدار کو چاہئے کہ وہ اقتدار کے نشے سے نکل کر اپنے پیش روؤں کی تاریخ جاننے اور پاکستان کے مقدر کو بھانپنے کی کوشش کریں۔فاعتبروا یااولی الابصار!
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب … لمحہ فکریہ!
Flag Counter