Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

9 - 12
قانون توہینِ رسالت کیا اور کب سے ہے؟
قانون توہینِ رسالت کیا اور کب سے ہے؟ قرآنِ کریم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
”ان الذین یوٴذون الله ورسولہ لعنھم الله فی الدنیا والاٰخرة وأعدّ لھم عذابًا مھینًا“ (الأحزاب:۵۷)
ترجمہ:․․․ ”جو لوگ ستاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو، ان کو پھٹکارا اللہ نے دُنیا میں اور آخرت میں، اور تیار رکھا ہے ان کے واسطے ذِلت کا عذاب۔“
تفسیر ابن عباس میں ہے: ”عذبھم الله (فی الدنیا) بالقتل ․․․․․․․ (والآخرة) فی النار“ ․․․یعنی گستاخِ رسول کی سزا دُنیا میں قتل اور آخرت میں جہنم ہے․․․ اس آیت کے ذیل میں حضرت علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں مسئلے کا عنوان لگاکر لکھتے ہیں:
”رسول اللہ ا کی شخصیت، دِین، نسب یا حضور کی کسی صفت پر طعن کرنا اور صراحتاً یا کنایتاً یا اِشارتاً یا بطورِ تعریض آپ پر نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا کفر ہے، ایسے شخص پر دونوں جہان میں اللہ کی لعنت، دُنیوی سزا سے اس کو توبہ بھی نہیں بچاسکتی، ابن ہمام نے لکھا ہے: جو شخص رسول اللہ ا سے دِل میں نفرت کرے، وہ مرتد ہوجائے گا۔ بُرا کہنا تو بدرجہٴ اَولیٰ مرتد بنادیتا ہے، اگر اس کے بعد توبہ بھی کرلے تو قتل کی سزا ساقط نہیں ہوسکتی۔ اہل فقہ نے لکھا ہے کہ یہ قول علمائے کوفہ (اِمام ابوحنیفہ، صاحبین وغیرہ) اور اِمام مالک کا ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابوبکر کا بھی یہی فتویٰ منقول ہے۔
یہ سزا بہرحال دی جائے گی، خواہ وہ اپنے قصور کا اِقرار کرلے اور تائب ہوکر آئے یا منکرِ جرم ہو اور شہادت سے ثبوت ہوجائے۔ دُوسرے موجباتِ کفر کا اگر اِنکار کردے خواہ شہادت ثبوت موجود ہو تو اِنکار معتبر ہوگا۔ علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ نشے کی حالت میں بھی اگر رسول اللہ ا کو بُرا کہنے کے جرم کا اِرتکاب کیا ہو تب بھی اس کو معاف نہیں کیا جائے گا، ضرور قتل کیا جائے گا۔ ہاں نشے کی حالت کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ اس نے خود اپنے اِختیار سے بغیر جبر واِکراہ کے ممنوع طریقے سے نشہ آور چیز کھائی، پی ہو۔ اگر اِرتکابِ منشی اپنے اِختیار سے نہ کیا ہو تو ایسا مدہوش آدمی پاگل کے حکم میں ہے (اس کو سزا نہیں دی جائے گی)۔
خطابی نے لکھا ہے، میں نہیں جانتا کہ ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں کسی نے اِختلاف کیا ہو، ہاں اگر اللہ کے معاملے میں کسی کا قتل واجب ہوجائے تو توبہ کرنے سے سزائے قتل ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح کوئی مست نشے میں مدہوش آدمی رسول اللہاکی شان میں گستاخی کرنے کے علاوہ کوئی اور کلمہٴ کفر زبان سے نکال دے تو خواہ اس نے باختیارِ خود بغیر اِکراہ کے ممنوع طریقے سے نشہ کیا ہو، پھر بھی اس کو مرتد نہیں قرار دیا جائے گا۔“ (تفسیر مظہری اُردو، ج:۹، ص:۴۲۹، ۴۳۰) سنن ابی داوٴد میں ہے:
۱:․․․ ”عن علی ان یھودیة کانت تشتم النبی ا وتقع فیہ فخنقھا رجل حتّٰی ماتت وأبطل رسول الله ادمھا۔“ (ابوداوٴد ج:۲، ص:۲۵۱)
ترجمہ:․․․ ”حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت حضور اکو بُرا کہتی تھی، اور آپ ا کی ہجو کیا کرتی تھی، اس بات پر ایک شخص نے اس عورت کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ وہ مرگئی، حضور ا نے اس عورت کا خون رائیگاں قرار دیا۔“
۲:․․․ ”عن أبی برزة قال: کنت عند أبی بکر فتغیظ علٰی رجل فاشتد علیہ، فقلت: أتأذن لی یا خلیفة رسول الله! أضرب عنقہ؟ قال: فأذھبت کلمتی غضبہ، فقال: فدخل فأرسل الیّ، فقال: ما الذی قلت آنفًا؟ قلت: ائذن لی، أضرب عنقہ! قال: کنت فاعلًا لو أمرتک؟ قلت: نعم! قال: لا والله! ما کانت لبشر بعد محمد صلی الله علیہ وسلم۔“ (ابوداوٴد ج:۲، ص:۲۵۱)
ترجمہ:․․․ ”حضرت ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوبکر صدیق کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہ ایک شخص پر غصہ ہوئے اور سخت ترین غصہ ہوئے، میں نے کہا: اے رسول اللہ کے خلیفہ! آپ مجھے اِجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس شخص کی گردن اُڑادوں! یہ بات کہنے سے ان کا غصہ جاتا رہا اور وہ کھڑے ہوکر اندر چلے گئے، پھر انہوں نے مجھے بلوایا اور فرمایا: تم نے ابھی کیا بات کہی تھی؟ میں نے عرض کیا: مجھے آپ اِجازت دیں تو میں اس شخص کی گردن اُڑا دوں۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا: تمہیں اگر میں حکم دیتا تو تم اس شخص کی گردن واقعی اُڑادیتے؟ میں نے عرض کیا: بلاشبہ میں اس کی گردن اُڑادیتا۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا: آنحضرت ا کے بعد یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے۔“
اِمام ابویوسف ”کتاب الخراج“ میں لکھتے ہیں:
”وأیما رجل مسلم سب رسول الله ا أو کذبہ أو عابہ أو تنقصہ فقد کفر بالله وبانت منہ زوجتہ، فان تاب والّا قتل۔“ (کتاب الخراج ص:۱۹۷، ۱۹۸)
ترجمہ:․․․ ”جس مسلمان نے رسول اللہ ا کی توہین کی، یا آپ ا کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ امیں کوئی عیب نکالا یا آپ ا کی تنقیص کی، وہ کافر ومرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ (کرکے اسلام ونکاح کی تجدید) کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“
علامہ شامی نے ”تنبیہ الولاة والحکام“ میں علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علٰی من سبّ الرسول ا سے نقل کرتے ہیں:
”قال الامام خاتمة المجتھدین ابو الحسن علی بن عبدالکافی السبکی رحمہ الله فی کتابہ السیف المسلول علٰی من سب الرسول ا، قال القاضی عیاض: أجمعت الأُمّة علٰی قتل منتقصة من المسلمین وسابہ، قال أبوبکر ابن المنذر: أجمع عوام أھل العلم علٰی أن من سب النبیا القتل وممن قال ذٰلک مالک بن أنس واللیث وأحمد واسحاق وھو مذھب الشافعی، قال عیاض: وبمثلہ قال أبوحنیفة وأصحابہ والثوری وأھل الکوفة والأوزاعی فی المسلم، وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علٰی أن شاتم النبی ا والمنتقص لہ کافر والوعید جار علیہ بعذاب الله تعالٰی ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر، وقال أبو سلیمان الخطابی: لا أعلم أحدًا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما۔“ (رسائل ابن عابدین ج:۱۰ ص:۳۱۶)
ترجمہ:․․․ ”اِمام خاتمة المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکی اپنی کتاب ”السیف المسلول علیٰ من سب الرسول ا“ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اُمت کا اِجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص آنحضرت ا کی شان میں تنقیص کرے اور سب وشتم کرے، وہ واجب القتل ہے۔ ابوبکر ابن المنذر فرماتے ہیں کہ تمام اہلِ علم کا اس پر اِجماع ہے کہ جو شخص حضور ا کو سب وشتم کرے، اس کا قتل واجب ہے۔ اِمام مالک بن انس، اِمام لیث، اِمام احمد اور اِمام اسحاق اسی کے قائل ہیں، اور یہی مذہب ہے اِمام شافعی کا۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس طرح کا قول اِمام ابوحنیفہ اور ان کے اَصحاب سے اور اِمام ثوری سے اور اِمام اوزاعی سے شاتمِ رسول کے بارے میں منقول ہے۔ اِمام محمد بن سحنون فرماتے ہیں کہ علماء نے نبی کریم ا کو سب وشتم کرنے والے او ر آپ ا کی شان میں گستاخی کرنے والے کے کفر پر اِجماع کیا ہے، اور ایسے شخص پر عذابِ اِلٰہی کی وعید ہے، اور جو شخص ایسے موذی کے کفر وعذاب میں شک وشبہ کرے، وہ بھی کافر ہے۔ اِمام ابوسلیمان الخطابی فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا مسلمان معلوم نہیں جس نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں اِختلاف کیا ہو۔“
اور علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
”فنفس الموٴمن لا تشتفی من ھٰذا الساب اللعین، الطاعن فی سیّد الأوّلین والآخرین اِلَّا بقتلہ وصلبہ بعد تعذیبہ وضربہ فان ذٰلک ھو اللائق بحالہ الزاجر لأمثالہ عن سیء أفعالہ۔“ (رسائل ابن عابدین ج:۱ ص:۳۴۷)
ترجمہ:․․․ ”جو ملعون اور موذی آنحضرت اکی شانِ عالی میں گستاخی کرے اور سب وشتم کرے اس کے بارے میں مسلمانوں کے دِل ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک کہ اس خبیث کو سخت سزا کے بعد قتل نہ کیا جائے یا سولی نہ لٹکایا جائے، کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے، اور یہ سزا دُوسروں کے لئے عبرت ہے۔“
خلاصہ یہ کہ قرآن وسنت اور اِجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ حضور ااور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی گستاخی اور توہین وتنقیص اِرادةً ہو، یا بلااِرادہ موجبِ کفر اور موجبِ قتل ہے۔
متحدہ ہندوستان میں مسلمان، ہندو، سکھ، مجوسی اور پارسیوں کے علاوہ بہت سے مذاہب کے پیروکار رہتے تھے، ہر ایک کے اپنے اپنے معتقدات اور اپنے اپنے مقتدا وراہنما تھے، راجپال جیسے ازلی بدبخت مسلم دُشمنی میں پیغمبرِ اِسلام کے بارے میں گستاخی اور آپ کی عزت وحرمت پر ناپاک حملے کرتے تھے، تو رَدِّعمل کے طور پر غازی علم الدین شہید جیسے سچے عاشقِ رسول انہیں کیفرِکردار تک پہنچادیتے تھے، ان حالات کو دیکھتے ہوئے انگریز کو ہر ایک کے مذہبی راہنماوٴں کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے قانون وضع کرنا پڑا، چنانچہ ۱۹۲۷ء میں تعزیراتِ ہند میں دفعہ ۲۹۵-الف ایزاد کی گئی جو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان مطبوعہ یکم جولائی ۱۹۶۲ء میں درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:
”دفعہ ۲۹۵-الف جو کو ئی شخص اِرادةً اور اس عداوتی نیت سے کہ پاکستان کے شہریوں کی کسی جماعت کے مذہبی اِحساسات کو بھڑکائے بذریعہ الفاظ زبانی یا تحریری اَشکال محسوس العین، اس جماعت کے معتقداتِ مذہبی کی توہین کرے یا توہین کرنے کا اِقدام کرے، اس کو دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی میعاد دو برس تک ہوسکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔“
چوہدری محمد شفیع باجوہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
”یہ دفعہ ۱۹۲۷ء میں ایزاد کی گئی تاکہ اگر کسی مذہب کے بانی پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو سزا دی جاسکے۔ اس سے پہلے اس قسم کے اشخاص کے خلاف دفعہ۱۵۳-الف اِستعمال ہوا کرتی تھی مگر ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی رُو سے یہ طریقہ غلط قرار پایا، تقریر کرنے والے یا مضمون لکھنے والے۔“
(شرح مجموعہ تعزیراتِ پاکستان ص:۱۲۱، ۱۲۲)
چونکہ توہینِ رسالت کے جرم کی یہ سزا بالکل ناکافی تھی، اس لئے جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت ۱۹۸۴ء میں تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ۲۹۵-سی کا اِضافہ کیا گیا اور اس کے ذریعے اس جرم کی سزا، سزائے موت یا عمرقید مع جرمانہ تجویز کی گئی، اس دفعہ کا متن حسبِ ذیل ہے:
۲۹۵-سی نبی کریم ا کی شان میں اہانت آمیز کلمات کا اِستعمال
”جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کئے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں، یا دِکھائی دینے والی تمثیل کے ذریعے یا بلاواسطہ یا بالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعے نبی کریم حضرت محمد ا کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے، اس کو موت یا عمرقید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔“
جیسا کہ گزرا ہے کہ توہینِ رسالت کے جرم کی سزا قرآن وسنت اور اِجماعِ اُمت کی روشنی میں سزائے موت ہے، اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ۲۹۵-سی میں سزائے موت یا عمرقید تجویز کی گئی۔ اب بھی یہ دفعہ اسلامی قانون کے ہم آہنگ نہیں تھی، اس لئے وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر ۱۹۹۰ء میں اپنے ایک فیصلے میں صدرِ پاکستان کو ہدایت کی کہ ۳۰/اپریل ۱۹۹۱ء تک اس قانون کی اِصلاح کی جائے اور اس دفعہ میں ”یاعمرقید“ کے الفاظ حذف کرکے توہینِ رسالت کی سزا صرف موت مقرّر کردی جائے۔ اگر اس تاریخ تک اس قانون کی اِصلاح نہ کی تو اس تاریخ کے بعد یہ الفاظ خودبخود کالعدم قرار پائیں گے اور صرف سزائے موت ملک کا قانون قرار پائے گا۔ حکومت نے روایتی سستی کا مظاہرہ کیا، اور وہ تاریخ گزرگئی۔ اس لئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق دفعہ۲۹۵-سی میں ”یاعمرقید“ کے الفاظ کالعدم قرار پائے اور قانون بن گیا کہ توہینِ رسالت کے جرم کی سزا صرف موت ہے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی نے ۲/جون ۱۹۹۲ء کو متفقہ قرارداد منظور کی کہ توہینِ رسالت کے مرتکب کو سزائے موت دی جائے۔ خبر کا متن حسبِ ذیل ہے:
”اسلام آباد (نمائندہ جنگ) قومی اسمبلی نے منگل کے دن متفقہ قرارداد منظور کی کہ توہینِ رسالت کے مرتکب کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس ضمن میں مجریہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ۲۹۵(ج) میں ترمیم کی جائے اور عمرقید کے لفظ حذف کرکے صرف پھانسی کا لفظ رہنے دیا جائے۔ یہ قرارداد آزاد رکن سردار محمد یوسف نے پیش کی اور کہا کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ توہینِ رسالت کے مرتکب شخص کو سزائے موت دی جائے، جبکہ قانون میں عمرقید اور پھانسی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ مذہبی اُمور کے وفاقی وزیر مولانا عبدالستار خان نیازی نے بتایا کہ وزیراعظم کی صدارت میں ایک اِجلاس ہوا تھا، جس میں تمام مکتبہٴ فکر کے علماء نے شرکت کی تھی، اس اِجلاس میں طے پایا تھا کہ توہینِ رسالت کے مرتکب کو کم تر سزا نہیں دینی چاہئے، اس کی سزا موت ہونی چاہئے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی اُمور چوہدری امیر حسین نے کہا کہ حکومت اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتی، حکومت اس ضمن میں پہلے بھی قانون سازی کی تیاری کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں ایک ترمیمی بل سینیٹ میں پیش ہوچکا ہے۔“ (۳/جون ۱۹۹۲ء روزنامہ جنگ کراچی)
۸/جولائی ۱۹۹۲ء کو سینیٹ نے توہینِ رسالت کے مجرم کو سزائے موت کا ترمیمی بل منظور کیا:
”اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سینیٹ نے بدھ کو ایک بل کی منظوری دی جس کے تحت حضور نبی کریم ا کے اسم مبارک کی بے حرمتی کی سزا موت ہوگی، فوجداری قانون میں تیسری ترمیم کا بل وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں منظور کیا گیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۵-سی کے تحت حضور نبی کریم ا کے اسم مبارک کی بے حرمتی پر عمرقید کی سزا اِسلامی اَحکامات کے منافی ہے۔ یہ بل جو قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کرچکی ہے، سینیٹ میں وزیر قانون چوہدری عبدالغفور نے پیش کیا، انہوں نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں شاتمِ رسول اور توہینِ رسالت کی سزا عمرقید یا سزائے موت ہے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں حضورِ اکرم ا کے اسم مبارک کی توہین کی سزا عمرقید کی بجائے سزائے موت تجویز کی گئی ہے، کیونکہ عدالت کے خیال میں ایسے ملزم کو صرف سزائے موت ہی دی جانی چاہئے۔سینیٹر راجہ ظفرالحق نے اس موقع پر کہا کہ قانون کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ۲۹۵ کے تحت آنے والے جرم کی مزید تشریح کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ قائدِ ایوان محمد علی خان نے کہا کہ رسولِ اکرم ا کی حرمت اور شانِ رسالت کے بارے میں دو آراء نہیں، اس لئے اس بل کو موٴخر کرنے کا کوئی جواز نہیں، اور اگر اس کی منظوری جلد نہ کی گئی تو یہ بھی ایک جرم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالت کا ملزم صرف سزائے موت کا ہی حق دار ہے۔ انہوں نے اِمام خمینی کی بھی مثال دی، انہوں نے شاتمِ رسول سلمان رشدی کے بارے میں فیصلہ نہیں بدلا۔ سینیٹر مولانا سمیع الحق، سینیٹر حافظ حسین احمد، میاں عالم علی لالیکا، سیّد اشتیاق اظہر نے بھی بل کی فوری منظوری پر زور دیا۔ سینیٹر راجہ ظفرالحق، عبدالرحیم مندوخیل اور جام کرارالدین نے توہینِ رسالت کی تشریح کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل سے رُجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ وزیر قانون نے یقین دِلایا کہ اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے تشریح طلب کی جائے گی۔ ایوان نے متفقہ طور پر بل کی منظوری دے دی، ایوان نے کاپی رائٹ آرڈی نینس میں مزید ترمیم کے بل پر غور جمعرات تک موٴخر کردیا۔ میاں عالم علی لالیکا، ڈاکٹر بشارت اِلٰہی، سیّد اِقبال حیدر نے کہا کہ قانون سازی ایوان کے ذریعے ہونی چاہئے، اور آرڈی نینس کا اِجرا نہیں ہونا چاہئے، ایوان کا اِجلاس بعد میں جمعرات کی صبح ۱۰بجے تک ملتوی ہوگیا۔“
گویا پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت کی ہدایت، قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد، سینیٹ کا اس قانون کو من عن پاس کرنا اور پھر قومی اسمبلی میں بحث وتمحیص کے بعد توہینِ رسالت کے مجرم کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کرنا، یہ سب وہ مراحل تھے جن سے قانونِ توہینِ رسالت گزرا ہے، اور اَب اس ملک کا یہ قانون بن چکا ہے۔
حیرت ہے کہ جمہوریت کا دعوے دار مغرب، جمہوری طریقے سے بننے والے اس قانون کو آج تک ہضم نہ کرسکا، اور اَوّل روز سے ہی اس قانون کو ختم کرانے اور معطل کرانے کی کوششوں میں ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ دین دُشمنوں اور ملک دُشمنوں سے ہمارے ملک وقوم کی حفاظت فرمائے اور سیاسی راہنماوٴں کو اَغیار کے ہاتھوں کھلونا بننے سے محفوظ فرمائے، آمین!
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: پرویزی دھوکا اور حقیقة الامر !
Flag Counter