Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 12
عیدالاضحی اور غیرذمہ دارانہ باتیں !
عیدالاضحی اور غیرذمہ دارانہ باتیں بدھ ۲۵/ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ بمطابق ۳/نومبر ۲۰۱۰ء کو روزنامہ ”جنگ“ کے اِدارتی صفحے پر محترم محمد احمد سبزواری صاحب کا مضمون ”عیدالاضحی اور ہماری ذمہ داریاں“ نظر سے گزرا۔
موصوف نے بچت اور خرچ کے دو الگ الگ فارمولوں سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”ایک فارمولا یہ ہے کہ بچت کرو، تاکہ آمدنی اور خوش حالی میں اِضافہ ہو۔“ دُوسرا فارمولا یہ کہ: ”زیادہ سے زیادہ خرچ کرو، تاکہ معاشرے میں زَر کی گردش بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے، جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوسکتا ہو، وہ ان کے لئے دُعا کرے۔“
موصوف نے ان فارمولوں کی فہمائش اور وضاحت کے لئے مختلف اعداد وشمار ذِکر فرمائے ہیں، اور گرانی وگراں فروشی کی جانب بھی توجہ دِلائی ہے۔ آخر میں بچت والے فارمولے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اِستفہامی انداز میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ”قربانی کے لئے کٹنے والے جانوروں کی تعداد کیسے گھٹائی جاسکتی ہے؟ تاکہ آئندہ عرصے میں اہلِ وطن گوشت اور دُودھ کی قلّت وکمیابی کے خطرے سے محفوظ رہ سکیں“ اس معاشی تجویز میں چونکہ قربانی جیسے اسلامی شعار اور دِینی حکم حائل ہوتے ہیں، اس کا اِحساس کرتے ہوئے محترم سبزواری صاحب نے خادمِ حرمین شریفین کی طرف سے حاجیوں کو عطا کردہ اُردو ترجمہٴ قرآن کی مدد سے سورہٴ حج کی آیت:۳۷ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ:
”لن ینال الله لحومھا ولا دمائھا ولٰکن ینالہ التقوٰی منکم“ (الحج:۳۷)
ترجمہ:․․․ ”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے، نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دِل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔“
مذکورہ آیتِ مبارکہ کے تفسیری افادات سے گزرتے ہوئے یہ بھی نقل فرمایا ہے کہ تاہم یہ واجب نہیں، سنتِ موٴکدہ ہے۔
آگے چل کر سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے حوالے سے یہ حدیث بھی نقل فرمائی ہے کہ: ”حدیث کے مطابق پورے گھر کے افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔“
قرآن فہمی اور حدیث دانی کے اس پل سے گزرکراپنے بچت والے فارمولے پر عمل پیرا ہونے کا مشورہ یوں دیتے ہیں:
”پاکستان کے مسلمان خصوصی طور پر سیاسی اور دیگر اُمور میں سعودیہ کی جانب دیکھتے ہیں، تو کیا قربانی کے معاملے میں اس کی پیروی کرنے پر تیار نہیں؟ خصوصاً ایسے وقت (میں) جبکہ ملک میں جانوروں کی قلّت ہو اور بے تحاشا قربانیوں سے مزید کمی ہوجائے اور ملک کو غذا کے لئے گوشت اور بچوں کو پروَرِش کے لئے دُودھ نہ مل سکے۔“
محترم سبزواری صاحب کے اِستدلال اور طرزِ اِستدلال پر افسوس سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ طویل عرصے سے لکھنے پڑھنے والا آدمی اتنی کمزور اور بھدی بلکہ بے دینی کی بات کیسے کہہ رہا ہے؟ حالانکہ ان کے مقام اور منصب کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ یہ سوچتے کہ جس ترجمہٴ قرآن مجید کا وہ حوالہ دے رہے ہیں، وہ کس کا ہے؟ خادمِ حرمین شریفین کا اس ترجمے میں کیا حصہ ہے؟ یہ ترجمہ وہاں سے کیوں اور کس طرح تقسیم ہوتا ہے؟ کیا اس ترجمے کے دیگر مندرجات بھی تمام اُردوخواں مسلمانوں کے لئے قابلِ عمل اور لائقِ اِعتبار ہیں یا نہیں؟ اور یہ بھی غور کرنا چاہئے تھا کہ سورہٴ حج کی محولہ بالا آیتوں سے موصوف جو حکم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت بھی ہو تا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی سوچنا یا پوچھنا چاہئے تھا کہ اپنے فہم واِجتہاد کے لئے براہِ راست قرآن وسنت کو مطلوبہ شرائط کے بغیر تختہٴ مشق بنانا جائز بھی ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ جس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سب گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہے، یہ حدیث پوری نقل ہوئی ہے یا ادھوری؟ اور اس کا پس منظر اور شانِ ورود بھی ہے یا نہیں؟ مزید برآں اس حدیث کا جو مطلب ومفہوم سمجھا اور بیان کیا گیا ہے، کیا وہی مطلب اور مفہوم ہے یا کچھ اور؟ کیونکہ یہ حدیث براہ راست ہمارے پاس نہیں آئی ہے، اور جن واسطوں سے یہ حدیث ہمیں پہنچی ہے، انہوں نے اس کا کیا معنی ومفہوم بتایا؟ دیگر جن حدیثوں کے ساتھ اس حدیث کے بعض جملے ٹکراتے ہیں، ان کے درمیان تطبیق یا توجیہ کی کیا صورت ہے؟ محدثین اور شارحین نے اس سلسلے میں کیا اِرشاد فرمایا ہے؟
متعلقہ مسئلے کے ان تمام پہلووٴں سے پہلوتہی کرتے ہوئے خادمِ حرمین شریفین کی اِتباع کا مشورہ دینا، مستقبل میں گوشت اور دُودھ کی قلّت کے خدشے کے پیش نظر صرف ایک قربانی کی رائے قائم کرنا، اور لوگوں کو اس کا مشورہ دینا، یہ سب کچھ بغیر علم کے فتاویٰ صادر کرنے کے مترادف ہے۔ اہلِ علم تو بہرحال جانتے ہیں، ہم اِختصار کے ساتھ سبزواری صاحب کی دلیل کا طالب علمانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں:
پہلی بات
سبزواری صاحب! کچھ سالوں سے سعودی حکومت نے شاہ فہد مرحوم کے نام سے ایک ”چھاپہ خانہ“ بنایا ہے، جس میں دیگر اُمور کے علاوہ قرآنِ کریم کی طباعت واِشاعت بطورِ خاص اس کا مشن ہے، دُنیا کی تمام مشہور زبانوں میں قرآن مجید کے جو تراجم ہوئے ہیں، وہ بھی اس مطبع میں چھاپے جاتے ہیں، اور حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں، جب یہ نیک سلسلہ شروع ہوا تو برصغیر کے اُردوخواں حاجیوں کے لئے انہوں نے جس مختصر اور جامع ترجمہ وتفسیر کا اِنتخاب کیا، وہ تحریکِ پاکستان کے عَلم بردار اور پرچم کشا علامہ شبیر احمد عثمانی کا ترجمہ وتفسیر تھا، کیونکہ برصغیر میں ان کی شخصیت اور اُردو تفاسیر میں ان کی تفسیر کے ہم پلہ آلِ سعود کی نظر میں اور کوئی تفسیر وترجمہ نہیں تھا، اور ان کا اِنتخاب بھی بجا تھا، اور وہ تقسیم بھی ہوتی رہی۔ مگر چند سال قبل پاک وہند سے روزگار اور کمائی کے لئے سعودیہ گئے ہوئے کچھ عناصر پاک وہند میں جن کے ہم نوا اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، انہوں نے نچلی سطح پر تعلق وتملق کے ذریعے تفسیر عثمانی کی جگہ ہندوستان کے کسی غیرمعروف آدمی کا ترجمہ چھپوانے کی تگ ودو کی، وہ بھی ایسا ترجمہ جس کے خریدار پاک وہند میں انہیں میسر نہ تھے، وہاں سے سرکاری خرچ پر چھپواکر اَز راہِ تملق خادمِ حرمین شریفین کا ”ہدیہ“ کہہ کر ہر حاجی کو دے دیا جاتا ہے۔
یہ ترجمہ نہ تو خادمِ حرمین شریفین نے کیا ہے، نہ ہی وہ اُردو نوشت وخواند پر قادر ہیں، اور نہ ہی اس کے مندرجات ان کے مسلک کے موافق ہیں، کیونکہ ان کا فقہی مسلک، فقہِ حنبلی ہے، اور فقہِ حنبلی کی رُو سے مذکورہ حدیث سے جو اِستدلال کیا گیا ہے وہ ناقص اور ادھورا ہے۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ترجمہ سعودی حکومت کی اجازت سے تقسیم ہوا ہے۔ اگر ہم سبزواری صاحب کے مشورے کے مطابق سعودی حکومت کی پیروی کریں تو اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خادمِ حرمین شریفین کی طرح ہم بھی مذکورہ ترجمہ چھپواکر تقسیم کریں، اگر سبزواری صاحب یہی چاہتے ہیں تو ان کا اِستدلال دُرست ہے، لیکن اگر ہندوستان کے لکھے ہوئے اُردو ترجمے کو خادمِ حرمین شریفین کی کاوش اور رائے سمجھ کر اس کی پیروی کا حکم دے رہے ہیں تو انہیں خود سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں․․․؟
دُوسری بات
سبزواری صاحب نے خادمِ حرمین شریفین کے اُردو ترجمہ قرآن کی مدد سے سورہٴ حج کی آیت۳۶،۳۷ کا حوالہ دیا ہے، جس میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں، بلکہ تمہارے دِلوں کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔“ اس آیت سے بظاہر اپنے بچت والے فارمولے پر قرآنی دلیل پیش فرما رہے ہیں، حالانکہ اگر قرآنِ کریم کا مطالعہ کیا جائے تو قربانی کے موضوع اور حکم کو تقریباً ایک درجن آیات میں بیان فرمایا گیا ہے۔ تمام آیات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے حکم میں اللہ تعالیٰ کو دو چیزیں مطلوب ہیں، ایک قربانی کی رُوح اور دُوسری اس کی صورت۔ قربانی کی رُوح اِخلاص وجذبہ اِیثار ہے، اور اس کی صورت اراقة الدم (خون بہانا) ہے۔ سورہٴ حج والی آیات میں قربانی کی صرف رُوح کا بیان ہے، ”صورت“ کا بیان دُوسری آیات میں ہے۔ کسی حکم کے ایک حصے کو لینا اور دُوسرے کو فراموش کردینا، یہ پہلی قوموں کا طریقہ تو ہے، مسلمانوں کا نہیں۔
تیسری بات
سبزواری صاحب نے ترمذی وابن ماجہ کے حوالے سے جو حدیث نقل فرمائی ہے، یہ اور اس مضمون کی دُوسری احادیث کا ایک تو پس منظر ہے، اور ایک اس کا پورا مضمون ومفہوم ہے۔ ان دونوں کے بغیر اس حدیث کا مطلب بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہی ہوگا جو قرآن مجید کے اُردو ترجمہ کرنے والوں سے صادر ہوا، اور سبزواری صاحب نے سمجھا اور آگے پہنچایا۔پوری حدیث یوں ہے:
”عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابواَیوب انصاری سے پوچھا کہ حضورا کے زمانے میں آپ حضرات وصحابہ کرام کے درمیان قربانی کا کیا معمول تھا؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم ا کے زمانے میں آدمی اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے بکری ذبح کیا کرتا تھا، اور سب کھاتے کھلاتے تھے، یہاں تک کہ لوگوں میں تفاخرانہ مقابلہ چل پڑا، جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔“
یہ حدیث ابن ماجہ (ص:۲۲۷) اور ترمذی (ج:۱ ص:۱۸۲) نے نقل کی ہے۔ اس حدیث کا کیا معنی ہے؟ ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ ایک بکری پورے گھر والوں کی قربانی کے لئے کافی ہے، وہ سب اس میں شریک ہیں، جس طرح بڑے جانوروں میں ایک سے سات تک افراد شریک ہوتے ہیں۔ اگر یہی مطلب ہے تو پھر معاملہ بہت آسان ہے، کئی افراد مل کر ایک بکری خرید لیں اور سب اس میں شریک ہوجائیں، سب کی طرف سے قربانی ہوجائے گی۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ متعدد اَفراد مل کر گائے کا ایک حصہ لے لیں اور سب قربانی کی سنت ادا کرلیں، اہلِ علم کے مطابق یہ ایسی توجیہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس کا قائل نہیں ہے۔
اس حدیث کی یہ توجیہ بھی ممکن نہیں کہ تمام گھر والوں کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہوسکتی ہے، کیونکہ دُوسری احادیث میں بڑی تاکید کے ساتھ یہ ارشادِ نبوی ہے کہ:
”جو مسلمان اِستطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ قطعاً ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔“
ظاہر ہے کہ ہر گھر میں صاحبِ اِستطاعت مسلمان صرف سربراہِ خانہ نہیں ہوتا بلکہ دیگر اہلِ خانہ بھی ہوسکتے ہیں، تو اہلِ خانہ میں سے جو بھی صاحبِ اِستطاعت ہوگا، اس پر قربانی واجب ہوگی۔ محدثین نے اس حدیث کو جس باب کے تحت ذکر فرمایا ہے ،اس کا عنوان انہوں نے ”باب وجوب الاضحیة“ یعنی یہ باب قربانی کے واجب ہونے کے بیان میں ہے، رکھا ہے۔
اگر زیرِ بحث حدیث شریف کی ایک اور توجیہ سامنے رکھی جائے تو اس سے مسئلہ بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے، اور ہر ہر حدیث کا موقع ومحل بھی متعین ہوجاتا ہے، وہ توجیہ یہ کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر مستقل طور پر قربانی کرنا واجب ہے، اور جہاں گھر کے صرف ایک فرد یا سربراہ صاحبِ نصاب ہوں وہ اکیلے ہی قربانی کرلیں، اور اس کے ثواب میں اپنے تمام اہلِ خانہ کو شریک کرلیں، اور نیت کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اے اللہ! یہ میری قربانی ہے، اس کے ثواب میں میرے ان اہلِ خانہ کو بھی شریک فرما جو قربانی کی اِستطاعت نہیں رکھتے، یا ان پر قربانی واجب نہیں ہے۔ جیسا کہ حضور انے اپنی طرف سے ایک قربانی فرمائی اور دُوسری قربانی اپنی اُمت کے ایسے افراد کی طرف سے فرمائی جو قربانی کی اِستطاعت نہ رکھتے ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ جس قربانی میں متعدّد لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے، وہ محض نفلی قربانی ہے، یا واجب قربانی کا اجر وثواب ہے، اور ایسے ثواب میں شرکت کے لئے صرف اہلِ خانہ نہیں، بلکہ پوری اُمت کی نیت کی جاسکتی ہے۔ زیرِ بحث حدیث کی یہی صحیح توجیہ ہے جو فقہائے کرام اور محدثین کے پیش نظر بھی رہی ہے، اس لئے اس حدیث کو جس عنوان کے تحت ذِکر کیا جاتا ہے وہ یوں ہے: ”باب التضحیة بالشاة وتشریک الغیر فی الثواب أو ایثارہ لہ بہ“ (یہ باب بکری کی قربانی کرنے اور دُوسروں کو اس کے ثواب میں شریک کرنے یا اس قربانی کے ثواب کو اس (دُوسرے) کے لئے ایثار کرنے کے بیان میں ہے)، دیکھئے اعلاء السنن ،ج:۱۷ ص:۲۰۸ طبع کراچی۔
زیرِ بحث حدیث شریف کے پس منظر کے بارے میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اِبتدائے اسلام میں مسلمانوں کا جذبہ ایثار اِنتہا درجے کا تھا، مگر وسائل کم تھے، شدید حسرت کے باوجود نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی اِستطاعت نہ تھی، ایسے لوگوں کی تسلی کے لئے یہ صورت ممکن تھی کہ سربراہِ اہلِ خانہ قربانی کرلے اور اہلِ خانہ کو بھی اس کے ثواب میں شریک کرلے۔ آخری ادوار میں جب فراوانی آئی تو خوب دِل کھول کر لوگوں نے قربانی کا فریضہ بجالایا۔ ایک ایک آدمی نے کئی کئی قربانیں کیں، خود حضور ا نے ۶۳اُونٹ اپنے دستِ اقدس سے قربان فرمائے، اور سو کی بقیہ تعداد خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوری کروائی۔ اس کے علاوہ حضراتِ صحابہ کرام علیہم الرضوان جن کی تعداد اس وقت تقریباً سوا لاکھ کے قریب تھی، انہوں نے کتنے جانور ذبح فرمائے ہوں گے؟ ان کے صحیح اعداد وشمار جمع کرنے والے معاشی ماہرین اس وقت شاید موجود نہیں تھے، ورنہ عرب جیسے بے آب وگیاہ صحراوٴں میں زندگی گزارنے والوں کے لئے گوشت کی قلّت اور شیرخواروں کے لئے دُودھ کی نایابی کے خدشات پیش کرکے وہ ماہرین نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے․․․!
حدیثِ مذکور سے یہ بات بھی صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ فراوانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان تفاخرانہ انداز میں ایک دُوسرے پر دُنیاوی برتری ظاہر کرنے اور دِکھلاوے کے لئے قربانی میں مقابلے شروع کردیں، یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں، ایسی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کا درجہ نہیں پاتیں، سورہٴ حج کی آیت ۳۶،۳۷ میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ مذکورہ حدیث کا سورہٴ حج والی آیتوں کے ساتھ یہی تعلق ہے۔
چوتھی بات
جناب سبزواری صاحب کا بنیادی اِرشاد کہ جانوروں کی قلّت اور بے تحاشا قربانیوں سے مزید کمی ہوگی اور ملک کو غذا کے لئے گوشت اور بچوں کے لئے دُودھ نہ مل سکے گا، اس بات کی ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اہمیت ہے؟ وہ ہر مسلمان جانتا ہے
معیشت دانوں کے اعداد وشمار، خدشات واندیشے اور فاضل وخاسر بجٹ کے جداول کا نظام اپنی جگہ، آخر اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزّاقیت بھی تو ایک عظیم بندوبست کا نام ہے، اس صفت کے تحت اللہ تعالیٰ کی لاتعداد مخلوقات کیسے رزق یاب ہو رہی ہیں، جبکہ دیگر مخلوقات کے ہاں نہ تو معاشی ماہرین ہیں، نہ وہ گزشتہ یا آئندہ کا کوئی بجٹ بناکے رکھتے ہیں۔ آخر رِزق کے حوالے سے بحیثیت مسلمان ہمارا کم از کم عقیدہ تو صحیح ہونا چاہئے، اور یہ ”انفاسِ قدسی“ تو ہر مسلمان تقریباً ہر جمعہ کے خطبے میں سنتا ہوگا کہ کوئی بھی نفس اس وقت تک ہرگز نہیں مرے گا جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حلال وحرام کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے، وہ ”برکت“ کا فرق ہے۔ برکت کا مفہوم یہ ہے کہ: کوئی چیز اپنی قلّت کے باوجود افادیت ونفع بخشی میں زیادہ ثابت ہو۔ اس کی مثال یہی گائے، بکری، بھینس ہیں، اور دُوسری طرف کتیا، بلی وغیرہ ہیں۔ کتیا چھ چھ بچے، بسااوقات سال میں دو مرتبہ دیتی ہے، مگر ان کا وجود ریوڑ کی صورت میں موجود ہونے کی بجائے کہیں کہیں ایک آدھ نظر آتا ہے، کیونکہ اس کی بہتات برکت سے عاری ہے، جبکہ گائے، بھینس ایک ایک بچہ سال میں ایک مرتبہ دیتی ہیں، اور ہر دِن لاکھوں ہزاروں کی تعداد میں کٹتے ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں، اور کسی کو قلّت کی شکایت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ رزّاقیت اور حلال کی برکت کا مظہر ہے۔ ہاں رزق میں برکت کو ختم کرنے والی چیز ”حرص“ ہے، ہمیں ”حرص“ سے اِجتناب کرنا چاہئے، اور ریاکاری سے اعمال کی رُوح ختم ہوجاتی ہے، اس لئے ریاکاری سے بھی اِحتراز کرنا چاہئے۔
پانچویں بات
آخری گزارش کے طور پر اِنتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے جیسے طالب علم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں سبزواری صاحب جیسے معمر بزرگ صحافی کو صحافت کے بارے میں کوئی مشورہ دُوں کہ وہ کالم کیسے لکھیں؟ اِبتدا واِنتہا میں ربط رکھیں، ہر قاری ان کی عمر اور دِماغ کا نہیں ہے، ان کے کالم میں حشو وزوائد کی بجائے معنویت ومقصدیت اور وہ بھی مرتب انداز میں ہونی چاہئے۔ مجھے یہ حق اس لئے نہیں کہ ان کی سنیارٹی اور شعبے سے وابستگی ان کے ہر ”طریق“ کو ”صحیح“ کہنے کا حق جتلائے گی، اور یہ بات معقول بھی ہے۔ کیونکہ سونے کے بارے میں سونار کی رائے کا اِعتبار ہوگا نہ کہ لوہار کی بات کا۔ میڈیکل کے بارے میں ڈاکٹر سے پوچھا جائے گا نہ کہ کمہار سے۔ انجینئرنگ کے بارے میں انجینئر ہی بتاسکتا ہے نہ کہ کسان وکاشت کار۔ اشیاء کی خاصیات کے بارے میں سائنس دان ہی رائے دے سکتا ہے نہ کہ چمار۔ اسی طرح ہم اپنے قلم کاروں، دانشوروں اور اس سے بڑھ کر میڈیا کے مالکان وذمہ داروں سے یہ گزارش کرنا دِینی فریضہ اور دِینی خیرخواہی سمجھتے ہیں کہ دین، دینی مسائل، شرعی اَحکام اور کتاب وسنت کے بارے میں عامیانہ گفتگو اور صحافیانہ تجزیات سے اِجتناب کیا جائے، اور اس سلسلے میں دین وشریعت کے ماہرین سے رُجوع کیا جائے، اور دین ودینی اَحکام کے بارے میں ماہرین، علمائے دین کی تفہیم، تعبیر اور تشریح کو قبول کیا جائے۔ عقل مندی اور ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے۔
عیدالاضحی کے حوالے سے شعوری یا لاشعوری طور پر جو خلافِ شرع غیرذمہ دارانہ باتیں لکھنے، پڑھنے اور چھپوانے کی صورت میں سرزد ہوئی ہیں، ان پر سب کو توبہ واِستغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نوعیت کے مسائل میں صحافیانہ تجزیوں کی بجائے علماء کی طرف رُجوع کیا جائے، دین کے بارے میں دین کے ماہرین کی رائے ہی کو قبول کیا جائے۔ اس بارے میں بخل اور تنگ دِلی سے کام نہ لیا جائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: پاکستان میں کیا پوپ بینی ڈکٹ کی حکومت ہے؟
Flag Counter