Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

12 - 12
مولانا شمس اللہ العباسیؒ کا سانحہٴ اِرتحال !
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست مولانا شمس اللہ العباسی کا سانحہٴ اِرتحال ۱۰/ذُوالحجہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۷/نومبر ۲۰۱۰ء بروز بدھ وفاق المدارس کے فاضل، مسجد عمر بن خطاب گلشن اقبال وسنہری مسجد برنس روڈ کے سابق اِمام، گارڈن ویسٹ میں مکہ مسجد کے حالیہ اِمام وخطیب، مدرسہ عربیہ روضة القرآن کے مدیر اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے اُستاذ مولانا ارشاداللہ العباسی مدظلہ کے بڑے بھائی مولانا شمس اللہ العباسی دُنیا کی پچاس بہاریں دیکھ کر مختصر علالت کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملے، انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شیء عندہ بأجل مسمّٰی۔
مولانا موصوف نے حفظ کی تکمیل اور درجہ خامسہ تک اِبتدائی تعلیم پاکستان کی عظیم یونیورسٹی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن میں حاصل کی اور دورہٴ حدیث جامعہ دارالخیر گلستان جوہر سے کیا۔
مولانا موصوف کی طبیعت میں اِنتہائی سادگی اور عاجزی تھی، اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں گھل مل کر رہنے کے عادی تھے۔ حضرت مولانا ارشاداللہ صاحب کا بیان ہے کہ ان کے اکثر مقتدی حضرات، تبلیغی سفر اور حج وعمرہ کے ساتھی اس بات کا کثرت سے ذِکر کرتے ہیں کہ وہ ہمارے صرف اِمام وخطیب اور اُستاذ ہی نہیں، بلکہ بڑے ہمدرد اِنسان اور مخلص دوست بھی تھے، اس لئے کہ ہر دُکھ درد اور خوشی غمی میں وہ ہمارے ساتھ برابر کے شریک رہتے تھے۔
آپ رمضان المبارک کا مہینہ زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے، خاص کر آخری عشرے میں معتکفین حضرات پر دین کی محنت اور ان کودین کی طرف راغب کرنے کی کوششیں قابلِ دید ہوتی تھیں۔
آپ غرباء اور مساکین سے بڑی محبت فرماتے تھے اور ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے، سخاوت ان پر غالب تھی، کئی مدارس ومساجد کے سفراء کے ساتھ بھی معاونت فرماتے تھے، اسی طرح موصوف کو اپنے اکابر، اساتذہ اور مشائخ سے ایسی محبت تھی کہ غائبانہ اپنی مجالس میں درسِ قرآن ودرسِ حدیث کے مواقع پر ان کا محبت بھرے انداز میں خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کرتے تھے، اور حاضرینِ مجلس کے علاوہ اپنی دُعاوٴں میں اپنے بزرگوں، اساتذہ خصوصاً حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن اور حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید کا تذکرہ فرماتے تھے۔جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن اور جامعہ کے تمام اساتذہ سے آپ کو بڑی محبت تھی، تمام دینی مراکز، مساجد ومدارس، علمائے کرام وطلباء عظام اور ان اِداروں کی خدمت کرنے والے منتظمین کے لئے خصوصی دُعائیں کیا کرتے تھے۔
عیدالاضحی کے دن عید کی نماز اپنی مسجد میں ادا کی اور پھر ظہر کی نماز گھر پر اَدا کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ موت کے بعد بھی چہرے پر ایسی بشاشت تھی کہ یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا اِنتقال ہوچکا ہے، بقول شاعر:
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ، چار بیٹیاں، تین بیٹے اور سینکڑوں شاگرد چھوڑے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی زندگی بھر کی حسنات ودینی خدمات کو قبول فرماکر انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، اور پسماندگان کو صبرِ جمیل اور اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter