Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 12
پرویزی دھوکا اور حقیقة الامر !
پرویزی دھوکا اور حقیقة الامر کچھ عرصہ پہلے مجھے چوہدری غلام احمد پرویز کی کتاب ختم نبوت اور تحریک احمدیت دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس شخص نے مقدمہ مرزائیت بہاول پور کا تمام کریڈٹ اپنے کھاتے میں جمع کرانے کی کوشش کی ہے، ان کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: ”نبی کی جو تعریف میں نے کی تھی، اس پر مبنی بحث کے بعد جج صاحب نے اپنے فیصلہ میں کہا: قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتدادِ مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے۔“
(کتاب مذکور ص:۶ مطبوعہ ۱۹۹۸ء)
اس کے بعد مقتضائے طبع کے مطابق پرویز صاحب نے انکارِ حدیث کی طرف رُخ کرلیا اور حجیتِ حدیث کے خلاف لکھتے چلے گئے۔
یہ ہے شاطرانہ چال، ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس مضمون میں انہیں اپنا موضوعِ سخن بنائیں، لیکن ایک عزیز کے مشورہ پر ہم پرویز صاحب کی اس بَڑ کی حقیقت واضح کردینا چاہتے ہیں، اس سلسلہ میں درج ذیل حقائق غور طلب ہیں:
مقدمہ مرزائیت بہاول پور میں جج صاحب کوئی عالم دین نہیں تھے، وہ سمجھ دار اور دین کی سمجھ رکھنے والے تو بے شک تھے، مگر اصالتاً وہ ایل․ایل․بی (L.L.B) تھے اور ایک انگریزی خواندہ، خواہ وہ دینیات سے کتنی واقفیت رکھتا ہو، اس کے لئے علما ٴ کی علمی زبان سمجھنا، اس کے لئے کچھ آسان نہیں ہوتا، ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ آج کتنے گریجویٹ ہیں، جو مولانا عبدالماجد دریابادی کی انگریزی تفسیر کو نہیں سمجھتے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسلامیات اور عربی کے پروفیسر تو ایک طرف رہے، کبار علما ٴ کو چھوڑ کر مدارس عربیہ کے اساتذہ کی اکثریت حضرت تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کو سمجھنے سے قاصر ہے، تفسیر کی عبارت تو مشکل ہے، چلئے حضرت تھانوی کے درج ذیل فتویٰ کا مطلب کوئی پروفیسر صاحب یا چھوٹے درجہ کے مدرس مولوی صاحب سمجھادیں۔
”سوال یہ ہے: عالمگیری وغیرہ میں جو زہدِ بارد کی مذمت آئی ہے اور زاہد بارد کو مردود الشہادہ قرار دیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہیں؟
الجواب: جس کی شریعت میں کسی درجہ کی مطلوبیت وارد نہ ہو، جیسے تعریف ایک حبہٴ حنطہ کی۔“ (امداد الفتاویٰ ج:۵ ص:۲۶)
حضرت مولانا محمد انوری لائل پوری (فیصل آبادی) اس مقدمہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: جج صاحب کی آرزو تھی کہ بیان ایسا ہونا چاہئے، جس سے مجھے نتیجہ تک پہنچنا آسان ہوجائے۔ (حیاتِ انور، ص:۳۲۰) تو بات صرف اتنی ہے کہ جج صاحب کو پرویز صاحب کی ایک سلیس عبارت پسند آگئی، جو انہوں نے وضاحتاً نقل فرمادی، ورنہ تو اس اقتباس میں پرویز صاحب نے کوئی ایسی بات نہیں کہی، جو گواہانِ مدعیہ (علما ٴکرام) نے نہ فرمائی ہو۔
۲:…یہ بھی واقعہ ہے کہ فیصلہ میں پرویز صاحب کا نام تو صرف ایک ہی مرتبہ آیا ہے، ورنہ بات بات میں جج صاحب ان گواہانِ مدعیہ کے نام لے آئے ہیں، جو باقاعدہ عدالت میں بیان دے چکے تھے، پڑھے لکھے حضرات ذرا غور تو کریں، اگر کسی مقدمہ میں دعویٰ قانونی گواہوں کے بیانات سے ثابت نہیں ہوتا، تو کیا کسی بیرونی آدمی کی کسی بات کو فیصلہ کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ پرویز صاحب تو اس وقت Civil Service کے مزے لوٹ رہے تھے۔
پھر عدالت کو دربار معلی کا حکم بھی یہی تھا کہ گو شیخ الجامعہ حضرت گھوٹوی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ختم نبوت کا منکر کافر ہے، لیکن ہم اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے شیخ الجامعہ صاحب کی رائے کو کافی نہیں سمجھتے، جب تک کہ ہندوستان کے بڑے بڑے علما ٴاس رائے سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، اس لئے مقدمہ مزید تحقیق کا محتاج ہے۔ (دیکھئے فیصلہ مقدمہ بہاول پور)۔
۳:…یہ بات بھی غور طلب ہے ، جیسا کہ پرویز صاحب نے خود لکھا ہے، ان کے اقتباس میں تو نبی کی تعریف آئی ہے۔ سوال تو یہ تھا کہ نبوت کا دروازہ بند کیوں ہوچکا ہے؟ ختم نبوت کا منکر مرتد کیوں ہوگا؟ اس کا کوئی جواب ان کی تحریر میں نہیں ہے۔
۴:…بالفرض اگر پرویز صاحب کی تحریر میں ختم نبوت کے انکار کو موجب ارتداد بتایا بھی گیا ہوتا، تب بھی یہ کس نے کہا ہے کہ پرویز صاحب روزِ اول سے کفریہ عقائد کے مالک تھے، اس وقت تو وہ ابتدائی مراحل میں تھے، ان کی ضلالت بعد میں برگ و بار لائی، جس پر علما ٴکو ان پر فتویٰ لگانا پڑا۔
۵:…ان سب باتوں کے علاوہ خود فیصلہ کے ان الفاظ پر قارئین غور فرمائیں:
”مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں، اس لئے مدعا علیہ بھی مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو ۴/نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمدپور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں، بحق مدعیہ ثابت قرار دے کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخِ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے۔“
اوپر کی خط کشیدہ عبارت کو دیکھئے، اس میں تین باتوں کا ذکر ہے:
۱:…مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
۲:…وہ اس دعویٰ میں جھوٹا ہے۔
۳:…مدعا علیہ، مرزا کو نبی تسلیم کرچکا ہے، نتیجتاً وہ مرتد ہے۔
اب بتائیے پرویز صاحب کے اقتباس میں ان تین باتوں کا ذکر کہاں آیا ہے؟ مگر پرویز صاحب کے ہاتھ کی صفائی دیکھئے کہ وہ خط کشیدہ عبارت کو نقل نہیں کرتے، صرف اخیر کے دو جملے نقل کردئیے ہیں۔
الغرض مقدمہ بہاول پور میں مدعیہ کی کامیابی کا سہرا پرویز صاحب اپنے گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن یہ تمام تر ان کی عیاری اور فریب کاری ہے، فیصلہ کی اصل بنیاد اوپر دربار معلی کے دئیے گئے اقتباس کے مطابق حضرت بحرالعلوم مولانا غلام محمد گھوٹوی کا بیان ہے اور جج صاحب مرحوم کے مطابق ان کا انشراحِ صدر حضرت امام العصر کے مدلل بیان سے ہوا تھا۔خیال آیا کہ یہاں پر گیدڑ اور شیرنی کا دیہاتی لطیفہ لکھ دیا جائے، لیکن اسے علمی ثقاہت کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ امام العصر اور علما ٴاہل حدیث:
جو فتنہ پرداز اور مفسدین فی الارض یعنی آج کل کے غیرمقلدین جن مسائل کو موضوع بناکر بات بات پر احناف سے لڑتے جھگڑتے ہیں، ان کو چاہئے کہ راقم السطور کے یہ تین مضامین دیکھیں: تدوین فقہ اور سیدنا امام ابوحنیفہ، فقہ کے اختلافی مسائل اور علما ٴکی ذمہ داریاں، تحقیق مسئلہ رفع یدین (نئے انداز سے)۔ بلکہ صحیح معنی میں جو لوگ آج کل اپنے آپ کو اہلِ حدیث کہلواتے ہیں، ان کو تو خاطر میں لانا ہی علم کی توہین ہے، پرانے علما ٴمثلاً غزنوی حضرات، حضرت مولانا سید عبداللہ غزنوی، ان کے فرزند حضرت مولانا سید عبدالجبار غزنوی، پھر ان کے فرزند حضرت مولانا سید محمد داوٴد غزنوی کے بارے میں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ یہ حضرات، عامل بالحدیث تھے، لیکن آج کل کے غیرمقلدین کی طرح نہیں، ایسے ہی گنتی کے چند اور حضرات کے نام لئے جاسکتے ہیں، ان میں سے مولانا ثنا ٴاللہ صاحب امرتسری اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی بھی ہیں۔
مولانا ثنا ٴاللہ صاحب غالباً حدیث میں مولانا عبدالحنان وزیرآبادی اور پھر حضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے، معقولات میں غالباً مولانا احمد حسن کانپوری کے شاگرد تھے، بہت بڑے مناظر تھے، مرزا قادیانی سے ان کا مباہلہ ہوا، مرزا جی کا اثر معکوس ہوا کہ وہ تو ۱۹۰۸ء میں مرگیا، حضرت مولانا ثنا ٴاللہ صاحب چالیس سال بعد میں زندہ رہے۔ ۱۹۴۸ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں آکر وفات پائی، مولانا مرحوم، امام العصر کے استاد بھائی تھے، وہ ایک اخبار اہلحدیث کے نام سے نکالتے تھے، امام العصر کی وفات پر ایک طویل مقالہ لکھ کر انہوں نے اپنے رنج و الم کا اظہار کیا، حضرت کے علمی کمالات کا اعتراف کیا اور یہاں تک لکھا کہ بے نظیر عالمِ دین رخصت ہوگیا۔
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی بھی زبردست مناظر اور انصاف پسند عامل بالحدیث تھے، ۱۹۲۹ء میں ان کا مناظرہ مولوی عبداللہ چکڑالوی سے ہوا تھا، یہ مولوی عبداللہ کبھی اہل حدیث بنا ہوا تھا، چینیاں والی مسجد لاہور کا خطیب رہ چکا تھا، مگر ”یولد موٴمنا ویموت کافرا“ کا مصداق بنا، بعد میں منکر حدیث ہوگیا تھا، اسی موضوع پر حافظ ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے اس کا مناظرہ ہوا تھا، بہت ذلیل ہوا تھا، مولانا ابراہیم صاحب کو فتح مبین حاصل ہوئی۔
مولانا حافظ ابراہیم میر سیالکوٹی نے قادیان کی پہلی کانفرنس کے موقع پر فرمایا تھا: اگر کسی کو مجسم علم دیکھنا ہو تو وہ علامہ انور شاہ کو دیکھ لے۔“ (دیکھئے حیاتِ انور، مضمون حضرت مولانا محمد انوری ص:۳۳۷)۔
یہاں قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ تاریخ اہل حدیث وغیرہ میں انہی مولانا ابراہیم کا ایک عجیب عبرت ناک واقعہ لکھا ہے کہ غالباً حضرت امام ابوحنیفہ پر جو ارجا ٴکا الزام لگایا جاتا ہے، انہوں نے اس سلسلہ میں الماری سے ایک کتاب کو نکالنا چاہا، تو نصف النہار کے وقت ان کے سامنے اندھیرا چھاگیا، انہوں نے فوراً توبہ و استغفار کیا، تو ان کی نگاہ بحال ہوگئی۔(مختصراً)بہرحال ”ظاہریہ“ کے اکابر علما ٴحضرت امام العصر کے بڑے قدردان اور ان کے کمالاتِ علمی کے معترف تھے۔
امام العصر کی عربی دانی
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے، کبھی اللہ نے توفیق دی تو اس سلسلہ میں تفصیل سے لکھوں گا، سردست امام العصر کی عربی دانی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، دیگر علوم نقلیہ عقلیہ میں مہارت تامہ کے علاوہ حضرت عربی ادب میں بھی یکتا تھے، حضرت کے تلمیذِ رشید حضرت مولانا محمد انوری لائل پوری (بعد کے نام کے لحاظ سے فیصل آبادی) اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:
”مصر کے علامہ علی، جو صحیحین (بخاری و مسلم) کے تقریباً حافظ تھے اور مسلکاً حنبلی، ہندوستان میں تشریف لائے، دارالعلوم دیوبند بھی پہنچے، یہاں مہتمم صاحب نے ان سے بڑا اچھا برتاوٴ کیا، علامہ عرب طلبہ سے مل کر خوش ہوئے، علامہ نے ان کی مہمان نوازی کی تعریف کی، ایک یمنی طالب علم نے ان سے کہا: صرف خوش اخلاق اور متبع سنت ہی نہیں، علمی لحاظ سے بھی بڑا اونچا پایہ رکھتے ہیں۔ علامہ نے کہا: نہیں! یہ تو میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں، یہ عجمی بے چارے کیا علم رکھتے ہوں گے؟ بعد نماز عصر علامہ چند عرب طلبہ کے ہمراہ سیر کے لئے نکلے، ایک طالب علم نے علامہ کو القاسم کا وہ پرچہ دکھایا، جس میں امام العصر کا لکھا ہوا چالیس ابیات پر مشتمل حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس سرہ کا مرثیہ درج تھا، علامہ نے دیکھا تو پکار اٹھے: ”انی تبت من اعتقادی!“ اس سے تو ادبِ جاہلیت کی مہک آرہی ہے، اگلے روز علامہ، امام العصر کے درس بخاری میں شامل ہوئے، سوال جواب کا سلسلہ جاری رہا، وہاں سے اٹھے تو فرمانے لگے: میں عرب ممالک میں پھرا ہوں، خود مصر میں برسوں حدیث کا استاد رہا ہوں، میں نے شام سے لے کر ہندوستان تک اس شان کا کوئی محدث اور عالم نہیں دیکھا، ان کے علمی استحضار، حافظہ، ذہانت اور وسعتِ نظر سے میں دنگ رہ گیا ہوں۔ تین ہفتے وہاں قیام کیا اور حضرت سے حدیث کی سند لے کر واپس گئے۔“ (حیات انورص:۳۱۵، ۳۱۶ ملخصاً)
یہ واقعہ آج سے تقریباً اسّی نوّے سال پہلے کا ہے، اس وقت بلادِ اسلامیہ کا حال یہ نہیں تھا، جو آج ہے، علما ٴمحدثین کی یہ شان تھی کہ صحیح بخاری اور ایسی دیگر کتبِ حدیث کے حفظ کا چرچا تھا، آج تو وہاں بھی یہ بات ختم ہوچکی ہے۔ اب سنئے درج ذیل واقعہ:
برصغیر میں انگریزی حکومت کی سازش سے ہندو قوم جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف ادھار کھائے بیٹھی تھی، میدان میں نکل آئی، کبھی کسی رنگ میں، کبھی کسی روپ میں مسلمانوں کو زک دینے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی، بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں شدھی کی تحریک اٹھی، جس کا مقصد مسلمانوں کو مرتد بنانا تھا، اس تحریک نے وبائی صورت اختیار کی، ملتِ اسلامیہ کے زعما ٴکو فکر لاحق ہوئی کہ اس تحریک کا دفاع کیا جائے، حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ اور حضرت کے خلفا ٴ نے مختلف علاقوں کے دورے کئے، علمائے دیوبند اور وہاں کے طلبہ بھی باہر نکلے، علما ٴ نے آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سرگرمیوں سے مقابلہ کیا، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے، مرزائی بھی پانچویں سوار کی حیثیت سے ان میں گھس گئے، جب یہ صورتحال پیش آئی تو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی جو حضرت علامہ شبیر احمد کے بڑے بھائی، نہایت زیرک، دوراندیش اور مدبر تھے، نے سوچا کہ مرزائیوں کی شمولیت تو کل کو پریشانی کا باعث بنے گی، یہ کہیں گے کہ فلاں موقع پر چوٹی کے مسلمان علما ٴنے ہمیں اپنے ساتھ ملایا تھا، اور ہمیں مسلمان قرار دیا تھا، اب حضرت مہتمم صاحب نے اکابر علما ٴکو اس طرف توجہ دلائی تو وہ حضرات بھی فکرمند ہوئے، تھوڑے دنوں میں مشترکہ جماعت کا اجلاس سر مولوی رحیم بخش خان صاحب (راجپوت) جو کبھی ریاست بہاول پور میں ریزیڈنٹ Resident رہ چکے تھے، کی صدارت میں ہوا، سر موصوف نہایت سلجھے ہوئے اور بڑے ذی حیثیت آدمی تھے، غالباً حضرت اقدس مولانا گنگوہی سے بیعت تھے۔
اجلاس میں مرزائیوں کے مسلمان یا کافر ہونے کا سوال اٹھایا گیا، اس پر مرزائی سیخ پا ہوگئے، زین العابدین نامی ایک شخص جو مولوی تھا، بغداد میں رہ چکا تھا، بڑا تیز طرار تھا، اسے اپنی عربی دانی پر بڑا ناز تھا، کروفر دکھانے لگا، اس نے کہا: بس یہی تو بات ہے کہ مولویوں کو کچھ آتا تو ہے نہیں، آپس کے اختلافات میں پڑ کر اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں ․․․․․ ان کا تو یہ حال ہے کہ عربی بولنا نہیں آتا․․․․․ بحث تمحیص کے بعد طے پایا کہ آئیے، پہلے اسی پر بحث مباحثہ ہوجائے (یا مناظرہ کہہ لیں) کہ مرزائی مسلمان ہیں یا نہیں؟ زین العابدین بولا: ٹھیک ہے! مناظرہ ہو اور میں ایک شرط لگاتا ہوں کہ عربی زبان میں ہونا چاہئے، اس پر حضرت امام العصر کھڑے ہونے لگے، مگر مولانا حبیب الرحمن صاحب نے اس کو پکا کرنے کے لئے فرمایا: چونکہ مقصد تمام ممبران کو مطلع کرنا ہے اور ممبران میں بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو عربی نہیں سمجھ سکتے، اس لئے مناظرہ اردو زبان میں ہونا چاہئے۔ اب تو زین العابدین کو اور زیادہ موقع مل گیا، وہ اپنی بات پر اصرار کرنے لگا کہ مناظرہ عربی ہی میں ہونا چاہئے۔ اب حضرت امام العصر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: قادیانی نے یہ شرط لگائی ہے کہ مناظرہ عربی زبان میں ہو، چلئے، ہم اس شرط کو منظور کرتے ہیں، مگر جس طرح ایک شرط انہوں نے لگائی ہے، ہمیں بھی حق پہنچتا ہے کہ ہم بھی ایک شرط لگائیں، میں کہتا ہوں کہ مناظرہ عربی زبان میں ہو اور اشعار میں ہو، نثر میں نہیں، یہ کہہ کر حضرت نے چند اشعار زیر بحث موضوع سے متعلق فی البدیہہ پڑھ دئے، اب تو ”زینن“ بے چارہ بغلیں جھانکتا رہ گیا، اس کی ترکی تمام ہوگئی اور وہ فبھت الذی کفر کا مصداق بن کر رہ گیا۔
باپ کی میراث اولاد میں تقسیم ہوتی ہے، اہل علم کو معلوم ہے کہ امام العصر کے تلامذہ میں بھی عربی دانی کا وہی رنگ نظر آتا ہے، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلوی، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا سید محمد بدر عالم، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت قاری طیب صاحب، حضرت مولانا شمس الحق افغانی وغیرہم عربی زبان کے بہترین ادیب تھے، صرف نثرنگار ہی نہیں، بلند پایہ شعرأ بھی، بولنے اور لکھنے دونوں میں یکساں مہارت کے مالک، رحمہم الله تعالی واعلیٰ درجاتہم!
امام العصر اور شعائر اللہ کا احترام
لفظ شعائر کی تشریح مطلوب ہو تو طالب علم، مفرداتِ راغب اور لغات القرآن حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی کو دیکھیں، حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی نے بھی اپنی تفسیر میں اس پر خوب لکھا ہے، امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجة اللہ البالغہ ص:۶۹، ۷۰ میں تعظیم شعائر اللہ پر بہت کچھ لکھا ہے، ہم اس وقت دو آیتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، پڑھ کر دیکھئے اور سوچئے کہ اللہ کے دین کی نشانیوں اور یادگاروں کے بارے میں کیا حکم دیا گیا ہے؟:
۱:…”وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللهِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہ۔“ (الحج:۳۰)
ترجمہ:…”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی وقعت کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے۔“
۲:…”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔“ (الحج:۳۲)
ترجمہ:…”اور جو شخص دین خداوندی کے ان یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو یہ ان کا پورا لحاظ رکھنا دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے۔“
اب سنئے کہ حضرت امام العصر میں حرمات اللہ اور شعائر اللہ کے ادب و احترام کا جذبہ کس حد تک پایا جاتا تھا۔
۱:…حضرت نے اثباتِ باری تعالیٰ پر ایک کتاب لکھی، مگر انہوں نے اس کا نام تجویز فرمایا: ”ضرب الخاتم علیٰ حدوث العالم“۔ حضرت نے ایک زعیم ملت کے سامنے فرمایا کہ: اصل موضوع تو اثباتِ باری تعالیٰ تھا، لیکن اس عنوان میں ایک قسم کی شناعت (یعنی قلتِ ادب) تھی، اس لئے حدوثِ عالم کا عنوان تجویز کیا، دونوں کا مطلب ایک نکلتا ہے۔ (حیاتِ انور ص:۱۹۲، مضمون حضرت مولانا بنوری) حضرت بنوری یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ”ترکی کے سابق شیخ الاسلام مصطفی صبری جو ترکی میں کمال پاشا کے انقلاب کے بعد، قاہرہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور وہ خود بھی دہریت کے خلاف کئی کتابیں لکھ چکے تھے، جلیل القدر عالم تھے، جب میں نے ۱۹۲۸ء میں امام العصر کا یہ رسالہ انہیں دکھایا تو دیکھ کر حیران رہ گئے، فرمایا کہ: میں نہیں سمجھتا تھا کہ کلامی دقائق کو اس انداز سے سمجھنے والا اب بھی کوئی دنیا میں زندہ ہے، اس عنوان پر جتنا کچھ اب تک لکھا جاچکا ہے میں اس پر ان اوراق کو ترجیح دیتا ہوں، یہ تحسین و ستائش تو اپنی جگہ رہی، غور طلب بات یہ ہے کہ امام العصر نے تأدب کو کس حد تک ملحوظ رکھا۔
آج وطن عزیز میں بے ادبوں کے کئی گروہ کام کر رہے ہیں، بافسوس کہنا پڑتا ہے کہ تعظیم شعائر اللہ سے بالکل کورے اور عاری ہیں، کیا سمجھا جائے کہ واقعی وہ تقوی القلوب کے مالک ہیں یا ان کے دل جذباتِ احترام سے ناآشنا ہیں؟
۲:…حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب تحریر فرماتے ہیں:
”ادبِ علم کا یہ حال تھا کہ خود ہی فرمایا کہ میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہوکر مطالعہ کرتاہوں۔“ (حیاتِ انور ص:۲۳۲)
دیوبند کے علما ٴمیں سے ایک بزرگ سے زبانی میں نے سنا تھا کہ حضرت کتاب لے کر بیٹھتے، تو جیسا کہ ہندوستان میں پہلے رواج تھا کہ کتابوں پر حواشی اوپر نیچے، دائیں بائیں سمتیں بدل بدل کر چھاپے جاتے تھے، تو عبارت کو صحیح طور پر پڑھنے کے لئے حضرت کتاب کو نہیں بدلتے تھے، خود بدل کر بیٹھ جاتے تھے، آج تو مدارس میں قرآن پاک کا بھی ادب پوری طرح نہیں کیا جاتا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
”فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَةٍ۔ مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَھَّرَةٍ۔ بَاَیْدِیْ سَفَرَةٍ۔ کِرامٍ بَرَرَةٍ۔“ (عبس: ۱۳ تا ۱۶)
ترجمہ:…”وہ ایسے صحیفوں میں ہے جو مکرم ہیں، رفیع المکان ہیں، مقدس ہیں، جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں کہ وہ مکرم نیک ہیں۔“
۳:…زندگی میں ہمیں جن علمائے حق سے واسطہ پڑا وہ حضرات ایک دوسرے کا بڑا احترام کرتے تھے، یہی سنت ہے حضرات انبیا ٴعلیہم السلام کی، یہی طریقہ رہا حضرات صحابہ کرام کا اور یہی روش رہی ائمہ دین اور بزرگانِ امت کی، چند نمونے ملاحظہ ہوں:
۴…تعلیقات بخاری میں ہے کہ: سیدنا فاروق اعظم کہا کرتے تھے: ”ابوبکر سیدنا واعتق سیدنا یعنی بلالا“ (صحیح بخاری ص:۵۳۰) (ابوبکر ہمارے سردار ہیں، اور انہوں نے ہمارے سردار حضرت بلال کو آزاد کیا)۔ ایک قریشی سردار جو اسلام سے پہلے بھی بڑی قدر و منزلت کے مالک تھے اور بعد میں بھی بڑی شان کے مالک، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہے تو وہ وزیر باتدبیر رہے، سیدنا صدیق اکبر کے دو سالہ خلافت میں گویا وزیراعظم رہے، اس کے بعد امیرالموٴمنین بنے اور ۲۴ لاکھ مربع میل سرزمین کے فرماں روا رہے، وہ ایک حبشی نژاد غلام کے بارے میں فرمائیں: سیدنا! کچھ آیا سمجھ میں․․․؟
حضرت عبداللہ بن مسعود صحابہ میں ایک بلندپایہ، بارگاہِ نبوت کے نہایت مقرب صحابی ہیں، وہ صحابہ کی جماعت کے بارے میں فرماتے ہیں:
”اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ کَانُوْا اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ اَبَرُّ قُلُوْبًا، وَاَعْمَقُھَا عِلْمًا، وَاَقَلُّھَا تَکَلُّفًا، اِخْتَارَھُمُ اللهُ لِصُحْبَةِ نَبِیِّہ وَلَاِقَامَةِ دِیْنِہ․․․․الخ۔“ (مشکوٰة شریف ص:۳۲)
ترجمہ:…”وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں جو اس امت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہاء درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل، اور بہت کم تکلف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیا تھا۔“
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: موہنِ رسول کی سزائے قتل پر ائمہ اربعہ اور علماء امت کا اجماع !
Flag Counter