Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 12
شہیدِ مسجد النبی !
شہیدِ مسجد النبی (یومِ شہادت یکم محرم) اس وقت میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور موتی فقط ایک ہی درکار ہے، اور وہ موتی مل گیا ہے: سیرتِ عمر فاروق کا کوئی نیا پہلو۔ ”فراستِ عمر“ فرمانِ رسول ا کا مفہوم ہے کہ: ”موٴمن کی فراست سے بچو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ دُوسرا معنی کہ ”موٴمن کی فراست سے تقویٰ حاصل کرو۔“
موٴمن اوّل، افضل البشر بعد الانبیاء تو سیّدنا حضرت صدیق اکبر ہیں، ان کے بعد یعنی ثانیٴ رسول کے ثانی سیّدنا حضرت فاروقِ اعظم ہیں۔
حدیثِ مذکورہ بالا میں ایک عام صاحبِ اِیمان کی فراست کا ذِکر ہے، تو سابقون الاوّلون من المہاجرین والانصار اور خصوصاً اَصحاب عشرہ مبشرہ، پھر علی الاخص سیّدنا حضرت صدیق اکبر اور سیّدنا حضرت فاروقِ اعظم کی فراست کے کیا کہنے! آپ ا نے فرمایا: ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے“ (الحدیث)۔
یہ فراست ہی تو تھی کہ نبی مکرم ا کے ساتھ آٹھویں پشت میں ہم جد سیّدنا عمر فاروقِ اعظم کا خاندان اہلِ مکہ، قریشی خاندانوں کی طرف سے قبل اَزاِسلام بھی دُوسرے قبائل اور ان کے حکمرانوں کے پاس سفارت کا عہدہ سنبھالے ہوئے تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی خاتم المعصومین ا نے پہلے فاروقِ اعظم کو سفیر کے طور پر قریشِ مکہ کے پاس بھیجنے کا اِرادہ فرمایا تھا، مگر آسمان والے کو سیّدالرسل کا ہاتھ ذی النورین کا ہاتھ قرار دِلوانا منظور تھا، لہٰذا اپنے معزز اَصحاب کے ساتھ مشورے کے بعد سیّدنا عثمان کو سفیرِ رسول بناکر سردارانِ قریش کے پاس بھیج دیا گیا۔ سیّدنا ابوسفیان اور ان کے والد حرب بن اُمیہ کی اہلِ مکہ کے لئے علمی خدمات کی غرض سے مکہ مکرمہ میں جو اسکول وجود میں آیا تھا، اسی اسکول سے اکثر اہلِ مکہ مستفید ہوئے تھے، سیّدنا عمر فاروقِ اعظم بھی ان سترہ اٹھارہ اصحابِ علم وفہم میں شامل تھے جنہوں نے اس تعلیمی اِدارے سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ (تاریخ مدینہ اُردو)
مختصر عرض کرنا مقصود ہے، اِیمان سے سرفراز ہونے اور علمی بلندیوں کے بعد وہ اِیمانی رفعتیں بھی حاصل کرچکے تھے۔ دارِاَرقم میں داخلے کے وقت چالیسویں نمبر پر تھے، مگر رحلتِ نبوی کے وقت اکثر اَصحابِ کبار کی زبانوں پر آچکا تھا کہ اُمت میں دُوسرا نمبر عمر ہی کا ہے، یعنی صدیق اکبر کے بعد آپ ہی کا نمبر ہے۔
نبی مکرم ا کی ادنیٰ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف ان کی تلوار نیام سے باہر نظر آتی تھی، تاہم نبوی حکم اسے واپس بھی کردیتا تھا۔ فتح مکہ سے چند روز پہلے حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں یہی صورت پیش آئی، مگر ایک منافق نے اپنے ظاہری اسلام کا سہارا لے کر جب حکمِ نبوی ٹھکرادیا تھا تو فاروقی تلوار نے اس کا فیصلہ کردیا تھا، اور تائید ہفت افلاک اُوپر سے رَبِّ افلاک نے فرمادی تھی۔ نبی کریم ا نے فرمادیا تھا: ”اے عمر! تم جس راستے پر چلو، اس راستے پر شیطان نہیں چل سکتا۔“ (بخاری ومسلم) عجیب بات! آج بھی جن واِنس کے بڑے بڑے شیطانوں کو فاروقی راہ چلنا ناممکن ہے۔ نبی کریم ا کا فرمان کتنا سچ ہے! ”اے عمر! تم سے شیطان ڈرتا ہے“ (ترمذی)۔
ہم آج فراستِ فاروقی کی چند مثالیں لکھنا پسند کرتے ہیں:
۱:- بدر کے قیدیوں کے بارے میں ان کی فہم وفراست میں جو بات آئی کہ ہر قیدی کو اس کا قریب ترین موٴمن رشتہ دار قتل کرے، آسمانوں سے اسی فیصلے کی پسندیدگی اور اس کے خلاف ناراضی کا اِظہار کیا گیا۔
۲:- اُمہات الموٴمنین (بشمول اَزواجِ اہلِ اِیمان) کے پردے کا حکم آنے سے پہلے فراستِ عمر نے تقاضا شروع کردیا تھا ۔ (مسند احمد)
۳:- منافقین خصوصاً ابن اُبیّ کا جنازہ پڑھانے سے ہچکچاہٹ محسوس کی، درخواست گزاری، تھوڑی ہی دیر بعد جبریل امین نے آکر تائید کردی اور حکمِ اِلٰہی پہنچادیا تھا۔
۴:- جس پتھر نے سیّدنا اِبراہیم علیہ السلام کے مبارک قدموں کو بوقتِ تعمیرِ کعبہ چھونے کا شرف حاصل کیا تھا، سیّدنا حضرت عمر فاروق نے آسمانی حکم آنے سے پہلے بخدمتِ رسول عرض کردیا تھا کہ مقامِ اِبراہیم کو جائے نماز کیوں نہ بنایا جائے، بس چند ہی لمحے بعد جبریل امین نے فراستِ فاروقی کی تائید میں وحیٴ ربانی لادی۔
دسیوں مقامات میں وحیٴ ربانی سے فراستِ فاروقی پیشگی اِعلان کرتی نظر آتی ہے، دُنیا کے تعلیمی اِداروں میں پیپرآوٹ ہونا، ناپسندیدہ اور ناکامی شمار ہوتا ہے، مگر آسمانی پیپرآوٴٹ کرنے پر فراستِ فاروقی کامیابی، محبوبیت اور خوشنودیٴ ربانی کا لاجواب ولاثانی سرٹیفکیٹ پاتی ہے۔ منافقین، ابن اُبیّ کے ساتھیوں نے حبیبہٴ حبیبِ ربّ العالمین اُمّ الموٴمنین طاہرہ سیّدہ عائشہ کی آن پر ہاتھ ڈالنے کی ناپاک جسارت کی، تو فاروقی فراست نعرہ لگایا: ”سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم“خالقِ کائنات کو یہ فاروقی نعرہ اتنا پسند آیا کہ براء تِ اُمّ الموٴمنین میں اُتاری جانے والی سورہٴ نور کا حصہ بنادیا۔ یہی وجہ تھی اور فراستِ صدیقی وفاروقی پر خاتم المعصومین ا کو اتنا بھرپور اِعتماد تھا کہ فرمادیا تھا: ”نہیں معلوم میں تم میں کب تک رہوں گا، ”اقتدوا بالّذَیْنِ من بعدی أبی بکر وعمر“میرے بعد ابوبکر وعمر کی پیروی کرنا“ (ترمذی)۔ سیّدنا علی نے بھی اسی لئے فرمادیا تھا، میں نے بارہا نبی پاک ا کو فرماتے سنا: ”میں تھا اور ابوبکر وعمر تھے، میں نے اور ابوبکر وعمر نے یہ کیا۔ میں اور ابوبکر وعمر چلے۔ میں اور ابوبکر وعمر آئے۔ میں اور ابوبکر وعمر گئے“ اے عمر! مجھے اُمید ہے اللہ تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ (بخاری ومسلم)۔ آج تک تو ساتھ ہیں اور ہمیں ان کے جنت میں بھی ساتھ ہونے میں شک نہیں۔
فراستِ اِیمانی فراستِ فاروقی کا دُوسرا جز وہ ہے جو کضوءِ النہار مدینہ اور بیرونِ مدینہ لوگوں کے سامنے پیش آتا رہا۔ ایک ساتھی صحابی کو پہاڑ سے نکلنے والی آگ کو واپس کروانے بھیج رہے ہیں، فرش زمین پر لیٹے ہیں اور سفیرِ رُوم سے کہلوا رہے ہیں: ”عدلت فأمنت فنمت یا عمر“ اے عمر! تو نے عدل قائم کردیا، پھر تو بے خوف جہاں چاہا سوگیا۔
جس اہلِ ایمان کو جہاں بھیجتے ہیں، جس عہدے پر لگاتے ہیں، وہ گویا وہیں کے لئے فٹ تھا۔
فاتحِ مصر عمرو بن عاص نے مصریوں کو نوجوان بے گناہ لڑکی دریابُرد کرنے سے سختی سے منع کیا اور امیرالموٴمنین کو اِطلاع دی، گورنرِ مصر کے فیصلے کی تصویب کے ساتھ دریائے نیل کو روانی کا حکم دیا، اس کے ریت کے ذرّوں کو بھی پسینہ آگیا، وہ آج تک اہلِ مصر کی خدمت میں رواں دواں ہے۔ساریہ اِیرانیوں کے مقابل جنگ لڑ رہا ہے، مدینہ میں دورانِ خطبہ اسے ہدایات دے کر فتح یاب کر رہے ہیں۔
مگر ایک تیسرا پہلو فراستِ فاروقی کا وہ ہے جس کا مختصر ذِکر آج کی نشست میں کرنا خصوصاً ضروری ہے۔ تاریخ وسیرت کی کتابوں میں لکھا ہے جب سیّدنا فاروقِ اعظم کے جرنیلوں نے عراق فتح کرلیا جو پہلے ایرانی سطوت کے زیرِ اثر تھا، یہ بات آگ کے پجاریوں، اس وقت کی دو میں سے ایک سپرطاقت اِیران کو بالکل نہیں بھائی۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم نے اِیرانی جرنیلوں کو سبق سکھانے اور وہاں پرچمِ اسلام لہرانے کی اِجازت دے دی، مگر ساتھ ہی فرمایا: ”کاش! ہمارے اور اِیران کے درمیان آگ کے پہاڑ ہوتے کہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے، نہ ہم ان پر چڑھ کرجاتے۔ بس آج فراستِ فاروقی کی اس بات پر ہم مختصر اِشارہ کرتے ہیں:
جزیرہٴ عرب سے مشرکین یہود ونصاریٰ کو نکالنے کے حکمِ نبوی پر عمل تو فاروقِ اعظم نے کیا، اس کے بعد شام اور عراق کے عرب علاقے عالم اسلام کے زیرِنگیں آئے، مگر عراق کا ہاتھ سے نکلنا آگ کے پجاری شاہ پرستوں کو چین لینے نہیں دے رہا تھا، انہوں نے سمجھا، یہ صرف عمر ہیں جو اِسلام کو پھیلاتے چلے جارہے ہیں، چنانچہ ہرمزان وغیرہ نے مل کر اِیرانی بدبخت فیروز کے ذریعے سازش تیار کی اور سیّدنا فاروقِ اعظم کو نبوی مصلےٰ پر شہید کردیا۔ سیّدنا عثمان نے حضرت عمر کے ۲۲لاکھ مربع میل اسلامی حکمرانی کو دوگنا کردیا۔ ۴۴لاکھ مربع میل اسلام کے قبضے میں آگئے، تو سودا نامی یہودن کے بیٹے ابن سبا کو صنعاء (یمن) سے درآمد کیا گیا، وہ علاقہ بھی عرب ہونے کے باوجود اِیران کے زیرِ اَثر رہا تھا، اب ایرانی سازش میں یہودی عنصر بھی شامل ہوا اور شام میں قیصرِ رُوم کی فوجیں سخت ہزیمت اُٹھاچکی تھیں، لہٰذا نصرانی عناصر بھی سوفیصد شامل ہوچکے تھے، اس طرح ایرانی شاہ پرست مجوسی اور یہودی ونصاریٰ نے ابن سبا کے ذریعے اپنے تھنک ٹینک کے مشوروں پر عمل درآمد شروع کیا، چنانچہ اس نے بصرہ سے آغاز کرکے کوفہ، شام اور مصر میں اپنے حامی پیدا کئے، عثمانی عمال کے خلاف پراپیگنڈا کیا، یہودی نظریے کی طرح جگہ جگہ حضرت علی اور اولادِ فاطمہ کو حق دار اور ابوبکر، عمر، عثمان کو غاصب بتایا، بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو حضرت علی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ فتنہ اس حد تک بڑھا کہ حضرت عثمان ذی النورین شہید ہوئے، حضرت علی نے ابن سبا کو ساتھیوں سمیت آگ میں جلوادیا، مگر وہ اکیلا تو نہیں تھا۔ وہ تو ایک بدرُوح تھی جو ہزاروں اسلام دُشمنوں میں حلول کرچکی تھی، انہی بدرُوحوں نے ماں بیٹوں کو لڑوایا، عشرہ مبشرہ میں سے سیّدنا علی اور سیّدنا زبیر وسیّدنا طلحہ اور پھر سیّدنا علی اور سیّدنا امیرمعاویہ جیسے اسلامی جرنیلوں کو آمادہ بہ جنگ کیا، حتیٰ کہ سیّدنا علی بھی شہید ہوگئے، عام الجماعت میں سیّدنا حسن، سیّدنا حسین اور سیّدنا امیرمعاویہ ایک ہی صف میں نظر آئے، اور ان کی گرفت مضبوط ہوئی، مگر بدنصیب سازشیوں نے خاندانِ علی ونبی کو دشتِ کربلا میں تڑپادیا، خاندانِ عبدمناف میں ہم جد نبی، بنی اُمیہ کی گرفت مضبوط ہوئی اور بقول علامہ اقبال: تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا!
تو یہودی عجمی تھنک ٹینکس ابومسلم خراسانی کو سامنے لائے، وہ پارسی نسل Notorious دماغ ایرانی تھا، اس نے ہاشمی وعباسی نام سے عوام کا اِستحصال کیا، کہیں اس نے یمنی اور مصری نام پر ، کہیں عربی وعجمی نام پر، لڑائیاں کرائیں۔ آج کے پاکستانی حکمرانوں کی طرح امان کا وعدہ دے کر ابن ہبرہ جیسے جرنیل سے ہتھیار رکھوائے، پھر سفاح سے کہہ کر قتل کرادیا۔ بخارا اور خراسان کے علاقوں میں محبانِ اہلِ بیت اور امیر بشام اِبراہیم اور اپنے ساتھی ابوسلمہ اور سلیمان بن کثیر کو بھی جو اُموی اِقتدار کے خاتمے میں حصہ دار تھے، قتل کروادیا، مگر عباسیوں کا (اہلِ بیتِ رسول کے نام پر) کالا جھنڈا بلند کرنے والے کا اپنا حشر کیا ہوا؟ منصور عباسی نے چھ لاکھ انسانوں کے خون بہانے والے اس دشمنِ اسلام کو بھی مروا ڈالا۔
عباسی حکمران، سبائی تھنک ٹینکوں کے سہارے تخت وتاج کے وارث ہوئے تھے، لہٰذا اوّل دن سے انہیں کبھی برامکہ، کبھی آل ابویہہ کا سہارا لینا پڑا۔ ایران کے شمال مغربی پہاڑوں میں حسن بن صباح نے جنت بنائی، ہزاروں نوجوانوں کو ورغلایا اور چوٹی کے مسلم علماء اور مسلم حکمرانوں کو شہید کیا۔ مصر اور تونس (شمالی افریقہ) میں عبداللہ بن میمون نے اپنا نسب بنتِ رسول فاطمہ سے جوڑ کر یہاں علیحدہ حکومت قائم کی، منصور الحاکم بامراللہ نے اعلان کیا کہ اللہ خود میرے اندر حلول کرگیا ہے۔ اس کے ایک داعی محمد اِسماعیل دروز نے ایک نیا فتنہ دروزی نام سے کھڑا کیا، جو سیّدنا علی کو ہی اللہ ماننے کا اِعلان کرتے ہیں۔ ساڑھے سات سو سال پہلے سقوطِ بغداد بھی انہی منافقوں کی غداری اور سازش کی وجہ سے ہوا۔ تاہم فطرت کی تعزیروں سے اس سازش کے مہرے بھی بچ نہ پائے۔ ابن علقمی غالی رافضی تھا، اس نے عام تباہی کے علاوہ خلیفہ معتصم باللہ کو دھوکے سے ہلاکوخان کے دربار میں پہنچایا، پھر اس کے ذریعے اراکین سلطنت، علماء وفقہاء اور اس کے بیٹے کو بلوایا، سب کو خلیفہ کے سامنے قتل کردیا گیا، خلیفہ کے ذریعے تمام فوجی جوانوں کو بے ہتھیار طلب کیا گیا، پھر دیتھ اسکواڈ کے حوالے کردیا گیا، عورتیں اور بچے قرآن سر پر رکھ کر نکلے، مگر انہیں امان نہ ملی، خلیفہ کو بھوکا پیاسا نظربند کردیا گیا، کھانا مانگا تو ہیروں بھرا طشت بھجوادیا کہ لو اسے کھاوٴ، اگر تم لاکھوں مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لئے اسے اِستعمال نہیں کرسکے تو اَب اس سے تمہاری جان بھی بچ نہیں سکتی۔ ابن علقمی اور دُوسرے رافضی وزیر نصیرالدین طوسی نے خلیفہ اسلام کے خلاف اپنا غصہ یوں نکالا کہ ہلاکوکو اس کے تلوار سے قتل کرنے سے روک دیا، اور ٹاٹ میں لپیٹ کر اسے کچلوانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ایسے مہربانوں کو وزیر بنانے والے خلیفہ کو ٹاٹ میں لپیٹ کر شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا، اور لاتوں سے کچلوادیا گیا، مگر تھنک ٹینک والے مہربانوں کا کیا ہوا؟ ہلاکو نے ابن علقمی سے بیک ڈور سفارتکاری میں وعدہ کیا تھا کہ کسی آلِ رسول فرد کو خلیفہ اور ابن علقمی کو اس کا نائب السلطنت بنادیا جائے گا، اسلامی سلطنت کی بربادی کی قیمت مانگنے پر جواب ملا: ”تم نے اپنوں سے وفا نہیں کی، ہمارے ساتھ کیا وفا کروگے؟“ بہت خوشامدیں کیں، گڑگڑاتا رہا، مگر اس کے ساتھ وہ سلوک بھی نہ کیا گیا جو کتے کی وفاداری پر اس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ذلیل ورُسوا ہوکر مرگیا۔
ایرانی سبائی بدرُوح ہمیں ٹیپوسلطان اور نواب سراج الدولہ کے معتمد وزیروں میرصادق اور میرجعفر میں بھی نظر آتی ہے، ان کا انجام بھی وہی نظر آتا ہے، جناح کے پاکستان کے ساتھ ڈھاکہ میں کیا ہوا؟ شمالی اِتحاد نے امارتِ اسلامیہ کے ساتھ کیا کیا؟ اب باقی ماندہ پاکستان کے خلاف یہود ونصاریٰ اور ہنود ومجوس کے تھنک ٹینکس کیا کرنا چاہتے ہیں؟ مجھ سمیت ہر آدمی غور کرے، آیا ہم ان منافقین کا ہتھیار تو نہیں بن گئے یا دُوسری صورت ان منافقین کے تھنک ٹینکس بیک ڈور پالیسیوں سے ہمیں شکار کرنے کے آخری محاذ پر تو نہیں پہنچ چکے؟ خدارا فکر کیجئے! امیرالموٴمنین حضرت عمر کی اِیمانی فراست والے الفاظ پر پھر غور کیجئے، ہاں! پھر غور کیجئے، تاکہ مذکورہ بالا بدرُوح سے بچ سکیں۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اِصلاح کا پہلا قدم !
Flag Counter