Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 12
اِصلاح کا پہلا قدم !
 اِصلاح کا پہلا قدم اِصلاح کا پہلا قدم اپنی اور اپنے متعلقین کی اِصلاح ہے، معاشرے کے بگاڑ کی اصل وجہ اسی پہلے قدم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ زیر نظر اِرشادات حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئی رحمة اللہ علیہ کے اِفادات سے منتخب کردہ ہیں، جن میں اسی پہلو کی اہمیت بیان کی گئی ہے ․․․․․ مرتب۔
۱:․․․ فرمایا: گھریلو ماحول کے بگاڑ اور گھر والوں کی بے دینی کا معاملہ ایک وبائی صورت اِختیار کرتا جارہا ہے، جن کا رُجحان دین کی طرف ہوتا ہے ان کو اِحساس زیادہ ہوتا ہے، اور یہ بات اپنی جگہ دُرست ہے کہ گھر کے ماحول کے بناوٴ اور بگاڑ کے نتائج بڑے دُوررَس اور گہرے ہوتے ہیں۔ بڑی حد تک بچوں کے اخلاق واعمال اور ان کی سیرت وعادات میں بھی موٴثر ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک اِنسان پر اپنی اولاد اور متعلقین کی جسمانی ضروریات اور ان کی بیماری کے علاج کا اِنتظام کرنا ضروری ہے۔ “ (اِصلاحِ باطن ص:۲۸)
۲:․․․ فرمایا کہ: انسان اپنا اور اپنے متعلقین کا خیال رکھتا ہے، جسمانی اِعتبار سے خود بیمار ہوجائے تو اپنا علاج کراتا ہے، یا بیوی بچے اور متعلقین میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو ان کا بھی علاج کراتا ہے۔ اسی طرح دینی لحاظ سے بھی فکر کرنا چاہیے کہ جو کمیاں اور کوتاہیاں ہیں، ان کی اِصلاح کی فکر کرے، یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے خود بھی علم دین کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا، اولاد کو دِین سکھانا اور ان کی تربیت کرنا ضروری ہے، اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہئے۔ عام طور پر اس سلسلے میں کوتاہی وغفلت ہو رہی ہے۔ (مجالس محی السنة ص:۱۰۹)
۳:․․․ فرمایا: اپنے متعلقین اور ماتحتوں کی اِصلاح وتربیت کرنا فرض ہے، چنانچہ بعض لوگوں کو اس کی فکر ہے اور اسی جذبے کے تحت بعض اپنے بچوں کو دِینی اِدارے میں تعلیم دِلاتے ہیں، مگر خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی اِصلاح سے غافل ہیں۔ ایسے حضرات کے بچوں کی اِصلاح بہت دُشوار ہوتی ہے، کیونکہ بچے ہمہ وقت اپنے دِینی مدرسے واِدارے کے خلاف اپنے گھر والوں کو دیکھتے ہیں، اس سے ان کی قوتِ عمل کمزور ہوجاتی ہے، جس سے دینی اُمور پر ان کو عمل کرنا دُشوار ہوجاتا ہے۔ دینی مدرسے کی ہدایات اور پابندیاں بھی کارگر نہیں ہوتیں۔ اس سے زیادہ خطرناک حالت وہ ہے کہ ان بچوں کو ہدایاتِ مدرسہ کے خلاف گھر پر عمل کرایا جائے۔ مثلاً سینما یا تھیٹر یا ٹیلی ویژن وغیرہ دِکھایا جائے یا برادری کی خلافِ شرع تقریبوں میں شریک کیا جائے یا پتنگ بازی، آتش بازی کے لئے پیسے دئیے جائں، یا گھر میں ان کی موجودگی میں باجا بجایا جائے، باجا اور تماشا ویسے بھی جرم اور حرام ہے، مگر بچوں کو سنوانا ان کو دِینی اِعتبار سے افیون اور سنکھیا کھلانا ہے۔ اس لئے ایسے حضرات کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی اِصلاح کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ (اِصلاحِ باطن ص:۲۹)
۴:․․․ فرمایا: عورتوں کی اِصلاح آسان ہے، کیونکہ ان کا دِل نرم ہوتا ہے، جلد اَثر قبول کرلیتا ہے، اور قائم بھی رہتا ہے، اور ان کے دُرست ہونے سے گھر کا گھر دُرست ہوجاتا ہے۔ اس لئے عورتوں میں دینی مذاکرات کا سلسلہ بھی ہونا چاہئے۔ ایک صالحہ بی بی کا قصہ ہے کہ جب ان کا نکاح ہوا اور رُخصت ہوکر سسرال گئیں تو سب عورتوں کو ”السلام علیکم“ کہا، اور پھر مصافحہ کیا، سب کو حیرت ہوگئی، کیونکہ ان سنتوں پر عمل ایسے وقت پر شاذ ونادر ہی ہوتا ہوگا، اس کے بعد جب چائے آئی، پھر کھانا آیا تو نہ چائے پی نہ کھانا کھایا، سبب پوچھا گیا تو کہا میں اپنے شوہر سے کچھ بات کروں گی، پھر کھانا کھاوٴں گی۔ جب ملاقات ہوئی تو کہا: مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آپ رِشوت لیتے ہیں، جب آپ توبہ کرلیں گے تو ہم کھانا کھائیں گے، ورنہ ہم کھانا نہ کھائیں گے، اپنی سوکھی روٹی ہم اپنے ساتھ لائے ہیں، وہی کھالیں گے۔ شوہر پر اس صالحہ بی بی کے تقویٰ کا بہت اثر ہوا، اور فوراً اسی وقت ہمیشہ کے لئے رِشوت سے توبہ کرلی۔ (مجالس ابرار ج:۲ ص:۱۳۱)
۵:․․․ فرمایا: لڑکوں کی کہنی اگر کھلی رہے تو نماز ہوجاتی ہے، مگر مکروہ ہوتی ہے۔ اور لڑکیوں کی کہنی اگر کھلی رہے تو نماز ہی نہیں ہوتی، لیکن معاملہ کیا ہے کہ والدین لڑکوں کی آستین پوری بناتے ہیں اور لڑکیوں کی کہنی کھلی رکھتے ہیں، کیا حال ہے! افسوس کا مقام ہے! اسی طرح لڑکا ننگے سر نماز پڑھے، نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اور لڑکی ننگے سر نماز پڑھے تو نماز ہی نہ ہوگی، مگر والدین کا کیا حال ہے کہ لڑکے کے سر پر موٹی ٹوپی اور لڑکی کے سر پر باریک دوپٹہ ہے، جس سے بالوں کی سیاہی صاف نظر آتی ہے۔ اور اَب تو یہ دوپٹہ بھی غائب ہو رہا ہے، اب تو ایسا باریک لباس لڑکیوں کا ہو رہا ہے کہ نام لباس کا ہے، مگر درحقیقت ننگی ہیں، افسوس کا مقام ہے․․․! (مجالس ابرار ج:۱ ص:۵۴)
۶:․․․ فرمایا: ایک بات خصوصیت سے سب لوگوں کے لئے بڑی اہم اور قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ کبھی کبھی اپنے گھر پر دِینی مذاکرہ کرایا کریں، وعظ ونصیحت کا سلسلہ تھوڑی دیر ہو، پندرہ منٹ بھی کافی ہے، ایک انجکشن لگا ہے سفر کے لئے، اس کا اثر چھ مہینے تک رہے گا، اور ایک انجکشن جو افریقہ کے سفر کے لئے تھا ،کوئی کہتا ہے کہ اس کا اثر تین برس، کوئی کہتا ہے کہ اس کا اثر دس برس تک رہے گا، اس کا اثر اتنی مدت تک رہے گا، ایسے ہی ایک دین کی بات بتائی جائے تو اس کا اثر کیا ہوگا؟ خود اندازہ کرلو، دین کی باتوں کا اثر تو ہوتا ہے ہلکے ہلکے۔ (مجالس محی السنة)
۷:․․․ فرمایا: ہر گھر کا بڑا ہر روز پانچ منٹ یا دس منٹ دین کی کوئی کتاب سنانا شروع کردے، اور ایک دو منٹ گھر کی عورتوں اور بچوں کو ایک یا دو سنت بھی کھانے، پینے کی، وضو نماز کی یا سونے، جاگنے وغیرہ کی سکھانا شروع کردیں، اس طرح ایک سال میں کتنی سنتوں کا علم ہوسکتا ہے! پھر اس پر عمل بھی کرائیں اور عمل کی نگرانی کرتے رہیں، بچوں کو سمجھائیں کہ ہم پیغمبر ا کے طریقوں کو اِختیار کریں گے تو حق تعالیٰ ہم سے محبت فرمائیں گے، ہم سے خوش ہوں گے، ”حیاة المسلمین“ اور ”خیرالاعمال“ بھی گھروں میں سنائیں، اِن شاء اللہ! اس طرح ہمارے گھروں میں سنتوں کا نور پھیل جائے گا اور سب اَفراد گھر کے دِین دار اور صالح ہوجائیں گے۔ (اُمت کی پریشانی واِنحطاط ص:۳۵)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: زبان کی حفاظت !
Flag Counter