Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 12
چند اہم اسلامی آداب !
چند اہم اسلامی آداب (۹)

ادب :۲۷
جب آپ کے رشتہ دار یا دوست کے خاندان سے کسی شخص کی وفات ہو جائے تو اس کی تعزیت کو نہ بھولیں،اور اس میں دیریا سستی نہ کریں، اور اسے محسوس کرائیں کہ آپ اس کے غم اور مصیبت میں برابر کے شریک ہیں ،کیونکہ یہ قرابت داری ،دوستی اور اخوتِ اسلامی کے حقوق میں سے ہے۔
اگر ممکن ہو تو میت کے ساتھ اس کی آخری آرام گاہ …قبر… تک جائیں، کیونکہ اس میں بہت بڑا اجر و ثواب ہے، اور واضح اور خاموش عبادت ہے، اور اس میں ایسا سبق ہے جو آپ کو ہر مخلوق کے یقینی انجام کا درس دیتا ہے، جیسا کہ ایک شاعر میت کو خطاب کرکے کہتا ہے:
وکانت فی حیاتک لی عظات
فأنت الیوم أوعظ منک حیّا
ترجمہ :۔” تیری زندگی میں میرے لئے بہت سی عبرتیں تھیں ،لیکن آج زندگی سے زیادہ تو میرے لئے باعثِ عبرت ہے۔“
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حق المسلم علی المسلم خمس : رد السلام، وعیادة المریض، واتباع الجنائز…“ ( بخاری و مسلم)
ترجمہ:۔” مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا ، بیمار کی تیمار داری،اور جنازہ کے پیچھے چلنا…“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عودوا المرضی، واتبعوا الجنائز تذکرکم الآخرة۔“ (امام احمد)
ترجمہ :۔”بیماروں کی تیمارداری کرو، جنازوں کے پیچھے چلو ، تمہیں وہ آخرت یاد دلائیں گے ۔“
ادب :۲۸
جب آپ اپنے بھائی ،رشتہ دار، یا جاننے والے کے پاس اس کی مصیبت میں تعزیت کے لئے جائیں تو مستحب یہ ہے کہ اپنے میت بھائی کے لئے دعا بھی کریں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمة رضی اللہ عنہ کے لئے دعاء فرمائی تھی، اور ان کے گھر والوں سے تعزیت فرمائی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
”اللّٰھم اغفر لأبی سلمة، وارفع درجتہ فی المہدیین ،واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین، ای کن لہ خلیفة، فی ذریتہ،الباقین من اسرتہ ، واغفرلنا ولہ یا رب العالمین، وافسح لہ فی قبرہ ، ونور لہ فیہ۔“ ( مسلم)
ترجمہ:۔” اے اللہ تو ابو سلمہ کی مغفرت فرما، ہدایت یا فتہ لوگوں میں اس کادرجہ بلند فرما، پیچھے رہ جانے والوں اور باقی ماندہ لوگوں کے لئے اس کا خلیفہ بن جا،ہماری اور اس کی مغفرت فرما ،اے رب العالمین !اور اس کی قبر کو کشادہ اورروشن کردے۔(اس کو امام مسلم نے روایت کیا)
جس شخص سے آپ تعزیت کررہے ہیں اس سے آپ کی گفتگو ایسی ہو کہ جس سے اس کی مصیبت کا غم ہلکا ہو ،وہ اس طرح کہ آپ اس کے سامنے مصیبت پر اجر اور اس پر صبر کرنے پر اجر وثواب کا ذکر کریں، اور یہ کہ دنیا فانی اور ختم ہونے والی ہے، اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔
اس سلسلہ میں اس سے متعلق بعض آیات کریمہ اور احادیث شریفہ ذکر کی جائیں ،نیز سلف صالحین، کے اقوال پیش کئے جائیں ،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
” وبشرالصابرین الذین، اذا اصابتہم مصیبة، قالوا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اولئک علیہم صلوٰت من ربہم ورحمة واولئک ہم المہتدون“۔ (البقرہ:۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷،)
ترجمہ:۔”اور آپ ایسے صابرین کو بشارت دیجئے ( جن کی عادت یہ ہے)کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے، تو وہ کہتے ہیں، کہ ہم تو ( مع مال واولاد حقیقتاً) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں، اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں،ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور سب پر اشتراک عام رحمت بھی ہو گی، اور وہی لوگ ہیں جن کی حقیقت حال تک رسائی ہوگی۔“
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
”کل نفس ذائقة الموت، وانما توفون اجورکم یوم القیامة، فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز، وما الحیاة الدنیا الا متاع الغرور۔“ ( آل عمران:۱۸۵)
ترجمہ:۔”ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم کو پوری پاداش تمہاری قیامت ہی کے روز ملے گی، تو جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا، اور جنت میں داخل کیا گیا، سو پورا کامیاب وہ ہوا، اور دنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں مگر دھوکے کا سودا ہے۔“ اور اللہ کا یہ فرمان:
” کل من علیہا فان ،ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔“ ( رحمٰن :۲۶،۲۷)
ترجمہ:۔”جتنے روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے ،اور آپ کے پروردگار کی ذات جو عظمت اور احسان والی ہے ۔ باقی رہ جائیگی۔“
اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد :
”اللّٰھم اجر نی فی مصیبتی واخلف لی خیر ا منھا۔“
ترجمہ:۔”اے اللہ میری مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما، اور اس سے مجھے بہتر بدل عطا فرما۔“ ( صحیح مسلم)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول:
” ان للّٰہ ما اخذ، ولہ ما اعطیٰ ،وکل شئی عندہ باجل مسمیّ۔“
ترجمہ:۔”الله ہی کے لئے ہے جو اس نے لیا، اور اسی کا ہے جو اس نے دیا، اور ہر چیزکا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔“ (صحیح بخاری و مسلم)
اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول جو آپ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کو وداع کرتے وقت فرمایا، جب ان کی وفات ہوئی:
”ان العین تدمع، والقلب یحزن، ولا نقول الا ما یرضی ربنا ، وانا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون۔“
ترجمہ:۔”آنکھیں پُر نم ہیں،دل غمگین ہے، اور ہم وہی بات کرینگے جو ہمارے رب کو راضی کرنے والی ہے، اور اے ابراہیم !ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔“ ( بخاری و مسلم)
نیز یہ بھی مناسب ہے کہ مصیبت والے کے سامنے اس کا غم ہلکا کرنے کے لئے اقوال ذکر کریں ،مثلاً ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
”ہر روز کہا جاتاہے کہ فلاں شخص وفات پاگیا۔ فلاں دنیا سے چلا گیا، اور ایک دن ایسا بھی ضرور آنے والا ہے کہ اس دن کہا جائیگا ، عمر بھی وفات پاگئے۔“
اور خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنائیں کہ:
”جس شخص کے درمیان اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان کوئی باپ زندہ نہیں، وہ بھی موت میں ڈوبنے والا ہے۔“
اور جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول:
”اے آدم کے بیٹے، تو تو چند دنوں کا مجموعہ ہے۔ جب ایک دن گزر جاتاہے، تو تیرا ایک حصہ چلا جاتاہے۔“
نیز انہیں کا یہ قول کہ:”اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے جنت سے کم کسی چیز میں راحت نہیں رکھی۔“
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد مالک بن دینارکا قول:”اہل تقویٰ کی خوشی کا دن تو قیامت کا دن ہو گا۔“
کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے:
وانا لنفرح بالأیّام نقطعہا
وکل یوم مضی یدنی من الأجل
ترجمہ:۔” ہم خوش ہوتے ہیں کہ دن گزر رہے ہیں، لیکن ہر دن جو گزر تاجاتا ہے وہ ہمیں موت کے قریب کررہا ہے۔“
اور تعزیت کے سلسلہ میں بہت ہی عمدہ شعر کہا گیاہے:
إنا نعزک لا أنا علی ثقة من الحیاة ولکن سنة الدین
فما المعزَی بباق بعد میتتہ ولا معزِی وإن عاشا إلی حین
ترجمہ:۔”ہم آپ کی تعزیت کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کا یقین ہے، بلکہ اس لئے تعزیت کرتے ہیں، کہ یہ دینِ اسلام کی سنت ہے، میت کے بعد نہ تو جس کی تعزیت کی جاتی ہے، وہ باقی رہے گا اور نہ ہی تعزیت کرنے والا، اگر چہ وہ لمبی عمر تک زندہ رہے۔“
اسی مناسبت سے کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے:
نموت و نحیا کل یوم ولیلة
ولا بد من یوم نموت ولا نحیا
ترجمہ:۔”ہم ہر روز مرتے ہیں اور زندہ ہو تے ہیں( یعنی سو کر اُٹھتے ہیں) اور ایک دن ضرور آنے والا ہے کہ ہم مرینگے اور زندہ نہ ہونگے۔
اور ایک شاعر نے زندگی اور غفلت کی سچی تصویر کھینچتے ہوئے کہا ہی:
وإنا لفی الدنیا کرکب سفینة
نظن وقوفا والزمان بنا یجری
ترجمہ:۔”دنیا میں ہماری مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے سوار ،ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ کھڑی ہے ، اور زمانہ کی کشتی ہمیں لے کر چل رہی ہوتی ہے۔“
مجھے ان آیات، احادیث اور بزرگوں کے اقوال…جن کاتعزیت میں ذکرکرنا مناسب ہو تا ہے …کے ذکر کرنے کی اس لئے حاجت محسوس ہوئی کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ مصیبت زدہ شخص کی مجلس تعزیت میں غیر متعلقہ موضوعات چھیڑ دیتے ہیں جن کا اس مصیبت زدہ غمگین شخص کی حالت سے کوئی جوڑ نہیں ہو تا۔اور جو ایک غمگین طبیعت پر گراں گذرتے ہیں، اور یہ ذوقِ سلیم اور اسلامی آداب کے خلاف ہے۔
ادب :۲۹
مجلس کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنے مہمان یا جس شخص سے بھی گفتگو کررہے ہوں تو آپ کی آواز نہایت نرم اور پست ہو نی چاہئے ،اور ضرورت کے مطابق اپنی آواز کو بلند کریں، کیونکہ ضرورت سے زائد آواز بلند کرنا گفتگو کرنے والے کو زیب نہیں دیتا ۔اور وہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں مخاطب کی پوری عزت نہیں ہے،
یہ وہ ادب ہے، جس کا خیال رکھنا اپنے دوست ،ہم منصب ، جسے آپ جانتے ہیں ، یا نہیں جانتے ، آپ سے چھوٹا ہے یا آپ سے بڑا ہے، سب کے لئے ہے۔ اور اس ادب کا خیال رکھنا اس وقت اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب آپ اپنے والدین یا والدین جیسے یا جوآپ کے نزدیک قابلِ تعظیم اور قابل احترام ہوں، ان سے گفتگو کررہے ہوں، اس سلسلہ کی چند آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں:
قرآن کریم نے حضرت لقمان حکیم کی نصیحت…جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائی ہے، ذکر کی ہے:” واغضض من صوتک“ یعنی جب لوگوں سے بات کرو تو اپنی آواز کو پست رکھو، اور اسے اونچا مت کرو، کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز بلند کرنا ناپسندیدہ اور بُرا عمل ہے۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: آیات متشابہات کے متعلق بحث !
Flag Counter