Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 12
انسانی زندگی کا مقصد !
انسانی زندگی کا مقصد


مقصد عربی زبان کا لفظ ہے اور قصد سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا‘ کسی چیز کی طرف جانا اور ٹھیک اسی طرح آدمی جس چیز کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے تو پھر اسی کی طرف متوجہ اور اسی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ اہل عقل کے لئے ماہتاب منور کی طرح یہ حقیقت ہے کہزمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے ان سب کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے ۔پانی مادہٴ سیال ہے تو کیا صرف پینا ہی اس کا مقصد ہے؟ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک برق رفتار سے چلتی ہواؤں کا صرف تیزی سے چلنا ہی مقصد ہے؟ درختوں ‘ پودوں‘ پھولوں اور پھلوں کا زمین سے اگ کر وقت مقررہ پر مرجھا جانا ہی مقصد ہے؟ برف پوش پہاڑوں اور تپتے صحراؤں کا صرف برودت وحرارت پہنچانا ہی مقصد ہے؟ بلند فضاؤں میں تیرتے پرندوں کی اڑان ہی مقصد ہے؟ پھولوں سے بھری وادیوں اور کانٹوں سے پٹی خار دار جھاڑیوں سے صرف پھول اور کانٹوں کی کسوٹی سمجھانا مقصد ہے؟ مشرق سے ابھرتے سورج اور مغرب میں غائب ہوتے چاند کا صرف طلوع وغروب ہی مقصد ہے؟
نہیں‘ نہیں بلکہ ان کے مقاصد اور بھی ہیں اور لامتناہی ہیں، اگر ہم اسی بات پر اکتفاء کر لیں کہ ان کے تو صرف یہی مقاصد ہیں تو پھر کہیں علامہ ابن کثیر کی صدا بے صدا نہ ہوجائے کہ:
وفی کل شیئ لہ اٰیة
تدل علی انی واحد
کائنات اور مافیہا کا اگر کوئی مقصد ہے تو وہ کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب ہمیں صرف اور صرف قرآن پاک ہی دے گا، کیونکہ کل کائنات کے راز پنہاں اسی میں محفوظ ہیں اور بے شک یہی قرآن پاک تمام جہانوں کے انسانوں کے لئے ان کے مقصد اصلی تک پہنچنے کے لئے راہبر وراہنما ہے، آیئے! قرآن پاک کھولئے اور ورق گردانی شروع کیجئے۔
سورہٴ ص میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”وماخلقنا السماء والارض ومابینھماباطلاََ ذالک ظن الذین کفرواوویل للذین کفروامن النار۔“ (ص:۲۷)
ترجمہ:․․․”اور ہم نے نہیں بنایا آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے نکما بلکہ یہ خیال ان کا ہے جو منکر ہیں سو خرابی ہے منکروں کے لئے آگ سے“۔ (شیخ الہند)
کائنات کو بے فائدہ و بے مقصدسمجھ بیٹھنا اور یہ کہنا کہ یہ ایک حادثہ ہے ، قرآن ِکریم اس نظریے کی تردید کرتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے نار جہنم کی وعید آئی ہے۔ کائنات کے گوشے گوشے میں بے شمار عبر وقصص ومقاصد پوشیدہ ہیں ۔چشموں‘ دریاؤں ‘ تالابوں کا صاف وشفاف پانی دعوت فکر دے رہا ہے کہ غور کرو ،وہ ذات کتنی پاکیزہ ہوگی جس نے مجھے صاف وشفاف بنایا ۔مشرقین ومغربین میں برق رفتار سے چلتی ہوائیں ،انسان کو پکار کر کہہ رہی ہیں کہ میری تیز رفتاری سے انگشت بدندان مت ہو جاؤ بلکہ میرے رب کی سرعت پر بھی نظر رکھو ۔درختوں ،پودوں کی نرم ونازک شگوفوں کا مضبوط زمین کو پھاڑ کر نکلنا ہمیں بتا رہا ہے ،ہاں کوئی ذات ہے جس کا دست قدرت ہر پست وبالا میں کار فرما ہے، برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں دعوت نظارہ دے کر انسان سے مخاطب ہیں کہ اے انسان! ہماری کیا بلندی ہے، کیا تونے کبھی ہمارے خالق کی بلندی میں بھی غور کیا ہے؟ تپتے صحراؤں کی لو سے راز پنہاں فاش ہورہے ہیں کہ ہاں ایک ذات ہے جس کی بنائی ہوئی جہنم کے آگے میری تپش ہیچ ہے۔فضاؤں میں محو پرواز پرندوں کی اڑان دعوت نظارہ دینے کے ساتھ ساتھ دعوت اتباع الی اللہ دے رہی ہے کہ اے انسان! اس پاک ذات کی مان کر چل جس نے میرے لئے ہوا کو اورتیر ے لئے پوری کائنات کو مسخر کیا ،پھولوں سے بھری وادیاں کہہ رہی ہیں، میرے حسن میں کھوئے ہوئے انسان !خواب غفلت سے بیدار ہو ،اورجنت کے حصول کے لئے کمر باندھ لے۔ مشرق سے ابھرتے سورج کا عروج اور مغرب میں غروب ہوتے سورج کا زوال مخاطب جہاں ہے کہ اے جہاں والو! میرے عروج کی چمک دیکھ کر میرے زوال کی دوری کو مت بھولنا، کیونکہ تمہاری زندگیوں میں بھی یہی اصول ہے۔وسط آسمان میں چودہویں کاچاند انسان سے فریاد رس ہے، اے انسان! اگر تو نے اپنے رب کے ہاں کوئی مقام پیدا نہیں کیا تو جان لے میری دھرتی پہ مکان بنانے کے خواب شرمندہ ہی تعبیر نہ ہوں گے۔
انقلابات جہاں میں واعظ رب ہیں دیکھو
ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
اسی مقصد پر مفکر اسلام مولانا سیدابو الحسن علی ندوی اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری کا واقعہ ذکر کرتا ہوں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :ایک مرتبہ مقدس ماہ رمضان المبارک میں حضرت علامہ ابو الحسن علی ندوی، حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے مہمان بنے، اس غرض سے کہ دیکھوں حضرت مولانا احمد علی لاہوری کا ماہ رمضان میں معمولِ عبادت کیا ہے؟ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں مولانا کی خدمت میں مقیم تھا کہ مولانا نے ایک روز فرمایا :آج کھانا میرے ساتھ کھایئے گا، جب کھانا لایا گیا تو صرف روٹی اور دال کا پیالہ تھا، البتہ دہی کا اضافہ میری خاطر کیا تھا، حضرت مولانا احمد علی لاہوری نے کھانا کھاتے ہوئے فرمایا: مولوی ابو الحسن میاں! ہم سے تو یہ دال ہی اچھی ہے جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی تھی اس نے اس کو پورا کرلیا، مگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا۔
انسانی زندگی کا مقصد
انسانی زندگی کا مکمل ضابطہٴ حیات قرآن پاک میں موجود ہے ،جس میں ہمیں اپنی زندگی کا ہر ہر پہلو نظر آئے گا ۔سورہٴ ذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”وماخلقت الجن والانس الالیعبدون۔“ ( ذاریات ۵۶)
ترجمہ:․․․․”اور میں جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو“۔
ان آیات کی تفسیر میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
”یعنی ان کے پیدا کرنے سے شرعاً بندگی مطلوب ہے ،اسی لئے ان میں خلقتاََ ایسی استعداد رکھی ہے کہ چاہیں تو اپنے اختیار سے بندگی کی راہ پر چل سکیں ،یوں ارادہٴ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے تو ہر چیز اس کے حکم تکوینی کے سامنے عاجز اور بے بس ہے، لیکن ایک وقت آئے گا جب سب بندے اپنے ارادہ سے تخلیق عالم کی اس غرض شرعی کو پورا کریں گے، بہرحال آپ سمجھاتے رہیے کہ سمجھانے سے یہ مطلوب شرعی حاصل ہوسکتا ہے۔“
سوچئے اور فکر کیجئے !اپنے ضمیر سے سوال کیجئے !کیا ہم مقصد پر رہ کر زندگی گزار رہے ہیں یا مقصد سے ہٹ کر؟ اگر جواب اثبات میں ملے تو باری تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں اور اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر ترقی کے زینوں پر چڑھتے جائیں۔ اوراگر جواب نفی میں ہے تو رحمت الٰہی سے مایوس مت ہوں، مایوسی مسلمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ابھی سے عزم مصمم کے ساتھ بندگی خدا کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ،ماضی وحال پر توبہ کریں اور مستقبل کو نیک ارادوں سے روشن کردیں، کیونکہ یہی ہمارا مقصد ہے۔
قدرت کے مقاصد کا غبار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: مولانا سید احمد شاہ بخاری اور ان کے ارشادات !
Flag Counter