Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 12
ارکان اسلام میں تحریف چند حقائق اور تو جہ طلب باتیں !
ارکان اسلام میں تحریف چند حقائق اور تو جہ طلب باتیں


۱:․․ہر طبعیت، ہر مزاج، ہر عقل، ہر فکر کے لئے قدرت ازلیہ نے ایک محدود ومعین معیار مقرر فرمادیا ہے، ہر چیز کی پرواز اسی حدتک ہوگی جو قدرت الٰہیہ نے ازل سے اس کے لئے ٹھیک ٹھیک اندازہ کے مطابق تجو یز فرمادی۔ ذلک تقد یر العز یز العلیم۔
علی ہذاہر فن اور ہر علم کا ایک خصوصی اثر ہے، پھر اس علم وفن کی کثرت ومزاولت اور استمرار کے ساتھ اس کے مطالعہٴ درس وتد ریس کا بھی ایک خاص اثر ہے، اسی طرح ماحول کے اثرات ،تربیت کے اثرات، معاشرت کے اثرات بھی مستقل خصائص رکھتے ہیں۔
ان گو ناگوں عوامل کے ہوتے ہوئے بہت مشکل ہے کہ ایک انسان جس کی طبعیت میں تا ثر وانفعال کا خاصہ قدرت نے خلقة رکھا ہوا ہے، بالکلیہ اپنے معاشرہ اور ماحول کے اثرات سے محفوظ رہ سکے، ہاں کبھی کبھی قدرت الٰہیہ المعی قسم کی غیر معمولی اور خارق العادت مثالی ہسیتوں کو پید افر ما کر ارادہ ٴالٰہی کے فوق کل شی ہونے کا اظہار فرماتی رہی ہے، اسی کا نام قدرت الٰہی کا معجز ہ ہوتا ہے اسی نظام اسباب وعادت کی جانب اشارہ کرنے کے لئے سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
”اذا سمعتم بجبل زال عن مکانہ فصد قوہ واذا سمعتم برجل زال عن خلقہ فلا تصدقوہ۔“
ترجمہ:۔ اگر تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو یہ ممکن ہے اس کی تصدیق کر سکتے ہو اور اگر تم سنو کہ کوئی شخص اپنی فطرت سے ہٹ گیا تو یہ نا ممکن ہے اس کی تصد یق مت کرو“۔
۲:۔ اگر آپ چا ہیں کہ مادر زاد نا بینا کو سرخ وسفید ،کا لے پیلے، مختلف قسم کے رنگ والوان کے باہمی امتیازات سمجھا دیں اور وہ سمجھ لے تو یہ ناممکن ہے، اس میں اس تمیز کی اہلیت ہی نہیں، اگر آپ چاہیں کہ اخشم جس کی قوت شامہ ( سو نگھنے کی قوت) مفقود ہو کو بد بو خوشبو اور گلاب، کیوڑہ، خس کی خوشبو کا فر ق سمجھا دیں تو یہ ناممکن ہے۔
۳:۔ اگر یہ حقائق یقینی ہیں اور درست ہیں تو بتلا ئیے کہ کیا اس کا امکان ہے کہ جو شخص نعمت ایمان سے ،اہل ایمان کی صحبت سے، ماحول سے، معاشرہ سے بالکل محروم ہے، آپ اس کو حلاوتِ ایمان سے آشنا کر اسکیں؟ جو شخص مومن نہیں آپ اس کو کیسے سمجھا اور باور کر اسکتے ہیں کہ ایک مومن کا مل کو سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی عقیدت ہوتی ہے اور کیسی محبت اور کیسا قلبی تعلق ہوتا ہے اور کس درجہ کا والہا نہ عشق۔ جو شخص ایمان سے محروم ہو، ایمانی معاشرت سے محروم ہو ،اسلامی تہذیب وتمدن سے عاری ہو، اسلامی طرزفکر سے بے ما یہ ہو ،علوم نبوت کی تعلیم وتعلم کی اسے ہو اتک نہ لگی ہو، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اور مزاولت اس کو میسر نہ آئی ہو، علم اصول حدیث ،علم اسماء الر جال سے بے خبر ہو، نہ اصل حاملین حدیث صحابہ وتابعین کی زندگی اور نفسیات سے واقف ہو، نہ ان کی فو ق العادت حرص حفاظت حدیث اور قوت حفظ سے بھلا وہ محروم وبے بہر ہ انسان کیا اندازہ لگا سکتا ہے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذخیرہ کیوں کر محفوظ ہوا ؟ اور سنت رسول علیہ الصلوة والسلام کس طرح سینہ بسینہ منتقل ہوئی ؟ پھر جس کی نیت بھی صحیح نہ ہو، نگاہ بھی کج ہو، شکو ک وشبہات اور اوہام وخیالات فاسدہ سے ذہن بھی ماؤف ہوچکا ہو، کیا اس کا امکان ہے کہ وہ محدثا نہ علوم ،محدثا نہ ذوق، محد ثانہ بصیرت کا صحیح ادارک کر سکے ؟ اور نیت کی خرابی تو ایسی تباہ کن بنیاد ہے کہ اس پر قائم شدہ تحقیق ونظر یات کی پوری عمارت کے ایک دم گر جانے کا خطرہ ہر وقت لگارہتا ہے۔ عداوت وعنا د، جحو دو انکار سے بھی زیادہ خطر ناک اور لاعلاج مرض بلکہ روگ ہیں، یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ جانے کے بعد”طبع اللّٰہ علی قلوبھم فھم لا یفقھون“کی مہر لگ جاتی ہے اور ”ختم اللّٰہ علی قلو بھم، وعلی سمعھم ،وعلی ابصار ھم غشاوة“ کی مہر لگ جاتی ہے اور پھر ”لھم قلوب لا یفقھون بھا“ ان کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے۔
مستشر قین نے آج تک جو علوم اسلامیہ پر ریسر چ کی ہے اور کر تے رہتے ہیں خواہ وہ جد ید ہوں یا قدیم گو لڈ زیہر ہو یا شاخت آربری ہو یا ولسن، ان سب کے متعلق یہی فطری اور نفسیاتی حقائق ہیں جن کو پیش نظر رکھ ان کی تحقیقات کو پڑھنے اور غور کر نے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ہماری نئی نسل کے” مفکر ین“ و”محققین “جو انہی مستشر قین اور یورپین مصنفین کی گودوں میں پلے ہوئے اور انہی کی زیر تعلیم وتربیت طر زتفکر وتحقیق سیکھے ہوئے اور ان ہی کی ریزہ چینی اور زلہ ربائی سے ان کے دماغوں اور ذہنوں کی نشوونما ہوئی ہے۔ مز ید برآں گر اں قدر وظائف لے کر ان کے رہین منت بھی رہ چکے ہیں، ان سے حدیث وسنت رسول اللہ کے متعلق کسی کلمہٴ حق اور کلمہٴ خیر کی کیا تو قع ہو سکتی ہے؟ سب سے زیادہ خطر ناک امر یہ ہے کہ یہ مستشر قین اور انگر یز مصنفین جن کے رگ وریشہ میں اسلام سے عداوت وکینہ اور جذبہٴ انتقام پیوست ہوچکا ہے، انتہاء درجہ زیرک وچالاک واقع ہوئے ہیں، ان کا واحد مقصد مسلمانوں کی نئی نسلوں کو لا دینی کا شکار بنانا ہے، اس لئے اسلام اور مسلمانوں کے انتہائی ہمدرد اور خیر خواہ بن کر ان کے ایمان پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور ان سے ر ہنمائی کے نام سے رہز نی پر مسلمانوں سے ہد یہ تشکر وا متنان بھی وصول کرتے ہیں۔ استغفر اللّٰہ اعلی العظیم۔
حدیث کے بعد قرآن
یادش بخیر! ہمارے دوست ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب ڈائر کٹر مر کزی ادارہ ”تحقیقات اسلامی“ کی ایک اور جد ید تحقیق بھی سامنے آگئی، اب سے کچھ دن پہلے تو ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۹۰ صفحات کا ایک طویل مقالہ” تصو رسنت اور تحریک حدیث“ کے عنوان سے سپر دقلم فرمایا تھا، جس کا مقصد تقر یباً انکار حدیث تھا ،ہم اس پر کچھ لکھنے کی فکر میں تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ اطمینان دلا کر ہمیں خاموش کر نے کی سعی کی کہ اس میں کچھ حصے میرے منشا کے خلاف تر جمہ ہوگئے ہیں، عنقریب ان کی وضاحت کر نا چا ہتا ہوں، آپ انتظار کریں ۔المؤ من غر کر یم(مسلمان شریف اور بھو لا بھالا ہواکرتا ہے) ہم خاموش ہوکر چشم براہ تھے کہ کب اس کی وضاحت ہوتی ہے، ہم نے سو چا کہ بمصداق (وکفی اللّٰہ المؤ منین القتال)خود ڈاکٹر صاحب اپنی غلطیوں اور خامیوں کی تر دید فرمادیں تو اچھا ہے، لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب اپنے حلقہ احباب ور فقاء کو یہ یقین دلاتے رہے کہ دیکھئے مولوی صاحبان سب خاموش ہیں ،فاناللہ۔
آخر مجبور ہو کر اور بسم اللہ کہہ کر ہم نے مقالہ تصو ر” سنت وتحریک حدیث“ پر قلم اٹھانا چا ہا تھا کہ ماہ اکتوبر ۱۹۶۴ء کے ما ہنامہ فکر ونظر میں ایک نیا ”شگوفہ“ سامنے آیا۔ عنوان تو ہے” قرآن کی ابدیت“ لیکن معنون (ماحصل) ہے ”قرآن کی عدم ابدیت“ ”برعکس نام زنگی نہند کافور“ مثل مشہور ہے ،ارشادہوتا ہے۔
” درحقیقت ابدیت ان علل وغایات کو حاصل ہے جو قرآنی احکام کی تہ میں ہیں اور جو ہمیشہ قرآن سے صراحتاً یا کنا یتاً یا سیا قاًً اخذ کئے جاسکتے ہیں۔“
فرمایئے :اب پر ویز صاحب اور ڈاکٹر صاحب میں کیا فرق رہا؟ پھر یہ باہمی ”جنگ زرگری“ کیوں ہے ؟
بطور مثال زکوٰة کو مالی ٹیکس اور نصاب شہادت میں عورت کو مر د کے مساوی قراردے کر ڈاکٹر صاحب قرآن کی قطعی نصوص میں ترمیم فرماتے اور اس کو عین منشا قرآن بتلا تے ہیں، پر ویز صاحب نماز ،روزہ کوا سی لائن میں شمار کر چکے یعنی تر میم وتنسیخ کا تختہ مشق بنا چکے ہیں ،آخر(تشا بھت قلوبھم۔ قاتلھم اللّٰہ انی یؤ فکون)کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی۔
گو یا اللہ تعالیٰ نے یہ احکام نازل فرمانے کے وقت ان حضرات کو مشورہ میں شریک کر لیا تھااور اپنا منشا بتلا دیا تھا کہ ان احکام کی علت غائی ومصلحت یہ ہے۔ نیزان احکام کی یہ محض ظا ہری صورت ہے، ان کی روح وہ ہو گی جو تم بیان کر و گے، نیز یہ ہنگامی اور وقتی احکام ہیں، ا س عبوری دور کے لئے ہیں ،آگے چل کر ہردور میں عصری تقاضوں کے مطابق ان کی تعبیر وتشریح کا تمہیں اختیار علت وغایت کو سامنے رکھ کر مصالح وقت اور ظروف واحوال کے مقتضی کے مطابق ان میں ترمیم و تنسیخ ہوتی رہے گی۔ العیاذ باللّٰہ ،استغفر اللّٰہ العظیم۔
کیا قرامطہ اور باطنیہ نے اپنے اپنے دور میں بھی کچھ نہیں کہا تھا اور کچھ نہیں کیا تھا؟ اس ماء مہین سے پید اشدہ مضغہ لحم کی یہ پر واز ”تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو“ عالم الغیب اور احکم الحاکمین کے علم وحکمت کو اپنی بے ما یہ وکثیف عقل کے پیمانہ سے نا پتا ہے ! نصوص صر یحہ، قرآن کی علل وغایات کی خود تعیین کر تا ہے اور ان کو قطعی اور ابدی قراردے کر صریح نصوص و احکام خداوندی پر خط تر میم وتنسیخ کھینچتا ہے ؟ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ اس کو عین منشاء الٰہی بتلا تا ہے…ع… ” بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است“ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
یہ عقل وخرد کے فقیر تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے اور اس کا علم تمام کائنات پر محیط ہے ،ازل سے ابد تک کے انسانی تقاضے اور بد لتے ہوئے حالات وظر وف سب اس کے سامنے ہیں، پھر وہی خالق ہے، وہی مد بر، مخلوق کی گو نا گوں اور متنوع ومتجد دحا جات وضروریات کو اس سے زیادہ کون جان سکتا ہے اور اس سے بہتر ان کی تد بیر کون کر سکتا ہے؟ قدرت بھی اس کی کا مل ہے، اختیار بھی تام ہے، حسب مصلحت تدبیر وتصرف سے بھی کوئی مانع نہیں، ان حقائق پر ایمان رکھنے کے بعد کیسے کوئی جرأت کر سکتا ہے کہ ان نصوص صریحہ پر بد لے ہوئے حالات وظر وف کا نام لے کر خط تنسیخ پھیرے اور ساتھ ہی ان کی علل وغایات پر عمل کر نے کا مدعی بلکہ علمبر دار بھی ہو۔ اور پھریہ ظر وف واحوال اور ان پر مبنی علل وغایات تو ہمیشہ بد لتی رہیں گی، آج پر ویز صاحب اور ڈاکٹر صاحب نے یہ علت وغایت بتلائی ہے، کل کوئی اور نئے پر ویز اور جد ید ڈائر یکٹر صاحب اور کوئی علت وغایت بتلائیں گے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہ ہوگا کہ آیات قرآنیہ اور نصوص ربا نیہ بازیچہٴ اطفال بن کر رہ جائیں گی ؟
یہ علم وبصیرت سے تہی دامن مساکین اتنا بھی نہیں جانتے کہ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج خالص عبادات ہیں، بذات خود مطلوب ہیں، اصل مقصد اللہ جل ذکرہ کی عبادت وعبودیت ہے، یہی اصل روح عبادت ہے اور یہی ان احکام کی علت وغایت ہے، شارع علیہ الصلوة والسلام نے ان کی جو صورت اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر فرماوی ہے ،اس میں سر مو تر میم وتنسیخ اور تغیر وتبدیل کی مطلق مجال نہیں، عبد(بندہ) کا کام معبود کی اطاعت وفرمان برداری ہے، بندہ کو جس طرح حکم ملا ہے آقا کی اطاعت ہو بہو اسی طرح کر نی ہوگی، بندہ اس کی علت وغایت سمجھنے کا نہ مأمور ہے، نہ مکلف ،نہ اس کی عقل کی رسائی وہاں تک ممکن ہے، نہ ہی وہ اس کا مجاز ہے کہ اس کے مماثل یا اس سے بہتر کوئی اور صوت اپنی عقل وفہم سے تجو یز کرے۔ یا درکھئے کسی عبادت کا قلب وقالب ،جسم وروح ،ظا ہر وصورت ومعنی سب حضرت حق جل وعلا کی طرف سے تجو یز ومتعین کر دیئے گئے ہیں، ان جا ہلوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ علت کسے کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالا غراض ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ اور جن کو یہ علت کہہ رہے ہیں وہ علت ہیں بھی یا نہیں؟ زیادہ سے زیادہ ان کو حکمت ومنفعت کہا جاسکتا ہے اور حکمت ومنفعت بھی وہ جس کو اپنی عقل نارسا سے دریافت کر سکا ہے۔
نماز
نماز اللہ تعالیٰ کی ایک عبادت ہے ، یہی اس کی علت غائیہ ہے، نہ یہ کہ نماز نظم وضبط کا عادی بنانے کے لئے ایک ورزش وریاضت ہے، لہٰذاانسا ن کو حق حاصل ہے کہ جب چا ہے اور جس طرح چاہے اور ہر دور میں جو وقت کا تقاضا ہو اس کے مطابق اس کی صورت تبدیل کر ے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس عبادت میں یہ منفعت بھی رکھ دی گئی ہے جو انسان نے اپنی عقل کے مطابق سمجھی ہے۔
روزہ
اسی طرح روزہ اللہ تعالیٰ کی ایک بد نی عبادت ہے، مخصوص زمانہ میں، معین وقت تک کے لئے ان مفطرات ومفسدات سے انسان کو منع کردیا جاتا ہے جو اس کے طبعی تقاضے ہیں، اسی پابندی میں اس کی آزمائش ہے اور یہی مطلوب ہے اور یہی روزہ کی علت غائیہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر بالارادہ اور عمداًایک ماشہ کی مقدار بھی کوئی چیز کھالی تو روزہ ٹوٹ گیا اور وہ شخص گناہ کبیرہ کا مر تکب ہوگیا، کفار ہ بھی لازم آئیگا اور تو بہ بھی کر نی ہوگی، تب جا کر اس جرم کی اخروی سزا جہنم سے بچنے کی تو قع ہو سکتی ہے، یہ سب کچھ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ اس نے عمداً خدا کی نا فرمانی کاارتکاب کیا ہے اور اگر بھول چوک سے پیٹ بھر کر بھی کھا لے گا ،روزہ نہیں ٹوٹے گا اور یہ شخص روزہ دار رہے گا، صرف اس لئے کہ اس نے عمداً خدا کی نافرمانی نہیں کی اور یہ جو شکم سیر ہو کر کھایا ہے، یہ منجانب اللہ ضیافت خاصہ اور مر حمت الٰہیہ تصور کی جائے گی، جبکہ پہلی صورت میں ایک ماشہ غذا بھی اللہ کے غضب کا موجب تھی، یہ کیوں؟ صرف اس لئے کہ مدار فرماں برداری اور نا فرمانی ہے، نہ کوئی مصلحت پیش نظر ہے، نہ کوئی علت معتبر ہے۔
زکوٰة
اسی طرح زکوٰة اللہ جل شانہ کی ایک مالی عبادت ہے، اس کی شرح نصاب اور اموال زکوٰة خود شارع علیہ الصلوٰة والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر فرمادئے ہیں، مصارف زکوٰة اور مستحقین بھی متعین کر دیئے ہیں، اس کی علت محض عبادت اور تعمیل حکم ہے، اور بس۔ یہ کہ اس سے فقراء کی حاجات پوری ہوتی ہیں، یہ اس امت پر محض اللہ تعالیٰ کی مرحمت ومکرمت ہے ،ور نہ امم سابقہ میں زکوٰة اور صدقات سے انتفاع قطعاً ممنوع تھا، اس کو منفعت وحکمت تو کہہ سکتے ہیں، علت ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ بہر حال زکوٰة محض ایک عبادت ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان لوگوں سے جنہوں نے زکوٰة کو ایک مالی ٹیکس سمجھ کر ادا کر نے سے انکار کر دیا تھا، جہاد کر نے کا حکم دے دیا اور فر مایا جو شخص بھی نماز اور زکوٰة میں تفریق کرے گا یعنی نماز کو تو عبادت سمجھے گا اور زکوٰة کو عبادت نہ سمجھے گا تو میں اس سے ضرور جنگ کروں گا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پہلے تو کچھ مخالفت کی لیکن جلد ہی حقیقت حال سمجھ کر حضرت ابو بکر صدیق سے اتفاق کر لیا اور مانعین زکوٰة سے قتال اور جنگ کر نے پر تمام صحابہ کا اتفاق اور اجماع ہو گیا، اگر ز کوٰة کی علت صرف حکومتی ٹیکس ادا کرنا تھا تو وہ تو کہتے تھے کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو ہمارے قبائلی سر دار اور حکمران ہوں گے ہم ان کو زکوٰة ادا کریں گے، علا وہ ازیں تیرہ سوسال سے امت برابر زکوٰة وصدقات کو ایک مالی عبادت سمجھ کر شریعت کے مقرر کر دہ طریق پر ادا کر تی چلی آرہی ہے، اگر یہ مالی ٹیکس ہوتا تو ظا ہر ہے کہ ہر حکومت اپنے اپنے عہد میں اپنی صوابد ید کے مطابق اس کی شرح مقرر کرتی اور حسب مصلحت اپنی ضروریات اور سر کاری مصارف میں صرف کر تی، نہ شرح زکوٰة محد ود ومتعین ہوتی اور نہ مصارف ومستحقین کی تحدید وتعیین ہوتی، لیکن آج تک پورے اسلامی دور میں دنیا کے تمام ممالک اسلامیہ میں کسی بھی حکومت وحکمران بلکہ کسی بھی مد عی اسلام نے یہ جرأت نہیں کی کہ زکوٰة کو ایک مالی ٹیکس کہہ کر اس کی شرح یا اموال زکاة میں تغیر وتبدل کا نام تک لے، بلکہ حاکم ومحکوم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر فر مو دہ اموال میں سے مقررہ شرح کے مطابق اغنیا ء سے زکوٰة لیتے اور فقراء کو دیتے چلے آئے ہیں۔
کیا موجودہ حکومتوں کا پیٹ دور حاضر کے ان جاں گسل اور خون آشام گو نا گوں ٹیکسوں سے نہیں بھر تا جن کے با ر گراں سے قو میں کراہ رہی ہیں اور ان کی صلاحیتیں اور اہلیتیں ختم اور فنا ہو رہی ہیں اور اس ظلم وجو ر سے بچنے کے لیے غیر قانونی تد بیروں کے اختیار کر نے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کسی طرح ان ٹیکسوں کی گراں بار شرح سے بچ سکیں، اور مضطرانہ جد وجہد میں ضمیر ،دین ودیانت اخلاق کی حدود سے تجاوز کر کے تباہ ہورہے ہیں، کیا یہ کافی نہیں ہے کہ اب زکوٰة وصدقات جو محض فقراء اور یتامیٰ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حلال کئے ہیں ان کو بھی ٹیکس قرار دے کر شرح بڑھا نے اور من مانے طر یق پر خرچ کر نے کی غرض سے اپنے ایجنٹوں سے فتوے حاصل کر کے ضروریات دین میں تاویل وتحریف کی جارہی ہے، تاکہ حکمرانوں اور اراکین وافسران حکومت کی ہوس رانیوں اور غیر اخلاقی عیش کو شیوں کی تکمیل اور حرص وآز کے جہنم کو بھر نے کا سامان کیا جائے۔فا نا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
حج
اسی طرح حج اللہ جل جلالہ کی ایک مخصوص عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کی تجلیات خاصہ کے مر کز قدیم بیت اللہ کی عاشقا نہ زیارت اور مشتا قانہ طواف وسعی، برکات وسعادت اور رحمت ورضوان الٰہی کے خصوصی روحانی فیوض کے حصول کا ذریعہ ہیں، ان مشاہد مقدسہ میں حاضر ی اور اس طرز کی والہا نہ عبادات دلوں کے تز کیہ، روحوں کے تجلیہ اور ورع وتقویٰ کے حصول کے وسائل اور عبد یت کے کامل ترین مظا ہر ہیں اور یہی اظہار عبد یت حج کی علت غائیہ ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ اس کے ذریعہ اور دوسرے انفرادی واجتماعی فوائد ومنافع بھی حاصل ہوجاتے ہیں ،ایک مقدس خطہ زمین پر ہر سال تمام ممالک اسلامیہ وغیرہ کے مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے ،اس بے مثل عظیم اجتماع سے گو نا گوں دنیاوی منافع بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ” اسلام میں حج درحقیقت ان عرب اور غیر عرب اقوام کی جو بیت اللہ کی عظمت کی قائل ہیں ایک سالانہ کا نفر نس کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، اور یہی اسلامیان عالم کا سالانہ اجتماع حج کی علت غائیہ ہے۔“ صریح کفر ہے ،العیاذ باللہ۔ قرآن حکیم تو تمام نو ع انسانی کو خطاب کر کے اعلان کررہا ہے۔
”وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔“ (آل عمران:۹۷)
ترجمہ:۔ لوگوں پر محض اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے جو سفر کر نے کی قدرت ر کھتے ہوں۔“
اور اللہ جل شانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمارہے ہیں:
”واذن فی الناس با لحج یأ توک رجالاً وعلی کل ضا مر یأ تین من کل فج عمیق۔“ (الحج:۲۷)
ترجمہ:۔ اے ابراہیم ! تم لوگوں میں حج کا اعلان تو کر دو لوگ پا پیا دہ اور ہر نحیف ولاغر اونٹنی پر سوار،دور درازوادیوں کے سفر طے کر کے ضر ور آئیں گے۔“
اسی لئے اس مقدس تر ین عبادت کو ملت ابراہیمی اور دین محمدی کے شعا ئر میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں:
” اگر باوجود استطاعت کو ئی حج نہ کرے تو چا ہے وہ یہودی مرے، چا ہے نصرانی مرے، اللہ جل شانہ کو اس کی کوئی پر وانہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے نبی کی تائید میں فرمادیا:
”ومن کفر فان اللّٰہ غنی عن العالمین۔“ (آل عمران:۹۷)
ترجمہ:۔ اور جو نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کو تو تمام جہان والوں کی بھی پر واہ نہیں۔“
اگر ان خر د باختہ ملحدوں کے قول کے مطابق حج صرف مسلمانانِ عالم کی ایک سالانہ کانفر نس ہوتی تو حکومتوں کو اختیار ہو تا جہاں چاہتیں یہ اجتماع کر اتیں۔ پھر اس وادی غیر ذی زرع کی کیا ضرورت تھی، اور کیوں پابندی ہوتی، کہیں وادی کشمیر یا سو ئزرلینڈ جیسی سر زمین میں اس کا انعقاد ہوا کرتا : استغفر اللّٰہ العلی العظیم
پس واضح اور قطعی طور پر سمجھ لیجئے کہ نماز عبادت ہے، ورزش ہر گز نہیں، روزہ عبادت ہے، حفظان صحت کی تد بیر ہر گز نہیں۔ زکوٰة عبادت ہے، مالی ٹیکس ہر گز نہیں۔ حج عبادت ہے، سالانہ کا نفر نس ہر گز نہیں۔ ان چار عبادتوں پر دین اسلام کی عمارت اسی طرح قائم ہے جیسے کلمہ شہادت پر اور یہ پانچوں بنا ء اسلام کے اساسی ارکان ہیں۔ خاتم انبیاء، سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے:
”بنی الا سلام علی خمس شھا دة ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدارسول اللّٰہ۔واقام الصلاة ۔ وایتاء الز کوٰة ۔ وصوم رمضان ۔ وحج البیت۔
ترجمہ:۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ۔۱:… اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت۔ ۲:… نماز قائم کرنا۔ ۳:… زکوٰة ادا کرنا۔ ۴:… رمضان کے روزے رکھنا ۔ ۵:…بیت اللہ کا حج کرنا۔“
جس طرح کلمہ شہادت یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لا نا ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح نمازروزہ، زکوٰة اور حج۔ بعینہ اس متواتر شرعی صورت میں جس پر امت چودہ سو سال سے عمل کرتی چلی آرہی ہے ، فرضیت پر ایمان لا نا بھی فر ض ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادات عظمی سمجھنا بھی فرض ہے، ان عبادات محضہ کو اللہ تعالیٰ کی محض عبادت نہ سمجھنا بھی کفر ہے، جس طرح سرے سے ان کا انکار کرنا کفر ہے، یہی حکم ان تمام” نصوص قطعیہ “اور” ضروریات دین“ کا ہے جن پر چودہ سو سال سے امت کا اجماع ہے اور علی التو اترا مت ان کو مانتی اور ان پر عمل کرتی چلی آرہی ہے، یہ دین کے وہ قطعی احکام ہیں جن میں انکار اور تاویل دونوں کفر ہیں، جس طرح نماز کو ورزش کہنا کفر ہے، حج کو کا نفر نس کہنا کفر ہے، ٹھیک اسی طرح زکوٰة کو ٹیکس کہنا اور ایک عورت کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کہنا بھی کفر ہے۔
افسوس ہے کہ ان ڈاکٹروں اور ڈائر یکٹروں کو نہ تو علماء دین سے علم دین حاصل کرنا نصیب ہوا اور نہ صالحین متقین کی صحبت نصیب ہوئی، علم دین اگر سیکھا تو یور پین معلمین اور مستشر قین سے اور وہ بھی دارا لکفر اور کا فر انہ ماحول میں اور صحبت نصیب بھی ہوئی تو کافروں اور اعداء ایمان واسلام کی اورعدو بھی ایسے شاطر اور فر زانہ جو دشمنی کریں، دوستی کی شکل میں، ان عوامل ومحرکات کے نرغہ میں دارالکفر کی معاشرت اور کفار کی صحبت کے اثرات سے اسلامی فطرت کا مسخ ہو جا نا لازمی اور لا بدی امر ہے ،سچ فرمایا۔ اصدق القائلین صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
”کل مو لود یو لد علی الفطرة فا بواہ یھودانہ اوینصر انہ اویمجسانہ۔“
ترجمہ:۔”ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پرپیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔“
اور یہ تو ہمار احسن ظن ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ نیت ہی فاسد ہو چکی ہے، صرف علوم دینیہ سے جہل ہی نہیں ہے بلکہ عمدا ًدین میں تاویلیں اور تحر یفیں کر کے اس کی بیخ کنی کا بیڑہ اٹھا چکے ہیں ،ایمان ودیانت کے متاع گراں مایہ کی نعمت ہی سے محروم ہو چکے ہیں۔
چونکہ عوام میں ہر دلعز یزی مطلوب ہے، اس لئے کہ مسلمان بن کر اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں اور قرآن وحدیث کا نام لئے بغیر رائے عامہ کو اپنے لئے ہموار نہیں کر سکتے ،اسلامی معاشرہ میں، اسلامی ملک میں صاف وصریح نصوص قرآنیہ کا انکار کر نے کی جرات وہمت نہیں ہے ،اس لئے چور دروازہ سے داخل ہو کر اور ابدیت قرآن کا نعرہ لگا کر تا ویلات وتحر یفات کی راہ سے” منصوص قرآن“ کی ہدیت کو مٹا نے پر تلے ہوئے ہیں، در حقیقت یہ جد ید ملا حد ہ خواہ مستشر قین ہوں ،خواہ ان کے چیلے مستغر بین، ان سب کی کوشش یہی رہی کہ الحادفی الدین اور تحریف دین کے نت نئے طریقے نکالیں اور ضروریات دین میں تشکیک وار تیاب کی راہ سے ارکان دین و ایمان کی عظمت وعقیدت مسلمانوں کے دلوں سے ختم کریں اور اس پر فریب طریق پر اسلام اور مسلمانوں سے انتقام لے کر اپنے دلوں کوٹھنڈا کریں، اس لئے ہم مجبور ہیں کہ اس پو شیدہ وپنہاں الحادو زندقہ کا تارو پود بکھیر دیں اور ان مد عیان علم وعقل کے سامنے ان کے علم وعقل کا آئینہ رکھ دیں کہ دیکھو اس میں اپنے جہل کی مکر وہ وقابل نفر یں صورت۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون.
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب !
Flag Counter