Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 12
مولانا سید احمد شاہ بخاری اور ان کے ارشادات !
مولانا سید احمد شاہ بخاری اور ان کے ارشادات

امام اہلسنت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد اور جید عالم دین تھے، قیام پاکستان سے پہلے آپ نے سرگودھا سے ۱۵/میل مشرق میں مدرسہ عربیہ دار الہدیٰ قائم کیا، مدرسہ کے سرپرست چوکیرہ کے رئیس میاں خان محمد کلیار تھے، قصبے سے ۲/فرلانگ کے فاصلے پر جنوب مغرب میں میاں صاحب کا خوبصورت باغ تھا، اس کے جنوب میں ایک نہر بہتی تھی، باغ کے شمال میں میاں صاحب کا بنگلہ تھا، اس کے ساتھ ہی ایک خوشنمامسجد تھی، مسجد کے قریب ہی مدرسہ کے کمرے تھے جہاں ۷۰/۶۰ طلبہ زیر تعلیم تھے، یہ طلبہ دور دراز سے یہاں آئے تھے کہ:
ہر کجا چشمہٴ شیریں بود
مردم ومرغ ومور گرد آیند
میں ۱۹۵۴ء میں یہاں داخل ہوا،اس وقت یہاں کے صدر مدرس واں بھچراں (ضلع میانوالی) کے مولانا غلام یٰسین تھے، یہ حضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے، بھیرہ کے مولانا خدا بخش تھے اور گجرات کے مولانا غلام سرور، مولانا منظور احمد چنیوٹی یہاں بالکل نوعمر استاد تھے، یہ ۱۰/۱۲ طالب علموں کو صرف پڑھاتے تھے، میرا ہدایہ اولین کا سبق شاہ صاحب کے پاس تھا۔
میری موجودگی میں یہاں مولانا احمد علی لاہوری تشریف لائے، یہ میاں صاحب کے مرشد تھے، امیر شریعت اور شیخ القرآن بھی یہاں آئے، ہمیں ان حضرات کی مجالس نصیب ہوئیں، امام اہلسنت کی زندگی انتہائی سادہ تھی، ان کا لباس ، رہن سہن اور بات چیت میں بالکل سادگی تھی، کوئی تصنع نہ تھا:
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے؟
ان کی ذات مجمع کمالات تھی، اس لئے انہیں کسی بناوٹی سجاوٹ کی ضرورت نہ تھی:
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدانے دی
کہ دیکھو خوشنما لگتا ہے کیسا چاند بن گئے
مگر اس کے باوجود سب لوگ ان کے مرتبہ ومقام سے آگاہ تھے:
نگاہیں کاملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چھپتا ہے اکبر پھول پتوں میں نہاں ہوکر؟
وہ البذاذة من الایمان کی جیتی جاگتی تصویر تھے، رحیم بخش ان کا خادم خاص تھا، شاہ صاحب کے تہ بند کے کنارے دونیاں بندھی رہتی تھیں، روزانہ اسے ایک دونی دیتے، وہ آدھ سیر دودھ لاتا اور انہیں سونے کے وقت پیش کرتا، لسی پیتے تھے ، چائے نہیں ، بلکہ ایک بار مجھے بھی بلاکر نصیحت فرمائی کہ: ”چائے نہ سردی کا علاج ہے نہ نزلے کا،،ان کا دل خدا وررسول ا کی محبت سے لبریز تھا، یہاں سونے چاندی کی طلب کی کوئی جگہ نہ تھی، ان کے کلام میں بلا کا اختصار ہوتا، زہد اور کم گوئی حکمت ودانائی کا سبب ہیں، حضور ا نے فرمایا:
”اذا رأیتم الرجل قد اعطی زہدا فی الدنیا وقلة منطق فاقتربوا منہ فانہ یلقی الحکمة،،۔
ترجمہ:…”جب تم کسی ایسی شخص کو دیکھو جس کے دل میں دنیا کی محبت نہ ہو اور اس کا کلام مختصر ہو تو اس کا قرب حاصل کرو، کیونکہ اسے حکمت القا کیجاتی ہے،،۔
ان کی زندگی قناعت سے عبارت تھی، بقول بابا فرید : ”رکھی سکھی کھاکے ٹھنڈا پانی پی ویکھ پرائی چو پڑی نہ تر سائیں جی،، ان کی تنخواہ صرف ۱۰۰/روپے تھی مگر نہ انہوں نے کبھی اضافے کی فرمائش کی، نہ مدرسہ چھوڑا ۔
سرگودھا سے لالہ موسیٰ کو جانے والی ریلوے لائن پر دوسرا سٹیشن اجنالہ ہے، اس کے قریب ہی اجنالہ گاؤں ہے، یہیں شاہ صاحب کا گھر ہے، یہاں بہت سے شیعہ گھرانے آباد ہیں، شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اجنالہ کے شیعوں نے مجھے کہا: احمد شاہ! تم کیوں گھر سے باہر رہ کر نوکری کررہے ہو؟ہم تمہیں دو، دو، چار چار ایکڑ زمین اکٹھی کرکے مربعہ زمین کا دے دیتے ہیں اور تم شیعہ ہوجاؤ، شاہ صاحب نے فرمایا کہ: میں نے انہیں کہا کہ زمین کی ضرورت نہیں، تم اپنے مذہب کو سچا ثابت کردو تو میں شیعہ ہوجاؤں گا (لیکن اس مطالبے کو پورا کرنا ان کے اختیار میں نہ تھا):
برو ایں دانہ برمرغ وگرِنہ
کہ عنقارا بلند است آشیانہ
مجھے شاہ صاحب کے جواب سے تعجب نہیں ہوا، بلکہ ان کے سنہری جال بچھانے پر حیرت ہوئی کہ شاہ صاحب تو خیر خدا رسیدہ بزرگ تھے، کوئی ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی مربعہ زمین تو کیا ہفت اقلیم کی سلطنت کو بھی ایمان کے مقابلے میں پائے استحقار سے ٹھکرا دے گا:
جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا
موحد چہ برپائے ریزی زرش
چہ شمشیر ہندی نہی برسرش
امید وہراسش نباشد زکس
برینست بنیاد توحید وبس
شاید انہوں نے شاہ صاحب کو مولوی اسماعیل گوجروی سمجھا جو مال کمانے کے لئے شیعہ ہوگیا اور مرگیا ”ما اغنی عنہ مالہ وماکسب،،
مبادا دل آں فرومایہ شاد
کہ از بہردنیا دہد دیں بباد
شاہ صاحب کا ہرکام صرف اللہ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لئے ہوتا تھا ،وہ کسی کی تحسین وآفرین کے منتظر نہیں رہتے تھے:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور وخیام سے گذر بادہ وجام سے گذر
یہ الگ بات ہے کہ ہر محفل میں ان کی تعظیم وتکریم کی جاتی تھی، شاید وہ حضور اکی یہ دعا پڑھتے ہوں اور اسی کا یہ اثر ہو:
”اللہم اجعلنی شکورا واجعلنی صبورا واجعلنی فی عینی صغیرا وفی اعین الناس کبیرا،،۔
ترجمہ:…”اے اللہ! مجھے شکر گذار بنادے، مجھے صابر بنادے، مجھے اپنی نظر میں چھوٹا بنادے ،اور لوگوں کی نگاہ میں مجھے بڑا بنا دے،،۔
میں ۱۹۷۰ء میں جامعہ محمدی شریف (جھنگ) کے شعبہ دار العلوم میں مدرس تھا، معلوم ہوا کہ ایک قریبی گاؤں میں عشاء کے بعد شاہ صاحب کی تقریر ہے، ہم کئی آدمی تقریر سننے وہاں چلے گئے ،دو نوجوان اسپیکر پر نعت پڑھ رہے تھے اور لوگ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے نعرے لگا رہے تھے، ان کے بعد شاہ صاحب کا خطاب تھا، آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد آیت کریمہ ثانی اثنین تلاوت کی اور فرمایا: پہلے نعت خوانی تھی، آپ نعرے لگاتے رہے، لیکن میری تقریر کے دوران نعرے نہ لگانا، کیونکہ ایک تو میں ڈر جاتا ہوں اور دوسرے میں جو کچھ تمہیں سنانے کے لئے پکا کر بیٹھا ہوتا ہوں وہ مجھے بھول جاتا ہے، میں نے مولویوں سے پوچھا ہے کہ تم نعرے کیوں لگواتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس سے نیند جاتی رہتی ہے اور لوگ بیدار ہوکر تقریر سن لیتے ہیں تو یہ کوئی معقول وجہ نہیں ، نیند بھی خدا تعالیٰ کی نعمت ہے ،جسے نیند آجائے وہ سوجائے جو جاگتا رہے وہ سن لے (غالباً شاہ صاحب یہ چاہتے تھے کہ نعرہ بازی کی بجائے متکلم کی بات کو توجہ سے سننا اور سمجھنا چاہئے اور جس کے دل میں طلب صادق ہوگی ،اسے نیند آئے گی ہی نہیں)
کسی سے شاہ صاحب کی محبت اللہ کے لئے ہوتی تھی اور نفرت بھی اللہ ہی کے لئے۔ مولانا مودودی پاکستان میں اسلامی نظام کے داعی تھے، اس لئے شاہ صاحب کو ان سے محبت تھی لیکن جو نہی مولانا نے اپنی رسوائے زمانہ کتاب ”خلافت وملوکیت،، لکھی، شاہ صاحب نے بغیر ایک لمحہ کی تاخیر کے ان سے اپنا تعلق توڑلیا، انہیں دنوں میری آپ سے سرگودھا میں ملاقات ہوگئی، اور آپ سے حسب ذیل گفتگو ہوئی: حضرت ! مولانا مودودی نے کتاب ”خلافت وملوکیت،، لکھی ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شاہ صاحب :سید صاحب نے اب تک جو کتابیں لکھی ہیں اور ان پر جو ثواب بھی خدا کی طرف سے انہیں ملا ہوگا، وہ سب برباد اور ضائع ہوگیا ہے اور میں اس پر کعبہ جاکر قسم کھاؤں تب بھی حانث نہیں ہوں گا۔
حضرت ! مولانا نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے رشتہ داروں کو گورنر بنایا، اس لئے لوگ ان کے خلاف ہوگئے اور انہیں شہید کردیا؟
شاہ صاحب : گورنروں کا تقرر خلیفہ کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے، جسے وہ اہل سمجھے، عہدہ دیدے، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ، البتہ حضرت عثمان نرم مزاج تھے اور نرم مزاجی کوئی گناہ نہیں اور فرمایا: حضور ا کی صاحبزادیاں: حضرت رقیہ وحضرت ام کلثوم یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں فوت ہوئیں تو آپ ا نے فرمایا: میری ۴۰ بیٹیاں ہوتیں تب بھی میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان کو نکاح کرکے دیتا رہتا اور آپ انے فرمایا: ”ماضر عثمان ما عمل بعد الیوم“ وہ نماز ، روزہ بھی چھوڑ دیتے ،تب بھی ان کا یہی مرتبہ ہوتا۔
حضرت! مولانا مودودی نے یہ کوئی نئی بات تو نہیں لکھی، یہی کچھ سید قطب نے بھی لکھا ہے ۔
شاہ صاحب! وہ پھانسی لگ گیا تھا ․․․․․․۔
حضرت! اسے کتاب لکھنے سے تو پھانسی نہیں ہوئی ،ایک ظالم حکمران نے اسے پھانسی دیدی۔
شاہ صاحب! او بھولیا! مریندا آپ اے ناں گورے دانددا کریندا(ارے نادان ! گورا بیل کسی کو ہلاک کرتا ہے تو اس کا صرف نام ہوتا ہے دراصل مارنے والا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے)
تیر ارچہ از کماں گذرد
از کماندار داند اہل خرد
جنت البقیع میں سڑک کی سیدھ میں ایک گول چکر میں صرف حضرت عثمان کی قبر ہے، میں وہاں گیا اکیلا ہی تھا، بے اختیار مجھ پر ایسا گریہ طاری ہوا جو اور کسی جگہ نہیں ہوا، دیر تک روتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ یہ وہ ہے جس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے آپ ا نے ۱۴۰۰ صحابہ کرام سے جانیں قربان کرنے کی بیعت لی تھی، یہ وہ ہے کہ جس کے گھر حضور اکی دو نور نظر بیٹیاں رہیں اور سدا خوش رہیں، یہ وہ ہے جس نے آپ اسے وفا کی اور قمیص خلافت نہ اتاری، یہ وہ ہے جس نے جوار رسول ا چھوڑ کر شام جانا منظور نہ کیا اور اہل مدینہ کی تکلیف کے پیش نظر یہاں فوجی دستہ رکھنے کی اجازت بھی نہ دی ، یہ وہ ہے جس نے امت کو ایک قرآن پر جمع کیا۔ یہ روزہ کی حالت میں شہید ہوا، اس کی شہادت کی گواہی قرآن دے گا ، یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا خلیفہ راشد تھا، یہ وہ ہے جسے آج بھی بیگانے ہی نہیں ،اپنے بھی ایذاء دے رہے، کاش! وہ یہ سمجھ سکتے کہ وہ حضرت عثمان کا ساتھ دینے کی بجائے ابن السوداء کا ساتھ دے رہے ہیں:
بقول دشمن پیمانِ دوست بشکستی
بہ بیں کہ از کہ بریدی وباکہ پیوستی
شیعہ مناظر جسے وہ ”مبلغ اعظم مولانا محمد اسماعیل فاضل دیوبند آف گوجرہ،، کہتے تھے، نے گوجرہ سے ماہنامہ ”صداقت،، جاری کیا، اس کے پہلے صفحے پر یہ شعر درج کیا:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
شاہ صاحب نے چوکیرہ سے اس کے مقابلے میں ماہنامہ ”الفاروق،، جاری کیا اور اس مذکورہ شعر پر یہ تبصرہ کیا: خدا کی قدرت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مخالف انہیں کی سیرت اپنانے کی نصیحت کر رہے ہیں، اس لئے کہ شعر میں صداقت سے مراد حضرت ابوبکر صدیق کی صداقت مراد ہے اور عدالت سے مراد عدل فاروقی اور شجاعت کا مصداق حضرت علی کی شجاعت ہے۔ نیز تم تو امام کو منصوص من اللہ کہتے ہو، جب لوگ یہ صفات اپنا کر امام بن گئے تو کیا یہ منصوص من اللہ ہوں گے؟
وہ علماء کو ”مولوی،، ہی کہتے تھے یعنی اللہ والا۔وہ ائمہ مساجد کو مسجدوں کے ڈرائیور کہتے تھے یعنی جیسے سواریاں ڈرائیور کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں، ایسے ہی مقتدی امام کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں،وہ چاہے تو انہیں ہدایت کے راستے پر لے جائے اور چاہے تو گمراہی کی کھائی میں گرا دے، اگر دو چیزوں میں مباعدت اور بون بعید ظاہر کرنا ہوتا تو فرماتے ”کجا گٹا، کجا بھربھٹا،، یعنی کہاں ٹخنے اور کہاں بھویں (گٹا کا معنی ہے ٹخنا اور بھر بھٹا بھویں کو کہتے ہیں) ۔
بدعت کی تعریف فرماتے ”غیر سنت را سنت پنداشتن،،۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم !
Flag Counter