Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 12
شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم !
شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم! (آخری قسط)

جیساکہ بخاری شریف میں ہے:
”وعنہ قال قال النبی ا لعن الله المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال“۔ ( مشکوٰة المصابیح‘ باب الترجل‘ ص:۳۸۰‘ ط سعید)
ترجمہ:۔”حضور انے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں“۔
# نبی اکرم ا سے براہ راست استفادہ اگرچہ ناممکنات میں سے نہیں‘ لیکن خود حضور ا نے اپنے سے بالواسطہ فائدے کا سلسلہ جاری فرمایاہے۔ گویا براہِ راست اصلاح وتربیت کا دعویٰ حضور ا کے جاری کردہ ظاہری نظام کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور جو شخص جھوٹ بول کر نبی اکرم ا سے براہ راست اپنا تعلق ظاہر کرے ،وہ بڑی سخت وعید کا مستحق ہے۔
صحابی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس نے حالتِ بیداری میں بحالتِ اسلام آپ اکی زیارت کی ہو اور پھر بحالتِ ایمان اس کی موت واقع ہوئی ہو۔ خواب میں آپ ا کی زیارت سے صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا‘ اس لئے شیخ امین کا یہ دعویٰ غلط ہے‘ جیساکہ کتاب التعریفات میں ہے:
”الصحابی ہو العرف: من رأی النبی ا وطالت صحبتہ معہ‘ وان لم یرو عنہ ا وقیل: وان لم تطل“ (باب الصاد‘ ص:۹۴‘ ط دار المنار)
صحابہ کرام کے بارے میں لب کشائی ایمان سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے ،آپ ا کا ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ کو برا مت کہو، جیساکہ مشکوٰة شریف میں ہے:
”لاتسبوا اصحابی فلو ان احدکم انفق مثل احد ذہبا ما بلغ مد احدہم ولانصیفہ متفق علیہ“ (ص:۵۵۳‘ط:قدیمی)
ترجمہ:۔”میرے صحابہ  کو برا مت کہو (کیونکہ ان کا مرتبہ یہ ہے کہ) تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے (خیرات کرے) تو ان کے ایک مد بلکہ نصف مد (جو) کے برابر بھی نہیں ہوسکتا“۔
نیز مظاہر حق میں ہے:
”عن عویمر بن ساعدة انہ ا قال ان الله اختارنی واختار لی اصحاباً فجعل لی منہم وزراء وانصاراً واصہارا فمن سبہم فعلیہ لعنة الله والملائکة والناس اجمعین ولایقبل الله منہم صرفاً ولاعدلاً“
(باب مناقب الصحابة ‘ ج:۵‘ ص:۶۲۲)
ترجمہ:۔”حضور اکرم ا نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا ان کو میرا وزیر‘ مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کی‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قبول نہ کرے گا“۔
اور فتح المغیث میں امام ابوزرعہ رازی (جو امام مسلم کے اجل شیوخ میں سے ہیں) فرماتے ہیں:
”اذا رأیت الرجل ینتقص احدا من اصحاب رسول الله ا فاعلم انہ زندیق‘ وذلک ان الرسول حق‘ والقرآن حق‘ وماجاء بہ حق‘ وانما ادی الینا ذلک کلہ الصحابة ‘ وہؤلاء یریدون ان یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنة‘ والجرح بہم اولیٰ وہم زنادقة“۔
(معرفة الصحابة‘ ج:۴‘ ص:۹۴‘ ط:دار الامام الطبری)
لہذا مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص صحابہ کرام کی تنقیص کرتا ہے وہ گمراہ اور زندیق ہے‘ ایسے شخص کے ساتھ میل جول اور محافل میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے‘ ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔ تمام صحابہ کرام عادل‘ پرہیزگار متقی تھے‘ صحابہ کرام کو ناقص کہنے والا کبھی بھی خود کامل مومن نہیں ہوسکتا‘ ایسا شخص خود لائقِ اصلاح ہے‘ چہ جائیکہ دوسروں کی اصلاح کرے۔
# ادریس نامی بزرگ کا نام‘ نسب‘ قبیلہ الغرض مکمل تعارف اور سلسلہ ٴ ادریسیہ کا مکمل تعارف پیش کیا جائے‘ اس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
# صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور فقہاء اربعہ کا اس پر اجماع ہے کہ تراویح کی رکعت بیس ہیں۔ اگر دس رکعت تراویح پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ تراویح کی کل رکعات دس ہی ہیں تو ایسا شخص اجماع کا منکر ہے اور اگر بیس رکعت تسلیم کرنے کے باوجود دس رکعت پڑھتا ہے تو سنت مؤکدہ (جس کا اہتمام آپ ا نے ہمیشہ فرمایا) کا تارک ہے اور سنت کا تارک لائقِ ملامت ہے۔جیساکہ رد المحتار میں ہے:
”وحکمہا ما یؤجد علی فعلہ ویلام علی ترکہ (قول یلام) ای یعاقب بالتاء ولایعاقب کما افادہ فی البحر والنہر لیکن فی التلویح: ترک السنة الموکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”من ترک سنتی لم ینل شفاعتی“ وفی التحریر: ان تارکہا یستوجب التضلیل واللوٴم اھ والمراد الترک بلاعذر علی سبیل الاصرار“ (کتاب الطہارة ارکان الوضوء اربعة‘ ط:سعید) وکذا فی النہر الفائق‘ کتاب الطہارة‘ ج:۱‘ ص:۳۵‘ ط: امدادیہ ملتان) (وکذا فی العنایة علی ہامش فتح القدیر‘ ج:۱‘ص:۲۰‘ ط: مصطفی البابی مصر)
# رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے‘ جماعت کی نماز میں سستی غفلت ونفاق کی علامت ہے‘ احادیثِ مبارکہ میں جماعت کی نماز کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور تارک جماعت کے بارے میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں‘ جیساکہ مشکوٰة المصابیح میں ہے:
”عن عبد الله بن مسعود  قال لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلوٰة الا منافق قد علم نفاقہ او مریض ان کان المریض لیمشی بین رجلین حتی یاتی الصلوٰةوقال: ان رسول اللّٰہ ا علمناسنن الہدی وان من سنن الہدی الصلوٰة فی المسجد الذی یؤذن فیہ… (ج:۱‘ص:۹۶‘ط: قدیمی)
نیز الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
”والجماعة سنة مؤکدة للرجال قال الزاہدی: ارادوابالتاکید الواجب‘ وقال فی شرح المنیة: والاحکام تدل علی الوجوب من ان تارکہا بلاعذر یعزر‘ وترد شہادتہ ویأثم الجیران بالسکوت عنہ اھ“۔
(مطلب شروط الامامة الکیری‘ ج:۱‘ ص:۵۵۲‘ ط:سعید)
# طریقت وشریعت دونوں میں تلازم ہے‘ طریقت ہی وہی ہے جو شریعت کے مطابق ہو‘ اس سے متصادم نہ ہو۔ الغرض جو طریقت میں ہے وہ شریعت میں ہے اور جو شریعت میں ہے وہی طریقت میں ہے۔ سنن اور نوافل شریعت میں ثابت ہیں تو طریقت میں بھی ثابت ہیں تضاد کا دعویٰ غلط ہے۔ جیساکہ الفتاویٰ الجدیثیہ میں ہے:
”قال العلامة ابن حجر الہیثمی: ”الطریقة مشتملة علی منازل السالکین وتسمی مقامات الیقین والحقیقة موافقة للشریعة فی جمیع علمہا وعملہا واصولہا‘ وفروعہا‘ وفرضہا ومندوبہا‘ لیس بینہما مخالفة اصلاً“۔(باب السلوک‘ مطلب فی الفرض بین الحقیقة والشریعة‘ ص:۴۰۹‘ ط:قدیمی)
# نماز اللہ تعالیٰ کے نبی ا کو معاف نہیں اور نہ صحابہ کرام کو بلکہ آج تک کسی کو معاف نہیں ‘ نماز ہر حالت میں پڑھنی فرض ہے‘ کسی صورت میں معاف نہیں اور نماز چھوڑنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے‘ جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”عن جابر قال: قال رسول الله ا بین العبد وبین الکفر ترک الصلوة․․․․ وقال بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلوٰة“۔
( مشکوٰة المصابیح‘ ص:۵۸‘ ط: سعید)
ترجمہ:۔”یعنی حضور اکرم ا کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندے کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان وکفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے“۔
# اس لئے الہام اور معافی کا دعویٰ بے بنیاد من گھڑت اور جھوٹ ہے اور جھوٹے دعوے کرنے والا اور جھوٹ بولنے والا شخص مستحق عذاب وعقاب ہے۔
# برا کرتے ہیں رمضان میں کھانا‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا ہے‘ شیخ کی تربیت کا اگر یہ اثر ہے تو اس سے خود شیخ کی طبیعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
# کامل پیر کی صحبت میں بیٹھنے سے جس طرح دین کی رغبت نصیب ہوتی ہے، اسی طرح مصنفین کی کتابوں سے علماء ومبلغین حضرات کے وعظ ونصیحت وتقاریر سے دین حاصل ہوتا ہے‘ ورنہ دین کی نشر واشاعت کا ذریعہ صرف خانقاہیں ہوتیں جبکہ دین آج تک یا تو کتابوں سے یا وعظ وبیان سے مجاہدین کی تلوار سے پھیلا ہے‘ دین کو ایک شعبہ میں منحصر کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے‘ تاریخ اسلام کی کتابیں اس بات کی گواہ ہیں ،نیز یہ دعویٰ مشاہدہ کے بھی خلاف ہے۔ آج ساری دنیا میں دین ان تمام ذرائع سے پھیل رہا ہے اس کو ایک شعبہ میں منحصر کرنا مشاہدہ کے بھی خلاف ہے‘ لہذا شیخ امین کا اپنی تقاریر میں یہ دعویٰ کرنا کہ ”دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا“ غلط ہے۔
# فلمیں دیکھنا ‘ گانے سننا حرام ہے اور حرام کاری کی دعوت دینے والا منافق وفاسق ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہے جبکہ ان کوحرام سمجھتے ہوئے کرے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”المنافقون والمنافقات بعضہم من بعض، یأمرون بالمنکر وینہون عن المعروف ویقبضون ایدیہم، نسوا الله فنسیہم ،ان المنافقین ہم الفاسقون“۔ (التوبہ:۶۷)
ترجمہ:۔”منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں کہ بری بات کی تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں انہوں نے خدا کا خیال نہ کیا پس خدانے ان کا خیال نہ کیا بلا شبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں“۔
نیز مشکوٰة المصابیح میں ہے:
”وعن جابر قال: قال رسول اللّٰہ ا: الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع“۔ (باب البیان والشعر‘ الفصل الثالث ص:۴۱۱‘ ط:سعید )
نیز شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
”ویجوز ان یکون مرتکب الکبیرة مؤمنا غیر کافر“۔ (مرتکب الکبیرة ص۱۴۰ ‘ ط: قطر)
اور شرح العقائد کی شرح النبراس میں ہے:
”حتی انہ یخرج بالکبیرة واصرار الصغیرة عن الولایة“۔ (ص:۲۹۵…ط:امدادیہ ملتان)
البتہ جو شخص حرام کام کو اس کے حرام ہونے کے باوجود حلال سمجھے اور لوگوں کو اس حرام کام کے کرنے کی دعوت دے اور خود بھی اس کا ارتکاب کرے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
”استحلال المعصیة کفر اذا ثبت کونہا معصیة بدلیل قطعی“۔ (مطلب استحلال المعصیة کفر‘ ج:۲‘ص:۲۹۲‘ط: سعید)
# نیز کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور یہ بات پردہٴ غیب میں ہے‘ کوئی نبی‘ کوئی ولی بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ صحابہ کرام جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی جنتی ہونے کا دعویٰ نہ کبھی اپنے بارے میں کیا اور نہ کبھی کسی دوسرے کے بارے میں کیا۔ آج پندرھویں صدی کا آدمی کیسے دعویٰ کررہا ہے؟
# نعت سننا اچھی بات ہے‘ لیکن دورانِ نعت جھومنا ‘ تالیاں بجانا اور شور مچانا جیساکہ فساق وفجار موسیقی کی محافل میں کرتے ہیں‘ خلافِ ادب ہے۔
# ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے‘ نماز جان بوجھ کر قضاء کردینا گو بعد میں پڑھ بھی لی جائے‘ سخت گناہ ہے۔ احادیث میں نماز کو اس کے وقت میں نہ پڑھنے کے بارے میں سخت قسم کی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”روی انہ علیہ السلاة والسلام قال: من ترک الصلاة حتی مضیٰ وقتہا ثم قضیٰ عذب فی النار حقبا والحقب ثمانون سنة‘ والسنة ثلثمائة وستون یوما کل یوم کان مقدارہ الف سنة“۔
ترجمہ:…”حضور اکرم ا سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضاء کردے‘ گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا (اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی)
نیز دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا بھی جائز نہیں‘ احادیث مبارکہ میں اس بارے میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں۔جیساکہ ترمذی شریف میں ہے:
”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ا من جمع بین الصلوٰتین من غیر عذر فقداتی بابا من ابواب الکبائر“۔ ( ج:۱‘ص:۶۶)
ترجمہ:…”نبی اکرم ا کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ گیا (یعنی اس نے کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا“۔
نیز فتاویٰ شامی میں ہے:
”ولاجمع بین فرضین فی وقت بعذر سفر ومطر خلافا للشافعی ولابأس بالتقلید عند الضرورة“۔ ( ج:۱‘ص:۳۸۱‘ط:سعید)
اس کا جواب نمبرچھ میں گذرچکا ہے۔
# گستاخ رسول کی موت پر خوشی منانا بظاہر آپ ا سے محبت وعقیدت پر محمول کیا جاسکتا ہے‘ لیکن ڈھول ڈھمکے‘ڈانس‘ باجے‘ گھونگھر وپہن کر ناچنا جائز نہیں ،خوشی منانا ممنوع نہیں‘ لیکن جو طریقہ اپنا یا گیاوہ ممنوع ہے‘ اسلام نے غمی وخوشی کی حدود واقع کی ہیں‘ کسی نبی یا ولی کو اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔ جیساکہ حاشیة الطحاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
”والتغنی حرام اذا کان یذکر امرأة مغنیة الی قولہ واما الرقص والتصفیق والصریخ وضرب الاوتار الذی یفعلہ بعض من یدعی التصرف فانہ حرام بالاجماع لانہا ذی الکفار کذا فی سکب الاتمر“۔ (فصل فی صفة الاذکار‘ ص:۳۱۹‘ط:قدیمی)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے ،اس لئے انسان کو انسانوں کی صفات زیبا دیتی ہیں، حیوانوں کی صفات اپنانا انسان کی انسانیت کے خلاف ہے۔
الغرض نماز‘ روزہ‘ زکوٰة اور فرائض شرعیہ ادا نہ کرنا اور مریدین کو اپنے کتے بن کر بھونکنے کے لئے کہنا اور رنڈیوں کو ناچ گانے کی اجازت دینا اور فواحشات کا مرتکب ہونا اور اپنے مریدین کو فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کی تلقین کرنا۔ نیز صحابہ کرام کی تنقیص کرنا (نعوذ باللہ من ذلک) یہ تمام افعال حرام اور کبائر اور موجبات فسق ہیں اور ان کو حلال سمجھنا کفر ہے اور جو لوگ ان فواحشات کے مرتکب اور ذمہ دار ہیں وہ زندیق ہیں ان کے حلقہٴ بیعت میں داخل ہونا حرام ہے۔ لہذا مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ شیخ امین عبد الرحمن ایک فاسق وفاجر شخص ہے ،اس میں شیخ بننے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے، خود اس میں عام مسلمانوں کی صفات بھی مفقود ہیں‘ اسے دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے‘ کسی بھی شخص کو شیخ امین عبد الرحمن (جو مذکورہ کردار کا حامل ہے) کی بیعت کرنا ناجائز وحرام ہے‘ اس سے اجتناب کیا جائے اور علاقے کے عوام کو اس حقیقت سے باخبر کیا جائے۔
الجواب صحیح
مولانا مفتی عبد المجید دین پوری
کتبہ
مولوی مختار احمد
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: مقربین الٰہی کی توہین کا وبال !
Flag Counter