Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 10
شراب کی حرمت اورقرآن
 شراب کی حرمت اورقرآن


مغربی پاکستان کے وزیر مالیات وآبکاری شیخ مسعود صادق نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں امتناع ِشراب کے سوال پر اسلامی مشادرتی کو نسل میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ہے، شیخ صاحب کا یہ بیان اپنی نو عیت کا انو کھا اور بے حددلچسپ بیان ہے ،اس لئے کہ شراب پرپابندی اسلامی مشاورتی کو نسل کے ارکان کے اختلاف رائے کا مطلب سوائے اس کے اور کیاہوسکتا ہے کہ اس ادارے کے بعض معززاراکین شراب بندی کے خلاف ہیں، جب اتنے واضح مسئلہ پر اس کو نسل کا یہ حال ہے تو آگے چل کر اھم تر قانون اور آئینی مسائل پر کیا ہوگا، اس کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔گناہ وثواب کا تصور اسلام میں انسان کی معاشرتی ،اخلاقی اور معاشی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، شراب نہ صحت کے لئے مفید ہے اور نہ مالی اعتبار سے سود مند ۔شراب کی ممانعت کے لئے یہی دو دلائل کافی ہیں۔ تعجب ہے اسلامی مشاورتی کو نسل میں اس پر کیسے اتفاق رائے نہ ہو سکا، شاید ایسے ہی مواقع کے لئے کہا گیا ہے۔
چوکفر از کعبہ بر خیز د کجا ما ند مسلمانی
خبر جس قدر افسوسناک ہے، مد یر جنگ کا تبصرہ اتناہی مسرت انگیز ہے، افسوس! کہ یہ ہے مشاورتی کو نسل کا کارنامہ، اناللہ۔
دین اسلام کی وہ ”ضروریات“ جن کا علم وعقیدہ وعمل ہر کلمہ گو مسلمان پر فرض ہے، مثلاً: پانچ نمازیں، ماہ رمضان کے روزے، زکوٰة ،حج بیت اللہ جس طرح یقینی وقطعی ہیں اور دین اسلام کے بنیادی مسائل ہیں ،ہر مسلمان پر ان کا جاننا بھی فرض اور عمل کرنا بھی فرض ہے۔ اسی طرح شراب، جوا،سود، زنا، چوری وغیرہ کی حرمت بھی یقینی وقطعی ہے، ہر مسلمان کو اسکی حرمت کا علم ہو نا اور اس کی حرمت پر عقیدہ رکھنا فرض ہے ،اور اس سے بچنا واجب ہے، کون نہیں جانتا کہ بہت سے حلال وحرام کے مسائل اسلام کے تشریعی نظام میں تد ریجی طور پر نافذ ہوئے ہیں، قطعی حرمت سے پہلے کچھ اشارات ہوئے ہیں، اس کے بعد قطعی تحریم نازل ہوئی ۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حساس طبیعتوں میں شراب نوشی کی قبا حتیں خود نجود آئیں اور بحثیں شروع ہوئیں ،بعض فوائد شمار کرنے لگے اور بعض مضار ونقصانات بتلا نے لگے اور سوالات شروع ہوئے، چنانچہ سورئہ بقرة کی آیت میں ارشاد ہوا ہے:
”ویسألونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما اثم کبیر ومنا فع للناس واثمہما اکبر من نفعھما۔“
ترجمہ :”وہ آپ سے شراب وجوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان دونوں کا گناہ فائدہ سے بہت زیادہ ہے۔“
چنانچہ اس سوال کے جواب میں صاف طور پر بتادیا کہ بے شک ان میں کچھ منفعتیں بھی ہیں، لیکن بڑا گناہ، اور گناہ ،نفع سے بہت بڑاہے۔اس آیت کے نزول کے بعد ہی محتاط طبیعتیں شراب نوشی کی عادت سے دستبر دار ہوگئیں، کسی موقع پر نماز مغرب باجماعت ہو رہی تھی، امام ”سورة الکا فرون “میں نشہ کی حالت میں” لا اعبد ماتعبدون“ کی جگہ ”اعبد ماتعبدون“ پڑھ گیا، ظا ہر ہے کہ مقصد بالکل معکوس ہوگیا، اور شرک سے اظہار برأت کی دعوت کی جگہ، شرک کی دعوت بن گئی، فوراََ آیت کر یمہ نازل ہوئی:
”یایھا الذین امنوا لاتقر بواالصلاة وانتم سکارٰی حتی تعلموا ماتقولون“
ترجمہ:” اے ایمان والوں! نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی مت جاؤ ،جب تک سمجھ نہ لو جو کچھ تم کہتے ہو۔“
اس حکم سے مزید نا پسند ید گی کا اظہار ہو گیا، لیکن ابھی تک حرمت کا صاف اعلان نہیں ہوا،تاہم بہت سے حضرات نے شراب نوشی بالکل چھوڑ دی اور جو مبتلا رہے ،انہوں نے بھی عصر اور مغرب کی نمازوں کے بعد اس لئے ترک کر دی کہ نمازوں کا وقت قریب ہوتا ہے۔
بہر حال یہ صاف و صریح اشارات اور قرآئن تھے کہ عنقریب حرمت کا اعلان ہونے والا ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دونوں آیتوں کے نازل ہونے کے بعد بہت بیتابی سے کہنے لگے:”اللّٰھم بین لنا فی الخمربیاناً شا فیاَََ“ :”اے اللہ! شراب کے بارے میں فیصلہ کن حکم فر مادیجئے۔“
مگر چونکہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچا ہوا تھا، دفعتاََ ممانعت کر نا مخاطبین کی عادت کے لحاظ سے آسان نہ تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ شانہ نے نہایت ہی حکیما نہ انداز میں اول اشارے کر کے نفرت بٹھلا دی ،گو یا ز مین پوری طرح ہموار کر دی، دین اسلام کا یہ حکیما نہ تد ریجی نظام نفسیاتی اعتبار سے کتنا عجیب ہے ،بالآخرسورئہ مائدہ میں جوقرآن کی ترتیب ِنزول سے آخری سورت ہے، قطعی ممانعت کا حکم ا س عجیب وغریب ومؤ ثر انداز سے جس میں ام الخبائث کی حرمت وممانعت کی حکمت اور اس کی گندگی کا درجہ سب کچھ بیان کردیا ،چنانچہ ارشاد ہوا:
”یاایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون، انما یرید الشیطان ان یو قع بینکم العداوة والبغضاء فی الخمروالمیسرویصدکم عن ذکر اللّٰہ وعن الصلاة، فھل انتم منتھون، واطیعو االلّٰہ واطیعوا الرسول واحذروا، فان تولیتم فا نما علی رسو لنا البلاغ المبین۔“
ترجمہ :”اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بالکل بچتے رہو، تاکہ تم کو فلاح ونجات ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تم میں شراب وجوے کے ذریعہ بغض وعداوت ڈالے اور رو کے تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے، کیا اب تم باز نہیں آؤ گے، اللہ ورسول کی اطاعت کرو اور (مخالفت سے) ڈرتے رہو، اگر تم (اب بھی) اعراض کرو گے تو ہمارے رسول کے ذمہ صرف کھول کر پہنچا دینا ہے۔“
دیکھئے اس آیت کریمہ میں شراب کی حرمت کس مؤ ثر انداز سے بیان فرمائی ہے، کسی حرام اور ممنوع چیز کی حرمت کا اعلان اس انداز سے نہیں کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ممانعت کی علت و حکمت بھی دینی ودنیوی دونوں پہلو سے بیان فرمادی، کسی تشریح وتفسیر کے بغیر صرف ترجمہ سمجھ کر اس آیت کو بار بار پڑھئے، اور سو چئیے کہ کتنا بلیغ پیر ایئہ بیان اختیار کیا گیا ہے ۔آیت کر یمہ جن نکات پر مشتمل ہے، ذیل میں اجمالاََ اس کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ خمر ومیسر کی شناعت وقباحت کومحسوس کر انے کے لئے انصاب وازلام کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا، یعنی بت پر ستی کی قباحت جس طرح واضح ہے، ٹھیک اسی طرح شراب نوشی کی شناعت بھی کھلی ہوئی ہے۔
۲۔ ”رجس“ گندی چیز ہے ،قابل نفرت ہے، ہر عقلمند کو نفرت کرنی چاہیے۔
۳۔ شیطانی عمل ہے۔ اس میں خیر کانام تک نہیں ،نہ ہی خیر کی تو قع رکھنی چاہئے۔
۴۔ جب اتنی بری اور قبیح چیز ہے تو اس سے اجتناب کرناچاہیے، اس کے قریب بھی نہ جانا چاہیے۔
۵۔ تمہاری فلاحِ دارین وبہبودی ہر پہلو سے اس سے بچنے پر موقوف ہے۔
۶۔ خمر ومیسر کے ذریعے شیطان مو منین کے قلوب میں بغض وعداوت پیدا کرتا ہے، جن قلوب میں انتہائی محبت ومودت ہونی چاہیے، شیطان اس کے ذریعے اس کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
۷۔ شراب نوشی اور جو ے کے سبب اللہ تعالیٰ کی یاد جو مسلمان کے لئے سب سے بڑی دولت ہے ،اس سے محرومی ہوتی ہے۔
۸۔ نماز جیسی نعمت جو ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے اور دین کی عمارت کا بنیادی ستون ہے، اس سے شرابی غافل ہو جاتا ہے۔
۹۔ اتنی محسوس واضح برائیوں کے بعد کیا ایمان والے شراب نوشی سے باز نہیں آئیں گے؟کیا کوئی عاقل ان خرابیوں کے بعد اس معصیت کے ارتکاب کی جرأت کر سکتا ہے؟
۱۰۔ کلمہ ”ا نما“ قواعد بلا غت کی رو سے اس لئے لایا گیا کہ ان حقائق کے بد یہی ہونے کا دعویٰ کیا جائے ،یعنی کسی عاقل کو شک وشبہ کی گنجائش ان میں نہیں، یہ حقائق اتنے یقینی ہیں کہ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہیں، پھر اس حکم کے آخر میں اللہ ورسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا، تاکہ حجت پوری کردی جائے کہ ان احکام کا ماننا فرض ہے، پھر آخرت کے عذاب سے ڈر ایا گیا۔ اتنی صاف، صریح ہدایات واحکام پر بھی اگر عمل نہ کریں تو پیغمبرِ اسلام کا منصبی فریضہ پورا ہو گیا۔
غور فرمایئے !کہ حرمت کے اعلان کے لئے کتنا مؤ ثر وبلیغ طر ز اختیار فرمایا گیا ہے، ان حقائق کے بعد کتنا احمقا نہ خیال ہے اور کتنا جا ہلا نہ تصور ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن کریم نے نہ تو صریح حرام کا لفظ استعمال کیا ہے،اور نہ ہی ان محرمات کا جہاں ذکر ہے، وہاں بیان کیا ہے، اثم، رجس، اجتناب،انتہاء، عمل شیطان، سببِ بغض وعداوت، نماز و ذکر اللہ سے غفلت کا باعث وغیرہ وغیرہ، تعبیرات سے کیا ایک لفظ حرام زیادہ مؤ ثر ہوسکتا ہے؟ کیا کسی چیز کی ممانعت کی ایک ہی تعبیر ہو سکتی ہے، کل کو زنا کے بارے میں بھی کہا جائے گا کہ حرام کا لفظ کہاں ہے؟ وہاں تو صرف” لا تقر بوا الز نا“، کا حکم ہے وغیرہ وغیرہ ۔کیا اس قسم کے خرافات، علمی دلائل کے سامنے کچھ وقعت رکھتے ہیں ؟
بعض خرد با ختہ اونچے منصب والوں سے میں نے خود سنا ہے کہ جس چیز میں حکومت کا انٹر سٹ ہویا خارجی سیاست کا تقاضا ہو ،اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، انا للہ وانا الیہ راجعون، کیا ایسی باتیں بھی تبصرہ وتنقید کی محتاج ہیں؟افسوس کہ ایسا دور آگیا ہے کہ آج دین اسلام کے مسلمات ،دین محمدی کے مہمات اور ضروریات وقطعیات، شریعت اسلامیہ کے محاسن وکمالات بھی محل شبہات بن گئے ،کیا ہماری اس اسلامی مملکت کے ارباب ِحل وعقد اور مشاورتی کو نسل کے اراکین شعائر اسلام اور مسلمات دین میں اسی طرح اختلاف کرتے رہیں گے؟ اس کا حاصل تو یہی رہا کہ مسلمات میں شکوک پیدا کر کے فیصلہ شدہ احکام کو مجروح کر دیا جائے، کرنا کیا چاہئے تھا اور کر کیار ہے ہیں؟ کیا شراب جیسی چیز جس کی حرمت دین اسلام کی قطعیات میں داخل ہے، جس کی خرابیوں ونقصانات پر امر یکہ ولندن میں کتابیں ومقالات لکھے جارہے ہیں ،جس کے ضررو نقصانات سے کافر بھی تنگ آگئے ہیں، اس ام الخبائث کی حلت پر غور کیا جارہا ہے ؟ خدارااسلام پر رحم کیجئے! آپ کو اگر پینا ہے تو پیتے رہیے، لیکن حرام کو حلال تو نہ بنائیے، اور فسق سے نکل کر کفر کے دائر ہ میں تو نہ آئیے، اور دین ودنیا کے دونوں وبال سے بچیئے ۔
 
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب
Flag Counter