عصر حاضر کے چیلنج اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
عصر حاضر کے چیلنج اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“۔ (القرآن)
ترجمہ:․․․”بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو اتاراہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔
نبی کریم انے فرمایا:
”لایزال الله یغرس فی ہذا الدین غرساً یستعملہم فی طاعتہ“۔ (ابن ماجہ‘ص:۳)
ترجمہ:”بے شک اللہ تعالیٰ اس دین میں پودے لگاتا رہتا ہے پھر اس کو اپنی طاعت میں استعمال کرتا ہے“۔
مندرجہ بالا آیت وحدیث سے دین اسلام اور علماء کرام کی بقاء وحفاظت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ اس لئے کہ جب قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی تو اس کے ضمن میں علماء کرام کی حفاظت بھی آگئی۔
قرآن کریم کی ایک ظاہری اور حسی حفاظت ہے اور ایک باطنی اور روحانی حفاظت ہے‘ باطنی حفاظت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام سے ہے اور ظاہری حفاظت کاتعلق علماء کرام اور مدارس ومساجدکے ساتھ ہے تو جب تک قرآن عظیم اپنے ظاہری وجود کے ساتھ دنیا میں موجود رہے گا علماء کرام کا وجود بھی باقی رہے گا۔
ابن ماجہ کی اس روایت میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلسل اس دین کے باغیچہ میں طلباء اور علماء کی شکل میں پودے لگاتا رہتا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہواکہ علماء کرام عوام الناس کی ہدایت کے لئے اور دین ودنیا کی رہنمائی کے لئے قیامت تک باقی رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا ہے اور سب سے آخر میں خاتم النبیین حضرت محمد ا کو مبعوث فرمایا اور آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند فرمادیا‘ آپ کے وصال کے بعد نبوت کی ذمہ داریاں بطور وراثت اس امت کے علماء کرام پر ڈالی گئیں‘ چنانچہ آنحضرت انے فرمایا: ”العلماء ورثة الأنبیاء“ یعنی علماء کرام انبیاء کرام کے وارث ہیں‘ قرآن وحدیث کے ارشادات کے مطابق اس امت کے علماء کا بہت بڑا مقام ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علماء کے حق میں فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہیں۔احادیث میں ہے
۱:- اللہ تعالیٰ جس شخص سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔
۲:- فرشتے طالب علم کی خوشنودی کے لئے اس کے قدموں کے نیچے پر بچھاتے ہیں۔
۳:- عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح چاند کی فضیلت ستاروں پر ہے۔
۴:- عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر ہے ۔
۵:- ایک فقیہ عالم شیطان پر ایک ہزارعابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
جب قرآن وحدیث میں علماء کا اتنا بڑا مقام ہے تو ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوں گی‘ نیز علماء کرام دین وعلم کی برکت سے کھاتے پیتے ہیں‘ عوام کے ہاں علم کی وجہ سے ان کی قدر ومنزلت ہے‘ گویا علماء کرام دین اسلام کے سپاہی ہیں‘ لہذا ان کو اپنے فرائض ایک دیانت دار سپاہی کی طرح ادا کرنے چاہئیں‘ بہرحال فتن جدیدہ کی بے شمار شکلیں ہیں جو علماء کرام کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء کرام ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوتے ہیں یا نہیں؟ چند بڑے بڑے فتنوں اور علماء کرام کی ذمہ داریوں کو ملاحظہ فرمائیں:
علوم عصریہ کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
علوم عصریہ سے موجودہ زمانہ کے جدید علوم مراد ہیں‘ جن کا تعلق خالص دنیا سے ہے اور جن کی بنیاد لارڈ میکالے نے رکھی ہے۔ ابتداء میں ہندوستان کے بڑے علماء نے اس کی مخالفت کی تھی مگر زیادہ تر علماء نے اس کو زبان دانی اور سلیقہ دانی سمجھ کر اس کی اجازت دیدی جس کے نقصانات آج مسلمان اٹھارہے ہیں‘ کیونکہ ان عصری علوم کا تربیت یافتہ اگر عیسائی نہ بھی بناتو وہ کام کا مسلمان بھی نہیں رہتا۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری نے فرمایا کہ: انگریز نے ہمارا تخت چھینا ‘ ہمارا تاج چھینا‘ ہمارا دین چھینا‘ اور ہمیں دین پر معترض بنا کر چھوڑا۔ لسان العصر اکبر الہ آبادی نے اپنے دور میں اس جدید تعلیم کے نقصانات پر شاعرانہ انداز میں بھر پور کلام کیا ہے‘ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
یہ بات تو کھری ہے ہرگز نہیں ہے کھوٹی
عربی میں نظم ملت بی اے میں صرف روٹی
کیا کہیں احباب کیا کارنمایاں کرگئے
بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی اور مر گئے
مسٹر نقلی کو عقبیٰ میں سزا کیسے ملی
شرح اس کی نامناسب ہے ملی جیسے ملی
اس نے بھی لیکن ادب سے کر دیا یہ التماس
چارہ ہی کیا تھا خدا تعلیم ہی ایسے ملی
طفل میں کیا آئے خوماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکارکی
کالج میں بگڑ جاؤ گے وسواس یہی ہے
تم پاس رہو میرے میرا پاس یہی ہے
نئی تعلیم میں بھی مذہبی تعلیم داخل ہے
مگر ایسے کہ جیسے آب زمزم قے میں داخل ہے
وہ حافظہ جو مناسب تھا ایشیاء کے لئے
خزانہ بن گیا یورپ کی داستانوں کا
علامہ محمد اقبال مرحوم نے بھی جدید عصری تعلیم کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ فرماتے ہیں:
اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
بابا شیخ سعدی نے اپنے دور میں صحیح اور غلط علم کے فرق کو اس طرح بیان کیا ہے :
سعدی بشوئے لوح دل از یاد غیر حق
علمے کہ رہ دوست نہ نماید بطالت است
یعنی اے سعدی اپنے دل کو ذکر الٰہی کے علاوہ ہرچیز سے دھو ڈالو‘ کیونکہ جو علم اللہ اور اس کے رسول کا راستہ نہیں دکھا تا وہ باطل اور فضول ہے۔
بہرحال علوم جدید وعصریہ نے اس وقت دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والے کو لوگ مجنون سمجھتے ہیں‘ حالانکہ تمام بیماریوں کی جڑ یہی عصری تعلیم ہے‘ لہذا علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کریں اور مسلمانوں کے بچوں کو الحاد کے اس سیلاب سے بچانے کی کوشش کریں‘اس کوشش کی ایک بنیادی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے اکابر علماء کرام ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ کے نام سے ایک مجلس عاملہ بنائیں‘ اس ادارے کا ایک رئیس ہو جو مفتی اعظم پاکستان سے متعارف ہو‘ اس کے ماتحت چاروں صوبوں سے مقتدر علماء کرام کی منتخب شوریٰ ہو‘ اس ادارہ کے شوریٰ کے ارکان متفقہ طور پر اپنے رئیس کے اعلان کے ساتھ فتویٰ جاری کرتے ہوں‘ جدید وقدیم مسائل ہوں یا نت نئے فتنے ہوں‘ دوٹوک اور واضح الفاظ میں اس کے حل کے لئے اس ادارہ سے فتویٰ صادر ہو‘تا کہ عوام وخواص اس فتویٰ کی اہمیت کو سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے‘ مثلاً عصری علوم کے لئے حکومتی سطح پر تیار کردہ نصاب تعلیم میں جو دفعات قرآن وحدیث سے متصادم ہیں اس کے خلاف جب علماء کی طرف سے متفقہ فتویٰ آئے گا تو یقینا پاکستانی عوام اس کو قبول کریں گے‘ جس کا اثر حکومت پر بھی ہوگا‘ جس سے نصاب تعلیم کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اگر نصاب تعلیم کی اصلاح ہوگئی تو معاشرہ کے ہر شعبہ پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
دیکھئے سعودی عرب کا نصاب تعلیم جب اچھا ہے تو سربراہ مملکت سے لے کر عام چپڑاسی تک سب کا ایک ہی دین اور ایک ہی سوچ ہے اور پاکستان کا نصاب تعلیم جب سیکولر ہے تو ایک ہی دفتر کے کارندے الگ الگ سوچ رکھتے ہیں‘ جس سے اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک افراتفری بلکہ طوائف الملوکی کا شکار ہے‘ پاکستان کی بنیادی خرابی اس کے نظام تعلیم کی خرابی کی وجہ سے ہے۔
اس موقع پر میں بعض دینی مدارس اور بعض علماء کرام سے درخواست کروں گا کہ اگر ممکن ہو تو وہ از خود سکولز وکالجز بناکر حکومت سے منظور کروائیں اور پھر اس میں علوم عصریہ کے ساتھ علوم شرعیہ کو شامل کرائیں‘ تاکہ مسلمانوں کے بچے عصری علوم کے ساتھ ساتھ شرعی علوم سے بھی آگاہ ہوجائیں‘ اس اقدام سے دنیا بھی بنے گی اور دین بھی ہاتھ سے نہیں جائے گا ‘ یا اگر بعض علماء یہ کام کریں کہ ہرشہر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کے لئے ذاتی طور پر بڑے بڑے ہاسٹل تعمیر کرائیں اور ان طلبہ کو ان ہاسٹلوں میں کرایہ پر بسائیں اور یہ شرط لگائیں کہ یہاں طلبہ کی مذہبی تربیت ہوگی ‘پھر ہفتہ وار ان طلبہ کے سامنے دینی بیانات کا انتظام ہوگا جس میں ان کو دین کے بنیادی عقائد واعمال کی تعلیم دی جائے گی ‘اس طرح ان طلبہ کو دنیوی علوم کے ساتھ دینی علوم کی تربیت کا فائدہ حاصل ہوگا اور ہاسٹل چلانے والوں کو ثواب بھی ملے گا اور دنیا بھی ملے گی ۔ اس پوری گفتگو سے میرا مقصد یہ ہے کہ علماء کرام دینی علوم کو عصری علوم کی درسگاہوں میں داخل کرائیں اور یہ نہ کریں کہ عصری علوم کو دینی علوم کی محدود درسگاہوں میں گھسائیں‘ کیونکہ خرابی عصری علوم میں ہے‘ جہاں خرابی ہے‘ اسی کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
فنون لطیفہکا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
عصر حاضر کے چیلنجوں میں سے ایک تباہ کن چیلنج میڈیا کا چیلنج ہے‘میڈیا سے مراد ٹی وی‘ وی سی آر‘ کیبل‘ آڈیو ویڈیو اور طبلے باجے ہیں جن سے بوڑھے ‘ بچے‘ جوان اور مرد وعورتیں یکساں طور پر تباہ ہورہے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ ان فحاشی کے مراکز سے فحاشی کی ترویج ہورہی ہے بلکہ ان اداروں سے ان پڑھ اور دینی علوم سے عاری ملحدین مسلمانوں کے عقائد اور نظریات سے بھی کھیل رہے ہیں‘ اس الحادی یلغار نے ہرشخص کو فضولیات میں پھنسا کر اپنی ذاتی ذمہ داریوں سے غافل کرکے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے ملک وملت کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے اور ملک کا ہر ادارہ خسارے کا شکار ہے اور لوگ کھیل کود میں گرفتار ہیں‘ اس وقت علماء پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے تشکیل کردہ ادارہ ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ کی طرف سے حرمت غنا ومزامیر اور آلات لہو ولعب کی حرمت پر ایک متفقہ فتویٰ صادر کریں اور پھر عام خطباء اور ائمہ مساجد اس کو عوام تک پہنچائیں اور خود علماء اپنی ذاتی زندگی کو ان قباحتوں سے دور رکھیں‘ اور یہ کوشش کریں کہ طبلے وسارنگی اور مزامیر کے بغیر ایسی نظمیں اور ایسے قصائد واشعار عوام میں متعارف کرائیں جن کی شرعی حدود میں اجازت ہو‘ جیساکہ افغانستان میں طالبان نے اپنے دور حکومت میں عوام کو اس طرح متبادل نظام دیا تھا اور عوام نے شوق سے قبول کیا تھا۔ پاکستان میں اگرچہ اسلامی حکومت نہیں ہے لیکن علماء کی نجی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
ثقافت غربیہ کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
ثقافت کا لفظ تو بہت عام ہے مگر میں یہاں ثقافت غربیہ سے مغربی اقوام کی تقلید اور ان کی طرز زندگی مراد لیتا ہوں‘ چنانچہ ثقافت غربیہ بھی عصر حاضر کے بڑے چیلنجوں سے ایک خطرناک چیلنج ہے‘ مسلمانوں نے بالعموم اور عورتوں اور نوجوانوں نے بالخصوص اس فتنہ کو اس طرح قبول کیا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کے دل ودماغ پر اس کا بھوت سوار ہوگیا ہے‘ مغربی ممالک میں ایک دن اگر لباس کا کوئی نیا فیشن آتا ہے تو دوسرے دن پاکستان کے مرد وخواتین اس کو قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں‘ خواہ اس فیشن کا تعلق رقص وسرود سے ہو یا لباس اور رسٹائل سے ہو‘ خواہ اس کا تعلق کھانے ‘ پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے سے ہو‘ خواہ اس کا تعلق میل ملاقات سے ہو یا القابات وخطابات سے ہو‘ اس طرح مسلم معاشرہ اپنے تاریخی ورثہ سے دور چلا گیا اور وہ مغرب ویورپ کے معاشرہ میں کھپ کر گم ہوگیا جس کے ساتھ ساتھ اس کے اقدار واطوار بھی تباہ ہوگئے اور اس کی عزتیں اور عظمتیں بھی پامال ہوگئیں‘ اب حالت یہ ہے کہ آج کے نوجوان اپنی گذشتہ عظمتوں پر فخر کرنے کے بجائے شرم محسوس کرتے ہیں۔
اس طرح کے فتنوں کے سامنے علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی ثقافت اور اسلامی معاشرت کو زیادہ اجاگر کرائیں اور واضح الفاظ کے ساتھ اپنی تحریر وتقریر میں جاہلیت اولیٰ اور جاہلیت ثانیہ جدیدہ کے فرق کو عوام کے سامنے پیش کریں اور اپنے اسلاف کے زرین اصولوں کو خود بھی اپنائیں اور دیگر مسلمانوں کو بھی بتائیں۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق سے جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے شام کے پادریوں سے ملاقات کے وقت لباس تبدیل کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا: ”الحمد لله الذی اعزنا بالاسلام“ یعنی تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہیں جس نے ہمیں اسلام کے ذریعہ سے عزت عطافرمائی ہے۔ اسی طرح عراق کے گورنر حضرت حذیفہ بن یمان سے جب عراق کے چوہدریوں کے سامنے کھانے کے انداز تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے بلند آواز سے کہا ”أأدع سنة خلیلی لہؤلاء الحمقاء“ کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے اپنے محبوب ا کی سنت کو چھوڑدوں؟ ایک طرف تو ہمارے اسلاف کی خود اعتمادی کا یہ نقشہ ہے اور اسلامی ثقافت کا یہ مظاہرہ ہے اور دوسری طرف یورپ ومغرب کی ثقافت کے دلدادہ ہمارے وہ نام نہاد مسلمان ہیں جو پاکستان کے مقتدر ادارہ قومی اسمبلی میں مغرب کی ثقافت اپنانے کی قسم کھاتے ہیں‘ چنانچہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی پاکستان کے وزیر قانون جناب عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب نے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک کی تحریک حرمت غنا ومزامیر کے جواب میں کہا: ”سندھ کا جھومرناچ‘ پنجاب کا بھنگڑا ناچ‘ سرحد کا خٹک ناچ اور بلوچستان کا لیوا ناچ پاکستان کا ثقافتی ورثہ ہے‘ پھر کرنل حبیب نے کہا: ”یہ لوگ باربار طوائفوں کا ذکر کرتے ہیں‘ جبکہ سارے آداب طوائفوں کی کوٹھیوں سے ملتے ہیں‘ یہ لوگ جاکر وہاں سے آداب سیکھ کرآئیں‘ میں (۲۰) بیس سال تک خود میوزک ڈانس کے ساتھ رہاہوں جو شخص میوزک نہیں جانتا وہ پاک آدمی بن نہیں سکتا ہے“۔ الغرض اس طرح آوارہ لوگوں کو راہ راست پرلانے کے لئے علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹھوس بنیادوں پر معاشرہ کی تشکیل کریں اور اس کی صحیح رہنمائی کریں اور آداب شریعت اور اسلامی ثقافت کی نشاندہی کریں اور ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اپنا متفقہ فتویٰ جاری کریں‘ تاکہ ملک کے عام خطباء وائمہ مساجد اس کو عام کریں اور عوام اس کی پیروی کریں ۔
این جی اوز کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
این جی اوز کا مطلب حکومت کے اندر چھوٹی حکومت ہے عصر حاضر کے فتنوں اور چیلنجوں میں این جی اوز بھی علماء کرام او رعام مسلمانوں کے لئے بڑا چیلنج ہیں مغربی اور یورپی ممالک کے یہودی ونصاریٰ نے مختلف ناموں سے ہزاروں این جی اوز بنائی ہیں جو امداد اور تعاون کے نام سے مسلمانوں میں کام کرتی ہیں‘ ظاہری طور پر تو ان کاکام بڑا خوشنما اور ہمدردی کا شاہکار ہوتا ہے کہ پل بنارہی ہیں‘ سڑک اور ہسپتال تعمیر کررہی ہیں اور پانی کی سپلائی میں مدد کررہی ہیں‘ لیکن اس کے پیچھے ان اداروں کے بڑے خطرناک مقاصد ہوتے ہیں‘ ایک تو غریب ممالک کے تعاون کے نام سے یہ ادارے عالمی بین الاقوامی فورموں سے بھاری مقدار میں چندہ وصول کرتے ہیں پھر اس پیسہ کو یہ لوگ اپنے مذہب کی ترویج کے لئے استعمال کرتے ہیں‘ چنانچہ لاکھوں غریب مسلمانوں کواین جی اوز نے عیسائی یا یہودی بنا دیا ہے‘ مسلمان ممالک میں ان اداروں نے نہایت چالاکی کے ساتھ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا ہے‘ انڈونیشیا‘ سوڈان اور بنگلہ دیش وغیرہ ممالک این جی اوز کے خاص نشانہ پر ہیں‘ جنگی حالت میں یہ ادارے کفار کے لئے جاسوسی کا کام بھی کرتے ہیں اور سیلاب زدہ یا زلزلہ زدہ اسلامی علاقوں میں نہایت سرعت کے ساتھ پہنچ کر یہ ادارے مسلمان بچوں کو چوری کرتے ہیں اور پھر اپنے ہاں لے جاکر اپنے مذہب پر ڈالدیتے ہیں‘ ایسے ماحول میں مصیبت زدہ لوگوں کے لئے بھیجے گئے اموال پر بھی یہ لوگ قبضہ کرتے ہیں اور پھر بھاری تنخواہوں پر مسلمان لڑکیوں کو ملازمہ رکھ کر ان کے ذریعہ سے مسلمان گھرانوں میں گھس کر پردہ نشین عورتوں کے گھریلو نظام میں فساد پیدا کرتے ہیں‘ کبھی حکومت کی سرپرستی میں اور کبھی علاقے کی خواتین اور علما ء سوء کے بل بوتے پر علاقے میں پیر جماتے ہیں‘ پھر فحاشی کے اڈے قائم کر دیتے ہیں‘ اس طرح زلزلہ زدگان کے لئے آیا ہوا مال زیادہ تر یہ لوگ ہضم کرجاتے ہیں ۔ افریقہ کے عیسائی ممالک میں یہ ادارے کام نہیں‘ حالانکہ وہ قحط کی وجہ سے زیادہ محتاج ہیں‘ بلکہ یہ لوگ مسلمان علاقوں میں گھس آتے ہیں اور ماحول خراب کرتے ہیں ۔آج کل پاکستان کا صوبہ سرحد اور بلوچستان ان کی زد میں ہیں ‘ حکومت پاکستان پر فرض ہے کہ وہ ایسے اداروں کو قابو میں رکھے اور ان کی کڑی نگرانی کرے‘ اور مصیبت زدہ مسلمانوں کی جان وایمان اور ان کے اموال کی حفاظت کرے‘ صوبہ سرحد کے زلزلہ زدگان کو ان کے تباہ شدہ مکان کے عوض صرف ڈیڑھ لاکھ روپے ملتے ہیں‘ آج چار سال پورے ہوچکے ہیں مگر یہ پیسے اب تک مکمل طور پر مصیبت زدہ لوگوں تک نہیں پہنچائے گئے ہیں‘ یہ تاخیری حربے اس لئے ہیں تاکہ این جی اوز کو ان علاقوں میں اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے زیادہ وقت ملے اور وہ مسلمانوں کی عزتوں سے دیر تک کھیلیں۔ علماء کرام کی ذمہ اری بنتی ہے کہ وہ عوام الناس کو این جی اوز کے خطرناک مقاصد سے آگاہ کریں اور عام اہل ثروت مسلمانوں کو ترغیب دیں کہ وہ غریب مسلمانوں کی اپنے ذاتی اموال سے مدد کریں ۔ نیز علماء کرام مخلص اور دیانت دار مالدار مسلمانوں کی مدد سے مؤلفة القلوب کے نام سے ایسے ادارے قائم کریں جہاں سے ان غریب مسلمانوں کی مدد ہوتی ہو۔ حکومت بھی اس کام میں تعاون کرے‘ تاکہ غریب مسلمانوں کا ایمان اور عزت وآبرو محفوظ رہ جائے ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ این جی اوز کی شرعی حیثیت کا تعین کرے‘ تاکہ این جی اوز اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں‘ اصحابِ قلم علماء پر لازم ہے کہ وہ مجدد الف ثانی کے طرز پر ملک کے حکمرانوں اور اصحاب حل وعقد کو اپنے مکتوبات کے ذریعہ سے دین اسلام کی بے بسی سے آگاہ کریں اور ناصحانہ انداز سے دین کی ترقی وحمایت کے لئے ان کی ہمدردی حاصل کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے غیر جانب دار خطوط سے بہت فائدہ ہوگا ۔
جمہوریت کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
جمہوریت کا مطلب ہے ‘ عوام کے ذریعہ سے عوام پر عوام کی حکومت۔ جس میں ہرقسم کی شخصی آزادی ہو‘ یہ ایک خوشنما جملہ ہے‘مگر اس کے اندر زہر بھرا ہوا ہے۔ یہود ونصاریٰ کے نزدیک جمہوریت گویا ان کا ایسا مذہب ہے جس کے ذریعہ سے وہ دنیا کے تمام مذاہب کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں‘ جمہوریت کا پہلا وار اسلام پر ہوتا ہے‘ جمہوریت یہودیت کا ایسا نظام ہے جس میں ذاتی اغراض کا اتنا دخل ہے جس کے سامنے نہ عقل باقی رہتی ہے اور نہ مذہب باقی رہتا ہے ۔ علامہ اقبال مرحوم نے اس پر سخت تنقید کی ہے‘ وہ فرماتے ہیں:
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
آپ نے یہ بھی فرمایا:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے جمہوریت کوقرآن کے احکامات کے خلاف قرار دیا ہے ‘ حضرت مولانا مفتی محمود مغربی جمہوریت کو لعنت قرار دیتے تھے‘ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے جمہوریت کو صنم اکبر کے نام سے یاد کیا ہے‘ درحقیقت جمہوریت میں اقلیت کو اکثریت پر حاکم بنایا جاتا ہے‘ جس سے ملک افراتفری کا شکار ہوجا تاہے‘ پھر ہرپانچ سال کے بعد نئے انتخابات کا ہنگامہ کھڑا کیا جاتا ہے‘ جس سے ملک کمزور ہوجاتا ہے‘ اس لئے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عفریت اعظم کے نقصانات سے مسلمانوں کو آگاہ کریں اور تشکیل حکومت کے اسلامی طریقے ان پر واضح کریں اور اسلامی خلافت کے قیام کی ضرورت ان کے سامنے بیان کریں اور ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ یہ فتویٰ جاری کرے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی خلافت قائم کریں‘ بہت ممکن ہے کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوجائیں۔ میں نے اپنی کتاب ”فتنہٴ ارتداد“ اور کتاب ”اسلامی خلافت“ میں جمہوریت کے چودہ نقائص بیان کرکے بہت کچھ لکھ دیا ہے۔
عالمی استعمار کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری
اپنی نظر یاتی اور جغرافیاتی حدود کی توسیع پسندی کا نام عالمی استعمار ہے‘ عالمی استعمار کے سائے میں عالم کفر پورے عالم میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے‘ لیکن اس کا خاص ہدف مسلمان ہیں‘ مسلمانوں کے خلاف کفار کا اتحاد مسلمانوں کے لئے سوالیہ نشان بن چکا ہے‘ ہرمسلمان ملک اس خوف کا شکار ہے کہ کفار کی اتحادی افواج کا اگلا ہدف مسلمانوں کا کونسا ملک ہوگا‘ شدید مذہبی وسیاسی اختلاف کے باوجود یہ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف اس طرح متحد ہوگئیں ہیں کہ ان کی کرنسی اور سفر کے قواعد واصول اور پاسپورٹ کا نظام متحد ومشترک ہوگیاہے‘ اس وقت تقریباً چالیس کافر ممالک نیٹو کی شکل میں مسلمانوں کے خلاف بھاری اسلحہ اور جنگی سازو سامان کے ساتھ میدان جنگ میں اتر چکے ہیں اور مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کررہے ہیں‘ ارض فلسطین وعراق‘ چیچنیا اور صومالیہ‘ بوسنیا اور سوڈان‘ افغانستان اور پاکستان‘ کشمیر اور ہندوستان کو ان کفار نے مسلمانوں کے لئے مذبح خانے بنادیئے ہیں‘ جہاں پر نہ مسلمانوں کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ ان کے اموال وایمان اور سرحدات محفوظ ہیں ۔
دوسری جانب اگر مسلمانوں کی طاقت کو دیکھا جائے تو ان کے پاس بہت بڑی طاقت ہے‘ یہ اگر صالح قیادت اور جذبہ ایمانی سے محروم نہ ہوتے تو آج پوری دنیا ان کے قدموں میں ہوتی‘ تعداد کے اعتبار سے مسلمان سوا ارب تک پہنچ چکے ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے‘ ان کے پاس ۵۶ حکومتیں ہیں اور یہ حکومتیں دنیا کے ایسے سنٹرل میں واقع ہیں کہ اگر یہ چاہیں تو پوری دنیا کو ایک ہفتہ میں بری‘ بحری اور فضائی راستوں سے جام کر سکتی ہیں‘ مسلمانوں کے پاس دنیا کے ۷۵ فی صد تیل کے ذخائر موجود ہیں اور دنیا کی ۴۲ فی صد زمین مسلمانوں کے قبضہ میں ہے‘ سب سے اونچی کرنسی مسلمانوں کے پاس ہے‘ ان کے پاس سب سے زیادہ قربانی دینے والے جو ان موجود ہیں‘ مگر پھر بھی یہ غلام ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ مسلمان حکمرانوں کا دین سے بغاوت ہے‘ خلافت کا فقدان ہے‘ اور جہاد سے نفرت ہے۔ حضرت صدیق اکبر سے کسی نے خواب میں پوچھا کہ آج کل مسلمان مغلوب کیوں ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ: امت نے جہاد کو چھوڑا ہے۔ امام مالک کا قول ہے : ”لن یصلح اٰخر ہذہ الأمة الا بما صلح بہ اولہا“ یعنی اس امت کا اٰخری حصہ اسی چیز سے درست ہوگا جس چیز سے اس کا پہلا حصہ درست ہوا تھا۔اسی اصلاحی نسخہ کا نام جہاد ہے‘ جس کے چھوڑنے سے اجتماعی ذلت آتی ہے کہ وہ پہلے حکام کو جہاد کی فرضیت واہمیت سمجھائیں اور حکمران جہاد کا سرکاری طور پراعلان فرمائیں اور ”ہیئة کبار علماء پاکستان“ متفقہ طور پر جہاد کی فرضیت کا فتویٰ صادر کرے اور اس ملک کے علماء اور خطباء اس کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں‘ اگر سارے مسلمان جہاد کا اعلان کردیں گے تو نہ اسرائیل کا وجود رہے گا اور نہ امریکہ کا غرور رہے گا اور اسلام کا جھنڈا انشاء اللہ پورے عالم پر آب وتاب کے ساتھ لہرانے لگ جائے گا۔
وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5
پچھلا مضمون: اہل عرب کے لہجے