Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 10
اہل عرب کے لہجے
 اہل عرب کے لہجے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود ہی لی اور فرمایا:
”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ (الحجر:۹)
ترجمہ:”ہم نے ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے“۔
اللہ تعالیٰ نے ا س کتابِ ہدایت کی تفسیر اور اس کے الفاظ کی تشریح کی ذمہ داری لے کر اسے وحی غیر متلو‘ یعنی احادیثِ مقدسہ کی صورت میں نازل فرماکر نبی علیہ السلام کو حکم فرمایا:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون“ (النحل:۴۴)
ترجمہ:”ہم نے آپ کی جانب ذکر (قرآن) کو اتار دیا ہے‘ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان کی طرف نازل کردہ (کتاب ِہدایت) کی تفسیر کریں“۔
قرآن کریم میں نبی کریم ا کی صداقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایاگیا:
”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ“۔ (النجم:۳/۴)
ترجمہ:”وہ (رسول امین ا) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتے‘ وہ سب کی سب ان کی طرف وحی کی جاتی ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ تمام ذمہ داریاں لیں ‘ وہاں اس مقدس کتاب کی تلاوت کے لہجوں کی بھی حفاظت کی ذمہ داری لے کر ان لہجوں کی تعیین بھی فرمادی‘ گویا جس طرح قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب منزل من اللہ ہے اور جس طرح خلفاء راشدین کی سنت بھی درحقیقت سنتِ رسول ا ہے‘ بالکل اسی طرح لہجوں کی تعیین بھی سنتِ رسول اہے اور یہ تعیینِ لہجات نبی کریم ا کی حدیث ِ مبارک سے معلوم ہوتی ہے‘ چنانچہ نبی کریم اکا ارشاد ہے:
”اقرؤوا القرآن بلحون العرب واصواتہا ․․․‘ ‘ (مشکوٰة)
ترجمہ:”تم قرآن کو اہل عرب کے لہجوں اوران کی آوازوں میں پڑھو“۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ا کے نزدیک اگر لہجوں کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف اہل عرب کے لہجے ہیں اور اس حدیث میں اس بات کی جانب بھی اشارہ ہورہا ہے کہ اگر کوئی عجمی اہل عرب کے لہجوں اور ان کی آوازوں کی نقل کی کوشش کرے گا تو وہ ان کی نقل کر سکے گا‘ گویا اہل عرب کے لہجات کی نقل اللہ نے انسان کے بس میں دیدی ہے‘ بس اسے صرف ایک سبب اختیار کرنا ہے اور وہ ہے ”کوشش“۔اور سب سے پہلے یہ خطاب صحابہ کرام کو ہے‘ کیوں کہ ان میں بھی بعض اہل عجم تھے‘ جیسے حضرت سلمان فارسی وغیرہ‘ گویا اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ رہتی دنیا کو اہل عرب کے ہی کسی ناکسی لہجہ یا آواز کو اپنانا چاہئے‘ کیونکہ رسول اللہ ا نے ”لحون“ اور ”اصوات“ جمع کے صیغے استعمال فرمائے ہیں جو عرب کے عمومی لہجات واصوات پر دلالت کرتے ہیں۔
نیز اس حدیث میں کسی زمانہ کی بھی قید نہیں کہ جس کی بناء پر اہل علم کے درمیان لہجات واصوات کی تعیین میں اختلاف ہو جائے اور دشواری ہو‘ چنانچہ تمام اہل عرب کے لہجے اور آوازیں فطرت پر مبنی اور لائق اتباع ہیں اور ان کا اتباع اسی طرح سنت سے ثابت ہے جس طرح خلفاء اربعہ کا اتباع، سنت سے ثابت ہے‘ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ خلفاء کی سنتوں کا اتباع ضروری قرار دیا گیا ہے اور لہجات واصوات کا اتباع مستحسن قرار دیا گیاہے اور نبی علیہ السلام کے اس حکم استحبابی کو اپنانے والا اجر سے ہی مالا مال ہوگا۔
یہ تو ممکن ہے کہ کوئی عجمی کسی عربی کے لہجہ کو اختیار کرتے ہوئے تکلف کی راہ اپنالے تو ایسی صورت میں اس سے یہ کہا جائے گاکہ تم تکلفات کا سہارا نہ لو اور اپنی جانب سے اس میں غناء یا قوالی کے سر کو شامل نہ کرو ‘لیکن تکلف کو کسی عرب کی طرف منسوب کرنا غلط ہے اور یہ نسبت کرنے والا اگر عالم ہو تو چوک معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اس جامع حدیث میں غور نہیں فرمایا ہوگا‘لیکن اگر یہ نسبت عام فرد کی جانب سے ہے تو اسے جہالت کہا جائے گا ۔
اس سے ایک بات اور بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم ا نے قرآن کریم کی تلاوت کے لئے اہل عرب کے لہجات مختلفہ کو تو معیار قرار دیا ہے لیکن ان کی تجوید کو معیار قرار نہیں دیا کہ اہل عجم تجوید میں بھی اہل عرب کی پیروی کریں‘ بلکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو حکم فرمایا: ”ورتل القرآن ترتیلا“ اور اس ترتیل کی حضرت علی المرتضیٰ سے تفسیر: ”ہو تجوید الحروف ومعرفة الوقوف“ منقول ہے‘ گویا حروف کے مخارج وصفات اور دیگر قواعد ضروریہ‘ رموزِ اوقاف کی معرفت ضروری ہے اور روایت حفص پر چاہے اہل عرب قراء ہوں یا عجم، سب ہی کا اتفاق ہے۔اور اس بات کا ذکر کردینا میں نے اس لئے ضروری سمجھا کہ بعض حروف کو روایت حفص بلکہ دیگر روایات کے بھی خلاف پڑھتے ہیں۔
مثلاً: ”راء“ میں صفت تکریر ہے‘ جسے ادا نہیں کرنا ہے‘ جیساکہ قراء ت کے متفق علیہ امام علامہ ابن الجزری فرماتے ہیں: ”واخف تکریر اذا تشدد“ لیکن بعض اہل عرب سے اس سلسلہ میں خطا فاحش یہ ہوئی کہ وہ راء مشددہ کے ادا کے وقت صفت تکریر کو بھی ادا کرنے لگے‘ مثلاً: ”الرررحمن الرررحیم“۔
اسی طرح اکثر اہل عرب ”ضاد“ کو اپنے مخرج سے تو ادا کرتے ہیں لیکن ”دال“ کے مخرج پر بھی طرف لسان کو لگادیتے ہیں جوکہ خطأ ہے‘ چنانچہ علامہ ابن الجزری ”ضاد“ کے مخرج کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ”والضاد من حافتہ اذولیا الاضراس من ایسر او یمناہا“۔ اور حضرت مولانا قاری محمد شریف صاحب قدس اللہ سرہ و برد مضجعہ کا ”ضاد“ کی صفت استطالت کے ذیل میں ’وفوائد مکیہ مع حاشیہ تو ضیحات مرضیہ“ کے صفحہ ۳۲ پر قول منقول ہے۔
”البتہ صفت استطالت کے بارے میں اتنی بات اور ذہن میں رکھ لیں‘ اگر ”دال“کی آواز معلوم ہو تو سمجھنا چاہئے کہ صفت استطالت ادا نہیں ہوئی‘ کیونکہ ”دال“ میں بوجہ شدت احتباس صوت ہوتا ہے جو مانع استطالت ہے‘ ہاں اگر ”ظاء“ کی طرح آواز معلوم ہو تو اس وقت صفت (استطالت) کا ادا ہونا ممکن ہے‘ بس یہی معیار ہے اس صفت کے ادا ہونے یا نہ ہونے کا‘ مگر نوک زبان ”ظاء“ کے مخرج سے بالکل جدا ہونی چاہئے‘ ورنہ ”ضاد“ ہوجائے گا اور یہ لحن جلی ہے الخ“۔ (حواشی مرضیہ)
اسی طرح بعض اہل عرب ”کاف“ اور ”تا“ کو سکون کے وقت ”کھ“ اور ”تھ“ پڑھتے ہیں جوکہ واضح غلطی ہے‘ ان دونوں حرفوں میں صفت ہمس بھی ہے اور صفت شدت بھی ہے‘ صفت شدت ابتداءً ہوتی ہے اور صفت ہمس انتہاء میں اتنی خفیف ادا کی جاتی ہے کہ ”ک“ ”کھ“ نہ ہو اور ”ت“ ”تھ“ نہ ہوجائے۔
اس وضاحت سے معلوم ہوجا نا چاہئے کہ ہمیں اہل عرب کے لہجات کے اتباع کا حکم ہے، لیکن تجوید میں اخذ عن المشایخ کا حکم ہے‘ چنانچہ علامہ ابن الجزری فرماتے ہیں:
”وہو ایضا حلیة التلاوة وزینة الاداء والقراء ة“
اور تمام شراح نے ”اداء“ کی تعریف
”الاخذ عن المشایخ“
بیان کی۔
ہمیں قرآن مجید کی ایک آیت سے اس تعریف کی تائید ملتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون“
”اہل الذکر“ یعنی قرآن والے اور قرآن والوں میں جہاں علماء دین متین ہیں ،وہاں علماء تجوید بھی ہیں‘ گویا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم کے حروف کی ادائیگی کا علم بھی علماء سے پوچھو اور ”مشایخ“ ہوں یا ”علماء“ وہ عرب میں سے بھی ہیں اور عجم میں سے بھی ہیں۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم میں سے کسی کا یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہوگا کہ: ”آپ فلاں حرف کی ادائیگی پہچاننے کے لئے اہل زبان یعنی عرب کوسنیں“ کیونکہ احقر نے سلسلہ قراء ت میں اپنے اساتذہ کی پیروی کرتے ہوئے جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے وہ تمام کی تمام غلطیوں متفق علیہا ہیں‘ الا یہ کہ بعض روایات میں ”صاد“ اور ”ضاد“ کو بعض مقامات پر ”ظا“ پڑھا گیا ہے جیسے ”وما ہو علی الغیب بظنین“ یہ ”ظنین“ روایت حفص میں” ضنین“ یعنی ”ضاد“ کے ساتھ پڑھا گیا ہے‘ اسی طرح ”ظراط الذین انعمت علیہم“ یہ روایت حفص میں ”صراط“ پڑھا گیا ہے اور تمام جہاں میں فقہ حنفی کو جس طرح تلقی بالقبول حاصل ہے‘ اسی طرح روایت حفص کو بھی تلقیبالقبول حاصل ہوئی ہے اور یہ مضمون بھی روایت حفص کے موافق لکھا گیاہے‘ چنانچہ ہمیں یہ چاہئے کہ ہم نبی کریم ا کے حکم کے مطابق حتی الوسع اہل عرب کی پیروی کریں ،لیکن ادائیگی حروف کے لئے ہمارا رجوع دنیا کے کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والے عالم سے ہونا چاہئے جو واقعتاً تجوید سے واقف ہو۔ اب چاہے وہ عرب ہو یا غیر عرب اور صرف علم کافی نہیں ،بلکہ علم کے ساتھ ساتھ کسی بھی حرف کی ادائیگی کے لئے زیادہ سے زیادہ مشق بھی ضروری ہے‘ جیساکہ علامہ ابن الجزری نے فرمایا:
”ولیس بینہ وبین ترکہ (ای:التجوید) الریاضة امرئ بفکہ (ای :الفارق بین العالم والجاہل ہو التجوید وہو یحصل بالریاضة)“۔
بہرحال یہ دونوں باتیں افراط وتفریط سے محفوظ ہیں اور انشاء اللہ ایسے افراد کی رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اپنا لہجہ ہونا چاہئے۔ یہ بات درست نہیں‘ اس لئے کہ عجمیوں کا تو کوئی لہجہ ہی نہیں ‘البتہ عجمیوں کے گانوں میں مختلف لہجات ہوسکتے ہیں‘ جن لہجات سے قرآن پڑھنے کو خود حدیث بالا کے اگلے جملہ ”ایاکم ولحون اہل العشق ولحون اہل الکتٰبین وسیجئ بعدی قوم یرجعون بالقرآن ترجیع الغناء“ میں منع فرمادیا گیا ہے۔
اسی طرح یہ دونوں باتیں ان افراد کے لئے بھی رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں جو کسی عرب لہجہ کو تکلف وتصنع قرار دیتے ہوں اور ایسے افراد کے لئے بھی جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں حرف کی ادائیگی کے لئے اہل زبان کو سننا چاہئے۔
احقر نے اپنے محدود مطالعہ کی روشنی میں ایک تحقیق پیش کردی ہے‘کوئی ایسی شخصیت جس کا مطالعہ دقیق وعمیق ہو ،وہ اس مضمون کی اصلاح کا حق رکھتی ہے اور اپنی تحقیق پیش کرسکتی ہے۔
علمی میدان میں اختلاف رائے ہواہی کرتا ہے ،لیکن اسے جھگڑے کا باعث نہیں بنانا چاہئے ۔
 
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا پرقبضے کاخواب
Flag Counter