Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 10
اعجاز قرآنی باعتبار ترکیب نظم قرآنی
اعجاز قرآنی باعتبار ترکیب نظم قرآنی

حضرت شیخ کشمیری فرماتے ہیں:
” قرآن کریم کا اعجاز باعتبار ترکیب وترتیب کے اس طور پر ہے کہ قرآن کریم کلام کی مختلف ترکیبات میں سے اس ترکیب کا انتخاب کرتا ہے جو موقع ومحل کے ہی مناسب ہواور ظاہری فکر میں مذاق سلیم بھی اس ترکیب سے اکتا ہٹ اور ملال محسوس نہ کرے، لیکن بہرحال قرآن کریم ہرصورت میں ایسی ہی ترکیب کا چناؤ کرتا ہے جس سے بلیغ ترین حقیقت کو مکمل بیان کردینے والی اور مقصد ومطلب کی مکمل عکاس ترکیب کوئی اور نہیں ہو سکتی ہے۔
اس کی مثال باری جل شانہ کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہوتی ہے:”وجعلوا للّٰہ شرکاء الجن“ سطحی رائے کے مطابق تو یہاں ترکیب عبارت یوں ہونی چاہئے تھی: ”جعلوا الجن شرکاء للّٰہ“لیکن چونکہ قرآن کریم کا مقصد یہ ہے کہ: ان مشرکین نے اللہ ہی کے لئے شرکاء ٹھہرائے ہیں نہ کہ کسی اور کے لئے یعنی اس معبود برحق کے لئے شرکاء ٹھہرائے ہیں جو محض اکیلا ہے اور ہرشریک سے مستغنی ہے،اب یہاں پر لفظ ”للّٰہ“ کی تقدیم میں ان کے اس فعل شنیع کے قبح کو مزید بڑا کرکے دکھلایا گیا ہے کہ یہ نری جہالت وحماقت ہے ،پھر ان مشرکین نے محض اللہ کے شریک ٹھہرانے پر اکتفاء نہ کیا ،بلکہ شرکاء ٹھہرائے تو بھی ”جن“ ٹھہرائے جو اللہ کی مخلوقات میں ایک کمزور مخلوق ہے ،اس طرح ان کے اس فعل شنیع کی قباحت کے بیان میں مزید اضافہ ہوگیا اور جنوں کو شریک ٹھہرانا مزید قبیح معلوم ہونے لگا جو ان کی ایک اور بڑی جہالت وحماقت تھی ،چنانچہ جس غرض وہدف کے لئے اس کلام کو لایا گیا ہے یہ اسی وقت بخوبی تمام ہوسکتی تھی جبکہ قرآن کریم ہی کی اختیار کردہ ترکیب استعمال کی جاتی۔
اسی طرح قرآن کریم کایہ طرز وانداز رہا ہے کہ ظاہر مقام جس ترکیب کا متقاضی ہے ،اس ترکیب سے ہٹ کر قرآن ایسی ترکیب پیش کرتا ہے جو اپنے اندر معارف ولطائف کے بیش بہا خزانے سموئے ہوتے ہیں اور یہی اسرار ونکات انسانی افکار کو جلا بخشتے ہیں اور انسانی عقول کو براہ راست کھٹکھٹاتے ہیں۔“
راقم کہتا ہے کہ: قرآن کریم کی تعبیر کے متعلق شیخ کی اختیار کردہ رائے ممکن ہے اس نکتہ پر مبنی ہو کہ ”الجن“ یہ ”شرکاء“ سے بدل ہے۔ ابوسعود نے اپنی تفسیر میں فراء اور ابواسحاق کا یہی قول نقل کیا ہے اور ابوحیان نے اپنی کتاب بحر اور نہر ․․․․میں حوفی اور ابو البقاء کا بھی مختار مسلک یہی ہے۔
پھر فرمایا ہے یہاں پر ”الجن“ یہ ”شرکاء“میں نسبت بدلیت ثابت کرنے پر یہ شبہ وارد ہوسکتا ہے کہ بدلیت کا قول درست نہیں ،اس لیے کہ یہاں پر بدل کو مبدل منہ کی جگہ پر رکھنا درست نہیں، جب کہ یہ تو بدل میں شرط ہے ،لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت شیخ کی رائے کو ان نحویین کے مسلک پر مبنی قرار دیا جائے جن کے ہاں بدل میں یہ شرط نہیں ہے ،بہرحال یہ اس بحث کی جگہ نہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ”الجن“ کو مفعول اول مؤخر قرار دیا جائے اور یوں کہا جائے کہ مفعول ثانی ”شرکاء“ کی تقدیم اسی مذکورہ نکتہ کی وجہ سے کی گئی ہے اور شیخ کے کلام سے بھی بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے۔
ہر دو تقدیر کے مطابق لفظ جلالة ”للّٰہ“ لفظ ”شرکاء“ ہی کے متعلق ہے اور اسی اہتمام کی بناء پر مقدم کیا گیا ہے جو میں نے معنی کے بیان میں لکھا اور جس کی میں نے لفظی تفسیر میں رعایت کی ۔
انہی دونوں احتمالوں کے مطابق علامہ زمخشری نے ”کشاف القرآن“ میں بحث فرمائی ہے، تفصیلات وہیں دیکھی جاسکتی ہیں ،علامہ زمخشری کے الفاظ یہ ہیں:
”چنانچہ اگر آپ یوں اشکال کریں کہ: اس تقدیم میں کیا فائدہ ہے؟ تب میں اس کے جواب میں یوں کہوں گا کہ اس تقدیم کا فائدہ خدا کے لئے شریک ٹھہرانے کی مذمت کو بصورت عظمت بیان کرنا ہے ،چاہے یہ شریک انسی‘ ملکی یا جنی ٹھہرایا جائے،اور اسی نکتہ کے لئے لفظ جلالہ” اللّٰہ “کو ”شرکاء“ پر مقدم کیا گیا ہے ۔انتہی
اس موضع کے ذیل میں چند دیگر تراکیب بھی علمائے کرام اور مفسرین عظام نے بیان فرمائی ہیں ،لیکن ان کے بیان میں مزید فائدہ معلوم نہیں ہوتا اور نہ ان تراکیب نحویہ پر حضرت شیخ کے کلام کی بناء درست ہے۔ مبحث مذکور یہاں تمام ہوا۔
حضرت شیخ اپنی کتاب ”نیل الفرقدین“ کے خاتمہ میں رقمطراز ہیں:
”علماء کرام کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ محققین کے نزدیک نہ مفردات میں ترادف پایا جاتا ہے اور نہ ہی مرکبات میں، چنانچہ ضرب زید عمراً‘ ضرب عمراً زید‘ ،زید ضرب عمراً یہ تمام مختلف تراکیب مختلف معانی کے لئے مستعمل ہوتی ہیں ،اسی طرح ”زید قائم“ قائم زید ،زید القائم اور القائم زید اپنے مواقع میں علیحدہ علیحدہ معانی ومطالب کے لئے مستعمل ہوتی ہیں۔“
راقم کہتا ہے کہ: ترتیب اور ترکیب کی یہ جہت معنی کے اعتبار سے ہے اور اسی پر معنوی بلاغت کا دارومدار ہے اور بسااوقات یہ ترتیب وترکیب ایسے لطائف ودقائق محیط ہوتی ہے جن کا ادراک اور تنبہ صرف انہی کو حاصل ہوتاہے جنہوں نے علوم بلاغت میں بڑاحصہ پایا ہو ،زمخشری اور جرجانی جیسے لوگ، بشرطیکہ ان جیسا کوئی ہو۔اس لئے یہ جہات ترکیبیہ وترتیبیہ بہت ہی اہم اور قابل صد التفات ہیں ،چنانچہ حضرت شیخ نے ان جہات کے متعلق بحث وتمحیص فرمائی ۔
ترتیب نظم کلام کی دیگر جہات بھی ہیں، مثلاً مناسبت بین الکلامین ،کلام کی آب وتاب ،حسن وجمال ، سلاست لفظی ،عیب داری سے سلامت ،سننے کے بوجھل پن اور نفس کی کراہت سے حفاظت ،گویا کہ کلام بہترین ترتیب پر بنایا گیا ہوا،ور انوکھے قالب میں ڈھالاگیا ہو ۔ ابن الاثیروغیرہ علمائے فن نے ان مباحث پر تنبیہ فرمائی ہے، کچھ حرج نہیں کہ مقام ہذا کے حق کی ادائیگی اور مقصود بحث کو واضح کرنے کی غرض سے چند امثلہ ذکر کردی جائیں، چنانچہ ملاحظہ ہوں:
ابن الاثیر ”المثل السائر“ (ص:۵۷) پر فرماتے ہیں:
”جان لینا چاہئے کہ تراکیب نظم میں تفاوت وتفاضل مفردات کے تفاوت وتفاضل سے کہیں زیادہ وقوع پذیر ہے ،اس لئے کہ ترکیبی جہات کی رعایت مفردات کے تفاوت سے کہیں مشکل اور مبہم ہے ،آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ قرآن کریم کے مفرد الفاظ کو تو گذشتہ عرب بھی استعمال کرتے تھے اور بعد کے عرب بھی اور باوجود ان کے اس استعمال کے قرآن کریم بہرحال ان کے تمام کلام پر واضح برتری اور تفوق کا حامل ہے اور یہ اسی ترکیب قرآنی کی تعجب خیزی کا خاصہ ہے ۔
اورکیا آپ باری جل شانہ کے اس قول مبارک کو ملاحظہ کرنے کے بعد بھی ہمارے اس نقطہٴ نظر میں شش وپنج میں مبتلا ہوسکتے ہیں ،ملاحظہ کیجئے :باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”وقیل یا ارض ابلعی ماء ک ویا سماء اقلعی وغیظ الماء وقضی الامر واستوت علی الجودی وقیل بعداً للقوم الظالمین“
آپ جو اس آیت میں نمایاں امتیاز محسوس کرتے ہوں گے ،وہ محض اس کی ترکیب وترتیب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور یہ حسن وخوبی اس لئے یہاں جاگزیں ہوئی ہے کہ جملہ اولیٰ‘ جملہ ثانیہ کے ساتھ‘ جملہ ثانیہ‘ جملہ ثالثہ کے ساتھ اور جملہ ثالثہ جملہ رابعہ کے ساتھ منظم اور مربوط ہے۔
اب بھی اگر کچھ شک کی کیفیت آپ کو باقی ہے تو یوں غور کریں کہ اگر آپ اس آیت میں مستعمل الفاظ میں سے کسی لفظ کو علیحدہ کرتے اور اس کو منفرد استعمال کرتے تو کیا ایسی صورت میں یہ حسن وخوبی جو اس آیت میں رکھے گئے اس لفظ کے خاص موضع وموقع میں نکھر کر واضح ہوئی تھی، کیا بصورت انفراد واضح ہوتی؟ اس نقطہٴ نظر کی شہادت اور تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کبھی آپ کوئی لفظ کسی کلام میں پاتے ہیں تو وہ لفظ آپ کو پسند آتا ہے پھر وہی لفظ ایک دوسرے کلام میں آپ پاتے ہیں تو وہ قبیح محسوس ہوتا ہے، اس واضح امر کا تو وہی شخص انکار کرسکتا ہے جس نے اب تک فصاحت وبلاغت کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور الفاظ کے انفراد وترکیبی استعمال کے لطیف اسرار سے نا آشنا ہو۔
میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں جو میری رائے کی صحت وواقعیت پر گواہی دے گی ،اور وہ مثال یوں ہے کہ کبھی کبھار ایک لفظ قرآن کریم میں وارد ہوتا ہے اور شعر میں بھی مستعمل ہوتا ہے لیکن قرآن کریم میں تو اس لفظ میں فصاحت ومتانت پائی جاتی ہے ،جبکہ شعر میں مستعمل یہی لفظ بے ربط اور ناموزوں ہوتا ہے۔ اس لفظ کہ متضاد اثر میں اس کی جہت ترکیبیہ ہی کا عمل دخل ہے۔ آیت قرآنی ملاحظہ کیجئے:
”فاذا طعمتم فانتشروا ولامستأنسین لحدیث ،ان ذالکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم واللّٰہ لایستحی من الحق“
اور اب شعر ملاحظہ کیجئے جو ابو الطیب المتنبی کا ہے:
”تلذ لہ المروئة وھی تؤذی
ومن یعشق یلذ لہ الغرام “
ترجمہ :”شرافت ومروت اس کے لئے لذیذ ہے، حالانکہ یہی مرو ت ایذاء رساں بھی ہے اور جو عشق کرتا ہے اس کے لئے محبت کا بوجھ بھی لذیذ ہوتا ہے ۔“
متنبی کا یہ شعر معنوی شرافت وکرامت کے اعتبار سے عمدہ شعر ہے ،لیکن لفظ ”تؤذی“ جو یہاں استعمال ہوا وہی قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ،لیکن اس لفظ کے ضعف ترکیبی کی وجہ سے اس شعر کی قدر گھٹ گئی، لیکن قرآن کریم میں اس کے موقع حسنہ میں وقوع کی وجہ سے مزید حسن ونکھار نمایاں ہوا
اب اے غور فکر کرنے والے قاری !ہماری گذشتہ سطور میں بیان کردہ نقطہ فصاحت کے متعلق انصاف کر‘ اور اپنی طبع سلیم پر اس نقطہ نظر کو پیش کر ،تاکہ تو اس کی صحت کو جانچ پرکھ کر سمجھ لے ،یہ مبحث کچھ پیچیدہ بھی ہے اور خوب غور وفکر اور نقد ونظر کا محتاج ہے ،اس مبحث پر مجھ سے قبل کسی نے تنبیہ نہیں کی ۔
یہی لفظ ”تؤذی“ جب مستعمل ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس کا مابعد کے ساتھ معنوی ربط اور لفظی تعلق ہو، جیساکہ باری جل شانہ کے فرمان اقدس میں دیکھئے:
”ان ذلکم کان یؤذی النبی“
اور متنبی کے کلام میں یہ لفظ منقطع واقع ہوا ہے،اور اس نے یوں استعمال کیا:
”تلذ المروء ة وہی تؤذی“
اور پھر اس لفظ کے استعمال پر کلام کو ختم کرکے جملہ مستأنفہ سے کلام شروع کیا اور:
”ومن یعشق یلذلہ الغرام“ انتہی ما قال ابن الاثیر ۔
صفحہ :۷۴ پر رقمطراز ہیں:
”اور جب یہی مفردات بصورت ترکیب مستعمل ہوں تو ان کی ترکیب وتنظیم کا کچھ اور حکم ہوتا ہے ،اس لئے کہ اس تالیف وتنظیم اور مختلف الفاظ کے حسین امتزاج سے کچھ ایسے فوائد واضح ہوتے ہیں جن سے سننے والے کو یہ واہمہ ہوتا ہے کہ یہ وہ مفردات نہیں ہیں، بلکہ حسن وخوبی اور لطیف معنویت رکھنے والے کچھ اور مفردات ہیں ،اس کی مثال یوں کہ ایک شخص چند ایسے موتی جو انتہائی قیمتی نہ ہوں ،اکھٹے کرلے اور پھر ان موتیوں کو جوڑ کر اچھی ترتیب وتنظیم کے قالب میں ڈھال لے، چنانچہ اس خوبصورت تنظیم اور مضبوط کاریگری کی وجہ سے دیکھنے والا یہ خیال کرے گا کہ یہ وہ پچھلے بکھرے موتی نہیں ہیں ،اس کے برعکس اگر وہ شخص قیمتی یواقیت ودرر جمع کرے، لیکن اس کی ترتیب وتنظیم کوتاہ ہو تو اس ترتیبی فساد کی وجہ سے ان کا حسن کافور ہو جائے گا ۔ یہی حال عمدہ الفاظ کی فاسد ترکیب وترتیب کا ہے ،یہ مبحث واقعی لائق اعتناء اور قابل قدر ہے۔ انتہی“
امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب (۲-۵۶۴) سورة البقرة کے اواخر آیات کی تفسیر کے ذیل میں یوں بیان فرمایا کہ:
”جو شخص نظم قرآنی کے لطائف اور اس کی ترتیب کے عجائب میں غور وتامل بروئے کار لائے گا وہ یہ بات ضرور جان لے گا کہ جس طرح قرآن کریم اپنے الفاظ کی فصاحت اور اپنے معانی ومطالب کی سلاست کی وجہ سے معجز ہے ،اسی طرح اپنی ترتیب وتالیف اور نظم آیات میں بھی معجز ہے اور جن حضرات نے یوں تعبیر کی کہ: ”قرآن کریم اپنے اسلوب کے اعتبار سے معجز ہے“ شاید ان کا بھی مقصد اسی اعجاز تنظیمی کی طرف اشارہ کرنا تھا۔“
امیر یمنی نے ”الطراز“ کی تیسری جلد میں فن ثالث (جو الفاظ قرآنی کے چار وجوہ سے حاصل شدہ اس خصوصی امتیاز کے بیان پر مشتمل ہے، جس کی بناء پر قرآن کو فصاحت وسلاست میں نمایاں مقام اور بلاغت وبیان میں عالی مرتبت حاصل ہے) کہ ذیل میں اس بحث پر تنبیہ کی ہے ،چنانچہ ص:۲۱۹ جلد :۳ پر فرماتے ہیں:
”وہ خصوصی امتیازات جو قرآنی الفاظ کی طرف راجع ہیں ،کبھی تو ان کا تعلق مفردات الحروف سے ہے ، کبھی ان حروف کی تالیف وترتیب سے‘ کبھی مفردات الفاظ سے اور کبھی الفاظ مرکبہ سے ، یہی وہ چار وجوہ ہیں جو کسی بھی لفظ کے فصیح ہونے میں لازمی طور پر معتبرہوتی ہیں ، اور یہ چاروں قرآن میں کامل طور پر موجود ہیں ۔“
پھر ان وجوہ اربعہ کی امیر یمنی نے تفصیل وتوضیح فرمائی ہے اور ان چار وجوہ پر حاوی باری جل شانہ کے فقط اس قول سے مثال بیان فرمائی ہے: ”وقیل یا ارض ابلعی ماء ک …الأیة“ پھر اس آیت کی تشریح کے ذیل میں خوب طوالت واطناب سے کام لیتے ہوئے مکمل بحث فرمائی ہے اور اس آیت کے اچھوتے پہلوؤں‘ الفاظ کی آب وتاب ‘ الفاظ کے ظاہر محاسن ،پوشیدہ باطنی دل نشین معارف اور افرادی وترکیبی‘ وضعی وترتیبی‘ لفظی ومعنوی ،مختلف جہات کو علم بیان‘ علم معانی اور علم بدیع کی روشنی میں خوب آشکارا فرمایا ہے ،یہ مبحث ص:۲۲۶ سے ص:۲۵۰ تک لطائف ومعارف سے کچھ اس طرح محیط ہے کہ عقلمند ذی ہوش پر ہرباب میں تسلی اور راحت کا غلبہ ہوتا ہے اور ذی فکر وذی شعور طبقہ علماء کے لئے روحانی سرور وسرود کا سامان بہم مہیا کرتی ہے ،اور امام یمنی کی تعبیر وبیان ایسی ہے کہ حسن وخوبی میں گویا بہتی ہے اور لوگوں میں سرایت کرجاتی ہے اور آپ کو ذوقی ووجدانی کیفیات کے ساتھ معرفت ویقین کے آئینہ میں نور وبرہان دکھلاکر سکینت وطمانیت کا فرحت بخش احساس فراہم کرتی ہے ۔ اللہ رب العزت موصوف کو ہماری اور سارے مستفیدین کی طرف سے وہ بہتر بدلہ عطا فرمائے جو بدلہ رب کریم محسنین ومخلصین کو مرحمت فرماتے ہیں۔
طوالت کے خوف اور اشارات کی صورت میں انتہائی ایجاز واختصار کے ساتھ بیان کو مقصد بنانے کی وجہ سے دوری لگام ،ان تفصیلات کے بیان سے ورے ہی کھینچ دی جارہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اے بابصیرت قاری! آپ کواجمالی طور پر شیخ کے بیان کردہ قرآن کریم کے ایسے نظم وبیان اور مضبوط ومحکم ترتیب وتنظیم کے متعلق اعجاز قرآنی کی ان منتخب اقتباسات کی روشنی میں شناسائی ہوئی ہوگی اور شیخ کے ان رشحات قلم سے شفایابی کا سامان پایا ہوگا اور امید ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی ہر دوجہت فصاحت :ایک فصاحت مفردات ہے جو باعتبار حروف کی باہمی مناسبت اور ربط سماعت پر ان کی خفت ،گویائی میں سلاست اور مطلوب ومقصود حقیقت کو مختلف پیرائے الفاظ میں تمام ایسے اغراض کا احاطہ کرتے ہوئے واضح کرنا ہے جن کے کلی حقائق سے فقط علیم وخبیر ہی باخبر ہے
اور دوسری فصاحت مرکبات جو باعتبار ان کے باہمی ربط وتعلق ،ہر مرکب جملہ کا اس طرح اپنے موقع ومحل میں ہونا کہ گویا ہر اگلا جملہ اپنے پچھلے جملے کے پچھلے دھڑ کوتھامے ہوئے ہے اور پھر ان مرکبات کے مطلوبہ معانی کے اعتبار سے جن کے لئے شان وشوکت والی ترتیب ڈھالی گئی اور دقیق اغراض واشگاف کی گئی ہیں،ان ہر دو جہت فصاحت کو مکمل طور پر جان لیا ہوگا اور جتنا کچھ میں نے ذکر کیا اس میں ایک صاحب بصیرت طالب علم کے لئے کفایت ہے اور اس میں پندو موعظت کی بھی ایسی باتیں ودیعت ہیں جو اس شخص کو بخوبی نفع دیں گی جو قلب سلیم رکھتا ہو اور غور سے حاضر دماغی اور حاضر باشی کے ساتھ سنتا ہو۔
 
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: بگیر راہِ حسین احمد!
Flag Counter