Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 10
یکطرفہ خلع خلاف شرع
یکطرفہ خلع خلاف شرع

”خلع “کی اصطلاح (خاء کے پیش کے ساتھ ) ”خُلع“ سے مأخوذ ہے ، خلع کا ہم معنیٰ لفظ عربی میں ”نزعٌ“ہے ،جس کا معنی اتارنا ہے ، قرآن کریم ایک بلیغ ولطیف تشبیہ استعمال کرکے زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتاہے:
”ھن لباس لکم وأنتم لباس لھن“ (البقرہ :۱۸۷)
گویا دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لئے اوڑھنا بچھونا ہیں ، یہ تشبیہ کسی ایک اعتبار سے نہیں، لباس کے لفظ میں دسیوں معانی پوشیدہ ہیں ، مثلا لباس جسم کے عیوب ونقائص کوچھپاتا ہے اور حسن وخوبی کو ابھارتا ہے ، عزت ووجاہت میں اضافہ کرتا ہے ، بدن کو راحت وسکون بخشتا ہے ، اور اسے موسمی تغیرات اور مضر اثرات سے بچاتاہے اور پھر جس قدر قربت اور نزدیکی تعلق جسم اور لباس میں ہے اتنا کسی اور شیٴ میں نہیں ،گویا اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ پوش ہونا چاہئے ، ایک دوسرے کے لئے ذہنی ، قلبی ، جنسی اور جسمانی سکون کا ذریعہ اور عزت وزینت کو بڑھانے والا ہونا چاہئے ، ان کے جسم وجان میں ایسا قریبی تعلق ہونا چاہیئے۔ جیساکہ جسم ولباس میں ہے ۔ اس تفصیل سے خلع کالغوی مطلب واضح ہوگیا کہ جب میاں بیوی خلع کرتے ہیں تو اس”معنوی لباس“ کو اتاردیتے ہیں جو نکاح کی صورت میں دونوں نے زیب تن کیا تھا اور دونوں چونکہ برضاورغبت اس معنوی لباس میں ملبوس ہوئے تھے اسلئے برضاء وخوشی ہی اس معنوی لباس کو اتار سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء خلع کو باہمی رضامندی کا معاملہ قرار دیتے ہیں ، لیکن رضامندی نگاہوں سے پوشیدہ ایک قلبی کیفیت کا نام ہے ، انسان کی قدرت وطاقت میں نہیں کہ وہ دوسرے کے سینے میں چھپے ہوئے اور پردوں میں لپٹے ہوئے ”دل“ میں جھانک سکے، اس لئے شریعت نے ایجاب وقبول کو رضامندی کا قائم مقام قرار دیا ہے اور رضامندی ہی چونکہ بنیادی اسا س ہے اور ایجاب وقبول رضامندی کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے ہر عقد اپنے شرعی وجود میں ایجاب وقبول کا محتاج رہتا ہے ،خلع بھی چونکہ ایک عقد ( معاملہ ) ہے، اس لئے تقریباََتمام ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ اس نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ خلع میں میاں بیوی دونوں کی اجازت ومرضی ضروری ہے ، نہ شوہر بیوی کو زبردستی خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے نہ بیوی بزور قانون خلع حاصل کرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی تیسرا فرد یا ادارہ ان دونوں کے درمیان زبردستی خلع واقع کرسکتا ہے ۔
غیر منقسم ہندوستان اور پاکستان کی عدالتیں ۱۹۵۹ ء سے پہلے تک جس اصول کے تحت مقدمات کا فیصلہ کرتی آئیں تھیں کہ” خلع زوجین کا باہمی رضامندی کا معاملہ ہے اور عورت یکطرفہ طور پر عدالت سے استغاثہ کے باوجود حق خلع بروئے کار نہیں لاسکتی “ ہمارے نزدیک یہی نقطہ نظر قرآن وسنت کی رو سے درست ہے ۔ جبکہ ۱۹۵۹ میں عدالت عالیہ لاہور کا یہ موقف کہ:
” اگر عدالت تحقیق کے ذریعے اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ پائیں گے تو عدالت شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کرسکتی ہے “۔
اور ۱۹۶۷ میں عدالت عظمیٰ پاکستان کا اسی نقطہ نظر کو اختیار کرلینا نا درست اور خلاف شرع اسلام اور جمہور امت کے اختیار کردہ موقف کے خلاف ہے ۔ زیرنظر مضمون میں قرآن و سنت کی روشنی میں مذکورہ موقف پر تبصرہ مقصود ہے۔
آیت خلع
قرآن کریم مصدر شریعت اور بنیادی مأخذ ہے ،اسلام کی پوری چکی اسی ستون کے ارد گرد گھومتی ہے ،سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۹ میں تین طلاقوں کے ضمن میں اللہ تبارک وتعالی نے خلع کے مسئلے اور اسکی بنیادی حقیقت کو بیان فرمایاہے :
”ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتمو ھن شیئا الا ان یخافآ ان لا یقیما حدود ا لله ط فان خفتم ان لا یقیما حدود الله، فلا جناح علیمہا فیما افتدت بہ،ط۔“
ترجمہ:۔”اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (بیبیوں کو چھوڑنے کے وقت ان سے ) کچھ بھی لو (گو وہ لیا ہوا ) اس (مال ) میں سے (کیوں نہ ہو ) جو تم (ہی ) نے ان کو (مہرمیں) دیا تھا ، مگر (ایک صورت میں البتہ حلال ہے وہ ) یہ کہ (کوئی )میاں بی بی (ایسے ہوں کہ ) دونوں میں احتمال ہو کہ اللہ تعالی کے ضابطوں کو ( جو دربارہ ادائے حقوق زوجیت ہیں ) قائم نہ کرسکیں گے ، سو اگر تم لوگوں کو (یعنی میاں بی بی کو ) یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کر سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس ( مال کے لینے دینے ) میں جس کو دیکر عورت اپنی جان چھڑالے (بشرطیکہ مہر سے زیادہ نہ ہو ۔)
”فان خفتم “کے مخاطب کون لو گ ہیں ؟ مفسرین کے اس بارے میں تین قول ہیں :
۱-یہ خطاب صرف میاں بیوی کو ہے ۔
۲- یہ خطاب میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے سنجیدہ اور معززین افراد سمیت حکام اور ولاةکوہے ۔
۳-”فان خفتم“ کے مخاطب صرف حکام ہیں ۔
”ولا یحل لکم )ایھا الازواج والحکام…(فان خفتم) ایھا الولاة، وجائز ان یکون اول الخطاب للازواج۔“ (تفسیر النسفی:۱/۱۹۱، ط: رحمانیہ لاہور)
”فان قلت: لمن الخطاب فی قولہ (ولا یحل لکم ان تاخذوا)… قلت: یجوز الامران جمیعاً ۔“ ( الکشاف:۱/۲۷۴، ط: دار الکتاب العربی،بیروت)
”الجمہور من العلماء علی ان المخاطب لقولہ:وان خفتم الحکام والامراء… وقیل الخطاب للاولیاء۔“ (احکام القرآن للقرطبی:۵/۱۷۵)
”قال شعبة قلت لقتادة عمن اخذ الحسن الخلع الی السلطان قال عن زیاد وکان والیا لعمر و علی…ولا معنی لہٰذا القول لان الرجل اذا خالع امراتہ فانما ہو علی ما یتراضیان بہ ولا یجبرہ السلطان علی ذالک ۔“ (القرطبی:۵/۱۳۸)
”والخطاب فی لکم وما بعدہ ظاہرہ انہ للازواج لان الاخذ والایتاء من الازواج حقیقةً…… (فان خفتم ) الضمیر للاولیاء او السطان۔“( البحر المحیط:۲/۱۹۸، ط: دار الفکر بیروت)
”وقیل انہ خطاب للازواج ہٰذ الوجہ جوزہ فی الکشاف … “
(حاشیة الشہاب علی البیضاوی:۲/۵۳۷،ط: دار الکتب بیروت)
”ولا یحل لکم) ایھا الازواج … تنبیہ: علم مما تقرر: ان الخطاب فی الاول للزوجین وثانیہما للائمة والحکام ونحو ذلک غیر عزیز فی القرآن، ویجوز ان یکون الخطاب کلہ للائمة والحکام۔ ( السراج المنیر للشربینی :۱/۲۳۵،ط: دار احیاء التراث العربی بیروت)
”وفان خفتم ) خطاب للحکام لا غیر لئلا یلزم تغییر الاسلوب قبل مضی الجملة۔“
( روح المعانی:۲/۱۴۰،ط: بیروت)
”فان قیل لمن الخطاب فی قولہ (ولا یحل لکم ان تأخذوا)، قلنا : الا مران جائزان، فیجوز ان یکون اول الایة خطابا للازواج وآخرہا خطابا للائمة والحکام، وذلک غیر غریب فی القرآن ، ویجوز ان یکون الخطاب کلہہ للائمة والحکام لانہم ھم الذین یامرون بالاخذ والایتاء عند الترافع الیہم ،فکانہم ہم الاخذون والموٴتون ۔“ ( التفسیر الکبیر:۶/۱۰۶)
”فان خفتم) ایھا الحکام۔“ ( تفسیر البیضاوی:۱/۱۲۳، ط: بیروت)
”وقد جعل بعض المفسرین الخطاب الاول للازواج والثانی للحکام۔“
( تفسیر المنار :۲/۳۸۸،ط: مطبعة المنار بمصر)
”وفی حاشیة الصاوی علی الجلالین:(ولا یحل لکم )ایھا الازواج (فان خفتم) خطاب لولاة الامور۔“ (حاشیة الصاوی:۱/۱۹۴۔ ط: بیروت)
پہلا قول
جن مفسرین نے پہلا قول اختیار کیا ہے ان کے بیان کے مطابق ” ولا یحل لکم “ کا خطاب شوہروں سے ہے ،کیونکہ شوہر ہی مال دیتا اور لیتا ہے۔اس لئے اس مناسبت کا تقاضہ یہ ہے کہ”فان خفتم“ کا خطاب بھی شوہروں سے ہو ،اگر اس قول کو اختیار کیا جائے تو حکام غیر متعلق ہوکر رہ جاتے ہیں اور خلع جیسے خالص نجی وشخصی معاملے میں حکام کا عمل دخل بالکل ختم ہوکر رہ جاتا ہے اور مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
دوسرا قول
جس قول کے مطابق”فان خفتم“کا خطاب زوجین سمیت خاندان کے سربرآوردہ اور معزز افراد اور حکام سب کو ہے ،اس کی تائید سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۵ سے ہوتی ہے ،جس میں زوجین کے مابین تنازع کے تصفیے کے لئے ثالثان کے تقرر کا ذکر ہے : ”ترجمہ:۔ اور اگر (قرائن سے ) تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بی بی میں (ایسی کشاکش کا) اندیشہ ہو ،(کہ اس کو وہ باہم نہ سلجھاسکیں گے) تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو ( ایساہی) تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے (تجویز کرکے اس کشاکش کے رفع کرنے کے لئے ان کے پاس )بھیجو (کہ وہ جاکر تحقیق حال کرلیں ا ور جو بے راہی پر ہو یا دونوں کا کچھ کچھ قصور ہو سمجاوے) اگر ان دونوں آدمیوں کو ( سچے دل سے) اصلا ح( معاملہ کی) منظور ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں(بشرط یہ کہ وہ ان دنوں کی رائے پر عمل بھی کرے) اتفاق فرمادیں گے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں( جس طریق سے ان میں باہم مصالحت ہوسکتی ہے اس کو جانتے ہیں جب حَکَمین کی نیت ٹھیک دیکھیں گے وہ طریق ان کے قلب میں القاء فرمادیں گے ۔ ( بیان القرآن:۱/۱۱۵۔ ط: میر محمد کتب خانہ کراچی)
آیت بالا سے پہلے شوہر کو تدریجی طور پر چند اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے، مثلا شوہر پہلے پہل نرمی سے کام لے اور جب زبانی گفتگو و فہمائش سے اصلاحِ احوال نہ ہو اوربیوی کی نافرمانی وسرکشی بدستور قائم رہے تو عملی قدم کے طور پر ہم بستری کے تعلقات منقطع کرلے اور جب یہ دوسرا اقدام بھی ناکام ثابت ہو تو پھر ہلکی پھلکی مار سے کام لے، جو چہرے پر نہ ہو جس سے شدید چوٹ نہ آئے اور انسانیت کی توہین لازم نہ آ ئے ۔
اگر یہ تینوں مراحل ناکام ثابت ہوں تو عام امت اسلامیہ سمیت خدا ترس حکام کو چاہئے کہ میاں اور بیوی دونوں کے خاندانوں میں سے ایک ایک نمائندہ مقرر کرکے مفاہمت ومصالحت کی غرض سے زوجین کے پاس بھیج دیں، کیونکہ فرد اور امت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، افراد کے خانگی مناقشوں سے اسلامی معاشرہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا ، کُل اپنے جزء سے لاتعلق اور بے نیاز نہیں ہوسکتا ، افراد کی صلاح پر امت کی صلاح کا مدا ر ہے ، زوجین کے پاکیزہ اور مضبوط تعلقات سے عمدہ معاشرہ قیام میں آتا ہے اور عمدہ معاشرہ سے صالح وپاکیزہ تمدن کی بنیاد پڑتی ہے ۔ دوسری طرف زوجین کے درمیان علیحدگی سے بے شمار مفاسد جنم لیتے ہیں، پہلے گھر اجڑتا ہے پھر بچوں کا مستقبل بگڑتا ہے پھر دونوں خاندانوں میں نفرت ، عداوت اور بغض وحسد کی وسیع خلیج جنم لیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس لعین کو جتنی خوشی زوجین کی علیحدگی سے ہوتی ہے اتنی کسی گناہ سے نہیں ہوتی ہے ۔ عورت چونکہ اپنی فطری خلقت اور حدیث کی شہادت کے مطابق جلد باز اور جذباتی ہے، اس لئے ذرا سی نرمی یا گرمی یا تلخ کلامی کی بناء پر دس بچوں کی ماں ہوکر بھی طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے اور شوہر بھی صبر وتحمل اور حوصلہ مندی سے کام لینے کے بجائے جذبات کی لہروں میں بہہ جاتاہے اور طلاق دے ڈالتا ہے ، نتیجةً ذرا سی تلخی خانہ ویرانی کا سبب بن جاتی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ ”فان خفتم“ کے خطاب میں معززین کے ساتھ حکام کو شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زوجین وقتی جوش کی بناء پر خلع پر آمادہ ہو جائیں تو خدا ترس اور خیر خواہ حکام اور نیک وبزرگ افراد حتی الامکان بذریعہ مصالحت گھر کو اجڑنے سے بچانے کے لئے ہرممکن تدبیر کریں اور جب مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو پھر اس کے سوا اورکیا چارہ رہ جاتا ہے کہ دونوں کو ان کی خواہش کے مطابق خلع ہی کا مشورہ دیا جائے ۔ ایسی ہی صورت کہ بارے میں فرمایا گیا ہے :
”اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس مال کے لینے اور دینے میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے “۔
بہرحال اس دوسرے قول کے مطابق حکام کو خطاب میں شامل کرنے کا مقصد یکطرفہ طو ر پر ڈگری کا اجراء نہیں ،بلکہ ہرممکن حد تک خلع کو روکنے کی کوشش کرنا ہے ۔
”والمخاطبة للحکام المتوسطین لمثل ہٰذا الامر وان لم یکن حاکماً،:
(احکام القرآن للقرطبی:۳/۱۳۸)
”المسئلة الرابعة:المخاطب بقولہ ” فابعثوا حکما من اہلہ“ من ہو؟ فیہ خلاف: قال بعضہم انہ ہو الامام او من یلی من قبلہ ، وذلک لان تنفیذ الاحکام الشرعیة الیہ ، وقال آخرون : المراد کل واحد من صالحی الامة ، وذلک لان قولہ( خفتم) خطاب للجمع ولیس حملہ علی البعض، اولی من حملہ علی البقیة، فوجب حملہ علی الکل، فعلیٰ ہٰذ یجب ان یکون قولہ” فان خفتم“ خطاب بالجمیع المومنین ، ثم قال” فابعثوا“ فوجب ان یکون ہٰذ ا أمرا لآحاد الامةبہٰذا المعنٰی فثبت انہ سواء وجد الامام او لم یوجد فللصالحین ان یبعثوا حکما من اہلہ وحکما من اہلہا للاصلاح ، وایضا فہٰذا یجری مجری دفع الضرر ، ولکل احد ان یقوم بہ ۔“( التفسیر الکبیر:۱۰/۹۲،ومثلہ فی اللباب فی العلوم الکتاب :۶/۳۶۸، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
تیسرا قول :
”فان خفتم “ کا خطاب حکام کو ہے، جیساکہ بہت سے علمائے کرام کا خیال ہے لیکن اس سے یہ مطلب کشید کرنا درست نہیں کہ حکام شوہر کی رضامندی کے بغیر بذریعہ خلع تنسیخ نکاح کرسکتے ہیں، آیت کریمہ صاف اور واضح طور پر دلالت کررہی ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک کی رضامندی خلع کی درستگی کے لئے لازمی شرط کا درجہ رکھتی ہے ، آیت خلع کا ترجمہ پچھلی سطور میں گذر چکا ہے ۔اس کا خلاصہ درج ذیل نکات ہیں :
۱:…الف :شوہر رشتہ نکاح ختم کرنا چاہے تو جو کچھ مال بیوی کو دیا ہے وہ چھین نہیں سکتا یا واپس نہیں لے سکتا ۔
ب : ایک استثنائی صورت ایسی ہے کہ شوہر کے لئے اپنا دیا ہوا مال یا معاوضہ لینا حلال ہے کہ جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ۔
ج : مذکورہ اندیشے کے وقت شوہر کی زوجیت سے نکلنے کے لئے اگر عورت فدیہ دیتی ہے اور شوہر اسے قبول کرکے بیوی کو خلاصی دے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا ۔
    (جاری )  
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: نظامِ عدل ریگولیشن کے مخالفین و محرکین کی خدمت میں !
Flag Counter