چند اہم اسلامی آداب
چند اہم اسلامی آداب
(۴)
ادب :۱۴
جب آپ کسی مجلس میں جائیں تو سب سے پہلے سب کو سلام کریں اور اگر سلام کے بعد آپ مصافحہ بھی کرنا چاہتے ہیں تو مصافحہ کی ابتدا اس شخص سے کریں جو سب سے افضل ہو ،یا عالم ہو یا بڑا پرہیزگار ہو یا عمر کے اعتبار سے سب سے بڑا ہو یا کسی ایسی صفت میں ممتا زہو جوشرعاً قابل احترام ہے،اورافضل کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے ہر گزمصافحہ نہ کریں جو اگر چہ صف اول میں پہلا ہو یا دائیں طرف ہو،مگر وہ دوسروں کے مقابلہ میں عامی شمار ہو تا ہو ،بلکہ سب سے پہلے اس شخص سے مصافحہ کریں جو اس مجلس میں اپنی خاص صفت کی وجہ سے سب سے افضل ہو ،اور اگر آپ کو معلوم نہیں کہ ان میں سے افضل کون ہے؟یا آپ سمجھتے ہوں کہ مرتبہ میں سب برابر ہیں ،تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو، اس سے ابتداء کریں ،کیونکہ بڑی عمر والے کی پہچان عموماََ مشکل نہیں ہو تی ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
کبّر کبّر (بخاری ونسائی )”یعنی بڑے کو آگے کرو“۔
ایک اورروایت میں ہے:
”کبّر الکبر فی السن۔“
”یعنی جو عمر میں بڑا ہے اسے آگے کرو ۔“
امام بخاری اورامام مسلم نے اسے روایت کیا ہے ،ایک اور روایت میں ہے کہ :
”ابدؤا بالکبراء أوقال :بالأکابر“۔
”یعنی بڑوں سے ابتداء کرو ۔“
اس کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے الاوسط میں ذکر کیا ہے ۔
ادب:۱۵
جب آپ کسی مجلس میں جائیں تو ساتھ بیٹھے ہو ئے دو شخصوں کے درمیان نہ بیٹھیں ،بلکہ دونوں کے دائیں یا بائیں بیٹھیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”لایجلس بین رجلین الا باذنہما“․ (ابوداؤد)
یعنی دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھا جائے ،مگر ان کی اجازت سے ․
اگراکرام کرتے ہوئے ان دونوں نے آپ کو اپنے درمیان بیٹھنے کی جگہ دے دی ہے تو آپ سکڑ کر بیٹھیں ،زیا دہ کھل کر نہ بیٹھیں ۔
ابن الاعرابی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :بعض حکماء کا قول ہے کہ :دو شخص ظالم ہیں ،ایک وہ شخص جسے نصیحت کا تحفہ دیا گیا اور اس نے اسے گناہ کا ذریعہ بنا لیا، اور دوسرا وہ جس کیلئے تنگ جگہ میں بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی مگر وہ پھیل کر بیٹھ گیا۔
نیز جب دو آدمیوں کے پاس بیٹھیں تو ان کی باتو ں کی طرف کان مت لگائیں ․الا یہ کہ وہ راز کی بات نہ ہو ،اور نہ ہی ان دونوں سے متعلق ہو ،کیونکہ ان کی باتوں کی طرف کان لگانا آپ کے اخلاق کی کمزوری اور ایسی برائی ہے جس کے آپ مرتکب ہو رہے ہیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
”من استمع الی حدیث قوم وھم لہ کارھون صبّ فی اذنیہ اٰلانک یوم القیامة․“
”یعنی جو شخص دوسروں کی بات کان لگا کر سنتا ہے جس کا سننا ان کوپسند نہیں ،قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائیگا۔“ (یعنی پگھلا ہوا سیسہ )
اس کو امام بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔
جاننا چاہئے کہ جب آپ تین آدمی بیٹھے ہو ں تو دو کو آپس میں سرگوشی نہیں کرنی چاہئے ،کیو نکہ اس طرح آپ تیسرے آدمی کو اپنے سے الگ کر رہے ہیں اور اسے وحشت میں ڈال رہے ہیں،نتیجتاًاس طرح اس کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آئیں گے،اور یہ خصلت مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی ،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصلت کی مسلمانوں سے نفی فرمائی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا :
”لایتناجٰی اثنان بینہما ثالث․“(رواہ الامام ابو داؤد)
یعنی دو مسلمان آپس میں سرگوشی نہیں کرتے جب کہ ان کے درمیا ن تیسرا ہو ۔
یہاںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہی کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے خبر دے رہے ہیں کہ یہ ایسی صفت ہے کہ جس کا کسی مسلمان سے صادر ہو نے کا تصور نہیں ہوسکتا ، لہٰذا اس سے رُکاجائے ، کیونکہ یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کا غلط ہو نا ایک فطری چیز ہے۔
اس حدیث کو امام مالک اور امام ابو داؤدنے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ: اگر تین کے بجائے چارآدمی ہوں(دو دوآدمی) ہوں تو سرگوشی کر سکتے ہیں ؟تو آپ نے فرمایا :پھر کوئی حرج نہیں ۔
ادب :۱۶
قدر و منزلت میں اپنے سے بڑے کا حق پہچانو،پس اگر آپ اس کے ساتھ چل رہے ہوں تو اس کی دائیں جانب ذرا پیچھے ہٹ کر چلیں اور جب آپ گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو اسے اپنے سے آگے کرو ،جب آپ کسی بڑے سے ملاقات کریں تو سلام اور احترام سے اس کا حق ادا کریں ، اور جب ان سے گفتگو کریں تو پہلے ان کو بات کرنے کا موقع دیں ،اور نہایت احترام سے کان لگا کر ان کی بات سنیں اوراگرگفتگو کا موضوع ایسا ہو کہ جس میں بحث کی ضرورت ہے تو نہایت ادب ،سکون اور نرمی سے بحث کریں ،اور بات کرتے وقت آواز کو پست رکھیں، اور ان کو بلاتے وقت اور خطاب کرتے وقت اس کے احترام کو نہ بھولیں ۔
اب مذکورہ بالا آداب کے بارے میں کچھ احادیث پیش کی جاتی ہیں :
۱:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو بھائی آئے… تاکہ ان کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ہے،وہ آپ کے سامنے عرض کریں …ان میں ایک بڑا بھائی تھا ، پس چھو ٹے بھائی نے بات کرنی چاہی ،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :کبّر کبّر ․․․․․․․ یعنی اپنے بڑے بھائی کو اس کاحق دو ، اور اسے بات کرنے کا موقع دو ، (بخاری اورمسلم)
۲:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”لیس منا من لم یجل کبیرنا۔“
یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑے کی عزّت نہیں کرتا ۔
۳:…اور ایک روایت میں ہے:
”لیس منا من لم یوّقر کبیرنا ،ویرحم صغیرنا ، ویعرف لعالمنا حقّہ ۔“
یعنی وہ شخص ہم میں نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا ،اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کھاتا ، اور ہما رے عالم کا حق نہیں جانتا ۔“
اس روایت کو امام احمد ،حاکم اور طبرانی نے حضرت عبادةبن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق مئی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 5
پچھلا مضمون: اعجاز قرآنی باعتبار ترکیب نظم قرآنی