Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 11
تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ارکان پارلیمنٹ سے دردمندانہ اپیل
تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ارکان پارلیمنٹ سے دردمندانہ اپیل

ملک کی موجودہ سنگین صورت حال اور وطن عزیز میں پھیلی ہوئی شورش سے ہر وہ شخص بے چین ہے جس کے دل میں اس مملکت خداداد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا ذرا بھی درد ہے‘ صورت حال ایسی پیچیدہ ہے کہ حالات کا صحیح تجزیہ اور ان کا حل تلاش کرنا آسان نہیں‘ اسی سلسلے میں ملکی تاریخ میں پارلیمنٹ کا تیسرا اہم مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے‘ طویل غور وفکر اور مشوروں کے بعد ملک کے تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام نے جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے‘ ایک تحریر ”تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ارکان پارلیمنٹ سے دردمندانہ اپیل“ کے عنوان سے مرتب کی ہے‘ جس میں اس شورش کے اسباب اور ان کا حل تجویز کیا گیا ہے۔
معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان !
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اس وقت اسلامی جمہوری پاکستان جس نازک صورت حال سے دو چار ہے اور پوری قوم جس تشویش‘ بے چینی اور فکر میں مبتلا ہے‘ وہ اہل نظر پر پوشیدہ نہیں۔
بحمد اللہ! قومی اسمبلی ‘ سینیٹ کے منتخب ممبران حکومت کے سرکردہ افراد اس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس نازک صورت حال پر غور کرنے کے لئے جمع ہیں۔
اس اہم موقع پر ہم اپنی قومی اور شرعی ذمہ داری سمجھتے ہوئے آپ کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں‘ تاکہ امن وامان کی سنگین صورت حال اور ملک کے موجودہ بحران کے حقیقی اسباب اور حکومتی اقدامات اور خارجی وقومی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لے کر پارلیمنٹ ملک کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لئے صحیح اور ٹھوس فیصلے کرسکے۔ ہمارے خیال میں اگر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ صوبہ سرحد‘ قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ کے بگڑتے ہوئے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہاں کے عوام وخواص درج ذیل طبقات میں منقسم نظر آتے ہیں:
الف:․․․مسلمانوں کی بھاری اکثریت جو ہمیشہ پُرامن رہی ہے اور اب بھی پُر امن ہے‘ اور وطن کی محبت سے سرشار ہے‘ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے اور دشمن کے لئے ہمیشہ ناقابل تسخیر رہی ہے‘ اور علاقے کے علمائے کرام ان میں سرفہرست ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ قبائل اپنی قدیم روایات کے تحفظ کو بھی اپنی قومی غیرت وحمیت کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں‘ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت نماز‘ روزہ اور ستر وحجاب وغیرہ دینی معاملات کے زیادہ پابند اور ان کے بارے میں زیادہ حساس ہیں‘ چنانچہ اگر کوئی حکومت‘ دین یا اہل دین کا مذاق اڑائے‘ یا دین اور اہل دین کو رسوا کرے‘ یا ان کی قدیم روایات کو پامال کرکے ان پر غیر ملکی حکمرانوں کو‘ یا غیر ملکی نظریات کو مسلط کرنے کی کوشش کرے تو وہ پُر امن ہونے کے باوجود اس سے سخت نفرت کرتے ہیں‘ اور غیر ملکی افواج یا غیر اسلامی نظریات کا تسلط ان کے لئے کسی حالت میں قابل برداشت نہیں‘ اس وقت وہاں جو بمباری ہورہی ہے یا تشدد کو روکنے کے لئے جو فوجی آپریشن جاری ہے‘ ان کا زیادہ ترنقصان اسی مظلوم اور پُر امن اکثریت کو پہنچ رہا ہے جس میں بے گناہ جوان‘ بوڑھے ‘ عورتیں اور معصوم بچے لقمہٴ اجل بن رہے ہیں۔
ب:․․․․ان محب وطن مسلمانوں کی اس بھاری اکثریت میں سے بہت سے مخلص مگر مشتعل نوجوان ایسے بھی ہیں جو جامعہ حفصہ اور اپنے علاقوں میں مظلوم مسلمانوں کی شہادت پر اور حکومت کی خلاف اسلام اور نامعقول افغان پالیسی پر غم وغصے اور انتقام کے جذبات سے بپھرے ہوئے ہیں‘ انہوں نے علمائے کرام کے منع کرنے کے باوجود اپنے اخلاص اور علاقائی غیرت کی بناء پر‘ یا اپنے پیارے عزیزوں کی لاشیں دیکھ کر ہتھیاراٹھا لئے ہیں‘ اور خود کش حملوں کا پاکستان کے اندر ہی وہ راستہ اختیار کرلیا ہے جو حد درجہ خطرناک ہے‘ حالانکہ علمائے کرام ایسے حملوں کو پہلے ہی حرام قراردے چکے ہیں جن کا بے گناہ لوگ نشانہ بن جائیں‘ لیکن مذکورہ بالا اشتعال انگیز اسباب کی بناء پر یہ بپھرے ہوئے نوجوان انتقام کی پیاس کو اپنے اور دوسروں کے خون سے بجھا رہے ہیں۔
ج:․․․․جب کسی علاقے میں افراتفری ‘ بمباری اور خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے تو سماج دشمن عناصر مثلاً :چوروں‘ ڈاکوؤں کی بن آتی ہے‘ کبھی وہ اپنے مذموم عزائم کی خاطر غیر ملکی افواج سے جاکر مل جاتے ہیں‘ کبھی ملکی افواج سے اور کبھی ان نوجوانوں کے ساتھ آکر شریک ہوجاتے ہیں جن کو حالات نے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے‘ ملکی حالات کی خرابی میں وہاں کے باخبر علمائے کرام اور بااثر حضرات کے بیان کے مطابق ایسے عناصر کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
د:․․․․امریکی افواج اپنی معاون نیٹو افواج نیز بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ گزشتہ سات سال سے افغانستان پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں‘ اب ان کے اپنے کمانڈروں اور سفارت کاروں نے ان تمام کوششوں کی ناکامی کا مختلف بیانات کے ذریعے اقرار کرلیا ہے ‘ ان غیر ملکی افواج نے اپنی کھلی آنکھوں نظر آنے والی شرمناک شکست کو فتح‘ یا باعزت پسپائی میں بدلنے کے لئے آخری کوشش یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کو اسلحہ‘ ڈالر اور افغانی وپاکستانی کرنسی دے کر ہمارے قبائلی علاقوں میں گھسادیا ہے اور یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جب کچھ ایجنٹ پکڑے گئے یا ان کی لاشیں ملیں تو ان میں سے کئی غیر مختون تھے‘ جو ان کے غیر مسلم ہونے کی واضح علامت ہے‘ یہ لوگ طالبان کے بھیس میں پاکستانی افواج سے لڑہے ہیں‘ اور ان علاقوں میں افراتفری پیدا کرنے کے لئے داخل ہوئے ہیں ۔ ایسے ایجنٹوں کی تعداد اب روز بروز بڑھ رہی ہے حتی کہ بعض قبائلی علاقوں کے علمانے یہ بتایا کہ اب ہمیں اپنے علاقوں میں وہ چہرے بکثرت نظر آرہے ہیں‘ جنہیں ہم نے ساری زندگی کبھی نہیں دیکھا۔ یہ امریکی ‘ بھارتی ایجنٹ اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لئے طالبان کے روپ میں علاقے میں اور پاکستان کے شہروں میں بھی بم دھماکوں سے بربادی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔
اگر مذکورہ ساری صورت حال سامنے رکھی جائے تو صاف واضح ہوگا کہ آزادقبائل کے محب وطن اور پُر امن مسلمانوں کی بھاری اکثریت اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے‘ غیر ملکی افواج کی طرف سے بغیرپائلٹ طیاروں کی بمباری ہو‘ یا ان کے میزائلوں کی بارش ہو یا پاکستانی مسلح فورسز کی کارروائیاں ہوں ان کا زیادہ تر نشانہ بے گناہ مسلمان بن رہے ہیں‘ حالات سے دل برداشتہ ہوکر تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے نوجوان جو کم تعداد میں ہیں وہ تو ویسے ہی اپنا خون دینے کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ جرا ئم پیشہ طبقات اور غیر ملکی ایجنٹ اپنے اثر ورسوخ‘ سازشوں اور غیر ملکی پشت پناہی کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں اور سارا نزلہ عام مسلمانوں پر گررہا ہے۔
علاج: اس پیچیدہ صورت حال کا ہمارے نزدیک اس کے سوا کوئی علاج نہیں ہے کہ:
۱:․․․بمباری ‘ میزائلوں کی بارش اور اندھا دھند فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں۔
۲:․․․․ہر علاقے کے مقامی علماء‘ دین دار حضرات اور محب وطن عمائدین کو ساتھ ملا کر جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر وغیر ملکی ایجنٹوں کو پکڑا جائے اور ان کو سرعام عبرت ناک سزا ئیں دی جائیں۔
۳:․․․محب وطن اور پُرامن باشندگان ملک اور ہتھیار اٹھانے والے نوجوانوں کے جو جائز مطالبات ہیں‘ انہیں فوری طور پر خلوص دل سے اس طرح پورا کیا جائے کہ لوگوں کو یہ اطمینان ہو کہ حکومت یہ کام محض وقت گزاری کے لئے نہیں کررہی‘ بلکہ پوری سنجیدگی سے یہاں انصاف مہیا کرکے امن وامان قائم کرنے میں مخلص ہے۔
۴:․․․اندرون ملک ہر طرح کی خلاف اسلام پالیسیوں اور اقدامات کا سلسلہ بند کیا جائے۔
۵:․․․․غیر ملکی طاقتوں کی اطاعت وفرماں برداری کا رویہ ختم کرکے محب وطن عوام کو ساتھ ملایا جائے اور ان کے تمام جائز مطالبات کو امکانی حد تک پورا کیا جائے۔
۶:․․․ اپنی موجودہ خارجہ پالیسی اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے ”تعاون برخلاف دہشت گردی“ کے پُر فریب اور شرمناک معاہدے سے جان چھڑانے کا محتاط راستہ جلد از جلد نکالا جائے‘ جو در حقیقت اپنی ہی سلامتی کا راستہ ہے۔
۷:․․․․عدلیہ کو آزاد اور بحال کیا جائے ‘کیونکہ فوری انصاف کی فراہمی اور آزاد عدلیہ کے بغیر امن وامان کا قیام ممکن نہیں۔
آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بدحالی کے موجودہ طوفان کے مختلف اسباب ہیں‘ لیکن چار بڑے سبب یہ ہیں:
۱:․․․بدامنی: جسے ختم کئے بغیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشی استحکام کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘ بدامنی کے سلسلے میں اوپر عرض کیا جاچکا ہے۔
۲:․․․کرپشن: کرپشن کی یہ دیمک اس وقت ملک کے بالائی طبقات سے لے کر نچلے طبقات تک سرائیت کرچکی ہے‘ امانت ودیانت اور سچائی کے ساتھ سیاسی عمل اور کسب حلال کا تصور کم سے کم ہوتا جارہا ہے‘ ان اسلامی اخلاق واوصاف کا احیاء ہر سطح پر ضروری ہے تاکہ کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکے اور اس کے لئے ہر سطح پر قانون کی عمل داری ‘ دیانت دار انتظامیہ اور آزاد عدلیہ کے ذریعے ہی ناگزیر ہے۔
۳:․․․․عیاشانہ طرز زندگی: پاکستان کے بالائی طبقات جس فضول خرچی اور پُر تعیش زندگی کے عادی ہوگئے ہیں‘ اس کے واقعات اب عوام کی زبانوں پر ہیں‘ اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یہ مہلک طرز زندگی ختم کرکے ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے اور ملک وقوم کے لئے جو پیسہ بچایاجاسکتا ہے‘ اسے ہر قیمت پر بچایاجائے۔
۴:․․․․فحاشی اور عریانی: پاکستان جو اسلامی اقدار وتعلیمات کے تحفظ وفروغ کے لئے قائم کیا گیا تھا ‘ یہاں کے معاشرے پر مغرب کی فحاشی اور بے حجابی سیلاب کی طرح حاوی ہوتی جارہی ہے اور اس کی ظلمت ونحوست سے بھی ہماری معاشی بدحالی کا گہرا تعلق ہے‘ اللہ اور اللہ کے رسول اکے احکام پامال کرکے مسلمان پنپ نہیں سکتے ہیں‘ اس کا موثر تدارک ضروری ہے‘ مغربی دنیا کو سائنسی اور معاشی ترقی رقص وسرود اور فحاشی سے نہیں ملی‘ بلکہ محنت اور ہنرمندی سے حاصل ہوئی ہے۔
تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی طرف سے یہ تجاویز دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں‘ ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں‘ امید ہے کہ معزز ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ حضرات اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اپنی ذاتی ‘ گروہی اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ان پر غور فرمائیں گے۔
اللہ جل شانہ ہمیں اپنے محبوب وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جفرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی توفیق نصیب کرے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہے!
Flag Counter