Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 11
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ آخری قسط

ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضعیف حدیث کا ثبوت محتمل ہوتا ہے اس لئے اس سے استدلال کے وقت کچھ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے‘ حافظ شمس الدین سخاوی نے ”القول البدیع“ (ص:۱۵۹) میں ابن حجر سے نقل کیا ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کے لئے تین شرطیں ہیں:
۱- یہ کہ ضعف غیر شدید ہو‘ چنانچہ وہ حدیث جس طی روایت تنہا کسی ایسے شخص کے طریق سے ہو جو کذاب یا متہہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو خارج ہوگی۔
۲- اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو۔ اصول شرعیہ میں سے کسی اصل سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ دیدہ در‘ بالغ نظر فقہاء ہی کر سکتے ہیں‘ جو ہر کہہ دمہ کے بس کی بات نہیں)
۳- اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے‘ بلکہ صرف اس کے ثواب کے حصول کی امید کے ساتھ کیا جائے‘ مبادا آں حضرت ا کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو‘ اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔
۴- مولانا عبد الحئ لکھنوی نے ایک چوتھی شرط بھی ذکر کی ہے‘ وہ یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے قوی دلیل معارض موجود نہ ہو۔ پس اگر کوئی قوی دلیل کسی عمل کی حرمت یا کراہت پر موجود ہو‘ اور یہ ضعیف اس کے جواز یا استحباب کی متقاضی ہو تو قوی کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا۔
فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کا فرق
واضح رہے کہ اہل علم ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کے مواقع کو بیان کرتے ہوئے اپنی عبارتوں میں ”فضائل اعمال“ اور ”ترغیب وترہیب“ دولفظوں کا استعمال کرتے ہیں ”فضائل اعمال“ کااطلاق ایسے موقعوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل پہلے سے کسی نص صحیح یا حسن سے ثابت ہونے کی بجائے کسی ضعیف حدیث میں اس عمل کا ذکر اور اس کی فضیلت آئی ہو اور علماء امت اور فقہاء کرام اس ضعیف حدیث ہی کی بنیاد پر اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں‘ مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ ‘ مثلاً مغرب کے بعد چھ رکعات کا پڑھنا‘ قبر میں مٹی ڈالتے وقت مخصوص دعاء کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے (جیساکہ گذرا) اور جیسے اذان میں ترسل (ٹھہر ٹھہر کر کلمات اذان ادا کرنا) اور اقامت میں حدر (روانی سے ادا کرنا) مستحب ہے ترمذی کی حدیث ضعیف کی وجہ سے جو عبد المنعم بن نعیم کے طریق سے روایت کرکے کہتے ہیں ”ہذا اسناد مجہول“ اور عبد المنعم کو دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان مثالوں میں مذکورہ بالا شرطیں پائی جارہی ہیں۔
اور ”ترغیب وترہیب“ کا اطلاق ایسے مواقع میں کرتے ہیں جہاں کہ وہ مخصوص عمل کسی نص قرآنی‘ حدیث صحیح یا حسن سے ثابت ہو‘ اور کسی حدیث ضعیف میں ان اعمال کے کرنے پر مخصوص ثواب کا وعدہ اور نہ کرنے یا کوتاہی کرنے پر مخصوص وعید وارد ہوئی ہو۔ چنانچہ اس مخصوص وعدہ اور وعید کو بیان کرنے کے لئے ضعیف سے ضعیف حدیث کو مذکورہ بالا شرطوں کے بغیر بھی بیان کرنا جائز قرار دیتے ہیں اس لئے کہ اس میں اس حدیث سے کسی طرح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا‘ اور فضائل میں جو استحباب ثابت ہوتا ہے وہ بربنائے احتیاط ہے‘ اور بعض شوافع کے نزدیک تو استحباب حقیقةً حکم اصطلاحی ہی نہیں ہے‘ اس لئے کوئی اشکال نہیں‘ امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوة (۱/۳۳-۳۴) میں فرماتے ہیں۔
”واما النوع الثانی من الاخبار ‘ فہی احادیث اتفق اہل العلم بالحدیث علی ضعف مخرجہا وہذا النوع علی ضربین ضرب رواہ من کان معروفاً بوضع الحدیث والکذب فیہ فہذا الضرب لایکون مستعملاً فی شئ من امور الدین الا علی وجہ التلیین“۔وضرب لایکون راویہ متہماً بالوضع غیر انہ عرف بسوء الحفظ وکثرة الغلط فی روایاتہ او یکون مجہولاً لم یثبت من عدالتہ وشرائط قبول خبرہ ما یوجب القبول‘ فہذا الضرب من الاحادیث لایکون مستعملاً فی الاحکام‘ وقد یستعمل فی الدعوات‘ والترغیب والترہیب‘ والتفسیر‘ والمغازی فیما لایتعلق بہ حکم“ انتہی۔
اور ترغیب وترہیب کے لئے مذکورہ نرمی محدثین کے طرز عمل سے ظاہر ہے ،جیساکہ اگلے عنوان میں واضح ہوگا۔ یہ فرق مولانا عبد الحئ لکھنوی کی اس عبارت سے بھی مترشح ہوتا ہے:
”فان عبارة النووی‘ وابن الہمام ‘ وغیرہما منادیة باعلی النداء بکون المراد بقبول الحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ہو ثبوت الاستحباب ونحوہ بہ‘ لامجرد ثبوت فضیلة لعمل ثابت بدلیل آخر‘ ویافقہ صنیع جمع من الفقہاء والمحدثین حیث یثبتون استحباب الاعمال۔ التی لم تثبت۔ بالاحادیث الضعیفة‘ ایضاً لوکان المراد ما ذکرہ۔ یعنی الخفاجی من ان المراد بقبول الضعیف فی الفضائل ہو مجرد ثبوت فضلة لعمل ثابت) لما کان لقولہم یقبل الضعیف فی ”فضائل الاعمال“ وفی المناقب‘ وفی الترغیب والترہیب“ فائدة یعتدبہا“۔
ضعیف یا موضوع حدیثوں کی پذیرائی کس کس نے کی
جیساکہ گذرچکا کہ بطور متن لائی گئی حدیثوں میں شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کوئی ایسی حدیث اپنی دانست کے مطابق ذکر نہیں کی جو موضوع ہو‘ چنانچہ جس کسی حدیث کے متعلق کسی نے وضع کی بات کی ہوتی ہے اور شیخ اس کے طرق اور مویدات وشواہد کی بناء پر مطمئن ہوتے ہیں تو ان طرق وشواہد کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں۔البتہ شرح میں تائید وتوضیح کے طور پر امام غزالی کی احیاء العلوم فقیہ ابو اللیث کی تنبیہ الغافلین اور قرة العیون جیسی کتابوں سے بکثرت لیتے ہیں‘ اس حقیقت کے اعتراف میں ہمیں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ان کتابوں میں انتہائی ضعیف‘ موضوع وبے اصل روایات کی تعداد خاصی ہے۔چنانچہ ”مجموعہ فضائل اعمال“ میں بھی اس طرح کی روایات کا در آنا بعید نہیں اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے اس کتاب کی معتبریت اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ آخر کیوں؟
اس لئے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح وتعدیل اور نقاد حدیث کو دیکھا کہ جب وہ رجال کی جرح وتعدیل اور حدیثوں میں ثابت وغیر ثابت صحیح وغیر صحیح کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب ولہجہ اور ہوتا ہے اور جب اخلاق‘ آداب ‘ فضائل یا ترغیب وترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع تک بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی‘ منذری‘ نووی‘ ذہبی ابن حجر‘ ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد ودرایت کو بجا طور پر ناز ہے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ہے کہ ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جس کو آج کے مدعیان علم وتحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کررہے ہیں۔امام بخاری سمیت جمہور محدثین وفقہاء کا ضعیف حدیث کے ساتھ نرم پہلو اختیار کرنے کا معاملہ تو معلوم ہورہی چکا ہے‘ اس کے علاوہ کچھ ناموں ناقدین حدیث اور مشہور مصنفین کا ان کی کتابوں میں طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔
۱- حافظ ابن جوزی
حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی نے ایک طرف موضوعات کی تحقیق میں بے مثال کتاب تصنیف فرمائی تاکہ واعظین اور عام مسلمین ان موضوع حدیثوں کی آفت سے محفوظ رہیں‘ نیز وہ حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں متشدد بھی مانے جاتے ہیں‘ دوسری طرف اپنی پند وموعظت اور اخلاق وآداب کے موضوع پر تصنیف کردہ کتابوں میں آپ نے بہت سی ایسی حدیثیں نقل کر ڈالی ہیں جو ضعیف کے علاوہ موضوع بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے ان کی یہ کتابیں۔ ”ذم الہویٰ“ ”تلبیس ابلیس“ رؤوس القواریر“ اور ”التبصرة“ جس کی تلخیص شیخ ابوبکر احسائی نے ”قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة“ میں کی ہے۔
یہ بات حافظ ابن تیمیہ نے ”الرد علی البکری“ (ص:۱۹) میں ابو نعیم خطیب ‘ ابن جوزی‘ ابن عساکر اور ابن ناصر سب کے متعلق مشترکہ طور پر کہی ہے حافظ سخاوی نے شرح الالفیہ میں لکھا۔
”وقد اکثر ابن الجوزی فی تصانیفہ الوعظیة فما اشبہہا من ایراد الموضوع وشبہہ“
۲- حافظ منذری
حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے نہج اور اس کے متعلق حافظ سیوطی رائے گذرچکی اور ضمناً یہ بات بھی آئی کہ وہ ایسی حدیثیں بھی لاتے ہیں جس کی سند میں کوئی کذاب یا متہم راوی ہوتا ہے اور اس کو صیغہٴ تمریض ”روی“ سے شروع کرتے ہیں (شیخ رحمہ اللہ بھی ترغیب منذری کی ایسی کوئی روایت نقل کرتے ہیں) تو صیغہٴ تمریض ہی سے کرتے ہیں) حافظ منذری اپنے مقدمہ میں کتاب کی شرطوں اور مصادر ومآخذ کے ذکر سے فارغ ہوکر لکھتے ہیں:
”استوعبت جمیع ما فی کتاب ابی القاسم الاصفہانی مما لم یکن فی الکتب المذکورة واضربت عن ذکر ماقیل فیہ من الاحادیث المتحققة الوضع“۔
یعنی مذکورہ اہم مصادر حدیث کے علاوہ میں نے ابو القاسم اصفہانی کی ترغیب وترہیب (جس میں انہوں نے اپنی سند سے حدیثیں تخریج کی ہیں) کی وہ ساری حدیثیں لی ہیں جو مذکورہ کتب میں نہیں آسکیں اور ان کی تعداد تھوڑی ہے اور ان حدیثوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کا موضوع ہونا قطعی ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی حدیث کی سند میں کذاب یا متہم راوی کا ہونا اس کے واقعی موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہے‘ جب ہی تو منذری نے ایسی روایات کو منتخب کرلیا‘ جو ان کے نزدیک قطعی طور پر موضوع نہیں ہیں اور ان کی سند میں ایسے رجال ہیں جو کذاب اور متہم کہے گئے ہیں۔
۳- امام نووی 
علامہ نووی شارح صحیح مسلم کے متعلق بھی علامہ کتانی نے (الرحمة المرسلة ص:۱۵)میں حافظ سیوطی کا یہ جملہ نقل کیا ہے۔
”اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف الشیخ محی الدین النووی فارووہ مطمئنین“
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موضوع حدیث اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کرتے‘ رہیں ضعیف حدیثیں معذرت کے طور پر مقدمہ میں انہیں یہ حقیقت واشگاف کرنی پڑی کہ ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تو فضائل اور ترغیب وترہیب میں معتبر ہوتی ہے جیسا کہ گذرا۔ بلکہ ”ریاض الصالحین“ جو باب فضائل میں صحیح حدیثوں کا مجموعہ ہے اور جس کے متعلق انہوں نے صراحت کی ہے کہ وہ صحیح حدیث ہی ذکر کریں گے اس میں چند ایک ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ نے بطور مثال تین حدیثیں پیش کی ہیں‘ مثلاً
۱- ”الکیس من دان نفسہ․․․․ الخ“ ا سکی سند میں ابوبکر بن عبد اللہ بن ابی مریم ہے جو بہت ہی ضعیف ہے (فیض القدیر ۵/۶۸)
۲- ”ما اکرم شاب شیخاً الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند کبر سنہ“
اس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں‘ کیونکہ اس کی سند میں یزید بن بیان عقیل اور اس کا شیخ ابو الرحال خالد بن محمد الانصاری دونوں ضعیف ہیں۔ (فیض القدیر ۵/۴۲۵) تہذیب التہذیب وغیرہ۔
۳- ”لاتشربوا واحداً کشرب البعیر“
اس کی سند میں یزید بن سنان ابو فروہ الرہادی“ ضعیف ہیں‘ ترمذی کے نسخوں میں اس حدیث پر حکم مختلف ہے‘ بعض نسخوں میں ”حسن“ ہے‘ اور بعض میں ”غریب“ واضح رہے کہ امام ترمذی تنہا لفظ ”غریب“ اس جگہ لاتے ہیں جہاں سند میں کوئی ضعیف راوی منفرد ہوتا ہے حافظ نے فح (۱۰/۸۱) میں فرمایا سندہ ضعیف۔
۴- حافظ دہبی
حافظ ذہبی جن کی فن جرح وتعدیل میں شان امامت مسلم ہے‘ ہزاروں راویان حدیث میں سے ہرایک کی ذمہ دارانہ شناخت کے سلسلہ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے‘ چنانچہ تلخیص المستدرک‘ میزان الاعتدال وغیرہ میں حدیثوں پر ان کی جانب سے صادر شدہ احکام مستند قرار دیئے گئے ہیں‘ بلکہ بعض مواقع میں تو ان پر تشدد کا بھی الزام ہے انہوں نے بھی اپنی ”کتاب الکبائر“ میں ضعیف ‘ واہی‘ بلکہ موضوع تک بطور استشہاد پیش کیا ہے‘ شاید ان کا بھی مذہب اس سلسلہ میں ان کے پیش رو حافظ ابن الجوزی کا ساہے‘ مثلاً
۱- کبیرہ گناہ ”ترک صلاة“ کے تحت کئی ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں‘ ان میں وہ طویل حدیث بھی ہے جو شیخ کی کتاب ”فضائل نمار“ ص:۲۸تا۳۱ میں درج ہے۔ جس کے بموجب نماز کا اہتمام کرنے والے کا اللہ تعالیٰ پانچ طرح سے اکرام کرتے ہیں اور اس میں سستی کرنے والے کو پندرہ طریقے سے عذاب دیتے ہیں‘ پانچ طرح دنیا میں‘ تین طرح موت کے وقت ‘ تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد ‘شیخ نے تو یہ حدیث ابن حجر مکی ہیتمی کی ”الزواجر“ کے حوالہ سے نقل کی ہے جس کے ابتداء ’وقال بعضہم: ورد فی الحدیث“ سے کی ہے‘ مزید اس کے چند ایک حوالے اور مؤیدات ذکر کرتے ہوئے حافظ سیوطی کی ذیل اللآلی سے نقل کیا کہ ابن النجار نے ذیل تاریخ بغدادی میں اپنی سند سے ابوہریرہ کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے میزان الاعتدال میں ہے ”ہذا حدیث باطل‘ رکبہ علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد النیسابوری“ پھر امام غزالی اور صاحب منبہات کے حوالہ سے بھی اس مضمون کو مؤید کیا‘ الغرض شیخ نے تو مذکورہ بالا تمام حضرات کے طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالا کہ حدیث بے اصل نہیں ہے اور ترغیب وترہیب کے لئے پیش کی جاسکتی ہے۔ لیکن تعجب حافظ ذہبی پر ہے کہ خود میزان میں اس ک/ باطل ہونے کی تصریح فرماتے ہیں اور ”کتاب الکبائر“ میں ”قد ورد فی الحدیث“ کے صیغہ جزم سے اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے کتنی مضبوط درجہ کی حدیث ہو۔
۲- اسی کتاب کے ص:۴۴ پر کبیرہ گناہ ”عقوق الوالدین“ کے تحت یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
’’لو علم اللہ شیئاً ادنیٰ من الاف لنہی عنہ فلیعمل العاق ما شاء ان یعمل فلن یدخل الجنة‘ ولیعمل البار ماشاء ان یعمل‘ فلن یدخل النار“
اس حدیث کو دیلمی نے اصرم بن حوشب کے طریق سے حضرت حسین بن علی کی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ہے‘ اس اصرم کے متعلق خود حافظ ذہبی میزان ۱/۲۶ میں فرماتے ہیں: ”قال یحیی فیہ: کذاب خبیث‘ وقال ابن حبان: کان یضع الحدیث علی الثقات“ اس میں شبہ نہیں کہ حدیث میں معنوی نکارت کے علاوہ ایک کذاب اس کی روایت میں منفرد ہے جو کسی طرح ترغیب وترہیب میں قابل ذکر نہیں ہے اور ذہبی نے اس سے استشہاد کیا۔
۳- کبیرہ گناہ شرب خمر کے تحت دو ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن پر محدثین نے وضع کا حکم لگایاہے‘ ایک ص:۸۹ پر حضرت ابوسعید خدری کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کی توبہ قبول نہیں ہوتی‘ دوسری ص:۹۱ پر حضرت ابن عمر کی روایت سے جس کے بموجب شرابی کو سلام کرنا اس کے جنازہ میں شرکت وغیرہ رسول اللہ ا نے منع فرمایا ہے۔
حافظ ذہبی کی ہی دوسری کتاب ”العلو للعلی الغفار“ اس میں بھی کافی حد تک تساہل پایا جاتاہے ‘ لیکن ا س کا معاملہ ہلکا یوں ہے کہ اس میں ذہبی نے حدیثیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں‘ اب یہ لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ تحقیق کر کے لے۔
۵-حافظ ابن حجر
حافظ ابن حجر عسقلانی جو حدیثوں کے طرق والفاظ پر وسیع نظر رکھنے کے سلسلہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور احادیث ورواة کے مراتب کی شناخت وتعیین میں سند ہیں‘ یہ اپنی کتابوں میں موضوع اور بے اصل روایات ہرگز پیش نہیں کرتے‘ البتہ کسی حدیث پر موضوع کا حکم لگانے میں بہت ہی محتاط ہیں‘ محدث مغرب علامہ احمد بن الصدیق الغماری رحمہ اللہ اپنی کتاب ”المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر“ کے ص:۷ میں حدیث ”آفة الدین ثلاثة: فقیہ فاجر‘وامام جائر‘ ومجتہد جاہل“ (جو مسند فردوس کے حوالہ سے ابن عباس کے مسند کے طور پر جامع صغیر میں ہے) کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
”قال الحافظ فی زہر الفردوس: فیہ ضعف وانقطاع‘ قلت (المغازی) : بل فیہ کذاب وضاع‘ وہو نہشل بن سعید‘ فالحدیث‘ موضوع‘ والحافظ وشیخہ العراقی متساہلان فی الحکم للحدیث‘ ولایکادان یصرحان بوضع حدیث الا اذا کان کالشمس فی رابعة النہار“ (کما فی التعلیقات علی الاجویة الفاضلة)
یعنی محدث احمد الصدیق الغماری کے بقول حافظ ابن حجر اور ان کے شیخ حافظ عراقی دونوں حدیث پر وضع کا حکم اس وقت تک نہیں لگاتے جب تک علامات وضع روز روشن کی طرح نہیں دیکھ لیتے‘ اگر یہی مسلک شیخ زکریا رحمہ اللہ نے مجموعہ فضائل اعمال میں اختیار کرلیا تو ا سقدر واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے۔
۶-حافظ سیوطی
حافظ ابوبکر سیوطی تو اس میدان کے مرداور ضعاف وموضوعات کی پذیرائی میں ضرب المثل ہیں‘ انہوں نے اپنی کتاب الجامع الصغیر کے مقدمہ میں اپنی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
’ووصنتہ عما تفرد بہ وضاع او کذاب“
اس کی شرح میں حافظ عبد الرؤف المنادی لکھتے ہیں:
”ان ما ذکرہ من صونہ عن ذلک اغلبی او ادعائی‘ والا فکثیراً ما وقع لہ انہ لم یصرف الی النقد الاہتمام‘ فسقط فیما التزم الصوم الصون عنہ فی ہذا المقام کما ستراہ موضحا فی مواضعہ‘ لکن العصمة لغیر الانبیاء متعذرة‘ والغفلة علی البشر شاملة منتشرة والکتاب مع ذلک من اشرف الکتب مرتبة واسماہا منقبة“۔ (فیض القدیر ۱/۲۱)
یعنی حافظ سیوطی کا یہ کہنا کہ میں نے ایسی حدیث سے اس کتاب کو محفوظ رکھا ہے جس کی روایت میں کوئی کذاب یا وضاع منفرد ہو‘ یہ دعویٰ یا تو اکثری ہے یا دعویٰ محض ہے‘ کیونکہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں آپ نے صحیح طور پر کھا نہیں‘ چنانچہ جس سے محفوظ رکھنے کا التزام کیا تھا وہ نادانستہ طور سے کتاب میں در آیا‘ جیساکہ موقع پر وضاحت سے آپ کو معلوم ہوگا‘ بہرحال معصوم نبی کے علاوہ کوئی نہیں‘ بھول چوک انسانی خاصہ ہے‘ اس کے باوجود کتاب مرتبہ وحیثیت کے اعتبار سے عظیم ترین ہے‘ اور بلند پایہ خصوصیات کی حامل ہے ۔
”محدث احمد بن الصدیق الغماری اپنی کتاب ”المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر“ میں لکھتے ہیں:
”بلکہ اس میں جو حدیثیں سیوطی نے ذکر کی ہیں ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن کے موضوع ہونے کا حکم خود انہوں نے لگایا ہے یا تو اپنی لالی میں ابن جوزی کی موافقت کرکے یا خود ذیل اللآلی میں بطور استدراک ذکر کرکے“۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر کی سات ایسی حدیثوں کی تعیین کی ہے جن کے وضع پر مؤلف نے ابن جوزی کی موافقت کی ہے اور پندرہ ایسی حدیثوں کی جن پر مؤلف نے اپنی طرف سے ذیل اللآلی میں وضع کا حکم لگایا ہے۔ فاحظ سیوطی کے تساہل پر بصیرت افروز کلام کے لئے دیکھئے۔
(تعلیقات علی الاجوبة الفاضلة للشیخ ابو غدة ص:۱۲۶تا۱۳۰)
جیساکہ معلوم ہو چکا کہ جن حدیثوں کے متعلق موضوع ہونے کا شیخ کو شبہ بھی ہوتا ہے تو مؤیدات وشواہد جمع کرنے کا پورا اہتمام فرماتے ہیں‘ تو کیا اس بناء پر ”مجموعہ فضائل اعمال “حافظ سیوطی کی کتاب سے۔ اگر فائق نہیں تو اس کے برابر بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؟ ہمارے نزدیک اس پر بھی وہ تبصرہ منطبق ہوتا ہے جو منادی نے جامع صغیر پر کیا۔
۷-حافظ ابن قیم الجوزیة
حدیثوں پر وضع کا حکم لگانے میں جو محدثین متشدد مانے جاتے ہیں ان میں ایک نام حافظ ابن قیم کا ہے اس دعویٰ کا ثبوت ان کی کتاب ”المنار المنیف فی الصحیح والضعیف“ جس میں انہوں نے چند ایک ابواب پر یہ کلی حکم لگایا ہے کہ اس باب میں جو کچھ مروی ہے باطل ہے‘ تاہم اس میں شک نہیں کہ نقد حدیث میں ان کی حیثیت مرجع وسند ہے۔
لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اپنی بعض تصنیفات مثلاً مدارج السالکین‘ زاد المعاد وغیرہ میں کتنی ہی ضعیف اور منکر حدیثیں کوئی تبصرہ کے بغیر بطور استدلال پیش کر ڈالتے ہیں‘ خاص طور سے اگر حدیث ان کے نظریہ کی تائید میں ہوئی ہے تو اس کی تقویت میں بات مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتی ہے‘ مثلاً زاد المعاد ۳/۵۴‘۵۷ میں وفد بنی المنتفق پر کلام کے ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
”ثم تلبثون ما لبثتم‘ ثم تبعث الصائحة‘ فلعمرو الہک ما تدع فی ظہرہا شیئاً الامات تلبثون ما لبثتم ثم یوفی نبیکم والملائکة الذین مع ربک فاصبع ربک عز وجل یطوف فی الارض وخلت علیہ البلاد․․․“
اس حدیث کو ثابت وصحیح قرار دینے میں ابن قیم نے پورا زور صرف کیا ہے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
”ہذا حدیث جلیل تنادی جلالتہ وفخامتہ وعظمتہ علی انہ قد خارج من مشکاة النبوة لا یعرف الا من حدیث عبد الرحمن بن المغیرة المدنی“ ۔
پھر عبد الرحمن بن مغیرة کی توثیق اور ان کتابوں کے حوالوں کے ذریعہ جن میں یہ حدیث تخریج کی گئی ہے لمبا کلام کیا‘ حالانکہ خود ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر نے ”البدایة والنہایة“ میں لکھا کہ:
”ہذا حدیث غریب جداً‘ والفاظہ فی بعضہا نکارة“
یعنی یہ حدیث انتہائی اوپری ہے‘ اس کے بعض الفاظ میں نکارت ہے‘ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عاصم بن لقیط بن عامر بن المنتفق العقیلی کے ترجمہ میں لکھا کہ: ” وہو حدیث غریب جداً“ جبکہ علامہ ابن قیم نے اس کی تائید میں کسی کہنے والے کے اس قول تک کو نقل کرڈالا۔
”ولاینکر ہذا القول الاجاحد او جاہل او مخالف للکتاب والسنة“ اھ
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا ہے‘ اس کے خلاف کو موقف ”اتباع غیر سبیل المؤمنین“ (جماعت مسلمین کے راستہ کو چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے‘ ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے‘ ہم تو ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں‘ جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی قدسی صفت جماعت کا احسان ہے‘ البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
”اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: مودودی صاحب اوران کی تفسیر” تفہیم القرآن“
Flag Counter