Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

3 - 11
تصویر سازی بت پرستی کا پہلا زینہ
تصویر سازی بت پرستی کا پہلا زینہ

جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے ابلیس ملعون نے بنی نوع انسانیت کو گمراہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور آج تک وہ اس وعدہ کا پاس نبھانے کی تگ ودو میں مصروف نت نئے لائحہ عمل سوچ رہا ہے۔
کبھی تو وہ سونے چاندی کی چمک کولے کر میدان عمل میں کودتا ہے اور کبھی عہدہ ومنصب کی لذت کے ذریعہ انسان کو فتنہ میں مبتلا کرتا ہے اور کبھی عورتوں کے جال میں الجھانے کی سازش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
مذکورہ تمام طریقے تو فتنہ وفساد برپاکرنے کے عام طریقے ہیں‘ مگر ان سب سے خطرناک حربہ اور داؤ شیطان کا ”نوری داؤ“ ہے جس کے ذریعہ وہ بنی آدم کے سامنے گناہ اور گمراہیوں کو طاعت وعبادت کے لبادے میں چھپا کر پیش کرتا ہے‘ جس کی بدولت انسان روز بروز گمراہی کے گڑھے میں گرتا چلا جاتاہے‘ مگر اس کو اس کا ذرہ بھر احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں نادانی میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کررہا ہوں اور ہو بھی کیسے سکتا ہے‘ یہ احساس تو تب ہو جب وہ اس کو گناہ بھی سمجھے اور اگر وہ اس کو عبادت اور طاعت سمجھ کر کررہا ہو تو وہ کیسے اپنے آپ کو روک پائے گا۔نیز شیطان کے ایک داؤ میں سے یہ ہے کہ وہ ہر دم یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کو شرک میں مبتلا کردے اور اس کی خاطر وہ اپنے تمام ہتھکنڈے اور صلاحیتیں بروئے کار لے آتا ہے‘ قوم نوح وہ پہلی قوم ہے جس نے دنیا کے اندر شرک جیسے ناسور کی داغ بیل ڈالی اوران کو اس عظیم نقصان سے دوچار کرنے میں ابلیس لعین نے برسوں انتظار کی گھڑیاں کاٹیں‘ تب جا کر اس کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی اور اس کامیابی کے پیچھے مال ودولت سبب بنا اور نہ منصب وحکمرانی اور نہ عورتوں کی زیب وزینت‘ بلکہ اس کامیابی کے لئے شیطان نے ایک بالکل انوکھا حربہ آزمایا اور قوم نوح اس قتنہ میں الجھ کررہ گئی۔
ہوا کچھ یوں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ادریس علیہ السلام تک اس کرہ ارض پر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جاتی تھی اور بنی آدم کے ذہن میں کسی دوسرے معبود کا تصور تک نہ تھا ‘ مگر حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانہ کے بعد ان کی اولاد میں پانچ بزرگ نہایت نیک اور صالح تھے‘ جن کے نام ود‘ سواع‘ یغوث‘ یعوق اور نسر تھے اور ان کی صحبت کی برکت سے دیگر انسانوں کو بھی عبادت میں شوق اور دل جمعی نصیب ہوتی تھی‘ مگر رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے وہ دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے تو لوگوں کی بھی عبادت میں وہ لذت اور حلاوت برقرار نہ رہی‘ لہذا جب ان کا دل عبادت سے اچاٹ ہونے لگا تو وہ سب پریشان ہوگئے کہ اب کیا کریں‘ ان کی اس پریشانی کو دیکھ کر شیطان ایک نیک اور صالح انسان کی شکل میں ان کے پاس آیا اور ہمدردی جتاتے ہوئے ان سے کہنے لگا کہ: میں ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بناکر تمہیں دوں گا‘ جب تم عبادت کیا کرو تو گھر میں ان مجسموں کو رکھنا تو تمہاری عبادت کی سابقہ کیفیت عود کر آئے گی۔چنانچہ ابلیس نے ایسا ہی کیا اور وہ لوگ بھی اس پر مطمئن ہو کر از سرنو عبادت میں مشغول ہوگئے‘ پھر ایک زمانہ بعد انہوں نے ان مجسموں کو عبادت خانے میں صفوں کے آگے رکھ دیا‘ تاکہ عبادت کے دوران وہ نگاہوں کے سامنے رہیں اور عبادت میں زیادہ لذت محسوس ہو۔
مگر جب اس طبقہ کا انتقال ہوگیا اور وہ مجسمے ان کے عبادت خانے میں ہی رہ گئے تو ابلیس ان کی آل واولاد کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تم کس خدا کی عبادت میں لگے ہوئے ہو‘ تمہارے آباء واجداد تو ان بتوں کو پوجاکرتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے‘ اسی وجہ سے تو انہوں نے ان کو اپنی صفوف کے آگے جگہ دی تھی‘ لہذا یہ نئی نسل شیطان کے اس پروپیگنڈہ میں آگئی اور انہوں نے بتوں کو پوجنا شروع کردیا اور خدا وحدہ لاشریک کی عبادت سے غافل ہوتی چلی گئی۔
اگر آپ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں اور اس گمراہی کی ابتداء میں جھانکیں تو آپ کو اس کا بنیادی سبب اور پہلا زینہ جو نظر آئے گا وہ ”تصویر سازی“ ہے نہ شیطان ان بزرگوں کی شکل کے مجسمے بناتا اور نہ ان کے آباء واجداد ا س پر رضامندی کا اظہار کرتے‘ نہ ان کی اولاد شرک اور بت پرستی کے فتنہ میں ملوث ہوکر اپنے ہی ہاتھوں اپنی عاقبت برباد کرتی:
بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں
اسی لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
درحقیقت تصویر سازی جرم ہی اتنا بڑا ہے کہ اس پر جو بھی سزا دی جائے وہ سمجھ میں آنی والی بات ہے‘ کیونکہ اس کے ذریعہ مصور در اصل اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ کو اپنے لئے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے‘اسی وجہ سے اس عمل پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شدید اور سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں‘ تاکہ انسان سے یہ قبیح عمل کسی صورت سرزرد نہ ہونے پائے‘ چنانچہ آپ ا ارشاد فرماتے ہیں:
”ان الذین یصنعون ہذہ الصور یعذبون یوم القیامة یقال لہم: احیوا ما خلقتم“ (الترغیب والترہیب‘ج:۳‘ ص:۱۱۴
ترجمہ:․․․”جو لوگ یہ (جانداروں کی) تصویریں بناتے ہیں قیامت کے دن ان کو عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویریں تم نے بنائی ہیں ان میں جان ڈال کر زندہ کرو“۔
دوسری حدیث میں آپ ا کا ارشاد وارد ہوا ہے:
”اشد الناس عذابا یوم القیامة الذین یضاہون بخلق اللہ“ (الترغیب والترہیب‘ ج:‘ ۳‘ ص:۱۱۴
اب چونکہ بنی نوع انسان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور روز بروز نت نئی چیزیں وجود میں آتی جارہی ہیں اور انسانوں کا معیار زندگی یکسر تبدیل ہوچکا ہے‘ اسی کے پیش نظر شیطان نے بھی بنی آدم کو گمراہ کرنے کے نت نئے انداز اختیار کرلئے ہیں۔
گذشتہ زمانہ میں شیطان نے قوم نوح کو مجسمے بناکر گمراہی اور تباہی کے اندوہناک غار میں دھکیلا تھا‘ مگر اب چونکہ مجسمہ سازی کی صنعت رو بہ زوال ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل کیمرے متداول ہیں‘ لہذا شیطان نے انہی آلات کی بدولت نوع انسانی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور امت کو اسی بحث میں الجھا دیا ہے کہ آیا ان کیمروں سے لئے گئے عکس پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے یا یہ فقط آئینہ کی مانند منعکس ایک عکس ہے‘ لہذا امت کا ایک بڑا طبقہ ابھی تک اسی معمہ کے حل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
اس مسئلہ کے اندر امت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے‘ بعض اس کو تصویر کہہ کر اس کی حرمت کے قائل ہیں جبکہ دوسروں کی رائے اس کے برعکس ہے‘ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر دلیل پیش کرتے ہیں‘ میں ان دلائل کو ذکر نہیں کروں گا اور نہ ہی فریقین میں سے کسی ایک کی تصویب اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی جسارت کروں گا‘ کیونکہ یہ علماء کا کام ہے اور وہی اس کے اہل ہیں۔البتہ چند متفقہ قواعد کلیہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گا‘ جس سے شاید کسی کو کچھ فائدہ پہنچ جائے:
۱- ابن نجیم (متوفی ۹۷۰ھ) فرماتے ہیں:
”اذا تعارض دلیلان احدہما یقتضی التحریم والآخر الاباحة قدم التحریم“۔
(الاشباہ والنظائر‘ ص:۹۳ ط:دار الکتاب العلمیة)
یعنی جب کسی معاملہ میں علماء کی دو رائیں ہوں‘ ایک حلت کی اور دوسری حرمت کی تو احتیاط کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان حرمت کے پہلو کو اختیار کرے( اگرچہ اس میں بظاہر کچھ نقصان ہوتا نظر آرہا ہو)۔
۲- جب ایک زمانہ سے امت تصویر کی حرمت پر اجماع کرچکی ہے تو آج بھی اس کی حرمت برقرار رہے گی‘ چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر جائے۔
۳- انسان کی گمراہی اور فتنہ سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ امت کے متفقہ مسائل کی روشنی میں زندگی گذارے اور تفرد وشاذ آراء سے بچنے کی کوشش کرے۔
یہاں میں ایک بات کی طرف ضرور توجہ دلانا چاہوں گا کہ جو بعض علماء تصویر کی حلت کے قائل ہیں وہ بھی مطلق حلت کے قائل نہیں ہیں‘ بلکہ ان کے قول کا منشاء یہ ہے کہ آج جب ہر طرف سے کفار دین اسلام کے خلاف سازش کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں میڈیا ان کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے تو ان کفار کو ان ہی کے میدان میں شکست دینے کے لئے علماء کو بھی اہون البلیتین کے قاعدہ کی روسے میڈیا کو استعمال کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح صورت پیش کرنی چاہئے۔ اہون البلیتین کا مطلب یہ ہے کہ دو مصیبتوں میں سے کم تر مصیبت کو اختیار کر لیا جائے۔ خدارا! اس حلت کے فتویٰ کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اب جس طرح چاہو تصویر سازی کرتے جاؤ کوئی گناہ نہیں ہے‘ نہیں‘ بلکہ یہ تصویر سازی کل بھی حرام تھی اور آج بھی حرام ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ کل تک ہاتھ کے ذریعہ مجسمے بنائے جاتے تھے اور آج یہی کام کیمرے کے ذریعے بروئے کار لایا جارہا ہے۔
اسی فرق کو علامہ محمد ناصر الدین البانی الترغیب والترہیب کے حاشیہ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:
”والتفریق بین الصورة الفوتوغرافیة والصور الیدویة ظاہریة عصریة ابتلی بہا کثیر من یدعی العلم ولم یتفقہوا بالسنة المحمدیة وما مثلہم الا مثل من یبیح الصنام والتماثیل التی صنعت بالآلة ولم تنحت بالید۔ (الترغیب والترہیب ۔ ج:۳‘ ص:۱۱۴ ط
خلاصہ: اس عبارت کا کچھ اس طرح ہے کہ: فوٹو گرافی اور مجسمہ سازی میں صرف زمانہ کا فرق ہے (ایک زمانہ میں مجسمہ سازی تھی اور اب فوٹو گرافی کا زمانہ ہے اور حکم دونوں کا ایک ہی ہے کہ دونوں ہی حرام ہیں) اور علم کے بہت سے دعوے دار اس میں الجھ کررہ گئے ہیں۔ اور جو فوٹو گرافی کو حلال سمجھتے ہیں‘ ان کی مثال اس طرح ہے کہ وہ ہاتھ کے بنے ہوئے مجسمے کو حرام کہتے ہیں اور کسی مشین یا آلات کی مدد سے بنائے گئے مجسمے کو حلال کہتے ہیں‘ اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے افراد بکثرت نظر آئیں گے جو اس تصویر سازی کو حلال سمجھتے ہوئے اس میں منہمک ہیں اور شیطان ان کی اس عفت پر بغلیں بجا رہا ہے۔
لہذا امت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو اسی غفلت میں مبتلا رہیں اور ا سکو حلال سمجھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ہمارے بعد آنے والی نسلیں شیطان کے اسی داؤ میں آجائیں جو داؤ اس نے قوم نوح پر آزمایا تھا اور ساری کی ساری انسانیت کو گمراہی میں مبتلا کردیا تھا۔
ہماری آئندہ نسلوں کی اصلاح وتربیت ہمارے اپنے اعمال سے منسلک ہے‘ اب ہم خود سوچ لیں کہ ہم اپنی نسلوں کی دین وایمان کی حفاظت کے لئے کیا صورت اپنائیں، آیا اس تصویر سازی میں مبتلا رہیں یا اس سے کنارہ کش ہوجائیں۔اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا ء فرمائیں اور ہماری نسلوں کے بھی دین وایمان کی حفاظت فرمائیں‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: فضائل ومسائلِ قربانی
Flag Counter