Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 11
مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہے!
مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہے

یوں تو لوگ بہت دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان چار وں طرف سے مصائب میں گھرے ہوئے‘ روز بروز تنزل وادبار کا قبضہ عالم اسلامی پر ہوتا جاتا ہے‘ لیکن درحقیقت نازک وقت اب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول رب العالمین ﷺ نے اپنے خطبہ میں آئندہ زمانہ کے حالات بیان فرمائے ‘ قیامت تک پیش آنے والے فِتن اور مصائب سے آپ نے اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔ اسی سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ: ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اس وقت دین پر قائم رہنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ شاید آج وہی زمانہ آگیا۔
عالم اسباب میں کسی قوم کے فنا ہوجانے کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں‘ وہ سب آج ہم میں موجود ہیں اور طرہ یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آج جو حالات ہمارے بہت زیادہ افسوسناک ہیں اور عام طور پر مشاہدہ میں آرہے ہیں‘ انہیں میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
۱:․․․آج ہم لوگوں میں یعنی اہل سنت وجماعت میں دین اگر ہے تو ہر چیز سے پیچھے ہے۔ کبھی ہماری یہ حالت تھی کہ مال‘ اولاد اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز جان اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز عزت وآبرو ‘ ان سب چیزوں پر دین مقدم تھا۔ ہر مسلمان ہر وقت دین الٰہی پر ان سب چیزوں کو قربان کرنے کے لئے تیار رہتا تھا اور ہر وقت اس تلاش میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو میں کوئی قربانی پیش کروں جس خوش نصیب کو یہ موقع ملجاتا تھا‘ وہ خوش ہوتا تھا۔ جس کو نہ ملتا تھا‘ وہ اپنی عمر انتظار میں بسر کرتا تھا۔ قولہ تعالی: ”فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر“ آج یہ صفت نصیب دشمناں ہے۔ ہم میں اب اس کا سایہ بھی باقی نہیں‘ الا ما شاء اللہ۔
۲:․․․آج دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں سب اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت میں سرگرم ہیں اور سب ہمارے ہی افراد کو اپنے اندر جذب کرکے ہمیں کو مٹانا چاہتے ہیں‘ لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں اور اگر احساس بھی ہو تو پروا نہیں۔ عیسائی حملے کرتے ہیں تو ہم پر‘ آریوں کے دانت تیز ہیں تو ہم پر‘ مرزائی شکار کرتے ہیں تو ہم کو‘ شیعوں کا جال ہے تو صرف ہمارے لئے۔
۳:․․․․مذہب سے بے خبری وبے تعلقی اگرچہ عام ہے مگر ہمارا دولتمند طبقہ تو اس میں ضرب المثل ہے۔
۴:․․․․کبھی ہماری یہ حالت تھی کہ اگر دنیا کا کوئی کام ہم کرتے تو لوگ سمجھتے تھے کہ اس کے پردے میں اپنے دین کی کچھ خدمت ان کو منظور ہے‘ آج یہ حالت ہے کہ خالص دینی خدمت کے لئے ہم میں سے کوئی اٹھتا ہے تو اغیار کا کیا ذکر خود اپنوں کو یقین نہیں آتا‘ یہی خیال ہوتا ہے کہ اس پر دہ میں کوئی اپنی ذاتی منفعت‘ کوئی دنیاوی غرض مرکوز خاطر ہے اور ایسا خیال کیوں نہ ہو‘ جبکہ پے در پے تجربے اس کے ہو رہے ہیں۔ آج نہ ہم میں ایثار ہے نہ اخلاص ‘ ہر شخص اپنے ذاتی اغراض اور ذاتی منافع کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے‘ ایک ذرا سی منفعتِ دنیاوی کی طمع دلاکر اغیار خود ہمارے ہاتھ سے ہمارے بھائیوں کا گلا کٹوا دیتے ہیں‘ چند پیسوں کی ہمیں امید ہوجائے تو ہم ساری قوم کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔
۵:․․․آج ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر اعتبار باقی نہیں اور کیوں اعتبار ہو جبکہ مشاہدات وتجربات اس کی نفی کرتے ہیں۔
۶:․․․․سب سے زیادہ درد انگیز نظارہ ہمارے آپس کی تکفیر وتوہیب ہے‘ ایک گروہ ہم میں سے جس نے گویا اپنے اوپر فرض سمجھ لیا ہے کہ مسلمانوں کو خاص کر اہل سنت وجماعت کو کافر اور وبابی بنایا کرے‘ دین کو انہوں نے ذریعہٴ معاش بنالیا ہے‘ وعظ کا کام جو خاص منصب نبوت کا ایک فریضہ ہے ان کے یہاں ایک پیشہ بن گیا ہے‘ جس نے ان کی سازش میں شرکت نہ کی‘ ان کے خود ساختہ خیالات سے الگ ہوا‘ اس کو وہابی کہہ دینا تو کوئی بات ہی نہیں‘ کافر تک کہہ دیتے ہیں۔
آج ہماری وہی حالت ہے جو یہود ونصاری کی قرآن مجید میں بیان فرمائی گئی ہے کہ
:وقالت الیہود لیست النصاریٰ علی شئ وقالت النصاری لیست الیہود علی شئ وہم یتلون الکتاب “
یعنی یہود نصاریٰ کو اور نصاریٰ یہود کو بے دین کہتے ہیں‘ حالانکہ وہ دونوں کتاب اللہ یعنی تورٰت کی تلاوت کرتے ہیں ‘ بلکہ سچ پوچھو تو ہماری حالت اس سے زیادہ عبرت انگیز ہے۔ یہود ونصاریٰ تو علیحدہ علیحدہ دو امت ہیں‘ یہاں امت ایک یعنی اہل سنت الجماعت ہیں۔ ایک ہی امام کی مقلد ہیں پھر آپس میں ایک دوسرے کو وہابی اور کافر کہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گردن زدنی جاننا اور ہرقسم کے تعلقات کا اس سے قطع کرنا ضروری سمجھتے ہیں: ایں قصہٴ غم بسے وراز ست۔
مختصر یہ کہ ہماری حالت آج بد سے بدتر ہورہی ہے‘ اگر کوئی شخص دین خالص پر قائم ہے تو اس پر ہر طرف سے ملامت ہے‘ اس کے لئے ہرطرح کی مصیبت ہے‘ اگر چہ بمقتضائے بشارت صادق ومصدوق ادین داروں کی تائید عالم غیب سے ہوتی ہے اور ان کو کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ‘مگر دنیا عالم اسباب ہے‘ مسلمانوں کی اس حالت کو مشاہدہ کرکے ان کا شیرازہ اس طرح بکھرا ہوا دیکھ کر جن کے دل میں دین کی محبت ہے ان کا بے چین ہوجانا لازم ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ جن مسلماوں کے دل میں دین کا درد ہو‘ وہ جلد اٹھیں اور خوب سوچ سمجھ کر اخلاص وللہیت کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں‘ غیر مسلموں کو مسلم بنانے کا خیال دل سے نکال کر اپنی تمام توجہ مسلمانوں کو دین سے باخبر بنانے اور ان کا نظام درست کرنے میں صرف کریں‘ تقسیم فرائض کے اصول پر کام کیا جائے اور خدمات بانٹ دی جائیں۔تبلیغ وتنظیم کا ولولہ اس وقت لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے اور کچھ لوگ اس کام کے لئے اٹھیں‘ خدا ایسا کرے کہ یہ ولولہ عملی صورت اختیار کرے اور خدا ایسا کرے کہ صحیح راستہ اس کام کا ان کی سمجھ میں آجائے اور شہرت و ناموری اور دوسرے فاسد خیالات سے ان کے دل پاک رہیں‘ خالص اللہ کیلئے کام کرنے کی ان کو توفیق ملے۔ آمین ․ (ماخوذ:النجم لکھنؤ‘ ربیع الاول ۱۳۴۴ھ)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
Flag Counter