Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

11 - 11
حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی
حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی

طریقہ تعلیم وفقہ:
۱:۔ تعلیمی چارٹ: اس میں درجات حفظ و تعلیم قرآن مجید کے لئے تعلیمی و انتظامی ضوابط و قوانین ظاہری مرتب کئے گئے ہیں، چند ضروری ہدایات و قواعد و اصول، نیز تجوید کے چند ضروری قواعد کے علاوہ قراآت پڑھنے والوں کے لئے خصوصی ہدایات درج ہیں۔
۲:۔رسالہ رہنمائے مدرسین مع مسائل ارکانِ دین: صفحات: ۲۰۵، جو چار صد ضوابط و قوانین ہدایت بابت تدریس قرآن و حفظِ قراآت اور تین صد ضروری احکام و مسائل بابت نماز روزہ ،زکوٰةو حج پر مشتمل ہے۔“ (سوانح فتحیہ، ص:۶۱۹)
جس طرح آپ نے ظاہری علوم کی تحصیل کے لئے اکابر تحقیق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے ٹھیک اسی طرح آپ نے اپنی باطنی و روحانی اصلاح کی غرض سے بیعت و ارشاد اور سلوک و احسان کی راہ کو اپناتے ہوئے قطب الارشاد حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ سے بیعت فرمائی، چنانچہ اس سلسلہ میں آپ لکھتے ہیں:
”اولاً غالباً :۱۳۹۵ھ میں بعمر ۳۵ سال حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سے ان کی اجتماع تبلیغ رائے ونڈ میں اولین تشریف آوری کے موقع پر علماء کی ایک جماعت کے ہمراہ بیعت کی، ثانیاً حضرت اقدس شیخ الوقت کے ساتھ اصلاحی تعلق قائم رہا، باقاعدہ تو یہ ناکارہ کچھ بھی نہ کرسکا ،البتہ روزانہ تعلیم کی ابتداء میں ذکر اللہ کی نیت نصیب ہوجاتی ہے، علاوہ ازیں یومیہ درج ذیل اوراد کی قدرے توفیق ہوجاتی ہے: ۱:․․ متعدد بار درود شریف کے بعد استغفراللّٰہ العظیم واتوب الیہ سو بار ،۲:․․․یا بدیع العجائب بالخیر یا بدیع سو بار، ۳:․․․یا رحمن یا رحیم، یا ستار یا غفار متعدد بار،۴:․․․یا اللّٰہ یا سلام سو بار،۵:․․․ اللّٰہ الصَّمد سو بار، ۶:․․․ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث سو بار،۷:․․․ذکر اسم ذات سو بار،۸:․․․درود شریف تنجینا، درود ابراہیمی وغیر ذٰلک متعدد بار، ۹:․․․ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم ۳۳ بار،۱۰:․․․ سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الَّا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللّٰہ العلی العظیم متعدد بار… حق تعالیٰ شانہ، اپنا قرب اپنی رضا و محبت نیز خلوص و برکت سے مالا مال فرمائیں۔ آمین۔“ (سوانح فحیہ، ص:۶۲۰)
آخر میں آپ کو حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید قدس سرہ نے خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا تھا، چنانچہ حضرت قاری صاحب نے حضرت شہید پر لکھے گئے اپنے مضمون ”حرمین شریفین کی یادیں“ میں لکھا ہے:
”حضرت اقدس شہید نے احقر پر جو بے پایاں عنایات فرمائی تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے راقم کو اپنے سلسلہ میں داخل فرماکر اجازت و خلافت سے نوازا، اس موقع پر حضرت نے جو تحریر عنایت فرمائی، وہ تبرکاً درج ذیل ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد!
برادرمکرم و محترم الشیخ العالم القاری المقری جناب مولانا محمد طاہر رحیمی زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمة اللہ اللہ وبرکاتہ،
بلا تکلف عرض کرتا ہوں کہ بے ساختہ جی میں آیا کہ آپ کو اجازت و خلافت اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا نوراللہ مرقدہ اور حضرت اقدس عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی نوراللہ مرقدہ کی جانب سے دیدوں۔
امید ہے کہ آپ اپنے ان اکابر کے سلسلہ کو جاری فرمائیں گے اور یہ ہم دونوں کے لئے صدقہ جاریہ ہوگا اور ان اکابر کے ساتھ وابستگی کا ذریعہ ہوگا۔ یہ ناکارہ نااہل ہے، اس لئے میں اپنے اکابر کے سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے آنجناب کو اس کے لئے منتخب کرتا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کا نام پوچھنا چاہئے تو دریغ نہ فرمائیں اور اس ناکارہ کو دعوات صالحہ میں مشائخ کرام کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھیں۔ والسلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
محمد یوسف عفااللہ عنہ
۵/۹/۱۴۱۸ھ
مدینہ منورہ“
حضرت قاری صاحب کے پانچ بیٹے، ۴ بیٹیاں مولود ہوئیں، جن کی تفصیلات یوں ہیں:
۱:․․․خالد رمضان ۱۳۸۹ھ خورد سال فوت شد،۲:․․․ عبدالقادر ۶/شوال ۱۳۹۰ھ، ۳:․․․شاکرہ ربیع الاول ۱۳۹۱ھ ، ۴:․․․نجیبہ ۳/ذی الحجہ ۱۳۹۲، ۵:․․․شاکر شعبان ۱۳۹۴ھ
۶:․․․محمد اشرف ۲۶/رمضان ۱۳۹۵ھ ، ۷:․․․ سعدیہ۱۰/رجب ۱۳۹۷ھ، ۸:․․․ زین العابدین ۱۱/ربیع الاول ۱۳۹۹ھ، ۹:․․․طیبہ ۲۷/محرم ۱۴۰۲ھ۔“ (سوانحہ فتحیہ، ص:۶۲۰)
تعلیمی، تدریسی اور تصنیفی کارناموں کے علاوہ آپ کی خصوصی کیفیات و احوال کا دائرہ خاصا وسیع ہے، جن میں سے بعض کا حضرت قاری صاحب نے خود ان الفاظ میں تذکرہ کیا ہے:
”۱:․․․دور قاسم العلوم میں امامت نمازہائے جہری میں تقریباً ۱۵-۱۶ ختم قرآن مجید مختلف قرأت میں کئے،
۲:․․․حضرت مفتی محمود صاحب اپنے حسن ظن و شفقت کی بنا پر فرمایا کرتے تھے کہ: قاری طاہر کو قرآن مجید سورئہ فاتحہ کی طرح یاد ہے، اس نے نہ بھولنے کی قسم اٹھا رکھی ہے،
۳:․․․دارالحدیث جامعہ قاسم العلوم میں ا یک تقریب کے موقع پر احقر نے سورئہ حجرات کا دوسرا رکوع تلاوت کیا تو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ملتانی کو اس درجہ تاثر ہوا کہ ان پر بے اختیار گریہ طاری ہوگیا جو درحقیقت سماع قرآن کے آداب کا ایک عملی سبق و نمونہ تھا، فرحمہ اللہ رحمةً واسعةً،
۴:․․․ اسی دور قاسم العلوم میں کئی غیر مسلم لوگ ․․․عیسائی ہندو وغیرہ․․․ احقر کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے، فللّٰہ الحمد،
۵:․․․بچپن میں احقر کو بزرگانِ دین علماء کرام کے مواعظ و تقاریر سننے کا از حد شوق تھا، ایک بار حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب کی تقریر تھی، احقر نے ایک رکوع تلاوت کیا، بعد میں حضرت خان صاحب نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور خوب شاباش دی،
۶:․․․الحمدللہ کہ آج ۱۴۰۹ھ ۴۹ برس کی عمر تک بعداز بلوغ کُل ۳۳ سالہ عرصہ میں خواب میں غلط خیالات کی وجہ سے کبھی ایک بار بھی احتلام ،اور اس کی وجہ سے نہانے کی نوبت پیش نہیں آئی، آگے بھی اللہ کی ذات سے یہی امید کرتا ہوں۔آمین،
۷:․․․ حضرت اقدس مولانا خیر محمد صاحب احقر سے خوب خوش رہے ،فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی وقت میں تعلیم قرأت اور تعلیم درس نظامی ہر دو کے بارہ میں مجھے اس پر تسلی، اعتماد و خوشی ہے کہ یہ د ونوں کام پورے کرلیتا ہے، جب کہ عموماً طلبا قاری صاحب کے خوف و رعب کی وجہ سے ان کا کام تو پورا کرلیتے ہیں، مگر کتب عربی کے اسباق بخوبی یاد نہیں کرتے،
۸:․․․ الحمدللہ! بندہ پر حق تعالیٰ شانہ کا یہ خاص الخاص لطف و فضل ہے کہ کان میں قرآن کریم کا جو لفظ بھی غلط سننے میں آتا ہے، وہ غلطی فوری طور پر پکڑی جاتی ہے، خواہ بندہ کسی بھی کام میں مشغول ہو ،بحمدہ تعالیٰ اس غلطی کے کان میں پہنچتے ہی فوری و بلاتاخیر اس کا احساس ہوجاتا ہے ،والحمدللہ علی ذالک،
۹:․․․ حضرت مفتی محمود صاحب کی وزارتِ عُلیا صوبہ سرحد کے دوران چھ روز میں بقرأت کسائی  تراویح میں پورا قرآن کریم سنانے کا اتفاق ہوا،
۱۰:․․․ بقرہ عید کے موقع پر الحمدللہ کئی سال سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، امام شاطبی، علامہ جزری امام دانی وغیرہم جملہ صحابہ کرام و تابعین عظام و محدثین وقراء، مشائخ آباؤ اجداد و جملہ اہلِ اسلام کو متعدد نفلی قربانیوں کے ایصالِ ثواب کا معمول ہے، جس کے نتائج و فوائد کھلی آنکھوں دیکھنے میں آئے، چنانچہ اس کی برکت سے خدمت و تدریس حدیث کا بھی موقع ملا اور سب سے اول مشکوٰة شریف کا سبق بعداز بقرہ عید نصیب ہوا، فللّٰہ الحمد۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماکر مزید توفیق سے نوازیں۔ آمین،
۱۱:․․․ ایک اجتماع میں تعارف علم قرأت پر احقر نے تقریر و تبصرہ حضرت اقدس قاری صاحب کی تشریف داری و موجودگی میں کیا جو بحمدہ تعالیٰ ببرکت حضرت والا خوب ہی خوب جامع و عمدہ پیرایہ میں ہوا، بعد میں ایک ساتھی نے بتایا کہ حضرت اقدس فرمارہے تھے کہ یہ مضامین تو خود میرے ذہن میں بھی نہیں تھے، جو اس نے بیان کئے ہیں (اس سے اونچی تواضع کی مثال شاید و باید… راقم)،
۱۲:․․․ ایک ساتھی نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس قاری رحیم بخش صاحب نے ارشاد فرمایا کہ: اگر قیامت کے روز مجھ سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تُو کیا لایا ہے؟ تو میں کہوں گا کہ طاہر کو بنایا اور تیار کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے حُسنِ ظن کو خوب سچا اور واقعی بنادیں آمین ،ورنہ من آنم کہ من دانم،
۱۳:․․․قاری غیاث الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک بار مجھ سے ایک شخص نے کہا: طاہر پڑھانے میں بچوں پر بہت سختی کرتا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ جواب دیا کہ طاہر یوں چاہتا ہے کہ سب بچوں کو قرآن مجید سورئہ فاتحہ کی طرح یاد ہوجائے، اللہ تعالیٰ قاری صاحب کے اس ارشاد کو خوب واقعی اور سچا بنادیں۔آمین،
۱۴:․․․ احقر ایک بار حضرت اقدس کے ہمراہ بچپن میں بستی شاہ جمال (کینجہر) گیا، رات کو شبینہ میں پارہ ۲۴ پڑھنے کا اتفاق ہوا، بہت سے حفاظ کرام شریک سماعت ہوئے اور خوب نکتہ چینی کی غرض سے سماعت کرتے رہے، انہوں نے کہا کہ اس نے قل اللّٰہم فاطرالسموت والارض عٰلم الغیب والشہادة میں میم کی زیر سے عٰلمِ الغیب پڑھا ہے، جب یہ بات حضرت اقدس تک پہنچی تو فرمایا: ان حافظوں سے کہو کہ اس کو نہ چھیڑو ،اس کے بارہ میں لب کشائی مت کرو ․․․اس نے صحیح پڑھا ہے․․․ ورنہ تمہیں بڑی مشکل کا سامنا ہوگا اور پھر تمہارے لئے ․․․اگر تقابل شروع ہوگیا تو․․․اس سے پیچھا چھڑانا دوبھر ہوجائے گا… آپ نے اپنے حسن ظن اور غایت شفقت کی وجہ سے اس قدر اعتماد ووثوق کا اظہار فرمایا… درحقیقت کسی کو ترقی دینے کا ایک طریقہ ایسی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے ،ورنہ اپنی حقیقت سے میں بذاتِ خود خوب واقف ہوں، اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔آمین،
۱۵:․․․ زبدة المقصود: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کی خدمت اقدس میں ارسال کی گئی تو دعاؤں سے بھرپور نہایت خوشی کا والا نامہ تحریر فرمایا جس میں یہ لکھا کہ: نام بے حد پسند آیا، آپ کی کتاب میرے بستر کے سرہانے رکھی ہوئی ہے ،جب بھی نظر پڑتی ہے، دل سے دعا نکلتی ہے۔ فللّٰہ الحمد،
۱۶:․․․ جب رائیونڈ میں اجتماع کے موقع پر اولین بار آپ کی تشریف آوری ہوئی تو زیارت و ملاقات کے علاوہ بیعت کا بھی موقع میسر آیا، ملاقات کے دوران حضرت والد صاحب کی ۱۳۹۴ھ چوٹ کا ذکر آیا تو سورئہ فاتحہ کے ذریعہ دم کرنے کے خاص طریقہ کی اجازت ارشاد فرمائی، نیز اسی موقع پر یہ ارشاد فرمایا کہ: جنابت کا غسل آج تک ہم محض ایک امر تعبدی غیر معقول المعنی سمجھتے رہے ،مگر اب ڈاکٹروں کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ا مر معقول الحکمة بھی ہے، کیونکہ خروج منی سے ہر مسام سے ایک زہریلا مواد خارج ہوتا ہے کہ اگر اسے پانی کے ذریعہ زائل نہ کیا جائے تو مضر صحت ثابت ہوتا ہے (بمفہوم)،
۱۷:․․․ایک بار خواب میں گنبد ِ خضرأ کی زیارت نصیب ہوئی، اندر سے روئی کے گالوں کی شکل میں نہایت سفید نور اور روشنی برآمد ہورہی ہے اور احقر اپنا منہ کھول کر اس نور اور روشنی کو خوب زیادہ جی بھر کر اپنے اندر سمیٹتا جارہا ہے،الحمدللہ! کہ اس خواب کے چند یوم کے بعد احقر کو مشکوٰة المصابیح کا سبق از جانب مدرسہ مل گیا، اور اس طرح اس خواب کی تعبیر سامنے آگئی،
۱۸:․․․ایک ثقہ آدمی نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی، آپ حجرئہ مبارکہ سے باہر تشریف فرما ہیں اور مجلس لگی ہوئی ہے جس میں تو بھی موجود وحاضر ہے، اتنے میں حضور سرور کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے تجھ سے ارشا دفرمایا کہ: جاؤ! اندر حجرئہ مبارکہ سے ان حاضرینِ مجلس کی ضیافت لاؤ، اس پر احقر اندر گیا اور ٹرے کی قسم کے برتن میں اندر سے آئس کریم کی قسم کی ضیافت باہر لانے لگا ، فللہ الحمد، غالباً یہ مہمانانِ رسول علیہ السلام حضرات طلبا کرام کی ضیافت و نظامتِ طعام کی جانب اشارہ ہے،
۱۹:․․․ جامعہ قاسم العلوم کے دور ِ تدریس میں ایک بار احقر کے ایک خورد سال بچے ․․․عزیزم حافظ محمد اشرف سلمہ․․․ کو یہ عارضہ لاحق ہوگیا کہ اس کے دونوں فوطوں میں فرق آگیا کہ ایک چھوٹا ،ایک بڑا ہوگیا، ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا، جبکہ اس سے پہلے احقر کے ایک بھتیجے کا اسی قسم کا آپریشن ہو بھی چکا تھا، احقر نے جنابِ باری میں بصد عجز التجا کی کہ اے بارِ الٰہ! آپ کو معلوم ہے کہ میں ٹوٹی پھوٹی خدمت قرآن کریم کی وجہ سے فرصت نہیں پاتا ہوں ،اور نہ ہی میرے پاس اس قدر وسائل ہیں کہ آپریشن کراؤں، اے بارِ الٰہ! بس تو بطفیل قرآن پاک اپنی قدرت ہی سے اس بچہ کو بلا آپریشن تندرستی نصیب فرمادے، اس سے کچھ یوم کے بعد بچہ کو سخت قسم کا ٹائیفائڈ ہوگیا، جو اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا، احقر نے بصد نیاز پھر دعا کی کہ: اے اللہ! میں نے تو آپ سے بچہ کی صحت و تندرستی مانگی اور آپ نے اسے مزید ایک اور عارضہ میں مبتلا فرمادیا، بس توہی اپنا فضل و کرم فرما، آپ یقین جانیں کہ اس دعا کے چند روز کے بعد اس بچہ کا ٹائیفائڈ اتر گیا اور اترنے کے ساتھ ہی اس کے دونوں فوطے برابر اور درست ہوکر بالکل اصلی ہیئت پر لوٹ آئے، یہ محض قرآن کریم کا انعام و اعجاز تھا…فللّٰہ الحمد،
۲۰:․․․ الحمدللہ کہ خواب میں ا یک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور ایک مرتبہ امام سیّدنا قالون رحمہ اللہ کی زیارت سے مشرف ہوا ہوں،
۲۱:․․․ زمانہ طالب علمی سال دورئہ حدیث شریف میں احقر کا معمول تقریباً ہر رات اکثر و بیشتر بوجہ مطالعہ و تکرار و استحضار و ضبط اسباق کے ،رات کو بارہ ایک بجے سونے کا تھا ،پھر صبح کو نمازِ فجر کے بعد آدھ پون گھنٹہ نومِ استراحت کرتا تھا، ایک بار احقر نے ایک ساتھی کے ذمہ ناشتہ لگایا کہ آپ دکان سے یہ چیز لادیں، انہوں نے وہ چیز لاکر میرے قریب رکھ دی اور میں نیند میں پڑا سورہا تھا، خواب میں د یکھا کہ ایک بچھو میرے قریب آرہا ہے اور مجھ تک پہنچنے ہی والا ہے، یکدم بوجہ دہشت و ہراس کے آنکھ کھل گئی، آپ یقین جانیں کہ میں نے جو دیکھا تو فی الواقع ہی بچھو مسجد کی صف پر چلتا ہوا میری جانب آرہا تھا اور قریب ہی پہنچ گیا تھا، حق تعالیٰ شانہ نے حفاظت کی، اس کرشمہ سازی پر دل شکر خداوندی سے لبریز ہوگیا فللّٰہ الحمد،
۲۲:․․․ الحمدللہ کہ ۱۴۰۳ھ تا ۱۴۰۹ھ کے چھ سالہ عرصہ کے دوران، بارہ سے زائد سہ شبی شبینوں میں تن تنہا قرأت عشرہ کی مختلف قرأت و روایات میں ختماتِ قرآن کریم کی توفیق و سعادت حاصل ہوئی ہے ،نیز بیرونِ ملتان متعدد شبینوں میں بحالتِ نوافل یکبارگی دس دس یا اس سے کچھ کم و بیش پاروں کی تلاوت کی ہمت و توفیق منجانب اللہ شامل حال ہوتی رہی ہے ،فللّٰہ الحمد علی ذٰلک،
۲۳:․․․ ۱۳۸۴ھ تا ۱۴۰۹ھ کے پچیس سالہ عرصہ میں مختلف شہروں، نیز بیرونی ممالک سے آمدہ و وارد شدہ سینکڑوں مختلف سوالات و مشکلات تجوید قرأت کے مفصل و نادر بیش قیمت جوابات تحریر کئے گئے، جن کی نقول موجود ہیں ،جنہیں انشاء ا للہ ”مجموعہ مکتوبات قرأت“ کے نام سے شائع و طبع کرانے کا ارادہ ہے، واللہ الموفق،
۲۴:․․․صغر سنی اور کم عمری میں ایک بار کم علمی کی بنا پر احقر نے ایک نجومی کو اپنا ہاتھ دکھایا ،اس نے اور کئی اناپ شناپ باتوں کے علاوہ ا یک بات یہ بھی بتائی کہ تمہاری عمر اسی سال ہوگی، احقر نے یہ بات قبلہ قاری صاحب سے ذکر کردی، آپ نے مزاحاً فرمایا: ہم تو چاہتے ہیں کہ تیری عمر ایک سو دس برس ہو، تاکہ تم خوب دین کا کام کرسکو، مزاحیہ انداز سے اشارتاً اصلاح فرمادی کہ ایسی باتوں کا یقین نہ کرنا چاہئے،
۲۵:․․․ ایک مرتبہ احقر کی درس گاہ میں ایک عامل جنات آئے، انہوں نے بتایا کہ کئی جنات بھی یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں، احقر نے عرض کیا کہ بظاہر تو مجھے اس کا احساس نہیں ہورہا ہے، البتہ ایک دوبار کچھ بیداری کچھ نیند کی سی حالت میں محسوس ہوا کہ جنات پڑھ رہے ہیں اور احقر انہیں غلطیاں بتارہا ہے، ایک بار جامعہ قاسم العلوم کے دور میں رات کو ایک طالب علم پر آسیب کے اثرات ظاہر ہوئے تو طلبا اور اساتذہ کرام کے کہنے سننے پر اس آسیب نے احقر کا نام لے کر کہا کہ اچھا اس کا فلاں شاگرد جو فلاں کمرہ میں رہتا ہے اور یہ اس کا نام ہے، اگر وہ مجھے سورئہ جن سنادے تو میں ابھی چلا جاؤں گا، چنانچہ اس پر عمل کیا گیا اور اس آسیب سے خلاصی حاصل ہوگئی، فللّٰہ الحمد۔“ (سوانح فتحیہ ص:۶۲۵)
حضرت قاری صاحب کی عبقری شخصیت اور ان کے لازوال کارناموں کی بنا پر اکابر وقت نے نہ صرف ان پر اعتماد کیا بلکہ ان کی بھرپور تعریف و توصیف اور تائید و تحسین فرمائی، ان میں سے چند ایک اکابر کے تاثرات حسب ذیل ہیں:
حضرت اقدس قاری فتح محمد پانی پتی:
”الف: ․․․میرے پیارے عزیز مولانا الحافظ القاری محمد طاہر صاحب !جس طرح آپ حفص کی روایت کے حافظ ہیں، اسی طرح حق سبحانہ و تعالیٰ کے خاص الخاص لطف و کرم سے قرأت عشرہ کے بھی حافظ ہیں اور قرأت کے ایسے ماہر ہیں کہ اپنی مثال آپ ہی ہیں اور ساتھ ہی ا یک جلیل القدر نعمت ان کو یہ بھی عطا ہوئی ہے کہ تمام علوم محنت سے پڑھے ہیں اور حدیث میں تو ماشاء اللہ بہت ہی زیادہ محنت کی ہے اور وفاق کے امتحان میں نمبر اول آئے ہیں، ان نعمتوں کے عطا ہونے پر مجھ جیسے قرآن کے خدام کو بھی بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ قرآن اور اس کی قراآتوں اور اس کے علوم کی خدمت کے لئے ایک ایسے عزیز عطا فرمادیئے ہیں جو ہر اعتبار سے اس کے اہل ہیں اور خود عزیز موصوف کو بھی صمیم قلب سے وہابِ حقیقی کا حد سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے ۔“ (متعدد اقتباسات)
ب: ․․․ ”حق سبحانہ و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ موصوف کو ۱۸ سال کی عمر میں اپنی کتاب پاک کی قرأت کا ایسا ماہر بنادیا ہے کہ اپنی مثال آپ ہی ہیں اور لطف یہ ہے کہ موصوف ساتھ ہی ساتھ دوسری کتابوں کی تعلیم بھی پارہے ہیں اور دو تین سال میں مستند عالم بن جائیں گے، ظاہر ہے کہ ایسی مشغولی کے زمانے میں قرأت کی ایسی کتاب کا لکھنا کتنا بڑا کمال ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔“ (از تقریظ وضوح الفجر مطبوعہ ۱۳۸۱ھ)
ج:․․․ ”پیارے عزیز مولانا الحافظ القاری رحیم بخش صاحب کے قلب کو فن قرأت کی خدمت کے شوق سے معمور فرماکر میرا معین و مدد گار بنادیا، اور پھر مولانا الحافظ القاری محمد طاہر صاحب ولد جناب حفیظ اللہ صاحب کو بھی میرا دست و بازو بنادیا اور عزیز قاری محمد طاہر صاحب نے ”نظم احکام قولہ تعالیٰ اٰلٰن“ کی شرح تحریر فرمائی وہ ”سلک الَّلاٰلی والمرجان“ کے نام سے طبع ہوکر منظرِ عام پر آچکی ہے، حق تعالیٰ شانہ ان دونوں عزیزوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ جزا دارین میں عطا فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور مزید برمزید توفیق مرحمت فرمائے۔“ (اقتباس از تقریظ المراة النیر ہ المطبوعہ ۱۳۹۴ھ)
د․․․ ”عزیزم مولانا مقری محمد طاہر صاحب رحیمی داماد، تلمیذ رشید، حقیقی جانشین قاری رحیم بخش صاحب  بلکہ بعض علمی کمالات میں ان سے بڑھ کر ہیں۔ ماشاء اللہ کام میں خوب محبت، محنت، للہیت سے لگے ہوئے ہیں، اللہ پاک قبولیت سے نوازیں، ان کے علم، عمل، اخلاص، عمر میں خوب برکتیں فرمائیں، ماشاء اللہ! تالیف کا خوب جذبہ رکھتے ہیں، کافی کتابوں کے موٴلف ہوچکے ہیں، کچھ زیر تالیف ہیں، پاکستان بھر میں کام کا تو وہی ایک دانہ نظر آتا ہے۔“
(اقتباس از مکتوب گرامی ۱۴۰۶ھ بنام قاری محمد سلیمان دہلوی از مدینہ منورہ)
مجدد القرأت حضرت مولانا قاری رحیم بخش 
الف:․․․ ”میرے پیارے عزیز جناب قاری محمد طاہر سلمہ ماہر قراآت عشرہ و حافظ شاطبیہ و درہ وغیرہاوشارح النشر فی القراآت العشر جن کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے خدمت قرآن و حدیث ہی کے لئے پیدا فرمایا ہے ،آپ دسوں قراآت اور ان کے متداول قصائد :شاطبیہ، درہ، جزریہ کے جید حافظ اور عالم ہیں، تمام علوم خوب محنت سے پڑھے ہیں اور فن حدیث میں اتنی دسترس حاصل کی کہ وفاق المدارس کے امتحان میں نمبر اول آئے ہیں اور نہ صرف اول آئے،بلکہ جب سے وفاق قائم ہوا ہے ،اس وقت سے لے کر اب ۱۳۸۵ھ تک کسی نے بھی ان کے برابر نمبر نہیں لئے یعنی کل نمبرات ۶۰۰ میں سے( ۵۳۵) نمبر حاصل کئے اور قرأت و تفسیر و حدیث میں فائق الاقرن کا لقب پایا، میرے پاس کم و بیش ۱۳ سال گزارے ہیں ،بحمدہ تعالیٰ میں نے ان کو ہمیشہ علم و عمل کا جامع پایا، مجھے اور میرے شیخ محترم مدظلہ کو فن قراآت اور ان کی کتب میں ان پر پورا پورا اعتماد ہے، عزیز موصوف پر حق سبحانہ و تعالیٰ کے بے انتہا انعامات و احسانات ہیں، من جملہ ان کے یہ ہے کہ موصوف نے چھوٹی سی یعنی ۱۸ سال کی عمر میں قراآت ثلثہ پر ایک لاجواب رسالہ ”المسمّٰی بہ وضوح الفجر“ تالیف کیا اور قصیدہ ”احکام قولہ تعالیٰ اٰلٰن “کی شرح مرتب کی ،جس کے حل سے اکثر ملکوں کے علماء و قراء عاجز تھے، اور کتاب” النشر فی القراآت العشر“ جیسی مشکل کتاب کی شرح شروع کی ہوئی ہے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ہو بھی چکا ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔“ (متعدد اقتباسات)
ب:․․․ ”اللہ جزائے خیر عطا فرمائے میرے پیارے عزیز قاری محمد طاہر سلمہ کو جن کو حق سبحانہ، وتعالیٰ نے خدمت قرآن ہی کے لئے پیدا فرمایا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹی سی ․․․۱۸ سال کی․․․ عمر میں بحمدہ تعالیٰ ان کو دس کی دس قراآتیں اور شاطبیہ، درہ، رائیہ جزریہ وغیرہ نظمیں بالکل نوکِ زبان ہیں اور بہ مشیت ایزدی تین سال تک دورئہ حدیث و درجہ تکمیل سے بھی فارغ ہونے والے ہیں، انہوں نے میرے اشارے کو بمنزلہ حکم کے خیال کیا اور میری منشا کے مطابق بفضلہ تعالیٰ چند یوم میں ایک رسالہ مسمّٰی بہ ”وضوح الفجر فی القراآت الثلٰثة المتمِّمةللعشر“بکمالِ حسن مرتب کیا۔“ (از تقریظ کتاب وضوح الفجر)
ج:․․ عزیز شارح پر حق سبحانہ وتعالیٰ کے بے انتہا انعامات و احسانات ہیں، من جملہ ان کے موصوف نے چھوٹی سی عمر میں قراآت ثلثہ پر ایک لاجواب رسالہ ”المسمّٰی بہ وضوح الفجر“ تالیف کیا، زیر نظر شرح مرتب کی، جس کے بارہ میں شیخ وقت مدظلہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ ناظرین کے سامنے ہے اور” طیبة النشرفی القراآت العشر“ جیسی ادق نظم کی شرح شروع کی ہوئی ہے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ہو بھی چکا ہے، اللہ جل شانہ اس کو بھی اس شرح کی طرح بہت جلد پایہ ٴ تکمیل تک پہنچائے ،آمین، دسوں قراآت اور ان کے متداول قصائد کے جید حافظ اور عالم ہیں، تمام علوم خوب محنت سے پڑھے ہیں، اور فن حدیث میں اتنی دسترس حاصل کی کہ وفاق المدارس کے امتحان میں نمبر اول آئے ہیں اور نہ صرف اول آئے بلکہ جب سے وفاق قائم ہوا ہے، اس وقت سے لے کر اب تک کسی نے بھی ان کے برابر نمبر نہیں لئے یعنی کل چھے سو نمبرات میں سے (۵۳۴) نمبر حاصل کئے اور قرأت و تفسیر و حدیث میں ”فائق الاقران“ کا لقب پایا، میرے پاس کم و بیش ۱۲ سال گزارے ہیں، بحمدہ تعالیٰ میں نے ان کو ہمیشہ علم و عمل کا جامع پایا، مجھے اور میرے شیخ محترم مدظلہ کو فن قراآت اور ان کی کتب میں ان پر پورا پورا اعتماد ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔“ (از تقریظ شرح نظم احکام اٰلٰن)
بطل اسلام حضرت اقدس مولانا مفتی محمود :
” عزیزم محترم سیّد القراء والحفاظ ماہر قرأت سبعہ و عشرہ جناب مولانا القاری محمد طاہر صاحب رحیمی زاداللہ علومہ، جہاں علم تجوید و علم قراآت کے فن میں ماہر اور معتمد ہیں اور فن قرأت میں بیش بہا تصانیف کے مولف ہیں ،وہاں وہ علم حدیث کے مشکل مقامات کے حل کرنے میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کو اس ”زبدہ“ کی طرح کی تالیفات کی مزید توفیق بخشے، آمین واللہ الموفق والمعین (از تقریظ رسالہ زبدة المقصود)۔“
محدث اعظم حضرت علامہ مولانا محمد شریف کشمیری :
” برادرِ عزیز قاری محمد طاہر صاحب رحیمی سلمہ ربہ، آپ کو فن تجوید و قراآت کے علاوہ فن حدیث سے بھی شغف و وابستگی ہے ،طلبا حدیث کے لئے یہ (زبدہ) ایک انمول موتی اور گرانقدر ہدیہ ہے ، ہر طالب علم کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے ،باری تعالیٰ عزیز موصوف کے علم و عمل میں برکت دے آمین۔“
شیخ الحدیث ولی کامل حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ:
”فخر القرأ حافظ سبعہ و عشرہ قراآت قرآن کریم مولانا القاری محمد طاہر الرحیمی مدظلہ آپ الشاب سنَّاد الشیخ علماً وفناً کا مصداق ہیں، آپ نے قبل ازیں کاتبانِ وحی کے نام سے ایک رسالہ مرتب فرمایا ہے جو کہ طبع ہوچکا ہے، اس کے علاوہ ”فیوض المہرہ فی المتون العشرہ“ بھی مرتب فرمایا ہے جس میں شاطبیہ، درہ، طیبہ، رائیہ، جزریہ وغیرہ دس کتب قرأت و رسم و تجوید و آیات کے متون مع تراجم ضبط کئے ہیں، یہ کتاب زیر طبع ہے اور جمال القرآن کی شرح کمال الفرقان بھی شائع کی ہے جو عجائبات تجوید کا خزینہ و بے بہا گنجینہ ہے، زبدة المقصود مغلقاتِ سنن ابی داؤد کا بہترین حل ہے، اس رسالہ میں انہوں نے طالبان علمِ حدیث پر یہ احسان فرمایا ہے کہ ابوداؤد کے مشکل مباحث کو جو قال ابوداؤد کے تحت موجود ہیں، خوب حل کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک مقدمہ بھی ابتدا میں شامل فرمایا ہے جس میں ترجمہ مصنف کے علاوہ خصائص و فضائل کتاب وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے، اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو جزائے خیر دے اور آپ کے علم و عمل اور اخلاص میں برکت عطا فرمائے، آپ کی تالیفات کو سب کے لئے نافع بنائے ، آپ کے علم و عمل کی ترقی اور محفوظیت عن الفتن کے لئے دعا کرتا ہوں، آمین۔ “
محقق بے بدل حضرت مولانا مفتی عبدالستار مدظلہ:
” فخر القرأ حضرت قاری محمد طاہر رحیمی سلمہ ومدفیوضہم کے علمی کارنامے شیوخ کے لئے باعث رشک ہیں، اللہم زدفزد و تقبل ثم تقبل، اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل اور اخلاص میں برکت عطا فرمائیں اور آپ کی تمام تالیفات کو مقبول و نافع بناکر خلعت رضاء سے سرفراز فرمائیں۔“ (خود نوشت سوانح مندرجہ سوانح فتحیہ، ص:۶۳۰)
آپ کی اس خداداد صلاحیت، تقویٰ و طہارت قرآن و سنت اور دین ملت سے وارفتگی اور عبادات و طاعات سے شغف اور بے پناہ کمالات کی بنا پر حضرت لدھیانوی شہید نے آپ کو اپنے حلقہ مجازین میں شامل فرمایا تھا، دوسری طرف حضرت قاری صاحب بھی حضرت لدھیانوی شہید کے عاشق زار تھے اور بے پناہ الفت و محبت اور عقیدت و مودت کا برتاؤ فرماتے۔ حضرت شہید سے حضرت قاری صاحب کے تعلق خاطر کا اندازہ آپ کے مضمون ”حرمین شریفین کی یادیں“ سے لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت قاری محمد طاہر رحیمی قدس سرہ تقریباً ۲۰ سال جامعہ قاسم العلوم میں حفظ و گردان کے علاوہ شعبہ تجوید و قرأت کے صدر ہے اور اپنے شعبہ میں کامیاب و بے مثال تدریس فرمائی اور اپنے استاذ و محسن اور نسبی والد مجدد قرأت مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی قدس سرہ کے علوم و معارف کی خوب تقسیم فرمائی۔ اسی کے ساتھ ساتھ وقت کے اکابر نے ان کی خداداد صلاحیتوں کے باعث انہیں شعبہ حفظ و گردان اور تجوید و قرأت کے ساتھ درسِ نظامی کی امہات کتب کی تدریس کی ذمہ داری بھی سپرد فرمائی، چنانچہ انہوں نے ہر ہر میدان میں اپنی کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑے۔
لیکن آخر میں آپ پر دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہجرت اور وہاں کے مستقل قیام کا شوق عشق کے درجہ میں غالب آیا تو سب کچھ چھوڑچھاڑ کر آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ فرمالیا، چنانچہ آج سے ۲۰، ۲۱ سال قبل آپ مستقل مہاجر مدینہ منورہ ہوگئے، وہاں ان کا شغف صرف اور صرف مسجد نبوی میں حاضرباشی اور صف اول کی سعادت کے حصول کے علاوہ کچھ نہ تھا، حضرت قاری صاحب پر آخر عمر میں زہد و تکشف کا غلبہ تھا، چنانچہ ظاہری لباس و پوشاک اوروضع و قطع کے لحاظ سے آپ کو دیکھنے والا کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ شخص اتنا بڑا ماہر فن اور صاحبِ کمال ہے، چنانچہ ہم نے حضرت کو جب بھی دیکھا قرآن پڑھتے دیکھا، کبھی کسی روایت پر ختم قرآن فرماتے تو کبھی کسی روایت پر، ان کے پیچھے کھڑے ہوکر نفل پڑھنے والے اصحاب ذوق عرب تھک جاتے مگر وہ بندئہ خدا قرآن کی دھن میں مگن رہتا، آخر میں آپ نے فن ِ قرأ ت اورخصوصاً سبعہ عشرہ پر منکرین حدیث کے امام تمنا عمادی نے جو جو اعتراضات اٹھائے تھے حضرت نے اس کے رد میں دفاع قراآت کے نام سے بہت ہی مدلل و محقق کتاب لکھ کر مخالفین و منکرین حدیث کے دانت کھٹے کئے۔
قیامِ مدینہ منورہ کے شروع دنوں میں حسبِ حدیث پاک آپ پر بھی مشکلات و مصائب آئے، مگر آپ عزم و ہمت اور استقامت و استقلال کا کوہ گراں ثابت ہوئے، رفتہ رفتہ سب مشکلات ختم ہوگئیں، اب ایک عرصہ سے آپ جگر کے عارضہ میں مبتلا ہوکر مریض رہنے لگے تھے۔
اس آخری دور میں خدام و تلامذہ اور متعلقین نے درخواست کی کہ حضرت عارضہ جگر کا علاج چین میں ہے، آپ کو علاج کے لئے وہاں لے جاناہے، آپ نے ان کی یہ درخواست سن کر نہایت ناگواری سے فرمایا:
تم ان آخری دنوں میں مجھے مدینہ منورہ سے دور کرتے ہو؟بھائی یہ آخری دن ہیں، مدینہ منورہ سے باہر ہرگز نہ جاؤں گا، مجھے یہاں مرنا ہے اور یہاں مرکر دفن ہونے دو۔
چنانچہ حسب خواہش: ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ کے مصداق سعودی مطلع کے مطابق ۲۶/جمادی الاخریٰ کو عشاء سے قبل آپ نے جان ،جانِ آفریں کے سپرد کی، مسجد نبوی میں جنازہ ہوا اور لاکھوں علماء، صلحاء اور اولیاء اللہ نے جنازہ کی نماز پڑھی اور آسودئہ بقیع ہوئے۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ اکرم نزلہ ووسع مدخلہ آمین۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 
Flag Counter