Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوا لقعدہ ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 11
مودودی صاحب اوران کی تفسیر” تفہیم القرآن“
مودودی صاحب اوران کی تفسیر ” تفہیم القرآن“

۴- سورہٴ انعام کی آیت: ”فلما جن علیہ اللیل رأی کوکباً“ کے ذیل تفہیم القرآن (طبع پنجم) کی جلد نمبر: ۱، ص:۵۵۶ پر موصوف کے اردو بیان کا ترجمہ عربی میں یوں ہے:
ان آیات مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے پیشتر گذرے ہوئے احوال اور ان کے فکر وتدبر کی بلندیوں اور آفرینیوں کو بیان کیا گیا ہے، جس سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ جو شخص سلیم الفطرت پیدا ہو ،بت پرست سوسائٹی میں آنکھ کھولے اور پیغام توحید کی اس تک رسائی ناممکن ہو، وہ اس کائنات خداوند میں وقوع پذیر اثرات ونیرنگیوں میں غور وفکر کرکے ان سے استدلال کرتے ہوئے ذات حقیقی تک رسائی حاصل کرسکتا ہے (پھر کچھ آگے چل کر یوں فرماتے ہیں) تردد وحیرت اور ہوشربائی کے ان منازل ومراحل کا سفر توحید کے اثناء وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے، چنانچہ ان مراحل پر ٹھہرنا کچھ معتبر نہیں ،اس لئے کہ ان منازل ومراحل کے بعد اس مسافر کی انتہائے منزل توحید تک رسائی ہوجاتی ہے‘ چنانچہ اعتبار انتہائے سفر کا ہے، اسی طرح اعتبار جائے قرار حقیقی کا ہے نہ کہ انتہائے سفر سے قبل پیش آمدہ مراحل کا الخ
موصوف کی اس تفسیری تحریر وتقریر میں کئی ایک قابل مؤاخذہ ومناقشہ باتیں ہیں:
اول: پہلی بات یہ کہ ہرنبی یا رسول کے قلب میں فطری وخلقی طور پر راسخ عقیدہ ٴ توحید جاگزیں ہوتا ہے اور ان کے نفوس اس عقیدہ ٴ توحید کے مطابق مطمئن ہوتے ہیں اور ان پر کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا جبکہ وہ وحدانیتِ خداوندی کے تصور سے خالی ہوں، نبی کے لئے مراحل وحدانیت میں تردد اور حیرت ممکن ہی نہیں ہے۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ:
”ہر بچہ فطرت ِ اسلامی پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی کر ڈالتے ہیں“
جب ایک عام بچہ کا یہ حال ہوا کرتا ہے تو جو بچہ پیدا ہی نبی اور رسول بننے کے لئے ہوا ہے ،اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اللہ تعالیٰ پر ایمان ویقین تو اس کی فطری اور خلقی صلاحیت ہوتی ہے اور اس ایمان میں وہ کسی قسم کے استدلال واستنباط کا محتاج ہرگز نہیں ہوتا ہے ‘ بلکہ تمام استدلالات سے قبل ہی وہ اس عقیدہٴ توحید کی طرف اسی فطری صلاحیت سے راہ یابی پاتاہے ،اہل حق حضرات کے نزدیک حق عقیدہ یہی ہے ۔ جی ہاں! یہ ممکن ہے کہ فکر وتدبر اور کائنات میں پیش آمدہ احوال و آثار، نیز منظم ومرتب نظم میں غور وخوض کے بعد انبیائے کرام محض یقینی کیفیت سے عین الیقینی کیفیت کی جانب ارتقاء پذیر ہوتے ہیں اور پھر اس عین الیقین سے بڑھ کر حق الیقین تک پہنچتے ہوں،جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا تعالیٰ سے یوں سوال کرناکہ:
”رب ارنی کیف تحیی الموتی“
ترجمہ: ․․․”اے پروردگار مجھے بتلادے کہ تو کیونکرحیات بخشے گا مردوں کو“
خوب واضح کرتا ہے۔
دوم: دوسری بین خطأ یہ کہ استاد مودودی کی تفسیر کے پیش نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے معاملے میں حیرت وتردد کی منازل سے ہوگذرے ہیں اور پھر حق کی طرف بذریعہ استدلال راہنمائی پائی ہے اور ان منازل ِ تردد کو جو ہرمسافر کو اثنائے سفر در پیش آتے ہیں، قطع کرنے کے بعد وحدانیت باری کی طرف راہ یاب ہوے ہیں ۔انبیاء کرام علیہم السلام کے سلسلے میں اس قسم کی رائے رکھنا خطأ محض اور صریح گمراہی ہے ۔
میں جانتاہوں کہ استاد مودودی نے اس مقام پر بھی سید قطب کی ”ظلال القرآن“ کی اقتداء کی ہے، لیکن ظلال القرآن کے حقیقی مقصد ومطلب تک نہیں پہنچ سکے ہیں، اگرچہ مقام ہذا کے ذیل میں ”ظلال القرآن“ کی تعبیر بھی کوتاہ ہے۔
بہرحال عصمت انبیاء مسلم عقیدہ ہے اور شرک وکفر سے انبیاء کا قبل البلوغ وبعدہ مبرا ومنزہ ہونا امت محمدی کا اتفاقی اور اجماعی عقیدہ ہے ،ممکن نہیں ہے کہ وہ معاملہ توحید میں متردد رہے ہوں اور حیرت سے سرگرداں ہورہے ہوں یا کسی سے دریافت کریں یا اس عقیدہ توحید تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استدلال کریں، ان کی پاکیزہ زندگانی میں ایک لمحہ بھی بت پرستی اور شرک متصور نہیں ہے، اگر اس تصور کو عارضی اثنائے سفر میں پیش آمدہ ایک لمحہ کا حال ہی کیوں نہ کہا جائے۔
سوم: تیسری خطأ یہ کہ ابراہیم علیہ السلام کا مذکورہ بالا کلام تو بطور مجادلہ ومناظرہ اور خصم اہل شرک کو خاموش کرنے کے واسطے تھا اور منکرین پر حجت تمام کرنے کا ذریعہ تھا، نیز ان کی گمراہی پر لطیف تنبیہ تھی، تاکہ ان کو اس مقام پر خطرے سے بچایاجائے ۔اہل بلاغت اور پر حکمت دعوت کا یہی وطیرہ وطریقہ ہے ،نہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود ورطہٴ حیرت وشک میں مبتلا تھے اور حق سے بے بہرہ تھے ،جس کی بناء پر یوں کہنا پڑے کہ مسافر کے لئے منزل تک پہنچنے میں اثنائے سفر ان راہوں سے گزرنا ناگزیر ہے۔
خلاصہ بحث: یہ ان مؤاخذات کے چند نمونے ہیں جو ماقبل آیات کے ذیل ان کے تفسیری کلام کے ذیل پیش کئے گئے۔ موصوف کی بعض غلطیاں تو اتنی فحش ہیں کہ راہ مستقیم سے گمراہ کردیں، ہماری غرض تو اس رسالے میں ان کڑکتی بجلیوں کی خفیف سی روشنی دکھلانا ہے۔ واللہ ولی التوفیق الی العدالة
موصوف کی مختلف کتب ورسائل کے منجملہ عیوب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی علماء نے ان کو تنبیہ کی ہے کہ فلاں مقام پر موصوف کا کلام وقدم راہ راست سے بھٹکا ہے اور موصوف متنبہ بھی ہوئے کہ ان سے خطأ ہوئی ہے اور اس کے درست کرنے کی کوشش بھی کرتے تو اس تعبیر کو بدل ڈالتے تھے ، گویاکہ موصوف نے رجوع کرلیا یا مختلف تاویل کرتے ہوئے بدل ڈالتے تھے ،اور آنے والی نئی طباعتوں میں اسی تغیر وتبدل اور اصلاح تعبیر کے ساتھ اشاعت کرتے، لیکن اپنے رجوع یا تغیر وتبدل کو نہ بتلاتے تھے ۔
چنانچہ گذشتہ طبعات جو لوگوں کے ہاتھوں پہنچ چکی ہوتی تھیں وہ ان کو اسی طرح پڑھا کرتے تھے اور اس تغیر واصلاح پر عدم اطلاع کی بناء پر اپنی گمراہی پر برقرار بھی رہتے۔ کا ش کہ موصوف ان غلطیوں کو ببانگ دہل بیان کرتے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے تو لوگوں کی نظروں میں ان کی قدر بڑھ جاتی اور اللہ تعالیٰ ان کی گذشتہ غلطیوں کو معاف فرما دیتے ،لیکن انتہائی افسوس اور قلق ہے کہ موصوف نے ان غلطیوں کو یکسر واضح نہ کیا، گویا کہ ان سے خطأ ہوئی ہی نہیں ہے۔
موصوف کی اس بغیر اطلاع کئے ہوئے تغیر واصلاح کی ایک مثال یہ ہے کہ موصوف نے حضرت یونس علیہ السلام کے تذکرہ میں یوں تذکرہ فرمایا کہ:
” ان سے منصب نبوت کے فریضہ کے مطابق تقصیر ہوئی، اس لئے کہ انہوں نے حکم خداوندی کا انتظار نہ کیا اور اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے‘ ‘
یہ بات موصوف کی واقعی انتہائی غیر مناسب تھی، چنانچہ علمائے کرام نے ان کو اس غلطی پر متنبہ کیا، اس لئے کہ اگر نبی منصب نبوت کے فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو گویا کہ وہ اس منصب عظیم کی اہلیت ہی نہیں رکھتا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گویا خداوند تعالیٰ ہی سے اپنے اس بندہ کے چننے اوراختیار میں کوتاہی ہوئی ہے، جس کی بناء پر خداوند تعالیٰ کے علم کا غیر محیط وغیر صحیح ہونا لاازم آئے گا۔
علمائے کرام کی تنبیہات کے بعد موصوف نے اپنی تعبیر وتحریر کو تبدیل کرلیا ،لیکن اس تغیر کو بتلایا نہیں، جس کی بناء پر پہلی طبع میں وہ غلطی تاحال برقرار رہی۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر زندہ اٹھا لئے جانے کے متعلق بھی موصوف سے جو قلمی فروگذاشت ہوئی، اس کو بھی تبدیل کرلیا، لیکن عام اطلاع نہ کی۔ اسی طرح اور بھی کئی مقامات پر تغییر وتبدیل کے بعد اطلاع عام نہیں کی، اللہ رب العزت ہمیں بھی اور انہیں بھی حقیقی راہ ہدایت نصیب فرمائے۔
۵- تفسیر ”تدبر القرآن“ یہ تفسیر اردو زبان میں شیخ امین احسن اصلاحی کا شاہکار ہے، مؤلف موصوف اپنی دیگر تالیفات کی وجہ سے کافی معروف شخصیت ہیں‘ موصوف استاد مودودی کے قریب ترین افرادمیں سے تھے اور ان کے دیگر حامیان کی فہرست میں سرفہرست تھے اور بیس سال کی طویل المدت رفاقت وامارت تسلیم کرتے ہوئے استاد مودودی سے علیحدگی اختیار کی ‘ موصوف کی استاد مودودی سے اس علیحدگی کا سبب ”مختلف مصالح اور مخصوص حکمت عملیوں کے پیش نظر شرعی احکام میں تغیر وتبدل کے جواز“ کا جو نظریہ مودودی نے اپنایا تھا،اس سے موصوف کا اختلاف تھا ۔
مودودی صاحب نے یہ تصریح کی تھی اور یہ اعتقادی نظریہ بیان کیا تھا کہ: اسلام کے اساسی مقاصد دو قسموں پر مشتمل ہیں:
پہلی قسم: وہ اساسی مقاصد جس میں تغیر وتبدل کی کچھ گنجائش نہیں، جیساکہ عقائد اسلامیہ مثلاً توحید ‘ رسالت وغیرہ ۔
دوسری قسم: ان مقاصد کی ہے جن میں مصالح اور حکمت عملی کے پیش نظر تغیر وتعدیل کی جا سکتی ہے۔ مودودی صاحب یوں بھی کہتے تھے کہ اس تغیر وتبدل کے شریعت اسلامیہ میں بے شمار نظائر بھی موجود ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: رسول اللہ ا نے یوں اعلان فرمایا کہ: ”الائمة من قریش“ امام اور خلیفہ قریشی ہی ہوسکتا ہے اور قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے جو یوں ارشاد فرمایا کہ:
”یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا، ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم“۔
جس کا مقتضاء مختلف قبائل اور خاندانوں کے افراد کا باہمی فلسفہٴ مساوات تھا ،حضور ا نے اس کو مصالح کے پیش نظر چھوڑدیا۔
موصوف مودودی کی مذکورہ بالا تحریر وتقریر پر میں نے رسالہ ”الاستاذ المودودی وشئ من حیاتہ وافکارہ“ میں بھر پور تنقید تحریر کی ہے۔ مزید تفصیل وبیان کے لئے وہیں مراجعت کی جائے۔ استاد مودودی نے جب اپنی تفسیر ”تفہیم القرآن“ کا آغاز فرمایا تو موصوف اصلاحی صاحب نے بھی چاہا کہ ایک تفسیر تالیف فرمادیں، کیونکہ موصوف مودودی صاحب کو علوم عربیہ اور بلاغت وبیان کے علوم میں کوتاہ خیال کرتے تھے اور خود کو ان خصائص وصفات میں ان سے بلند گردانتے تھے‘
چنانچہ ”تدبر القرآن“ کے نام سے ایک تفسیر تالیف کرنا شروع کردی، یہ تفسیر تین ضخیم جلدوں میں سورہٴ بنی اسرائیل تک کی تفسیر پر مشتمل ہے، مجھ کو یہ امید تھی کہ شاید یہ تفسیر ان علمی اغلاط واخطاء سے پاک ہوگی، لیکن افسوس! جب میں نے موصوف کی تفسیر کا مطالعہ کیا اور مختلف مقامات کی ورق گردانی کی، تب میں نے کئی ایک ایسے مسائل پائے جن میں موصوف نے جمہور مفسرین ‘ ائمہ اہل السنت والجماعت کی آراء سے مخالفت کی ہے ،چنانچہ میری تمام تر امیدیں اکارت ہوگئیں اور پر امید خوشیاں مکدر ہوگئیں ،حالانکہ مجھے امید یہ تھی کہ یہ خوشیاں ہرقسم کی گندگی اور اس کے شوائب سے پاک ہوں گی۔چنانچہ درج ذیل آیات میں میں نے ان کی آراء کو جمہور مفسرین کے مخالف پایا:
۱- ورفعنا فوقکم الطور‘
۲- فقلنا اضربوہ ببعضہا‘
۳- وجد عندہا رزقاً‘
۴- وان من اہل الکتاب الاَّلیؤمنن بہ قبل موتہ۔
(تفصیل کے لئے ج:۱‘ ص:۱۹۹‘ ج:۱‘ ص:۲۰۵‘ ج:۱ ص:۶۸۰‘ ج:۲‘ ص:۱۹۵ کی مراجعت کی سکتی تھی)
ان مقامات کو دیکھ کر میرا اعتماد ووثوق ختم ہوگیا‘ یہ تفسیر بحث وتفتیش کے ساتھ بالاستیعاب مطالعہ کی محتاج ہے، اگر مؤلف محترم خود ہی بے لاگ تنقید اور بے تعصب بحث کو راہ دیں تو ان قابلِ مؤاخذہ آراء سے رجوع فرمالیں گے ۔ واللہ الہادی الی الحق۔
۶- سید قطب شہید کی تفسیر ”فی ظلال القرآن“ مؤلف موصوف سید قطب بے شک ادبی عرب میں قابل قدر براعت انداز وبلاغت بیان رکھتے ہیں اور جدید عربی ادب کے مطابق تحریر وتقریر کا ملکہ رکھتے ہیں،اسی طرح حسن تصویر وتمثیل میں بلند مقدرت ہیں اور ان کے عربی کلام میں بھی حسن پیرائیگی کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں، آیات قرآنی کے آپس میں ربط وضبط کے بیان میں بھی کافی حد تک صحت وسداد رکھتے ہیں اور مختلف آیات کو ایک عنوان ومقصد کے تحت اس خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے کہ ہرآیت اپنی اگلی اور پچھلی آیات سے اتنا شدید علاقہ رکھتی ہے کہ اس کے پیش نظر کسی قسم کا انتشار وافتراق نہیں ملتا۔ موصوف کی تفسیر کی یہ امتیازی خصوصیت واقعی لائق التفات وامتنان ہے اور باریک بین محقق کے لئے قابل قدر بھی ہے ۔
راقم السطور کا خیال یہ ہے کہ موصوف قرآن کریم کو اس کی حقیقی پاکیزہ روح کی صورت میں امت کو پیش کرنا چاہتاہے، لیکن چند جہات سے اس تفسیر میں بھی کوتاہی برتی گئی ہے اور کہیں کہیں تو صراط مستقیم سے بے راہ روی کا بھی واہمہ ہوتا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں وقت کی کمیابی کی بناپراس تفسیر کی مزید تحقیق وتفتیش کی قدرت نہیں پاتا ہوں اور نہ مجھے اس تفسیر سے کانٹ چھانٹ کرنے کی فرصت ہے ۔
سید قطب کی کتاب ”العدالة الاجتماعیة“ میں مذکور چند مباحث جن میں خصوصی طور پر حضرت عثمان غنی کے متعلق طعن زنی کی ہے اور یوں بیان کیا ہے کہ :
”(معاذ اللہ) حضرت عثمان تو مروان کے اس قدر ماتحت تھے کہ وہ انہیں جیسے چاہتا ،ہانکتا تھا۔ حضرت عثمان صحابة الرسول کو مناصب حکومت سے برطرف کرکے اعداء خداوند کو مناصب سونپا کرتے تھے اور انکے زمانہ خلافت اور دیگر خلفاء کرام کے عہود کے درمیان ایک وسیع خلیج تھا “
دیگرآں! کئی ایسی ہی باتیں موصوف نے خلیفہٴ راشد حضرت عثمان ذو النورین کے حق میں فرمائیں، باوجود اس کے کہ رسول اللہ ا نے حضرت عثمان کے کئی مناقب ومحامد بیان کئے ہیں۔ سید قطب کی انہیں مباحث نے مودودی صاحب کو ”خلافت وملوکیت“ میں ہفوات بکنے پر جری کردیا، سید قطب کی ان مباحث نے مجھے موصوف کی تفسیری مباحث کے متعلق غیر مطمئن کردیا ہے اور باوجود اس کے کہ ادبائے زمانہ نوجوان موصوف سید قطب کے خوب عاشق اور ان کی تحریرات کے دلدادہ ہیں، مجھے موصوف کی تحقیقات پر بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے۔
تفسیر قرآن کا معاملہ واقعی انتہائی نازک معاملہ ہے اور کافی صعوبت آمیز بھی ،جس کے حقوق ہرشخص ادا نہیں کرسکتا ہے۔ سید قطب کی تفسیر کے متعلق جو کچھ میں نے گذارشات ماقبل سطور میں قلمبند کیں ،یہ دینی وظیفہ ہے جو مجھ پر لازم تھا، اس کو میں نے ادا کیا ہے ۔
ورنہ سید قطب کی ان کوششوں اور کاوشوں کا جو انہوں نے ایک پر امن اور صالح معاشرے کے قیام کے لئے اخلاص سے فرمائیں اور پھر نتیجةً شکست وخیبت کے آلام برداشت کئے، حتی کہ اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کردیا، ان تمام تر کوششوں کا میں انتہائی قدردان ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو ان کی ان خدمات کا اور اپنی جان کو راہ حق میں قربان کرنے پر بھر پور صلہ وجزا نصیب فرمائے۔ واللہ الموفق۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوا لقعدہ: ۱۴۲۹ھ نومبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: بھوک ہڑتال یا خود کشی اسلامی نقطہ ٴ نگاہ سے
Flag Counter