Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

9 - 11
اصحابِ صفہ
اصحابِ صفہ


تاریخ اسلام کے سنہرے باب کے چند تعلیمی اوراق ہیں جن کا سرورق اصحابِ صفہ سے شروع ہوتا ہے‘ درحقیقت یہ باب:
”ویعلمہم الکتاب والحکمة“ ”وانما بعثت معلماً“
اور وہ (نبی) ان کو کتاب․․․․․قرآن․․․․․ اور حکمت ․․․․سنت․․․․ کی تعلیم دیتے ہیں ۔اور اس کے سوا نہیں کہ مجھے تو بھیجا گیا ہے (دین) سکھلانے کے لئے۔کی عملی تفسیر ہے۔
مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے شمالی مشرقی جانب ایک سائبان کے سایہ میں چند نفوسِ قدسیہ تعلیم وتربیت پارہے تھے‘ ان نفوسِ قدسیہ نے اپنی زندگی حصولِ علم ہی کے لئے وقف کردی تھی‘ ان میں چند نفوس ایسے بھی تھے کہ کبھی کبھی دن کے کسی حصہ میں جنگل سے لکڑی لاکر فروخت کرتے اور گذر بسر کیا کرتے تھے‘ ان کے احوال وتعداد میں قدماء محدثین نے مستقل کتابیں لکھی ہیں‘ جن میں امام حدیث ابو نعیم اصبہانی اور امام حدیث ابو عبد اللہ حاکم اور ابن الاعرابی اور سلمیٰ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں‘ ان کی تعداد مختلف اوقات میں کل ملاکر چار سو تک پہنچتی ہے۔ ویسے تو حضرت رسول اللہ ا کی پوری زندگی تعلیمی ہی تھی اور امت محمدیہ میں صحابہٴ کرام ہی سب سے پہلے متعلم وشاگرد تھے لیکن اسی تحصیلِ علم کے ساتھ اکثر وبیشتر حضرات کے تجارت وزراعت وغیرہ کے مشاغل بھی تھے‘ حضرت عمر فاروق جیسی اہم شخصیت کا ایک دور ایسا گذرا کہ مدینہ سے باہر عوالی مدینہ میں ان کا قیام تھا اور بعدِ مسافت کے علاوہ معاشی مشغولیت کی وجہ سے روزانہ بارگاہِ نبوت کی حاضری سے معذور تھے‘ لیکن آپ نے اپنے ایک انصاری پڑوسی (غالباً ان کا نام اوس بن خولیٰ ہے) کے ساتھ یہ انتظام کیا ہوا تھا اور باری مقرر کر رکھی تھی کہ ایک دن وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا کریں اور جو وحی نبوت (قرآن کریم کی آیت) جدید اتری ہو یا کوئی اہم حدیث آپ بیان فرمائیں تو وہ رات کو عمر فاروق کو سنا دیا کریں اور ایک دن حضرت عمر یہ ہی خدمت انجام دیا کریں جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے‘ الغرض صحابہ کرام جو روزانہ حاضری نہیں دے سکتے تھے وہ بھی حصولِ علم کے لئے پورا اہتمام وانتظام فرماتے تھے‘ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی تھے جن کی شب وروز کی زندگی ‘ اسی حصولِ علم کے لئے وقف تھی‘ اہل وعیال سے آزاد‘ نہ تجارت سے غرض نہ زراعت سے مطلب نہ اپنی معاش کی فکر نہ اہل وعیال کی‘ یہ وہ اصحابِ صفہ کی نفوسِ قدسیہ ہیں جن کی تعداد ایک ایک وقت میں ستر ستر تک بھی پہنچ جاتی تھی‘ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ستر وہ شہداء ”بیر معونہ“ ہیں جن کو کفار کے چند قبائل بنی لحیان ورعل وذکوان وغیرہ نے جو تعلیمِ دین اور تبلیغِ اسلام کی غرض سے حضرت رسول اللہ اسے معلم ومبلغ طلب کرنے آئے تھے اور آپ نے ان قراء کو اس دینی خدمت کے لئے بھیجا تھا‘ ان بدظن قبائل نے ان کو لے جاکر شہید کرڈالا تھا‘ جس پر آپ کو شدید صدمہ ہوا تھا اور نماز فجر میں آپ نے دعاءِ قنوتِ نازلہ پڑھنی شروع فرمادی تھی‘ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے اس واقعہٴ شہادت کے بعد ستر ایسے صحابہ بھی تھے جن کے متعلق حضرت ابو ہریرہ کا یہ بیان ”صحیح بخاری“ میں قابلِ عبرت وبصیرت ہے:
”رأیت سبعین من اصحاب الصفہ‘ ما منہم رجل علیہ رداء‘ اما ازار واما کساء قد ربطوا فی اعناقہم‘ فمنہا ما یبلغ نصف الساقین ومنہا ما یبلغ الکعبین فیجمعہ بیدہ کراہیة ان تعریٰ عورتہ“۔(صحیح البخاری باب نوم الرجال فی المسجد)
ترجمہ:․․․․” میں نے ستر ایسے اصحابِ صفہ کو دیکھا ہے جن میں سے کسی کے پاس (اوپر اوڑھنے کے لئے) چادر نہ تھی یا ان کے پاس صرف لنگی تھی یا (بدن ڈھانپنے کے لئے) ایک کمبلی جس کو انہوں نے گردن سے (نیچے تک) باندھا ہوا ہوتا‘ کوئی کملی تو ٹخنوں تک پہنچ جاتی کوئی پنڈلیوں تک ہی پہنچتی‘ (رکوع سجدہ کے وقت) اس کو ہاتھ سے سنبھا لے رہتے کہ (جسم کا) پوشیدہ حصہ نہ کھل جائے“۔
انہی نفوسِ قدسیہ میں سے خود حضرت ابوہریرہ بھی تھے جن پر بعض اوقات بھوک سے غشی کے دورے پڑا کرتے اور مسجد نبوی کے اندر منبر نبوی اور بیت الرسول کے درمیان روضہ میں بے ہوش پڑے ہوتے اور عام حضرات کا گمان ہوتاکہ ان پر مرگی کا دورہ پڑا ہے‘ حالانکہ صرف بھوک کی شدت اور فاقوں کی کثرت سے ان پر اس قسم کی حالت طاری ہوتی تھی۔ خود انہی کے زبان سے صحیح بخاری میں یہ ساری تفصیل مذکور ہے‘ آخر اس جفا کشی اور اس اندازِ طالب علمی کے جو حیرت انگیز نتائج ہونے چاہئیں تھے وہ امت کے سامنے آئے‘ خود انہی کے زبان سے ”صحیح بخاری“ میں مروی ہے:
”صحبت رسول اللہ ﷺ ثلاث سنین فلم اکن فی سنی احرص علی ان اعی الحدیث منی“۔
ترجمہ:․․․”میں تین سال تک (ہمہ وقت) رسول اللہ ا کے ساتھ رہا میں نے اپنی عمر میں اپنے سے زیادہ حدیثوں کو یاد کرنے کا حریص (سرگرم شائق) اور کسی کو نہیں دیکھا“۔
اتنے مختصر عہد میں جو روایتیں مدونین کتب حدیث کو ان سے پہنچی ہیں ان کی تعداد ۵۳۷۴ ہے نہ معلوم اور کتنی روایتیں ہوں گی جو مدونین کتب حدیث تک ان کے معیار کے مطابق نہ پہنچ سکیں جو یقینا اس قدسی صحبت اور اس فنا فی العلم کے جذبہ کی برکات تھیں‘ چنانچہ پورے آٹھ سو صحابہ وتابعین کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہوا اور دین کا بہت بڑا حصہ تنہا انہی کی روایات سے امت کو پہنچا‘ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین اور منکرین حدیث مستغربین اور ان کے علاوہ اعداء اسلام کا سارا زور حضرت ابوہریرہ پر طعن وتشنیع اور عیب چینی پر صرف ہورہا ہے‘ کہنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی بناء پر ان اصحابِ صفہ کے فقر وافلاس کی حالت کو برداشت کیا گیا؟ اور ان کو فکرِ معاش کی طرف کیوں متوجہ نہیں کیا گیا؟ کیوں ان کو زراعت یا صنعت وحرفت کی طرف رغبت نہیں دلائی گئی اور کیوں ان کے پیٹ بھرنے یا سد رمق کے لئے زکاة وصدقات کا انتظام کیا جاتا؟ اور جب انتہائی مجبوری کی نوبت آجاتی اور فاقوں پر فاقے پڑنے لگتے تو حضرت رسول اللہ ا ہرایک صحابی کو ارباب صفہ میں سے ایک ایک نفر کو کھانا کھلانے کے لئے اپنے گھر لے جانے کا ارشاد فرماتے اور خود بھی دس دس افراد کو اپنے ہمرہ لے جایاکرتے تھے‘ اس لئے کہ ازواجِ مطہرات کی تعداد ۹ تھی اور دسویں آپ تھے‘ اس لحاظ سے گویا طعام الواحد یکفی الاثنین کے اصول پر جو حدیث مرفوع میں مذکور ہے خود بیوت نبی علیہ الصلاة والسلام میں عمل ہوتا تھا‘ یہ تو احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام کے شواہد وبینات ہیں‘ اب ذرا قرآن کریم کا ارشاد بھی سنیئے:
”الذین احصروا فی سبیل اللہ لایستطیعون ضرباً فی الارض یحسبہم الجاہل اغنیاء من التعفف تعرفہم بسیماہم لایسألون الناس الحافاً“۔ (البقرہ:۲۷۳)
ترجمہ:․․․”وہ حاجت مند (تمہاری امداد واعانت کے مستحق ہیں) جو اللہ کی راہ میں (کسب معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (روزی حاصل کرنے کے لئے) روئے زمین میں (کہیں) جا آ نہیں سکتے‘ ناواقف آدمی تو ان کے (سوال کرنے سے) بچنے کی وجہ سے ان کو مالدار گمان کرتے ہیں (لیکن) تم ان کے فقر وافلاس کو ان کے چہرہ بشرہ سے پہچان سکتے ہو‘ وہ لوگوں سے سوال ہی نہیں کرتے (کہ پیچھے پڑیں اور) اصرار کریں“۔
مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیتِ کریمہ انہی نفوسِ قدسیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کی زندگی کا مقصد وحید صرف تعلیم دین اور جہاد تھا۔ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ا نے نہ صرف اس صورت حال کو قائم رکھا‘ بلکہ اس کی تعریف وتوصیف وحی متلو میں بھی فرمائی‘ کیا یہ واضح اورصاف دلیل اس کی نہیں ہے کہ امت میں کچھ افراد ایسے ہونے چاہئیں جن کی حیات طیبہ کلی طور پر علم ودین کے لئے وقف ہو چکی ہو‘ اس مقدس مشغلہ کے علاوہ ان کا اور کوئی مشغلہ ہی نہ ہو‘ اب رہا یہ سوال کہ وہ کھائیں گے کہاں سے اور ضروریاتِ معاش پوری کیسے کریں گے؟ تو قرآن حکیم کی تعلیمات اور نبی کریم اکے تعامل میں اس کا واضح جواب صرف یہی ملتا ہے کہ ان کی ضرورت کا تکفل اور خبر گیری امت محمدیہ کے ذمہ فرض ہے‘ وہ اپنے صدقات وخیرات اور زکاة سے ان کی خدمت کرے گی‘ اسی لئے علم دین میں مہارت وخصوصیت فرض کفایہ ہے‘ فرض عین نہیں کہ ہر شخص کے بس کا یہ کام نہیں‘ اس کے بعد قابل غور یہ ہے کہ علم دین حاصل کرنے کے دو مقصد ہیں:
علم دین حاصل کرنے کا مقصد
۱- خود اپنی تکمیل یعنی صاحبِ کمال بننا‘ اپنی زندگی کو صلاح وتقویٰ سے آراستہ کرنا‘ تاکہ فلاح وسعادت دارین سے خود بہرہ ور ہو سکے۔
۲- دوسروں کی خدمت کرنا اور ان کو سعادت دارین سے ہمکنار کرنا۔
لیکن اسی کے ساتھ اگر کوئی عالم دین اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریاتِ زندگی کے لئے محتاجِ کسب معاش ہے تو اسے معاش کے ذرائع اور صحیح وسائل اختیار کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیئے‘ کیا اسلام کے انتہائی مجد وعروج کے دور میں کبارِ امت نے معاشی ذرائع اختیار نہیں کئے؟ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
علماء کے مناصب
اب رہا یہ کہ علماء دین کے وہ مناصب کیا ہیں جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی دینی خدمت انجام دے سکیں؟ اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے وہ کون سے شعبے ہیں جو ان کے سپرد ہونے چاہئیں؟ اس سوال کا جواب بالکل صاف ہے کہ اسلام کے عروج کے دور میں انہی علماء میں سے حسبِ اہلیت علماء خلافت‘ حکومت‘ احتساب‘ قضاء‘ افتاء‘ خطابت‘ تبلیغ دین‘ درس وتدریس‘ تصنیف وتالیف وغیرہ مناصب پر فائز تھے‘ جبکہ علوم اسلامیہ میں دین ودنیا کی تفریق نہ تھی اور ”رجال دین“و”رجال دنیا“ کے درمیان کچھ زیادہ وسیع خلیج حائل نہ تھی اور نہ کوئی بنیادی تفاوت موجود تھا‘ دنیا کے تمام کام دین کی تعلیمات کی روشنی میں انجام پاتے تھے‘ لیکن اس دور میں بھی اگر مسلمان اپنے دین اسلام سے بالکل بے نیاز اور بے تعلق نہ بنیں تو ان کے بچوں کے لئے تعلیم قرآن‘ ان کی مساجد کے لئے امام وخطیب ومؤذن‘ شب وروز کی زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں شرعی احکام بتلانے کے لئے مفتیین اور علوم دینیہ -قرآن وحدیث وفقہ- کی حفاظت کے لئے معاہد دینیہ ومدارس اسلامیہ میں تدریس کے مناصب تو اب بھی موجود ہیں‘ پھر علماء کی فکر معاش کا بہانہ بناکر کیوں مدارس دینیہ کی مخالفت کی جاتی ہے؟ پاکستان کی(اکتالیس سال پہلے) دس کروڑ آبادی میں کل علماء وطلباء علم کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ نہیں‘ اگر مدارس اسلامیہ کی تعداد تقریباً ۲۰۰۰ بھی ہو تو مساجد کی تعداد کم از کم ایک لاکھ ہے‘ اگر مسلمان اس امر کا عہد کرلیں کہ ہر مسجد کا امام وخطیب باقاعدہ مستند عالم ہوگا تو ان طلبہ وعلماء کی تعداد اس ایک ہی دینی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتی‘ درس قرآن وتعلیم اطفال وتعلیم قرآن حفظ وناظرہ‘ نیز تدریس علوم دینیہ وافتاء یعنی مدرسین ومفتیین مدارس اسلامیہ کی ضرورت اس کے علاوہ رہے گی‘ آخر اس مروجہ دنیوی تعلیم کا مقصد تو یہی ہے تاکہ پیٹ کی پرورش ہوسکے اور حکومت کا دفتری نظام چل سکے‘ لیکن جس کثرت سے لڑکوں اور لڑکیوں کی عصری تعلیم کا ہیضہ ملک میں پھیل رہا ہے‘ کیا اس کی نسبت سے سرکاری عہدے اور منصب اتنے ہیں کہ سب کو جگہ دی جاسکے؟ پھر اس تعلیم کی اتنی مخالفت کیوں نہیں کی جاتی جتنی علوم دینیہ اور علماء دین کی کی جارہی ہے؟ درحقیقت مسئلہ صرف دینی علماء وطلبہ کی معاش کا نہیں ہے‘ بلکہ دنیوی علوم کے فارغ التحصیل طلبہ کی معاش کا مسئلہ اس سے بدرجہا مشکل ہے۔ ایسی صورت میں بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جو افراد اللہ اورا س کے رسول علیہ الصلاة والسلام کے دین کی حفاظت کررہے ہیں اور امت محمدیہ کے لئے راہِ سعادت ونجات کو محفوظ کررہے ہیں ان کو تو بیکار اور عضو معطل سمجھا جارہا ہے اور جن افراد کا معاشرہ میں صرف یہی مقام ہے کہ اپنے پیٹ بھرنے کی فکر کریں اور حکومت کی مشنری کو چلائیں ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے:
فیا للعجب ویا للأسف۔
اصل مشکل کا حل
دراصل اگریہ علماء دین کی معاش کا مسئلہ کوئی مشکل ہے اور اس مشکل کو حل کرنا ضروری ہے تو اس کا حل صرف یہ ہے کہ حکومت کی وزارت تعلیم میٹرک تک کی تعلیم دینی اور دنیوی مشترک رکھے‘ بلکہ میٹرک تک کی تعلیم کی بنیاد دینی تعلیم پر ہو او ر عربی زبان کی تعلیم وتدریس لازمی وضروری ہوتا کہ ایک میٹرک پاس طالب علم بھی بقدر ضرورت دونوں شعبوں کی خدمات انجام دے سکے‘ درحقیقت یہ مشکل خود حکومت نے اور اس کے غلط نظام تعلیم نے بلکہ برطانوی عہد کے ملعون طریقہ تعلیم نے پیدا کی ہے اور شو مئی قسمت سے آج تک اسی قی کو ہم چاٹ رہے ہیں‘ مختصر یہ کہ اس معاملہ میں اگر قصور ہے تو صرف جدید نظام تعلیم کا ہے‘ اگر ابتدائی تعلیم سے لے کر میٹرک تک تعلیم میں علم دین کا وافر حصہ شامل کرلیا جائے ‘ بلکہ زیادہ تر توجہ تعلیم دین پر ہی مرکوز ہو اور جدید حصہ پر توجہ ثانوی درجہ میں تو رجالِ دین اور رجالِ دنیا کی تفریق خود بخود ختم ہوجائے گی جس نے اس ملک کے معاشرے پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور تکلیف دہ خلیج حائل ہوگئی ہے۔
اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: موجودہ دینی انحطاط اوراس کا بڑا سبب
Flag Counter