Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

5 - 11
سیاستِ لادین
سیاستِ لادین


اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے‘ اسلام نے ہر مقام پر حضرتِ انسان کی رہنمائی کی‘ دنیا میں اس وقت جتنے بھی ادیان موجود ہیں خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں‘ اللہ رب العزت کو سب میں دینِ اسلام پسند ہے ارشاد ربانی ہے:
”ان الدین عند اللہ الاسلام“
جب اللہ رب العزت کو دین اسلام پسند ہے تو اللہ کے اس دین کو اپنانے والے بھی پسند ہوں گے۔ اب اگر ایک شخص سارے دین پر عمل کرے‘لیکن ایک رکن چھوڑ دے تو کیا آپ اسے کامل مومن تسلیم کرلیں گے یا ایک شخص کہے کہ (معاذ اللہ) اللہ کو جو دین پسند ہے‘ اس میں سیاست سے متعلق احکامات نہیں یا وہ دین سیاست سے متعلق انسان کی رہنمائی نہیں کرتا‘ اس لئے ہمیں سیاسی نظام غیروں والا اپنانا پڑتا ہے توکیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا حالانکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
”ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین“۔ (آل عمران:۸۵)
”اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین اختیار کرے گا‘ ا س کا وہ دین ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارے میں رہے گا“۔
قرآن مجید تو کہہ رہا ہے کہ اسلام کے علاوہ کچھ قبول نہ ہوگا ‘ لیکن ہمارے ارضِ وطن کے اربابِ سیاست بات کرتے ہیں جمہوریت کی‘ حالانکہ جمہوریت ایک کافرانہ نظام ہے جس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں‘ اسلام نظام خلافت دیتا ہے‘ قرآن پاک میں ہے:
”وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض“۔
اس آیت میں اللہ جل شانہ ان ایمان والوں سے وعدہ فرمارہے ہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ زمین میں انہیں خلافت دیں گے۔ خلافت کہتے ہیں جانشینی کو اور نظامِ خلافت ایک کامیاب نظام ہے۔اس کے برعکس جمہوریت ایک ناکام نظام ہے۔ جمہوریت کے معماروں نے سب سے پہلے مذہب کا انکار کیا‘ مذہب سے انکاری ہونے کے بعد پھر انہوں نے جمہوریت کی بناء ڈالی۔ کہا جاتاہے کہ ۵۵۰ سو برس قبل مسیح یونان کی بعض ریاستوں میں جمہوریت رائج رہی ‘ لیکن اپنی گوناگوں مفاسد کی وجہ سے ناکام ہوگئی‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب چرچ اور امراء کے مابین کش مکش بڑھی اور خون بہنے لگا تو بعض مفکرین اوردانشور کھڑے ہوئے‘ انہوں نے جمہوریت کا پرچار کیا لیکن یاد رہے کہ وہ دانشوران قوم عیسائی تھے یا بدمذہب آیئے جمہوریت کی تعریف ملاحظہ فرمایئے! لفظی اعتبار سے جمہوریت عوام کی حکومت کو کہتے ہیں یا پھر اکثریت کی حکومت کو کہتے ہیں۔یہ انگریزی لفظ ڈیموکریسی کا مفہوم ہے جو یونانی الفاظ (Demos) اور(Kratos)سے ماخوذ ہے۔ ڈیموس کا مطلب: عوام اور کراٹس کا مطلب: طاقت ہے یوں جمہوریت کا معنی عوام کی طاقت بنا۔ آیئے چند انگریز مستشرقین کے اقوال پڑھیئے!
۱- لارڈبرائس کہتا ہے۔ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں شہریوں کے منتخب کردہ عوامی نمائندوں کی اکثریت حکمران ہوتی ہے۔
۲- ابراہم لنکن امریکی صدر تھے وہ کہتے ہیں: عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے۔
۳- پروفیسر سیلے کہتا ہے:”جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں سب شریک ہوتے ہیں“۔
یہ تو چند غیر مسلم حضرات کی طرف سے جمہوریت کی تعریف درج کی گئی ہے‘ اب آپ توجہ کیجئے کہ مندرجہ بالا اقتباسات سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ اللہ کا کلام ہمیں بتاتا ہے۔
”وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن وان ہم الا یخرصون“۔ (سورہٴ انعام)
ترجمہ:․․․”اور اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کی پیروی کروگے جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے‘ وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں“۔
ان آیات کو ایک بار پڑھ کر اس مثال پر توجہ فرمایئے ۔ آج دنیا میں تقریباً چھ ارب انسان بستے ہیں جن میں سے ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں بقیہ کافر ‘ تو کیا حق کافروں کے ساتھ ہے‘ ہرگز ہرگز نہیں۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے جمہوریت کے بارے میں فرمایا:
اس راز کو ایک مرد قلندر نے کیا فاش
ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے فرمایا:
”حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ جمہوری سلطنت کے حامی ہیں وہ بھی شخصیت ہی کے حامی ہیں‘ مگر شخص کبھی حقیقی ہوتا ہے کبھی حکمی‘ فلسفہ کا مسئلہ ہے کہ مجموعہ بھی شخص واحد ہے مگر واحد حکمی ہے حقیقی نہیں تو یہ لوگ جس پارلیمنٹ کے فیصلوں کا اتباع کرتے ہیں اس میں گو بظاہر بہت سے آدمی ہوتے ہیں‘ مگر مجموعہ مل کر پھر شخص واحد ہے‘ کیونکہ جو قانون پاس ہوتا ہے وہ سب کی رائے سے مل کر پاس ہوتا ہے پارلیمنٹ میں بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو رائے دے دے وہی پاس ہوجایا کرے‘ اگر ایسا بھی ہوتا جب بھی کسی قدر آدمی کا دعویٰ صحیح ہوتا‘ مگر وہاں تو پارلیمنٹ کے ہرشخص کی انفرادی رائے معتبر نہیں‘ بلکہ اجتماعی رائے معتبر ہے اور اجتماعی پھر شخصی رائے ہے‘ کیونکہ مجموعہ مل کر واحد حکمی ہوجاتاہے خلاصہ یہ ہوا کہ ہم شخص واحد حقیقی کے حامی ہیں اور تم شخص واحد حکمی کے حامی ہو۔ جمہوریت کے حامی تو تم بھی نہ رہے۔ جمہوریت اور آزادی تو جب ہوتی ہے جب ہر شخص اپنے فعل میں آزاد ہوتا ‘ کوئی کسی کا تابع نہ ہوتا‘ نہ ایک بادشاہ کا نہ پارلیمنٹ کے دس ممبروں کا۔ یہ کیا آزادی ہے کہ تم نے لاکھوں ‘ کروڑوں آدمیوں کو پارلیمنٹ کے دس ممبروں کی رائے کا تابع بنادیا‘ ہم تو ایک ہی کا غلام بناتے تھے ‘تم نے دس کا غلام بنادیا‘ تم ہی فیصلہ کرلو کہ ایک کا غلام ہونا اچھا ہے یا دس ‘ بیس کا غلام ہونا ؟ ظاہر ہے کہ جس شخص پر ایک کی حکومت ہو وہ اس سے بہتر ہے جس پر دس‘ بیس کی حکومت ہو یہ حاصل ہے جمہوری سلطنت کا کہ رعایا کی غلامی سے تو اسے انکار نہیں‘ مگر وہ یہ کہتی ہے کہ تم دس‘ بیس کی غلامی کرو اور ہم یہ کہتے ہیں کہ صرف ایک کی غلامی کرو“۔ (بحوالہ فتنہٴ جمہوریت ص:۲۱۷‘۲۱۸)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہ جمہوریت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:
”آج کل مصطلحہ اور مروجہ جمہوریت میں اگرچہ وہ مفاسد نہیں جو ملوکیت میں بیان کئے گئے لیکن اس میں بعض دوسرے ایسے مفاسد موجود ہیں جو نظام عالم کے قطعاً خلاف ہیں:
۱- پہلی بات تو یہی ہے کہ جمہوریت میں امیر اور بادشاہ کی حقیقت ایک شطرنج کے بادشاہ سے زائد نہیں‘ صرف اتنی عنایت اس کے حال پر کی گئی ہے کہ اس کی رائے کو دو رائے کا قائم مقام سمجھا جاتاہے اور بس‘ حالانکہ عالم کا فطری نظام اول آخر تک اسی کا مقتضی ہے کہ نظام سلطنت کا ذمہ دار کوئی ایک بااختیار شخص ہونا چاہئے جس کو حقیقی طور پر امیر کہا جاسکے اور جو امور سلطنت کے حل وعقد کا مالک ہو اور جس کی اطاعت تمام رعایا پر فرض ہو۔
۲- دوسرے ممبران جمہوریت کے باہمی اختلاف رائے کے وقت جمہوریت کا فیصلہ کثرت رائے کے تابع ہوتا ہے‘ کثرت رائے کے مقابلے میں نہ امیر کی کوئی ہستی ہے اور نہ دوسرے اہل رائے اور تجربہ کار لوگوں کی‘ اور یہ ایک ایسی اصولی غلطی ہے جو سینکڑوں غلطیاں اپنے دامن میں رکھتی ہے ۔“ (بحوالہ ایضا ص: ۲۲۴‘۲۲۵)
عزیزانِ من! آپ نے اسلامی اسکالرز کی۔ رائے ملاحظہ کی ۔آیئے اب انگریز مستشرق کی بھی سن لیجئے:
کار لائل نے جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
”ہر عقل مند آدمی کے مقابلے میں نو بے وقوف ہیں‘ جمہوریت‘ احمقوں کا قانون ہے“۔
اسی طرح برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے جمہوریت نافذ کرائی تو عظیم برطانوی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تو چرچل نے اپنے کئے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:کہا گیاہے کہ جمہوریت بدترین طرز حکومت ہے سوائے ان تمام طرز حکومتوں کے جو وقتاً فوقتاً آزمائے گئے ہیں یعنی جمہوریت تمام نظاموں سے بدترین نظام ہے۔ ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء سے آج تک اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاست میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے کی وجہ یہی جمہوریت ہے‘ جب تک جمہوریت سے ہم دامن نہ بچائیں گے‘ اس وقت تک امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا رہے گا۔ آخر جمہوریت نے اپنے کرشمہ (شعبدے) دکھانے تو ہیں‘ خدا کرے کہ یہ نوائے فقیر حلقہ ٴ سیاست تک پہنچ جائے اور وہ چند لمحے ان کلمات پر غور وفکر کرسکیں ‘ آمین۔
جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدانے مجھ کو دیا ہے دل خبیر وبصیر
میری نگاہ میں یہ سیاستِ لادیں (جمہوریت)
کنیزِ اہرمن ودوں نہاد ومردہ ضمیر
خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو اغیار کی ساز شوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: زیاراتِ مدینہ
Flag Counter