Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

3 - 11
پرانا کردار نیاانداز
پرانا کردار نیاانداز

میں نے تو ایسا پایا کہ تونے اس کی دنیا تباہ کردی
اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کردیا

حضرت صدیق اکبر کی اولو العزم اور بہادر بیٹی اسماء بنت ابی بکر نے یہ جملہ اس وقت فرمایا تھا ،جب ظالم الامة حجاج بن یوسف نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کی نعش کو سولی سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوادی تھی اور حضرت اسماء کے پاس ایک آدمی بھیج کر ان کو اپنے پاس طلب کیا ،حضرت اسماء نے آنے سے انکار کردیا ۔ حجاج خود چل کر حضرت اسماء کے ہاں گیا اور زہر یلے لہجہ میں ان سے یوں گویا ہوا کہ: ذرا بتانا! تم نے اس دشمنِ خدا (حضرت عبداللہ بن زبیر) کے ساتھ ایسا سلوک کرنے میں مجھے کیسا پایا؟ حضرت اسماء نے فرمایا:
”میں نے تو ایسا پایا کہ تونے اس کی دنیا تباہ کردی اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کردیا“
آج غازی عبدالرشید شہید اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے طلبہ وطالبات کی ماؤں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے اپنے جگر گوشوں کے ساتھ ظالم حکومت کا سلوک کیسا پایا؟ تو ان کا جواب حضرت اسماء کے جواب سے مختلف نہ ہوگا کہ: ہم نے تو ایسا پایا کہ اس نے ان کی دنیا تباہ کردی اور انہوں نے اس کی عاقبت اور مستقبل کا ستیاناس کردیا۔ اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ: حضرت امیر معاویہ کے بعد جب ان کا بیٹا یزید تخت امارت پر بیٹھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس کی اطاعت سے انکار کردیا، کیونکہ وہ یزید کو اس کا اہل نہیں سمجھتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت کا اعلان کردیا اور اہلِ حجاز کو اپنی بیعت کی دعوت دی ،دو تین افراد کے علاوہ باقی تمام لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیرسے بیعت کرلی، صحابی رسول ا ہونے کی بناء پر حلقہ خلافت بہت وسیع ہوگیا، شام کے علاوہ تقریباً تمام عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کرلئے گئے ۔یزید کے بعد مروان بن حکم اور اس کے بعد عبد الملک بن مروان کی امارت کو بھی حضرت عبداللہ بن زبیر نے نہیں مانا اور بدستور اپنی خلافت کے دعویٰ پر قائم رہے، لیکن عبد الملک بن مروان نے ان کے خلاف زبردست فوجی کارروائی کی ۔ چنانچہ ذوالقعدہ ۷۲ھ کو عبد الملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو حضرت عبداللہ بن زبیر کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا ،اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر  حرم محترم میں پناہ گزین تھے، اس لئے حجاج نے مکہ پہنچ کر حرم کا محاصرہ کرلیا اور مسلسل کئی مہینہ تک یہ محاصرہ قائم رہا،اس پوری مدت میں بیت اللہ پر ایسی ہولناک آتش زنی اور سنگ باری ہوتی رہی کہ اس کی چمک اور دھماکوں سے معلوم ہوتا تھا کہ آسمان زمین پر آجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نہایت دلیری اور پامردی سے مقابلہ کرتے رہے اور ان کے اطمینان و سکون میں قطعاََکوئی لغزش نہ آئی۔ عین سنگباری کی حالت میں وہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تھے جب کہ بڑے بڑے پتھر آکر ان کے آس پاس گرتے تھے ،مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس ابتداءََ سامانِ خوردونوش کافی تھا، لیکن وہ اتنے طویل محاصرے کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا، اس لئے آخر میں سامان کی قلت کی وجہ سے سواری کے گھوڑے ذبح کرکے کھانے کی نوبت آگئی․․․ ایسی حالت میں زیادہ دنوں تک استقلال دکھانا مشکل تھا ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھی محاصرہ کی سختیوں اور بھوک کی تکلیف سے عاجز آکر حجاج کے دامن میں پناہ لینے لگے اور رفتہ رفتہ دس ہزار آدمی حضرت عبداللہ بن زبیر کا ساتھ چھوڑ کر حجاج سے مل گئے ،حتیٰ کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے دو صاحبزادے حمزہ اور حبیب نے بھی باپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ البتہ ایک صاحبزادے آخر دم تک ثابت قدمی سے لڑتے رہے جو شہید کردئے گئے۔ اپنے اور پرایوں کی بے وفائی کو دیکھ کر حضرت عبداللہ اپنی والدہ سے مشورہ کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا : اماں! میرے ساتھیوں نے ایک ایک کرکے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، حتی کہ میرے لڑکے بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اب صرف چند، فداکار باقی رہ گئے ہیں، لیکن ان میں بھی مقابلہ کی ہمت نہیں ، ایسی حالت میں آپ کیا فرماتی ہیں؟ (اس وقت حضرت اسماء کی عمر سوسال سے متجاوز ہوچکی تھی جو ان، جوان بیٹوں اور پوتوں کے داغ مفارقت اٹھا چکی تھیں، دل وجگر فگار ہور ہے تھے، نامور بیٹوں میں صرف حضرت عبد اللہ زندہ تھے، اس پیرانہ سالی اور ایسی شکستہ دلی کی حالت میں حضرت صدیق اکبر کی اولو العزم اور بہادر بیٹی نے آمادہ بہ قتل بیٹے کو جو حکیمانہ جواب دیا ،اس پر عورتوں کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی) فرمایا:
”بیٹا! تم کو اپنی حالت کا خود صحیح اندازہ ہوگا ،اگر تم کو اس کا یقین ہے کہ تم حق پر ہو اور حق کی دعوت دیتے ہو، تو جاؤ! اس کے لئے لڑو ،جس کے لئے تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس پر جان دی ہے، لیکن اگر تمہارا مقصد دنیا طلبی ہے تو تم سے بڑھ کر برا کون ہوگا؟ کہ خود کوبھی ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھیوں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔ اور اگر یہ عذر ہے کہ تم حق پر ہو اور اپنے اعوان وانصار کی کمزوری کی وجہ سے لاچار ہوگئے ہو تو یاد رکھو! شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے ،تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے، جاؤ! حق پر جان دیدینا زند ہ رہنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ جاوٴ! دیکھو، خدا کیا انجام دکھاتا ہے ۔“
حضرت عبداللہ بن زبیر دعا کے طالب ہوئے، ماں نے ان کے حق میں دعا کی اور انہیں خدا کے سپرد کیا ،پھر اپنے لئے صبر کی دعا کی اور حضرت عبد اللہ بن زبیر سے کہا بیٹا! پاس آجاؤ ،تاکہ آخری مرتبہ تم سے رخصت ہولوں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا: میں بھی آخری رخصتی کے لئے حاضر ہوا ہوں،اس لئے کہ اب دنیا میں یہ میرے آخری دن ہیں، حضرت اسماء نے گلے لگا کر بوسہ دیا اور فرمایا: جاؤ! اپنا کام پورا کرو۔ اتفاق سے گلے لگانے میں حضرت عبداللہ کی زرہ پر ہاتھ پڑ گیا ،پوچھا: بیٹا! یہ کیا ہے ؟ جان دینے والوں کا یہ شیوہ نہیں ہے ،ماں کے اس فرمان پر انہوں نے جان کی حفاظت کا یہ آخری سہارا بھی اتار دیا اور کپڑے درست کرکے رجز پڑھتے ہوئے رزمگاہ پہنچے اور آتے ہی اس زور کا حملہ کیا کہ بہت سے شامی خاک وخون میں تڑپ گئے ،لیکن شامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اس لئے حضرت عبداللہ کے ساتھی ان کے جوابی حملہ کی تاب نہ لاسکے اور ان کے رہے سہے ساتھی منتشر ہوگئے ،ایک خیرخواہ نے حضرت عبداللہکو محفوظ مقام پر چلے جانے کا مشورہ دیا تو فرمایا کہ:” ایسی حالت میں مجھ سے برا کون ہوگا کہ پہلے اپنے ساتھیوں کو قتل ہونے کے لئے سامنے کردیا اور ان کے قتل ہونے کے بعد میں ان کی جیسی موت سے بھاگ نکلوں“۔
حضرت عبداللہ بن زبیر کی قوت بہت کمزور پڑ گئی تھی، اس لئے شامی برابر بڑھتے آرہے تھے ،یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے تمام دروازوں پر ان کا ہجوم تھا، لیکن حضرت عبداللہ بن زبیر اس حالت میں بھی شیر کی طرح چاروں طرف سے حملہ آور ہوتے تھے اور جدھر رخ کرتے تھے شامی کائی کی طرح چھٹ جاتے تھے، حجاج نے جب دیکھا کہ کوئی شامی ان کے پاس جانے کی ہمت نہیں کرتا تو خود سواری سے اتر کر اور اپنی فوج کو للکار کر حضرت عبداللہ بن زبیر کے علمبردار کی طرف بڑھنے کا حکم دیا‘ لیکن حضرت عبداللہ  نے آگے بڑھ کر اس بڑھتے ہوئے ہجوم کو منتشر کردیا اور نماز پڑھنے کے لئے مقام ابراہیم پر چلے گئے۔ شامیوں نے موقع پاکر ان کے علمبردار کو قتل کرکے َعلم چھین لیا، حضرت عبداللہ بن زبیر نماز پڑھ کر لوٹے تو بڑی دیر تک بغیر َعلم کے لڑتے رہے ،عین اس حالت میں ایک شامی نے ایسا پتھر مارا کہ حضرت عبداللہ  کا سر کھل گیا اور چہرے سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، داڑھی مبارک خون سے تر ہوگئی، اس پر حضرت عبداللہ  نے شجاعانہ شعر پڑھا:
لسنا علی الأعقاب تدمی کلومنا
ولکن علی اقدامنا تقطرہ الدماء
یعنی ہم وہ نہیں کہ پیٹھ پھیرنے کی وجہ سے جن کی ایڑیوں پر خون گرتاہے، بلکہ سینہ سپر ہونے کی وجہ سے ہمارے قدموں پر خون ٹپکتا ہے۔
یہ رجز پڑھتے جاتے اور پوری شجاعت ودلیری سے لڑتے جاتے تھے ،لیکن زخموں سے چور ہوچکے تھے ساتھیوں کی ہمت پست ہوچکی تھی، شامیوں کا انبوہ کثیر مقابل تھا ،اس لئے آخر کار انہوں نے ہر طرف سے یورش کرکے حضرت عبداللہ بن زبیر  کو شہید کردیا اور جمادی الاخریٰ ۷۳ ھ میں قریش کا یہ یگانہ بہادر ،حواری رسول کا لخت جگر اور ذات النطاقین کا نور نظر ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاگیا۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں سر میں انسان کا دماغ رکھنے والا شخص سانحہ لال مسجد میں فریقین کے کردار کا تعین کرسکتا ہے۔
حجاج نے سرکاری رٹ قائم کرنے کے لئے مکہ مکرمہ اور حرم محترم کا فوجی محاصرہ کیا تو حکومت نے بھی اسی مقصد کے لئے اسلام آباد کی ناکہ بندی کراکر لال مسجد کا فوجی محاصرہ کرایا۔ اگر حجاج محاصرہ کو طول دیکر محصورین کو سواری کے گھوڑوں کے گوشت کھانے پر مجبور کرتا ہے تو حجاج کے جانشین محصورین لال مسجد کو درختوں کے پتے کھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اگر حجاج کی تلوار اپنے نیام سے باہر ہوکر بیکسوں اور مظلو موں کے سر پر مسلسل کئی مہینے انتہائی بے دردی کے ساتھ چمکتی رہی اور حجاج اپنی منجنیق کا منہ حرم محترم کی طرف کرکے سنگباری اور آتشباری کررہا ہے تو آج کا حجاج لال مسجد پر ٹینکوں اور توپوں سے گولہ باری اور ہیلی کاپٹر سے آگ برسا رہا ہے ۔ حجاج اگر حضرت عبداللہ بن زبیر کے سر کو ان کے تن سے جدا کرکے مدینہ روانہ کرتا ہے اور ان کی نعش کو سولی پر لٹکاکر تین دن بعد یہودیوں کے قبرستان میں پھینکواتا ہے تو آج کے حاکم اپنے پیشرو کی نافرمانی کئے بغیر غازی عبد الرشیدشہید کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کروا کے باون گھنٹے کے بعد ان کے ورثہ کے حوالہ کرتا ہے اور باقی ہزاروں طلبہ وطالبات اور معصوم بچوں وبچیوں کی نعشوں کو جلاکر یوں یہ کلب ِعقوراپنے پیشرو درندہ صفت حجاج سے ظلم اور بربریت میں آگے نکل جاتاہے۔ ”کل میسر لما خلق لہ“ کے ضابطہ شرعیہ کی روشنی میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آج کے حکمران اپنے مقتداء کی اقتداء کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی تابعداری سے سرمو انحراف گوارہ نہیں کریں گے، جیسا حجاج اپنے آقا حکمرانوں کی غلامی کا اظہار اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں بایں الفاظ کرتا ہے ”ولید ہی کی اطاعت پر زندہ رہا اور اسی کی اطاعت پر مر رہا ہوں اور اسی کی اطاعت پر قیامت میں اٹھوں گا“ تو آج کے حاکم اپنے مقتداء سے ان کے الفاظ میں تھوڑی سی تبدیلی کی معذرت کرتے ہوئے اپنے مغربی آقاؤں کے نام نامی کا پیوند لگانے کی اجازت چاہیں گے اور اپنے خاموش مستقبل کی ابتداء اپنے آقاؤں کے مبارک ناموں سے کریں گے، چنانچہ کہیں گے:” مغرب اور امریکہ (بش) ہی کی اطاعت پر زندہ رہے اور انہی کی اطاعت پر مررہے ہیں اور انہی کی اطاعت پر قیامت میں اٹھیں گے“۔ یہیں سے حکمرانوں کے خاموش بلکہ تاریک مستقبل کی ابتداء ہوگی، اب نامہ اعمال کو لپیٹ کر گلے میں ڈال دیا جائے گا جو قبر میں بھی ساتھ رہے گا یہاں تک کہ جب قیامت کے روز قبر سے نکلیں گے تو اس وقت بادشاہوں کا بادشاہ فرمائے گا:
”وکل انسان الزمناہ طائرہ فی عنقہ ونخرج لہ یوم القیامة کتاباً یلقاہ منشورا‘ اقرأ کتابک کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً“۔ (بنی اسرائیل:۱۳،۱۴)
ترجمہ:”ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کی گردن میں لگادیا ہے اور قیامت کے روز وہ اس کو کھلا ہوا پائے گا اب اپنا اعمال نامہ خود پڑھے تو خود ہی اپنا حساب لگانے کے لئے کافی ہے“۔
یہی وہ وقت ہے کہ جس میں ہرانسان اپنے اعمال کا حساب دے گا ،قیامت قائم ہونے کے بعد ہرانسان ایک خاص کیفیت کے ساتھ میدان حشر میں حساب دینے کے لئے حاضر کیا جائے گا۔قرآن کریم میں ہے
”وجاء ت کل نفس معہا سائق وشہید‘ (ق:۲۱)
یعنی ہر شخص اس طرح (میدان حشر ) میں آئے گا کہ اس کے ساتھ (دو فرشتے ہوں گے) جن میں ایک تو (میدان قیامت کی طرف) اس کو اپنے ہمراہ لائے گا اور ایک (اس کے اعمال کا) گواہ ہوگا۔ احکم الحاکمین کے سامنے تمام انسانوں کو میں پیش کیا جائے گا ،جیسا کہ ارشاد ہے”وعرضوا علی ربک صفا“ اور تیرے پروردگار کے روبرو برابر پیش کئے جائیں گے اور صفوں کی ترتیب کچھ اس نوعیت کی ہوگی کہ تمام جماعتیں ایمان وعمل کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ہوں گی، کافر ایک جگہ ‘ مومن ایک جگہ۔ پھر کافر اور مومن میں اعمال وعادات کے اعتبار سے فرق ہوگا ،قاتلین الگ‘ زانی الگ وغیرہ ذلک ،جیسا کہ ارشاد ہے’۔”واذا النفوس زوجت“ یعنی جبکہ حاضرینِ محشر کے جوڑے جوڑے بنا دیئے جائیں گے۔ جب سب لوگ اللہ سامنے موجود ہوں گے تو حساب شروع ہونے سے پہلے اعلان ہوگا ”لمن الملک الیوم“ آج کس کی بادشاہت ہے؟ کوئی جواب دینے کی جرأت نہیں کرسکے گا ،تو اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا ’للہ الواحد القہار“ پس اللہ واحد وغالب ہی کی ہے۔ اب حساب شروع ہوجائے گا اور ہرانسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔جیسا کہ ارشاد ہے:
”الیوم تجزی کل نفس بما کسبت لاظلم الیوم ان اللہ سریع الحساب“ (موٴمن:۱۷)
یعنی آج ہرشخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا ،آج کچھ ظلم نہ ہوگا ،اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ سب سے پہلے خون کا مقدمہ چکایا جائے گا ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
”اول ما یقضی بین الناس فی الدماء“
لوگوں میں سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ علمائے کرام جو فرماتے ہیں کہ تم کو ایک نہ ایک دن ان مظلوموں ، بیکسوں اور بے دردی سے قتل کئے جانے والوں کے خون کے قطرے قطرے کا حساب دینا ہوگا، یہی وہ دن ہے جس کا واقع ہونا اتنا ہی یقینی ہے جیسے رات کے بعد دن۔ چنانچہ شہداء لال مسجد اور ان کے قاتلین عدالت الٰہیہ میں پیش کئے جائیں گے ،بہت ممکن ہے کہ مووٴدة کی طرح ان طالبات سے جن کو تہہ خانوں اور کمروں میں محبوس کرکے بارود سے ان پر چھتیں گراکر قتل کی گئیں، بایں الفاظ پوچھا جائے گا کہ ”تم کس جرم میں قتل کی گئیں “ ظاہر ہے کہ مقصود ان سے سوال کا یہ ہوگا کہ یہ اپنی بے گناہی اور مظلوم ہونے کی پوری فریاد بارگاہِ رب العزت میں پیش کریں ،تاکہ ان کے قاتلوں سے انتقام لیا جائے۔ ظاہر ہے جواب یہی ہوگا کہ ”ان ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں گرائی ہوئی مسجدوں کی تعمیر‘ زناکاری اور بدکاری کے اڈوں کی بندش ، مردوں کا مساج کرنے والی چینی عورتوں کو اس غلیظ کام سے روکنے کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کا اعلان کرنے کا مطالبہ ہی ہمارے قتل کا سبب بنا۔ قاتلین کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوگی، سو عدالت الٰہیہ کا فیصلہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے:
”من یقتل مومناً متعمداً فجزاء ہ جہنم خالداً فیہا غضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذاباً عظیماً“۔ (النساء:۹۳)
یعنی جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے ،اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے ، اس کی لعنت اور اللہ نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کررکھا ہے۔ آخر میں ان بدباطن امراء ووزراء کے کردار سے پردہ اٹھانا بھی ضروری ہے جو محصورین لال مسجد پر گولی بھی چلوارہے ہیں، ان کو گرفتار بھی کروا رہے ہیں اور ساتھ ہی جھوٹی ہمدردی کے اظہار کے لئے آنسو بھی بہارہے ہیں ۔میرے خیال میں ان کے کردار کی وضاحت کے لئے اس واقعہ کا ذکر کردینا کافی ہوگا جو سانحہ کربلا میں واحد زندہ رہنے والا نواسہ رسول ا زید بن علی (امام زین العابدین) سے اپنی گرفتاری کے متعلق منقول ہے، سنئے گیلانی کی زبانی:
”واقعہ یہ ہے کہ دشت کربلا کی مصیبت اور اس کے بعد مسلسل بنی امیہ کے فولادی پنجوں کی آہنی گرفتوں نے تمام مسلمانوں پر اوس ڈال دی تھی، باطل کے مقابلہ میں اٹھنے کی تاب مسلمانوں میں عموماً باقی نہ رہی اور سب سے زیادہ خصوصیت کے ساتھ جو دنیا میں ظلم وستم کانشانہ بنے ،وہ حضرت علی اورفاطمہ کی اولاد تھی، جب حال یہ ہوگیا ہو جیساکہ امام زین العابدین سے منقول ہے کہ بیمار ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو قتل کرنے سے چھوڑ دیا۔ فرماتے ہیں کہ: ان ہی میں سے ایک آدمی مجھے چھپا کر اپنے گھر لے گیا اور میری خاطر ومدارات کرتا ،جب گھر آتا یا گھر سے جاتا تو میرے حال پرترس کھا کر روتا ،میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اس سے زیادہ وفادار آدمی کون ہوسکتا ہے، حضرت کے الفاظ یہ ہیں: ان یکن عند احد من الناس خیر ووفاء فعند ہذا“ اگر بھلائی اور وفاداری کسی کے پاس ہوسکتی ہے تو اس شخص کے پاس ضرور ہے۔مگر فرماتے ہیں :چند روز بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ ابن زیاد نے عام اعلان کیا کہ علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کا جو پتہ دے گا اور لاکر حاضر کرے گا، اسے تین سو درہم انعام میں دئے جائیں گے۔ یہ سنتے ہی میرے لئے ہر وقت رونے والا وہی آدمی جس نے مجھے پناہ دی تھی، دیکھتا کیا ہوں کہ رسی لئے آرہا ہے اور آتے ہی میرے ہاتھ گردن سے باندھنے لگا ۔ حال یہ ہے کہ روتا جاتا ہے ، باندھتا جاتا ہے۔اور یہ کہتا جاتا ہے کہ ”اخاف“ (مجھے ڈر لگتا ہے) اور اسی طرح باندھے باندھے اس نے اطمینان سے مجھے ابن زیاد کے سامنے پیش کردیا اور تین سو درہم لے کر روانہ ہوگیا۔ ابن زیاد کی نظر جوں ہی مجھ پر پڑی‘ چند باتوں کے بعد اس نے میرے بارے میں حکم دیا کہ اس کی گردن اڑادی جائے، یہ سنتے ہی میری پھوپھی زینب بنت علی چیخ اٹھی اور کہا:
”یا ابن زیاد حسبک من دمائنا اسئلک باللہ ان قتلتہ الا قتلتنی“
ہمارے گھرانے سے جتنا خون لیا گیا ہے ،ابن زیاد وہ بہت کافی ہے، میں خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں اس بچے کو اگر قتل ہی کرنا چاہتا ہے تو پہلے مجھے قتل کردے۔ان کی اس چیخ سے ابن زیاد متاثر ہوگیا اور میری جان بچ گئی ۔“
یہاں محصورین لال مسجد کی پھوپھیاں تو کیا پورے ملک کی مائیں اور بہنیں بزبان حال چیخ رہی تھیں اور ذمہ دارانِ وفاق ان محصورین کی جان بخشی کی بھیک مانگ رہے تھے‘ لیکن بے رحم حکمرانوں کے دل جو سنگ سے بھی زیادہ سخت ہیں، متاثر نہیں ہوئے اور بالآخر بے رحم قلم سے قرآن وحدیث کے پڑھنے والے طلباء اور طالبات کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرانے کا پروانہ قتل جاری ہوگیا۔ ملازمتوں کے پجاریوں نے ۱۰/ جولائی ۲۰۰۷ء کو اپنی قسمت پر شقاوت کی مہر لگاکر ان مظلوموں کو دین وشریعت کے نام لینے کی پاداش میں شہید کردیا۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: خواتین کا احرام میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم
Flag Counter