Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

10 - 11
مولانا دُر محمد میمن
مولانا دُر محمد میمن

۹/ رجب المرجب ۱۴۲۸ھ مطابق ۲۵/ جولائی ۲۰۰۷ء کی رات بوقتِ سحر سوا تین بجے سندھ کے مایہ ناز عالم دین، امام الصرف والنحو، شیخ القرآن حضرت علامہ مولانا دُر محمد بن فیض محمد میمن سندھی اس دارالفناء سے دارالبقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی ولادت تقریباً ۱۹۳۰ء میں سندھ کے مشہور علاقہ خیرپور میرس کے ایک قصبہ ”ہنگورجہ“ میں ہوئی۔ پرائمری مراحل طے کرنے کے بعد جامعہ دارالہدیٰ حبیب آباد ٹھیڑھی شریف کا رخ کیا، وہاں کے اکابرین حضرت مولانا حبیب اللہ میمن (فاضل دارالعلوم دیوبند) اور حضرت مولانا عبدالہادی میمن (فاضل دارالعلوم دیوبند) صاحبان نے بہت شفقت اور خصوصی توجہ سے آپ کو تعلیم دی۔ چنانچہ بہت مختصر عرصہ میں جامع المعقول والمنقول استاذ الکل حضرت مولانا درمحمد نے، حضرت مولانا حبیب اللہ، اوردیگر اساتذہ کرام کے پاس موقوف علیہ تک کی کتب پڑھ کر دورئہ حدیث شریف کے لئے دارالعلوم ٹنڈوالہ یار کی جانب رُخ کیا، چنانچہ وہاں حضرت علامہ مولانا محمد عبدالرحمن کیمل پوری، حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی اور حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے مشائخ اور ایسے اکابر حضرات کے تلمیذ ہونے کا شرف حاصل کیا۔ دورئہ حدیث میں پروانہ ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی ، حضرت مولانا مفتی عبدالستار ملتانی، حضرت مولانا محمد جمشید احمد دامت برکاتہم رائیونڈ والے جیسے اکابر امت آپ کے ہم درس اورہم سبق تھے، اللہ تعالیٰ نے دینی علوم سے سرفر ازفرماکر علماء کے سلسلہ طیبہ میں داخل فرمادیا۔ دورئہ حدیث شریف کے دوران حضرت موصوف بخاری کی دو بے مثال شرحیں، عمدة القاری اور فتح الباری اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے ،اس مطالعہ کی روشنی میں دورانِ درس اساتذہ کرام سے نہایت عمیق علمی سوالات بھی کرتے تھے، حضرت موصوف کی اس ادا سے حضرت علامہ شیخ محمد یوسف بنوریبہت متاثر ہو تے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت موصوف کو حضرت بنوری کا انتہائی قرب حاصل ہوا، اور بعداز فراغت دورئہ حدیث، حضرت بنوری کے اصرار پر آپ کو دارالعلوم ٹنڈوالہ یار میں مدرس مقرر کیا گیا ۔ دو سال تک وہاں آپ نے تدریسی خدمات سر انجام دیں، بعدازاں آپ جامعہ حمادیہ کھڑہ (خیرپور میرس) میں مہتمم مقرر ہوئے، وہاں چند ماہ کام کرنے کے بعد بزرگوں کے مشورہ سے آپ میرپور خاص سندھ کی ایک جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ وہیں سے اپنے ہی علاقہ کے دوسرے احباب نے حضرت کو جامعہ شمس العلوم کھڑہ کا اہتمام بمع تدریس سنبھالنے کی استدعا کی۔ وہاں حضرت نے سات سال تک خدمات انجام دیں۔ جامعہ شمس العلوم میں حضرت نے ایک مقامی طالب علم حضرت مولانا رشید احمد سومرو کو دورئہ حدیث کے بعد وہیں جامعہ کا کام سپرد کرکے خود اپنے شہر ہنگورجہ میں واپس تشریف لائے اور وہاں مدرسہ دارالعلوم المحمدیہ قائم فرمایا۔ چونکہ حضرت کا طریقہٴ تدریس اور طرزِ تعلیم بہت شہرت پاچکے تھے، چنانچہ دارالعلوم المحمدیہ ہنگورجہ کے قائم ہوتے ہی گرد و نواح سے جوق درجوق تشنگانِ علوم تشریف لانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ، سندھ، بلوچستان، سرحد، پنجاب اور ایران کے طلبہ کرام سے بارونق ہوتا گیا۔ اسی دوران حضرت کا قلبی و اصلاحی تعلق جنید وقت مرشد الموحدین حضرت شیخ حماد اللہ ہالیجوی سے قائم ہوگیا تھا، آپ حضرت ہالیجویکی خصوصی توجہ و تربیت سے ظاہری و باطنی علوم میں ترقی کرنے لگے، یہاں تک کہ حضرت کی خصوصی توجہ اور دعاؤں سے آپ خود بھی صاحبِ معرفت کامل ولی اللہ بن گئے۔ دارالعلوم المحمدیہ کی برکات سے بحمدللہ !ہنگورجہ اور ان کے گردو نواح میں توحید و سنت کے انوارات پھیلنے لگے۔ الحمدللہ!حضرت کے اخلاص اور دیوبند کی نسبت کی برکات سے اس دینی مرکز سے اللہ رب العزت نے ایسے افراد کو علوم دینیہ سے سیراب فرمایا کہ وہ آگے چل کر معقول و منقول علوم کے پہاڑ ثابت ہوئے اور انہوں نے پورے پاکستان اور ایران میں اس انداز سے جہل کے افق پر علمی انوارات پھیلائے کہ آج تک ان کا یہ سلسلہٴ طیبہ پورے جولان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رواں دواں ہے اور حضرت مرحوم کے لئے صدقہٴ جاریہ کا خوبصورت سلسلہ بھی۔ مولانا دُر محمد  اپنی زندگی میں قطب الاقطاب حضرت حماد اللہ ہالیجوی، علامہ محمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع، عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی ،امام المجاہدین خلیفہ احمد الدین شکارپوری رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی شخصیات کی تجلیات و انوارات سے فیض یافتہ ہونے کے لئے ان کی خصوصی مجالس میں باقاعدہ حاضر ہوتے اور اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کا اہتمام فرماتے رہتے تھے۔ وقت کے ولی کامل حضرت حماد اللہ ہالیجوی کے خلیفہ مجاز مولانا عبدالکریم قریشی بیر شریف والے، مفتی رشید احمد لدھیانوی، جانشین حضرت بنوری ،مولانا مفتی احمد الرحمن، جانشین حضرت امروٹی مجاہد اسلام مولانا سیّد محمد شاہ امروٹی رحمہم اللہ تعالیٰ اور رئیس المناظرین حضرت مولانا محمد عبدالستار تونسوی، حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم جیسے اکابرین امت مولانا دُر محمد کے قریبی دوست اور رفقاء دینیہ میں سے تھے، مذکورہ حضرات سے آپ کے بہت گہرے مخلصانہ بلکہ محبت و بے تکلفی کی حد تک دوستانہ تعلقات تھے۔ حضرت مولانا دُر محمد کو اپنے اسلاف و اکابرین سے عشق کی حد تک محبت تھی، حضرت امام شاہ ولی اللہ  سے لے کر قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت شیخ الہند ،امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہم کا ذکر کرتے ہوئے محبت کی شدت سے آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔ہم دیکھتے تھے کہ باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے جب مسائل کی پریشانیاں حضرت کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتی تھیں تو اس دوران حضرت حضرت حکیم الامت کی حکمت، حضرت امام عبید اللہ سندھی کی استقامت، حضرت امروٹی کی غیرت اور حضرت آزاد رحمہم اللہ تعالیٰ کی فراست کے قصے دہراتے ہوئے جلال میں آکر فرماتے تھے:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
اور یہ کیفیت آپ پر اکثر اوقات اس وقت طاری ہوتی، جب سیاسی الیکشن میں مقامی باطل قوتوں کا مقابلہ درپیش ہوتا یا روڈ کی زد میں آنے والی مساجد کی شہادتوں یا جماعت کے تقدس کا مسئلہ سامنے آتا۔ باطل سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ آپ کا حوصلہ ہمیشہ رفعت آسمان کی طرح بلند رہا، آپ کا دل ہمیشہ بہتے ہوئے دریا کی طرح دین کے عشق میں موجیں مارتا رہا، آپ کی استقامت اٹل پہاڑ کی طرح مضبوط رہی، آپ نے جس چیز کو حق جانا، اس پر ڈٹ جاتے، پھر چاہے باطل کی آندھیاں آئیں،یاطوفان برپا ہوں ،وہ سب ناکام و خاسر ہو کر گزرتے گئے۔ حضرت مولانادُر محمد نے ساری زندگی قرآن و سنت کی اشاعت میں گذاری، زندگی بھر فرائض تو کجا آپ سے مستحبات و مباحات بھی بحمداللہ! نہیں چھوٹے۔تلاوت اور مطالعہ کا خصوصی شغف تھا، سفر و حضر میں جماعت کی نماز کو کبھی ترک نہیں کیا، رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ آپ نفلی روزوں کا بھی تاحیات خصوصی اہتمام فرماتے رہے، نمازوں میں فرائض کے ساتھ سنن و نوافل کابہت اہتمام فرماتے۔ علالت کے زمانے تک آپ سے نہ کبھی تہجد کی نماز چھوٹی، نہ اشراق و چاشت اور نہ اوابین۔ اس کے علاوہ آپ کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ فوراً نوافل میں مصروف ہوجاتے۔ مہمان نوازی کا بھی سنت کے مطابق خصوصی اہتمام فرماتے۔ جب تبلیغی جماعت کے حضرات ہمارے شہر میں دعوت و تبلیغ کی نسبت سے تشریف لاتے اور وہ دعا کے لئے حضرت کے ہاں حاضر ہوتے تو آپ اپنے گھر سے ان کے اکرام کا اہتمام فرماکر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کی خدمت کیا کرتے۔ جب تبلیغی احباب ذرا تکلف سے کام لیتے تو آپ مسکراکر ”اکرام الضیف من الایمان“کہہ کر ان کو خاموش کرادیتے تھے۔ آپ علم الصرف کے امام تھے، نحو میں بھی آپ کو زبردست مہارت حاصل تھی، بالخصوص مفردات القرآن میں تو آپ نہایت ہی عمیق الذہن تھے۔ فقہ و حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمالات سے نوازا تھا، ارشاد الصرف آپ جب طلبہ کرام کو پڑھاتے تو ان کو ارشاد الصرف کے قوانین املا کرواتے اور وہ قوانین عام طور مروج قوانین کے اسلوب سے بالکل منفرد اور آسان ہوتے تھے، آج سے تین سال قبل آپ عیدالاضحی کی نماز کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ سخت بخار میں مبتلا ہوگئے، پھر بھی استقامت کے ساتھ آپ نے نہ صرف کھڑے ہوکر خطبہ پورا کیا ،بلکہ خطبہ کے بعد جو آپ جماعت کو وعظ فرماتے تھے، اپنے اس معمول کو بھی بڑی ہمت کے ساتھ پورا فرمایا۔ حضرت کی صحت کے متعلق ڈاکٹروں سے رابطہ ہوا، ایک ڈاکٹر نے صحیح تشخیص کرکے بتایا کہ حضرت کا جگر متاثر ہوگیا ہے، پھر ڈاکٹر جناب محمد صادق صاحب (جو کہ امراض جگر کے ماہر ہیں) رابطہ میں آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے علاج کرنے میں خصوصی توجہ فرمائی، مسلسل علاج چلتا رہا الحمدللہ! بہت زیادہ افاقہ ہوا، لیکن حکمت ربی کے تحت بیماری ختم نہیں ہوئی۔چنانچہ، ۲۵/ جلائی کو بدھ کی رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا کہ حضرت صاحب کے دلی دوست حافظ محمد بال مٹیاری والے اور انکا بڑا بیٹا عبدالقدوس ان کے پاس کھڑے تھے، حضرت مولانا نے پوچھا کہ: مغرب ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں جی! مغرب (رات) ہے پھر قبلہ رو ہوکر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ: ابھی چلیں… ابھی چلنا چاہئے… اور پھر لیٹ گئے اور زبان سے اللہ، اللہ، اللہ کے الفاظ نکلتے محسوس ہوئے اور بے ہوشی طاری ہوگئی ۔گویا کہ بڑی سکون کی نیند سونے لگے اور ہم لوگ باری باری آرام کرنے لگے، لیکن تین بجے شب روح جسم سے اس طرح جدا ہوئی جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:موٴمن کی روح جسم سے اس طرح جدا ہوتی ہے جیسے ماں اپنے سوئے بچے کو اپنے سینے سے جدا کرتی ہے یا جیسے کہ آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔ اس طرح سندھ کی ایک عظیم شخصیت کی روح بھی اپنے ناقابل فراموش اور خوبصورت نقوش چھوڑ کر پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ا طہارت و نفاست، زُہد و تقویٰ، عزم و جہاد و سیاست، علم و عمل کے اس پیکر ہستی کی ہزاروں کے مجمع نے حضرت بیر والے کے خلف رشید حضرت مولانا عبدالعزیز قریشی زید مجدہ کی امامت میں نمازِ جنازہ ادا کی اور اسلاف کی اس یادگار ہستی کو بھیگی آنکھوں سے اپنے آبائی قبرستان میں آغوش لحد کردیا گیا۔
چھپ گیا آفتاب شام ہوئی
اک مسافر کی رہ تمام ہوئی
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: اصحابِ صفہ
Flag Counter