Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

2 - 11
خواتین کا احرام میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم
خواتین کا احرام میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم!

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عمرہ وحج کے دوران حالت احرام میں عورتوں کے لئے چہرہ ڈھانپنے کی شرعی حیثیت پر از سر نو غور ممکن ہے یا نہیں؟
دراصل یہ مسئلہ ہمیشہ پریشان کن رہا‘ ایک طرف تو پردہ فرض ہے اور دوسری طرف چہرے پر کپڑا لگنا جنایات احرام میں سے ہے۔ ایسی حالت میں یہ انتظام کہ چہرہ چھپا یا بھی جائے اور کپڑا بھی اسے نہ لگے‘ نہایت مشکل ہے۔ عام طور پر گذشتہ صدی سے اس کے لئے جو پردے وا لا ہیٹ استعمال کیا جاتا ہے وہ عموماً بے فائدہ ثابت ہوتا ہے‘ وہ اس طرح کہ :
۱- دائیں بائیں سے لوگوں کی نگاہیں پڑتی رہتی ہیں۔
۲- ہوا اور لوگوں کی دھکم پیل سے یہ پردہ اڑتا اور ہٹتا رہتا ہے‘ ہم بیچاری عورتیں اس نیم پر دے اور نیم بے پردگی سے پریشان رہتی ہیں۔
۳-یہ کپڑا اڑ اڑ کر چہرے کو بھی لگتا رہتا ہے‘ مردوں کو شایداس مصیبت کا اندازہ نہ ہو‘ مگر جو عورتیں اس تکلیف سے گذرتی ہیں۔ وہ زیادہ بہتر جانتی ہیں۔ اتنی بھیڑ میں دیکھ بھال کر چلنا بہت ضروری ہوتاہے‘ ساتھیوں اور محرم سے بچھڑنے کا ڈر بھی ہوتا ہے‘ مگر یہ جالی نما ہر دم لہرانے والا پردہ بھی سخت مشکل پیدا کرتا ہے۔ پہلے زمانے میں اس مقصد کے لئے گھونگھٹ نکال لیا جاتا تھا۔ اب بھی بعض عورتیں اس طرح کرتی ہیں‘ مگر اب رش اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ گھونگھٹ نکالنا تقریباً بے سود ثابت ہوتاہے کہ ہرطرف مرد ہی مرد ہوتے ہیں‘ اس بے پردی کی ضرورت کو نہ جالی دار ہیٹ پورا کرتا ہے نہ گھونگھٹ۔
دوسری طرف ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتیں کہ ہم بے پردہ پھیریں‘ خاص کر اللہ کے گھر میں اور اس کی عبادت میں لوگ ہمیں اسی طرح بے پردہ دیکھیں۔ یہ خیال تو محض خوش فہمی ہوگا کہ حرم اور ارکان حج میں سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ وہ نہیں دیکھتے۔ سچ یہ ہے کہ لوگ دیکھتے ہیں اور خوب دیکھتے ہیں ‘ہماری ہیٹ والی جالیاں صرف ہمیں پریشان کرتی ہیں‘ ان کی نگاہوں کو نہیں روک سکتی۔ وہ بھی آخر انسان ہیں‘ نفس سب کے ساتھ پاکستان میں ہے تو حرم میں بھی ہے۔ آخر حضور ﷺ کی موجودگی میں حجة الوداع میں ایک صحابی کسی عورت کو تاکنے لگے تھے تو آج کے مسلمان کس شمار میں ہیں۔ عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ کیا مفتیان کرام زمانے کے لحاظ سے اس مسئلے پر نئے سرے سے غور نہیں کرسکتے‘ اس وقت سعودی عرب میں اکثر سعودی خواتین جو حنبلی مسلک پر عمل پیرا ہیں‘ حج کے دوران مکمل پردہ کرتی ہیں‘چہرہ عام حالتوں کی طرح برقعے سے پورا ڈھانپ کر رکھتی ہیں‘ ہمیں ان پر رشک آتا ہے‘ اب یہ معلوم نہیں کہ حنابلہ کے یہاں اصل مذہب میں عورت کے لئے چہرے پر کپڑا لگنا جنایت میں شامل نہیں یا موجودہ فقہاء حنابلہ نے زمانے کے فتنوں‘بدنگاہی کی کثرت اور پردے جیسے فرض کی فی زماننا مزید شدید ضرورت کو دیکھتے ہوئے جنایت مس ثوب کو عورت سے ساقط کرنے کا اہتمام کیاہے؟
اگر یہ اصل حنبلی مسلک ہے تو کیا ”حیلہ ناجزہ“ کی طرح عموم بلویٰ کے پیش نظر یہاں بھی فقہاء حنفیہ حنبلی مسلک پر فتویٰ دینے پر غور نہیں سکتے؟
اور اگر یہ حنبلی فقہاء کا اپنا اجتہاد ہے تو کیا ایسا اجتہاد حنفی مفتی حضرات نہیں کر سکتے؟ اور کیا اس اجتہاد میں دیگر مذاہب(مالکیہ اور شافعیہ) کے فقہاء کو بھی شریک نہیں کیا جاسکتا؟
اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لئے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے کہ ہرسال پاکستان کی ہزاروں خواتین حج کرتی ہیں‘ ان کی کئی قسمیں ہیں:
۱- ایک تعداد ان کی ہوتی ہے جو اپنے معاشرے میں مکمل پردہ کرتی ہیں۔
۲- زیادہ تعداد ان عورتوں کی ہوتی ہے جو اپنے خاندان اور محلے میں مکمل پردہ تو نہیں کرتیں‘ مگر سفر میں ضرور چہرہ ڈھانپتی ہیں۔
۳-تیسری قسم میں وہ عورتیں ہیں جو ہر جگہ منہ کھول کر نکلتی ہیں۔ایسی غالباً آدھے سے بھی کم ہوں گی مگر غور فرمایئے حج کے دوران عجب تماشہ ہوتا ہے کہ تقریباً سو فی صد پاکستانی حجنیں منہ کھول کر پھر رہی ہوتی ہیں جو ماڈرن ہیں‘ انہیں تو کوئی فکر نہیں ہوتی‘ مگر دیگر اقسام سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ کچھ خود تسلی دے رہی ہوتی ہیں کہ اللہ کے گھر میں کوئی پردہ نہیں‘ سب کے دل پاک ہیں۔ کچھ چہرہ کھولنے پر شرمندہ ہوتی ہیں‘ شرماتی ہیں کہ مرد دیکھ رہے ہیں‘ مگر اس کا کوئی حل ان کے پاس نہیں ہوتا کہ جانتی ہیں کہ چہرہ ڈھانپنا بھی منع ہے۔ رہی ہیٹ کی بات تو اس کا بے سود ہونا ان پر واضح ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک فی صدسے بھی کم عورتیں وہ ہوتی ہیں جو ہیٹ والا پردہ کرتی ہیں‘ مگر مطمئن وہ بھی نہیں ہوتیں کہ یہ پردہ‘ پردہ ہوکر بھی بے پردگی کی جھلک دکھاتا رہتا ہے اور مس ثوب والے مسئلے سے بھی بچاؤ نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہیٹ کا رواج کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔
ان پہلووں پر غور فرماتے ہوئے اگر فقہاء کرام مکمل پردے کی گنجائش پر غور کر لیں تو کم از کم پردہ دار عورتوں کے لئے سہولت ہو جائے گی اور بہت سے مسائل سے انہیں نجات ملے گی۔
خلاصہ استفتاء یہ ہے کہ :
۱- کیا عموم بلویٰ‘ زمانے کے فتن‘ بدنگاہی کی کثرت‘ گھونگھٹ اور پردے والے ہیٹ کی عدم افادیت‘ خواتین کو ان سے بہت سے پیش آنے والے مسائل سب سے بڑھ کر پردے کی فرضیت میں موجودہ زمانے کے لحاظ سے شدت کے پیش نظر کیا حالتِ احرام میں عورت کو چہرے کا مکمل پردہ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
۲- اگر نہیں تو پھر پردے کی مذکورہ غیر مفید صورتوں کے سوا صحیح اور مناسب تر صورت کیا ہوسکتی ہے؟
امة الرحیم مدرسة نعمة الرحیم ناظم آباد کراچی
الجواب باسمہ تعالیٰ
واضح رہے کہ انسان تمام احکامات میں شریعت کا اپنی وسعت کے بقدر پابند اور مکلف ہے اور شریعت نے بھی اس کو اس کی وسعت کے بقدر مکلف بنایا ہے‘ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا“ (سورة البقرة:۲۸۶)
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت میں ہو“۔
بعض دفعہ شریعت کے احکام زمان اور مکان کے بدلنے سے بدل بھی جاتے ہیں‘ جیسے نماز قصر وغیرہ کے احکام ‘ عرفہ میں ظہر وعصر کا ایک ساتھ پڑھنا‘ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ عشاء کے وقت میں ادا کرنا وغیرہ۔ اسی طرح شریعت نے عورت کے لئے پردہ ہرحال میں لازم کیا ہے‘ البتہ اس کے لئے احرام میں پردے میں تخفیف کردی ہے کہ عورت چہرے پر نقاب وغیرہ نہ ڈالے‘ بلکہ چہرہ کھلا رکھے کہ عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابن عمر عن النبی ا قال: المحرمة لاتنتقب ولاتلبس القفازین“۔(بخاری:۱/۲۴۸ )
البتہ کسی نامحرم کے سامنے آنے پر وہ اپنے چہرے کو چھپالے تاکہ اس جگہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو۔ چنانچہ صحابیات  کا بھی یہی عمل رہا‘ حضرت عائشہ کی روایت ہے:
”کان الرکبان یمرون بنا ونحن محرمات مع رسول اللہ ا فاذا جاوذوا بنا سدلت إحدانا جلبابہا فاذا جاوزونا کشفناہ“۔ (ابوداود:۱/۲۵۴ ط:میرمحمد)
چنانچہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ عورت اپنے سر پر اس طرح کپڑا ڈال سکتی ہے کہ وہ کپڑا چہرے کو نہ لگے اور پردہ بھی ہوجائے۔ چنانچہ کتاب المبسوط میں ہے:
”قال (ولا بأس بأن تسدل الخمار علی وجہہا من فوق رأسہا علی وجہ لایصیب وجہہا) وقد بینا ذلک عن عائشة  لأن تغطیة الوجہ إنما یحصل بما یماس وجہہا دون مالا یماسہ ․․․ ویکرہ لہا أن تلبس البرقع لأن ذلک یماس وجہہا“۔ (کتاب المبسوط للسرخسی ۴/۱۴۱ ط: دار الکتب العلمیہ)
کتاب المناسک لملا علی قاری میں ہے:
”(وتغطی رأسہا) أی لاوجہہا الا أنہا إن غطة وجہہا بشئ متجاف جاز‘ وفی النہایة: ان سدل الشئ علی وجہہا واجب علیہا ودلت المسئلة علی ان المرأة منہیة عن اظہار وجہہا للأجانب بلاضرورة‘ وکذا فی المحیط: وفی الفتح قالوا: ”والمستحب أن تسدل علی وجہہا شیئا وتجافییہ۔“ (کتاب المناسک ملا علی قاری ص:۵۰)
الفقہ الحنفی وأدلتہ میں ہے:
”وفی روایة لہ ”ولا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازین وقولہ ا : لایلبس خبر بمعنی النہی ․․․ وعند وجود الاجانب فالارخاء واجب علیہا‘ وعند عدمہ یجب علی الاجانب غض البصر‘ فقول الحنفیة اعمال الحدیث من جہة وصرف الفتنة من جہة أخریٰ“ (الفقہ الحنفی وادلتہ ۱/۴۱۸ ط:دار الکلم الطیب)
نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ حکم صرف احناف کے ہاں ہی نہیں ‘ بلکہ چارروں ائمہ کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ بدایة المجتہد لابن رشد مالکی میں ہے:
”واجمعوا علی ان احرام المراة فی وجہہا وان لہا ان تغطی راسہا‘ وتستر شعرہا وان لہا ان تسدل ثوبہا علی وجہہا من فوق راسہا سدلاً خفیفا تستتر بہ عن نظر الرجال الیہا کنحو ما روی عن عائشة  ․․․ الخ‘(بدایة المجتہد ۳/۲۷۸ ط: دار الکتب العلمیة)
الفقہ المالکی المیسر میں ہے:
”واباح المالکیة لہا ستروجہہا عند الفتنة بلاغرز للساتر بابرة ونحوہا وبلاربط لہ براسہا‘ بل المطلوب سدلہ علی راسہا ووجہہا او تجعلہ کاللثام وتلقی طرفیہ علی راسہا بلاغرز ولاربط“۔ (الفقہ المالکی المیسر للزحیلی ۱/۲۹۵ ط:دار الکلم الطیب)
فقہ شافعی کی کتاب ”الحاوی الکبیر“ میں ہے:
”ان حرم المرأة فی وجہہا فلاتغطیہ کما کان حرم الرجل فی رأسہ فلایغطیہ‘ لروایة موسیٰ ابن عقبة عن نافع عن ابن عمر: ان رسول اللہ ا نہیٰ ان تنتقب المرأة وہی محرمة وتلبس القفازین“۔ (الحاوی الکبیر للماوردی ۴/۳ ط: دار الکتب العلمیة)
الفقہ الحنبلی المیسر للزحیلی میں ہے:
”ومن المحظورات فی الاحرام: تعمد تعطیة الوجہ من الأنثیٰ ‘ لکن تسدل علی وجہہا لحاجة لقولہ ا : لاتنتقب المرأة المحرمة ولاتلبس القفازین قال الشرح: فیحرم تغطیة لانعلم فیہ خلافا․․․ولایضر لمس السدل وجہہا خلافاً للقاضی ابی یعلی‘ قال فی الاقناع: ان غطتہ لغیر حاجة فدت‘ وعلی ہذا احرام المرأة فی وجہہا فتحرم تغطیتہ بحو برقع ونقاب وتسدل لحاجة کمرور رجال بہا․․․ الخ“۔ (الفقہ الحنبلی المیسر ۲/۷۵-۷۶ ط:دار القلم دمشق)
فقہاء کرام کے مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے چہرے پر نقاب ڈالنا بغیر کسی حائل کے ممنوع ہے‘ بلکہ اسے چاہئے کہ اجانب کی غیر موجودگی میں چہرے کو کھلا رکھے اور ان کی موجودگی میں چہرے کپڑے سے کسی حائل اور فاصلہ رکھنے والی چیز یا نقاب (جیسے ہیٹ والے مروجہ نقاب یا اس جیسی کوئی اور چیز) سے ڈھانپ لے‘ تاکہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو۔ ہاں اگر کپڑا ہوا کی وجہ سے بار بار چہرے پر پڑجائے (جیساکہ سائلہ نے لکھا ہے) تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی دم وغیرہ لازم آئے گا۔ چنانچہ الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”واحرام المرأة فی وجہہا ․․․ واجاز الشافعیة والحنفیة ذلک بوجود حاجز عن الوجہ فقالوا: للمرأة ان تسدل علی وجہہا ثوبا متجافیا عنہ بخشبة ونحوہا‘ سواء فعلتہ لحاجة من حر او برد او خوف فتنة ونحوہا او لغیر حاجة فان وقعت الخشبة فاصاب الثوب وجہہا بغیر اختیارہا ورفعتہ فی الحال‘ فلافدیة“۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ ۳/۲۳۴ ط: دار الفکر)
اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ صورت (ہیٹ والے نقاب یا اس جیسا کوئی اور طریقہ پردہ کے لئے اختیار کرنا) عورتوں کے لئے آسانی اور سہولت کی صورت ہے۔ اس کو عذر بناکر یا عموم بلویٰ میں شامل کرکے مکمل نقاب کرنے کی توجیہ تلاش کرنا یا عورتوں کے لئے پریشانی یا مصیبت قرار دینا بعید از عقل ہے۔ نیز سائلہ کا یہ کہنا کہ عموم بلویٰ کا اعتبار کیا جائے تو یہ درست نہیں ہے‘ اس لئے کہ نصوصِ صریحہ کی موجودگی میں عموم بلویٰ کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ اس کی وجہ سے واجب کو ترک کیا جاسکتا ہے۔ نیز مردوں کی نظر پڑنا یا ہوا سے بار بار نقاب کا اڑنا اور چہرے پر لگنا‘ اس کو عذر نہیں کہا جاسکتا‘ چنانچہ غنیة الناسک میں ہے:
”واما ترک الواجبات بعذر ثم مرادہم بالعذر ما یکون من اللہ تعالیٰ فلو کان من العباد فلیس بعذر“۔ (غنیة الناسک فی بغیة المناسک ص: ۲۳۹‘ ط: ادارة القرآن)
عموم البلویٰ للدوسری میں ہے:
”فقد قال السرخسی: وانما تعتبر البلویٰ فیما لیس فیہ نص بخلافہ فاما مع وجود النص لامعتبر بہ وقال ابن نجیم: المشقة والحرج انما تعتبران فی موضع لا نص فیہ واما مع النص بخلافہ فلا“۔
(عموم البلویٰ للدوسری ص:۲۴۱ ط: مکتبة الرشد ریاض ۔ والاشباہ لابن نجیم ص:۸۵)
نیز یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ حج کے یہ ایام اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تکالیف اور مشقتوں کے ساتھ آزماتے ہیں اور اس کے بقدر اجر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لہذا حج جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی میں اس قدر پریشانی اور تکلیف کا آنا کوئی انوکھی یا ناقابل برداشت بات نہیں ہے۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد شفیق عارف ابوبکر سعید الرحمن
کتبہ
محمد حذیفہ رحمانی
متخصص فی الفقہ الاسلامی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی (۵)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: کیا اسلام مکمل ضابطہ ٴ حیات نہیں؟
Flag Counter