Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

9 - 12
علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث
علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث (۲)


ہندوستان کے مشہور علمی ادارے ”مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الاسلامیة“ اعظم گڑھ یوپی میں صفر ۱۴۲۸ھ مطابق مارچ ۲۰۰۷ ء کو دو روزہ بین الاقوامی علمی سیمینار بعنوان ” ہندوستان اور علم حدیث تیرہویں اور چودہویں صدی میں“ منعقد ہوا ،جس میں جامعہ دارالعلوم فلاح دارین گجرات کے رئیس مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے بعنوان خاص” دور حاضر کے حافظ ابن حجر عسقلانی وانور شاہ کشمیری ثانی ، علم حدیث کے رمز شناس ، محدث جلیل علامہ محمد یوسف بنوری  اور خدمات حدیث “پراپنا قیمتی مقالہ پیش کیا ، قارئین بینات کے لیے برصغیر میں حضرت بنوری کی خدمات حدیث کے حوالے سے یہ معلوماتی مقالہ قسط وار پیش خدمت ہے ۔
ڈابھیل میں قیام اور خدمتِ حدیث
حضرت بنوری کے عزیز رفیق اور علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید مولانا محمد میاں سملکی ثم افریقی(۱) نے اپنے استاذ کے علمی کاموں کی اشاعت کی نسبت سے سملک،ڈابھیل میں مجلس علمی قائمی کی تو نگاہ انتخاب علامہ بنوری پر پڑی اور مجلس علمی کی طرف سے وہاں قیام اور خدمت کی پیش کش ہوئی‘ چنانچہ آپ نے اس کو قبول فرمایا‘ مجلس علمی میں جو کام سپرد ہوا وہ خاصا دشوار اور کٹھن تھا یعنی العرف الشذی کے حوالوں کی تخریج اور انہیں مکمل طور پر نقل کرنا‘ حضرت مولانا بنوری فرماتے تھے کہ: حضرت شاہ صاحب کے ایک ایک حوالہ کے لئے بسا اوقات مجھے سینکڑوں صفحات کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا اوراس کی دو مثالیں پیش فرماتے تھے:
۱-حضرت شاہ صاحب نے کسی موقع پر متعارض روایات کی تطبیق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ اس قبیل سے ہے کہ ”ہر راوی نے وہ بات ذکر کردی جو دوسرے نے ذکر نہیں کی“ اس کے بعد فرمایا کہ یہ بڑا اہم قاعدہ ہے، مگر افسوس کہ مصطلح الحدیث کے مدوّنین نے اس کو ذکر نہیں کیا، البتہ حافظ نے فتح الباری میں کئی جگہ اس قاعدہ سے تعرض کیا ہے۔ مولانا بنوری فرماتے تھے کہ: میں نے ان مقامات کی تلاش کے لئے پوری فتح الباری کا مطالعہ کیا، تب معلوم ہوا کہ حافظ نے پوری کتاب میں دس سے زیادہ جگہوں پر اس قاعدہ سے تعرض کیا ہے۔
۲- حضرت شاہ صاحب نے اختلاف صحابہ پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ:
”ابو زید دبوسی نے بالکل صحیح فرمایا کہ جب کسی مسئلہ میں صحابہٴ کرام کا اختلاف ہو تو وہاں منشائے اختلاف کا معلوم کرنا اور اس نزاع کا فیصلہ چکانا بڑا دشوار ہے“۔
مولانا فرماتے تھے کہ اس حوالہ کی تلاش کے لئے میں نے دبوسی کی کتاب ”تاسیس النظر“ پوری پڑھی مگر یہ حوالہ وہاں نہیں ملا‘ خیال آیا کہ یہ حوالہ دبوسی کی دوسری دوکتابوں ”اسرار الخلاف“ یا ”تقویم الادلة“ میں ہوگا، مگر وہ دونوں غیر مطبوعہ تھیں اور میرے پاس موجود نہیں تھیں ،پھر خیال آیا کہ یہ حوالہ بالواسطہ ہوگا یا تو شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب ”کشف الاسرار“ کے حوالہ سے ہوگا یا ابن امیر الحاج کی ”شرح التحریر“ کے واسطہ سے‘ چنانچہ ان دونوں کتابوں کا بہت سا حصہ مطالعہ کرنے کے بعد دونوں میں یہ حوالہ مل گیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت مولانا کو اس تخریج میں کتابوں کی کس قدر ورق گردانی کرنا پڑی اور اس کے لئے اپنی کتنی صلاحیتیں وقف کرنا پڑیں ،اس طرح ”العرف الشذی“ کی تحقیق وتخریج میں معارف السنن کا مصالحہ تیار ہوگیا اور اس تخریج کو آپ نے جدید طرز پر مدون کرکے ”معارف السنن“ تالیف فرمائی۔
ڈابھیل میں شیخ الحدیث کے منصب پر
مولانا بنوری جب سفر مصر سے واپس آئے تو گجرات کے مشہور مدرسہ جامعہ ڈابھیل میں صدارت تدریس کے لئے آپ کا انتخاب ہوا ،اور اس طرح آپ علامہ شبیر احمد عثمانی اور حضرت شاہ صاحب کی مسند درس حدیث کے وارث ہوئے‘ مولانا نے بخاری شریف اور بعض دیگر صحاح کی کتابوں کا درس شروع فرمایا۔ راقم الحروف جامعہ کے درجہٴ عربی پنجم کا طالب علم تھا‘ اس سال کے دورہ کے طلبہ نے سنایا کہ حضرت بنوری جب جامعہ کے دارالحدیث میں مسند درس پر تشریف لائے تو اپنے استاذ کی یاد تازہ ہوگئی اور سبق شروع کرنے سے پہلے زار وقطار رونے لگے‘ فرماتے تھے کہ: یہ بھی اشراط الساعة میں ہے کہ علامہ محمد انور شاہ کشمیری ایسے علم کے سمندر کی مسند پر آج مجھ جیسا ادنیٰ طالب علم بیٹھا ہے اور جس جگہ پر بیٹھ کر حضرت شاہ صاحب درس دیتے تھے اس سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ کر درس شروع کرایا، یہ ان کے بلند اخلاق اور اپنے اساتذہ کی عظمت وتوقیر کی نشانی تھی۔ حضرت بنوری کے درس کی شہرت دور دور پھیل چکی تھی‘ اطراف کے مدارس کے بعض اساتذہٴ حدیث بھی ڈابھیل تشریف لاکر اپنے اشکالات حل کراتے تھے‘اس طرح حضرت بنوری کا وجود مسعود پورے علاقے کے علماء وفضلاء کے لئے باعث خیر وبرکت تھا۔ حضرت بنوری نے بعض ذی استعداد جوان علماء کی علمی رہنمائی کرکے انہیں بہترین اساتذہ کی فہرست میں کھڑا کردیا۔
پاکستان کا سفر اور دار العلوم ٹنڈواللہ یار میں علم حدیث کی خدمت
پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں کچھ حالات ابتر رہے اور مدارس میں طلبہ کی تعداد بھی کم رہ گئی، اس لئے کہ پنجاب ‘ سندھ‘ سرحد سے طلباء‘ دوسری طرف مشرقی بنگال کے طلباء کی آمد بند ہوگئی‘ ادھر پاکستان میں علامہ عثمانی‘ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب‘ مولانا احتشام الحق تھانوی اوردیگر علماء کرام پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کے طرز کی درسگاہیں قائم کرنے کے منصوبے بنارہے تھے‘ چنانچہ ان ہی اکابرین کی نظر انتخاب حضرت بنوری پر بھی پڑی اور حضرت کو وہاں بلالیا گیا۔
ٹنڈواللہ یار میں شیخ التفسیر کے منصب پر
حضرت بنوری ٹنڈواللہ یار میں شیخ التفسیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، نیز حدیث پاک کے اسباق بھی جاری رہے ،مگر قدرت کو حضرت بنوری سے اور کام لینا تھا، اس لئے دارالعلوم ٹنڈواللہ یارخان میں کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ علامہ مستعفی ہوکر کراچی تشریف لائے۔
کراچی میں جامعة العلوم الاسلامیة کی تاسیس
کراچی تشریف لاکر سخت بے سروسامانی کی حالت میں توکلاََ علی اللہ ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی‘ حضرت بنوری اس سلسلہ میں کن کن مراحل سے گذرے، اس کی تفصیل آپ کی مفصل سوانح میں موجود ہے‘ اس مختصر مقالہ میں اس کا ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔
تخصص فی الحدیث
اس جامعہ کا جو نصاب مقرر ہوا، اس میں حدیث شریف اور علوم حدیث کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور ابتداء ہی سے اپنے جامعہ میں تخصص فی الحدیث کا شعبہ قائم فرماکر اس فن شریف کی اہم خدمت انجام دی‘ جامعة العلوم الاسلامیة کے جن فضلاء کو مختلف عنوانات پر کام سپرد ہوا، اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
نمبر نام مختصص عنوان مقالہ
۱- مولوی محمد اسحاق سلہٹی کتابت الحدیث وادوار تدوینہ
۲- مولوی عبد الحکیم سلہٹی وسائل حفظ الحدیث وجہود الامة فیہ
۳- مولوی محمد زمان ڈیروی الکتب المدونة فی الحدیث واصنافہا وخصائصہا
۴- مولوی عبد الحق دیروی مصطلح الحدیث واسماء الرجال والجرح
۵- مولوی حبیب اللہ سرحدی الصحابة وما رووہ من الاحادیث
۶- مولوی حبیب اللہ مختار دہلوی السنة النبویة والقرآن الکریم
۷- مولوی عبد الرووف ڈھاکوی السنة النبویة والامام الاعظم ابوحنیفة
۸- مولوی محمد انور شاہ بنوری المسائل الستة من مصطلح الحدیث
۹- مولوی مفیض الدین ڈھاکوی حاجة الامة الی الفقہ والاجتہاد
۱۰- مولوی مہر محمد سیانوالوی الکوفة وعلم الحدیث
۱۱- مولوی عبد الغفور سیالکوٹی الامام الطحاوی ومیزتہ فی الحدیث بین محدثی وعصرہ
۱۲- مولوی عبد القادر کھلنوی الامام الطحاوی ومیزتہ فی الحدیث بین محدثی عصرہ (اردو)
۱۳- مولوی عبد الحق بریسالی عبد اللہ بن مسعود من بین فقہاء الصحابة وامتیازہ فی الفقہ
۱۴- مولوی محمد امین اورکزئی مسانید الامام الاعظم ابی حنیفة ومرویاتہ من المرفوعات والآثار
۱۵- مولوی اظہار الحق چاٹگامی مشائخ ابی حنیفة واصحابہ
۱۶- مولوی محمود الحسن میمن شاہی الامام ابویوسف محدقا وفقہیا
(خصوصی نمبر ص:۲۶۰)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت بنوری علم حدیث میں کیسے رجال کار تیار کرنے میں مصروف تھے۔
محدث العصر علامہ بنوری نے علم حدیث میں حسب ذیل کام چھوڑا ہے:
۱- معارف السنن
۲- عوارف المنن مقدمہ معارف السنن
۳- مقدمہ فیض الباری
۴- مقدمہ نصب الرایة
۵- مقدمہ اوجز المسالک
۶- مقدمة لامع الدراری
۷- جامع الترمذی کی تقریر العرف الشذی کی تصحیح فرمائی جس کا نسخہ محفوظ ہے۔
ان کے علاوہ اپنے دو ہونہار اور فاضل شاگردوں سے امام طحاوی کی مشکل الآثار اور امام ترمذی کی سنن میں وفی الباب پر ”لب اللباب“ کے نام سے عظیم الشان کام کروایا۔
شرح معانی الآثار کی اہمیت شیخ بنوری کی نظر میں
مولانا محمد یوسف لدھیانوی رقم طراز ہیں:
”حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ امام طحاوی کی عبقریت اور فقہ وحدیث میں ان کی مہارت وحذاقت کے بڑے مداح تھے‘ فرماتے تھے کہ: ان کے معاصرین میں بھی کوئی ان کا ہمسر نہیں تھا اور بعد کے محدثین میں بھی کسی کو ان کے مقام رفیع تک رسائی نصیب نہیں ہوئی‘ حضرت نے تخصص فی الحدیث کے بعض شرکاء کو مقالہ نویسی کے لئے یہ موضوع دیا تھا ”الامام الطحاوی ومیزاتہ بین معاصریہ“ یعنی امثال ونظائر سے یہ ثابت کیا جائے کہ امام طحاوی کو ابن جریر‘ ابن خزیمہ‘ محمد بن نصر وغیرہ معاصرین پر کن کن امور میں فوقیت حاصل ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ دار قطنی‘ بیہقی اور خطیب تینوں مل کر حدیث میں طحاوی کے ہم سنگ ہوتے ہیں مگر تفقہ اور عقلیت میں طحاوی کا پلہ پھر بھی بھاری رہتا ہے۔ امام طحاوی کی تالیفات میں شرح معانی الآثار امت کے سامنے موجود ہے جو فقہ وحدیث کا مجمع البحرین ہے مگر افسوس ہے کہ اب تک دیگر کتب حدیث کی طرح اس کی خدمت نہیں ہوسکی‘ اور اگر ہوئی ہو تو امت کے سامنے نہیں‘ حافظ بدر الدین عینی نے مدة العمر اس کا درس دیا اور اس کی تین شرحیں لکھیں ،لیکن حیرت ہے ان میں سے کوئی بھی حلیہٴ طباعت سے آراستہ نہیں ہوئی۔ (الحمد للہ اب دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث‘ صاحبزادہٴ محترم حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہ‘ حضرت مولانا محمد ارشد مدنی مدظلہ نے علامہ عینی کی شرح کی طباعت کا سلسلہ شروع فرمایاہے‘ اللہ تعالیٰ اس عظیم خدمت پر ان کو اجر عظیم عطا فرماوے اور جلد از جلد مکمل کتاب طبع ہوکر علمی حلقوں میں پہنچ جائے‘ آمین)
اور بھی کئی نامور اہل علم نے اس پر کام کیا ہے، مگر کسی کی محنت منظرِ عام پر نہیں آئی‘ حضرت محسوس فرماتے تھے کہ اس پر مندرجہ ذیل پہلو پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
# ․․․(الف): رجال سند کی تحقیق جس کی روشنی میں حدیث کا مرتبہ متعین ہوسکے۔
#․․․(ب): متون کی تخریج جس سے ایک طرف تو امام طحاوی کی ہر روایت کے متابعات وشواہد سامنے آجائیں اور طحاوی کی احادیث کے قبول کرنے میں بعض لوگوں کو جو کھٹکا ہوتا ہے وہ دور ہوجائے‘ اسی کے ساتھ دیگر کتبِ حدیث میں اس حدیث کی نشان دہی کرنے سے ان کتابوں کی شروح کی طرف مراجعت آسان ہوجائے‘ دوسرے حدیث کے متعدد طرق میں وارد شدہ الفاظ بیک نظر سامنے آنے سے حدیث کی مراد بھی واضح ہوجائے۔
#․․․(ج): امام طحاوی ائمہٴ احناف کے مسلک کی تصریح کرجاتے ہیں اور دیگر مجتہدین کے مذاہب کی طرف اجمالاً اشارہ کرجاتے ہیں، مگر ہر مذہب کے قائلین کی تصریح نہیں فرماتے‘ ضرورت ہے کہ اس اجمال کو رفع کیا جائے۔
#․․․(د): امام طحاوی نے قریباً ہر مسئلہ میں احادیث وآثار کے علاوہ وجہ النظر کے ذیل میں عقلی دلیل کا التزام فرمایاہے جو خاصی دقیق اور مشکل ہوتی ہے‘ اس کی تہذیب وتنقیح کرکے مقصد کی توضیح کی جائے۔
#․․․(ہ): حضراتِ متقدمین کے کلام میں اکثر طوالت ہوتی ہے جس سے بعض دفعہ مبتدی کو فہم مطالب میں دقت پیش آتی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ طحاوی کے ہر باب کے مقاصد کی تخلیص کی جائے‘ یہ کام متقدمین میں سے حافظ زیلعی کرچکے ہیں ،لیکن ان کی یہ تالیف دستیاب نہیں اور ماضی قریب میں حضرت مولانا حسین علی صاحب نے بھی اس کی تلخیص کی ،مگر بہت زیادہ اختصار کی وجہ سے مفیدِ عام نہ ہوسکی۔
#․․․(و): یہ بھی ضرورت ہے کہ ہرباب کی احادیث وآثار کی فہرست مرتب کردی جائے کہ اتنی مرفوع ہیں‘ اتنی مراسیل ‘ اتنی موقوف اور اتنی مکرر۔
#․․․(ز) اور سب سے اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ شرح معانی الآثار کے متن کی تصحیح کی جائے کیونکہ اس میں بکثرت اغلاط ہیں‘ بعض اغلاط تو ایسی ہیں کہ جن سے عبارت ناقابل فہم بن گئی ہے یا مفہوم بالکل مسخ ہوچکا ہے اور تعجب ہے کہ حافظ جمال الدین زیلعی اور ان جیسے دوسرے اکابر بھی بعض جگہ ان غلطیوں سمیت نقل کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے جو نسخہ تھا اس میں بھی یہ اغلاط موجود تھیں۔
حضرت چاہتے تھے کہ مندرجہٴ بالا امور کو پیش نظر رکھ کر طحاوی شریف پر کام کیا جائے‘ چنانچہ آپ نے اپنے تلمیذ سعید مولانا محمد امین صاحب زید مجدہ کو اس کام پر مامور فرمایا۔ مولانا نے حضرت کی رہنمائی میں جو کام کیا اس کا انداز یہ ہے:
اولاً: ہر باب کی تلخیص ۔
ثانیاً: اس تلخیص کے ضمن میں مذاہب ائمہ کا بیان۔
ثالثاً: ائمہ اربعہ کے مذاہب ان کی کتب فقہ سے بقید حوالہ نقل کرنا۔
رابعاً: زیر بحث باب کے آثار کی تعداد اور تفصیل۔
خامساً: نمبر وار باب کی ہر حدیث کی تخریج۔
سادساً: اصل کتاب کی حتی المقدور تصحیح۔
سابعاً: حضرت اقدس کی خواہش کے مطابق ہرباب کے آخر میں اس بحث کے متعلق حنفیہ کی مؤید احادیث وآثار کا اضافہ جو شرح معانی الآثار میں نہیں ہے۔
مولانا محمد امین صاحب نے بڑی محنت وجانفشانی سے کام کیا اور اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل کتب کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا۔
۱- تاریخ بغداد‘ خطیب بغدادی‘ ۱۴/مجلدات ۲- حلیة الاولیاء‘ ابونعیم اصفہانی‘ ۱۰/مجلدات
۳- طبقات ابن سعد‘ ۸/مجلدات ۴- تاریخ کبیر‘ امام بخاری‘ ۸/مجلدات
۵- الکنی‘ ابی بشر دولابی‘ ۲/جلدیں ۶- معجم صغیر‘ طبرانی‘ ایک جلد
۷- تاریخ جرجان‘ ۱/جلد
پھر ان سات کتابوں کی تمام احادیث وآثار کو کتب حدیث وفقہ کی ترتیب پر مرتب کیا‘ مولانا موصوف نے تو صرف اپنی تخریج کے لئے یہ کام کیا تھا مگر یہ بجائے خود ایک ایسا علمی کارنامہ ہے جس پر علمی دنیا کو ممنون ہونا چاہئے۔“ (خصوصی نمبر ص:۲۶۷)
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے 
Flag Counter