Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

7 - 12
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اورعلمائے دیوبند کا کردار
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اورعلمائے دیوبند کا کردار (۲)

شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے روبرو
بہادر شاہ ظفر فریضہ صبح سے فراغت کے بعد ذکر الٰہی میں مصروف تھے کہ یکایک ہنگامے کی آواز سنائی دی‘ آنکھ جھپکنے میں یہ لوگ قلعہ کی ڈیوڑھی میں با ادب آن کھڑے ہوئے‘ شہر میں کہرام تھا‘ لوگ دیکھا دیکھی بازاروں میں نکل آئے‘ شہنشاہ نے حکیم احسن اللہ کو فرمایا: ان لوگوں سے پوچھو: تم کون لوگ ہو؟ کیا چاہتے ہو؟ گزارشات پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے کہا: آج تک ہندوستان میں جو منادی پھرتی ہے تو یہی بیان کیا جاتاہے : ”خلقت خدا کی‘ ملک بادشاہ کا‘ حکم کمپنی کا“۔ انگریز لوگ آپ کی طرف سے مالک ومختار ہیں‘ ہم لوگوں نے اپنی جانیں کٹواکر کلکتہ سے لے کر کابل تک فتح کرکے چودہ سو کوس میں عملداری انگریز کی قائم کرادی اور ہم لوگوں کی استعانت وامداد سے انگریز کا تمام ہندوستان پر تسلط ہوگیا‘ اب سرکار کی نیت میں فتور واقع ہوا اور ہمارے دین ومذہب کے درپے تخریب ہوئے اور چاہا کہ تمام ہندوستان کو عیسائی کرلیں۔چار مہینے سے تنازع در پیش ہے‘ چنانچہ مفسدہ کا ظہور اب آکر ہوا‘ بادشاہ سلامت ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں اور ہمارا انصاف فرمادیں۔
بادشاہ کا جواب
سنو بھائی! مجھے بادشاہ کون کہتا ہے‘ میں تو فقیر ہوں‘ ایک تکیہ بنائے ہوئے اپنی اولاد کو لئے بیٹھا ہوں‘ بادشاہت تو بادشاہوں کے ہمرا گئی‘ سلطنت تو سو برس پہلے میرے گھر سے جاچکی تھی‘ میرے جد وآباکے نوکر چاکر اپنے خاندان نعمت کی اطاعت سے جداگانہ رئیس بن بیٹھے‘ میرے باپ دادا کے قبضہ سے ملک نکل گیا ۔خصوصاً میرے جد بزرگوار حضرت شاہ عالم بادشاہ غازی کو جب غلام قادر روہیلہ قادر نمک حرام نے قید کرکے نابینا کیا ہے تو پہلے تو مرہٹوں کو طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے اس نمک حرام کو کیفر کردار کو پہنچایا‘ حضرت بادشاہ کو قید سے چھڑایا‘ چند سال مرہٹے بادشاہ کی جانب سے خود مختار رہے‘ مگر بادشاہ کے صرف مطبخ کا بندو بست بھی نہ کرسکے‘ لاچار ہوکر میرے دادانے منجانب سلطنت برطانیہ رجوع کی اور انگریز کو بلواکر اپنے گھر کا مختار فرمایا اور ملک ہندوستان ان کو تفویض کیا اور ان لوگوں نے حسبِ دل خواہ اخراجات شاہی کا بندوبست کردیا۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۰۵‘ جانباز مرزا) بہادر شاہ ظفر کو اس کے انکار اور سیاسی معذوری کے باوجود بادشاہ تسلیم کر لیا اور کمپنی کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کردیا۔ بادشاہ سلامت نے جنرل بخت خان کو لارڈ گورنر کا خطاب دیکر افواج مجاہدین کا کمانڈر انچیف بنادیا‘ نیز اسے شہری نظام کا حاکم اعلیٰ نامزد کردیا‘ بہادر شاہ ظفر کو بادشاہ تسلیم کرنے کے بعد جنگ آزادی دہلی‘ آگرہ‘ کانپور‘ مراد آباد‘ شاہ جہان پور‘ سہارنپور‘ شاملی تھانہ بھون‘ مظفر نگر ‘ میرٹھ‘ جھانس‘ آلٰہ آباد‘ رام پور‘ لکھنؤ اور روھیل کھنڈ وغیرہ میں پھیل گئی‘ جس میں بلا امتیاز مذہب وملت (یعنی ہندو اور مسلمان) اہل وطن نے حصہ لیا‘ علمائے کرام اور خصوصاً مسلک ولی اللہ سے وابستہ حضرات نے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیا ۔ امام عبد العزیزمحدث دہلوی کی تحریک انقلاب جنگ آزادی سے بہت پہلے سرحد اور اس کے قرب وجوار میں شروع تھی (یعنی تحریک سید احمد شہید) اس تحریک کے آخری امام مہاجر مکی حاجی امداد اللہ تھے‘ ان حضرات میں جو لوگ دہلی میں تھے جامع مسجد دہلی میں جمع ہوئے اور ایک فتویٰ جہاد صادر کردیا‘ معدودے (قلیل) چند علماء نے اس فتویٰ کی مخالفت کی‘ اس فتویٰ کے صادر ہونے کے بعد ملک میں سبز پرچم لہرانے کا بھی اعلان کردیا گیا۔
محاذ شاملی
دہلی میں فتویٰ جہاد جاری ہونے کے بعد ہندوستان کے مختلف مقامات پر جنگی مراکز قائم ہوگئے‘ ان میں سے ایک اہم مرکز شاملی تھانہ بھون کا بھی تھا‘ یہ مرکز حاجی امداد اللہ اور ان کے رفقاء کار نے قائم کیا تھا‘ حاجی صاحب امام عبد العزیز کی اصلاحی اور انقلابی پارٹی کے آخری امام تھے‘ حاجی صاحب چوں کہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ تھے‘ اس لئے اس جماعت کے اکابرین ومعتقدین (جو زیادہ تر علماء تھے) آپ کے حلقہٴ ارادت میں جہاد کے لئے جمع ہوگئے‘ حاجی صاحب نے جنگ کی اطلاع پاکر ایک اجلاس طلب کیا‘ اس اجلاس میں مولانا محمد قاسم نانوتوی (جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے بانی بنے) مولانا رشید احمد گنگوہی‘ مولانا فیض الحسن سہارن پوری‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ مولانا محمد منیر  اور مولانا محمد یعقوب نے شرکت کی‘ اس کے بعد مولانا کیرانوی کو دہلی بھیجا گیا‘ مولانا کیرانوی نے دہلی سے واپس آکر حاجی صاحب کو تفصیلی حالات سے آگاہ کیا۔ لہذا حاجی صاحب نے اپنی جماعت کی عسکری (فوجی) تنظیم کی اور خود امیر جماعت مقرر ہوئے اور دیگر علماء کو مختلف شعبوں کا نگران بنایاگیا‘ شروع شروع میں مجاہدین کو بڑی کامیابی ہوئی‘ حتی کہ ایک موقع پر برطانوی سپاہی کا توپ خانہ بھی مجاہدین نے اپنے قبضہ میں کرلیا‘ نیز برطانوی فوج کو شکست دے کر تھانہ بھون اور قرب وجوار کے علاقے میں اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا‘ اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن ‘ حاجی صاحب کے معتمد شہید ہوگئے۔
یا تخت جگہ آزادی کی ‘ یا تختہ مقام آزادی کا
ان کے سامنے خاتم الانبیاء اکا ارشاد تھا کہ ”حب الوطن من الایمان“ وطن کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔ البتہ اس جذبہ کے اظہار کے لئے موقع کی تلاش تھی :
ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
ہمارے تمام اکابر (علماء دیوبند وسہارنپور ومظفرنگر) حضرت شاہ عبد العزیز صاحب اور ان کے تلامیذ کے شاگرد اور خوشہ چین رہے ہیں‘ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ حضرت شاہ صاحب اور ان کے مسلک اور حکم کے خلاف چلیں‘ چنانچہ جب سید احمد شہید کی تحریک جہاد شروع ہوئی تو حضرت حاجی عبد الرحیم صاحب شہید ولایتی (دادا پیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی) اور شاہ نصر الدین صاحب دہلوی سابق پیر ومرشد حاجی امداد اللہ صاحب اور بہت سے حضرات شریک ِ تحریک ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ سرحد میں جاکر شہید ہوئے‘ حضرت سید صاحب رحمہ اللہ اور ان کے اعلیٰ جذبات حریت وجہاد اور ان کی تعلیمات روحانیہ سے ان حضرات کو انتہائی شغف اور حسن اعتقاد رہتا تھا‘ اس تمام جماعت میں حضرت حافظ ضامن صاحب قدس اللہ سرہ العزیز زیادہ پیش پیش تھے (حضرت حافظ صاحب قطب العالم میاں جی نور محمد جھنجھانوی  کے اولین اور اعلیٰ ترین خلفاء میں سے تھے‘ نسبت روحانیہ نہایت قوی اور بے مثل پائی تھی‘ میاں جی نور محمد صاحب مرحوم کی وفات کے وقت تک حاجی امداد اللہ صاحب کی تکمیل سلوک وتصوف پوری نہیں ہوئی تھی تو میاں جی صاحب نے حاجی صاحب کو تکمیل کے لئے حافظ ضامن صاحب کے سپرد کیا تھا) شاملی اس زمانہ میں مرکزی مقام تھا‘ ضلع سہارنپور سے متعلق تھا‘ وہاں تحصیل بھی تھی‘ کچھ فوجی طاقت بھی وہاں رہتی تھی‘ قرار پایا کہ اس پر حملہ کیا جائے‘ چنانچہ چڑھائی ہوئی اور قبضہ کرلیا گیا‘ جو طاقت پولیس اور فوج کی وہاں رہتی تھی وہ مغلوب ہوگئی‘ حضرت حافظ ضامن صاحب اسی ہنگامے میں شہید ہوگئے‘ حافظ ضامن صاحب کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا‘ ان کی شہادت سے پہلے روزانہ خبر آتی تھی کہ آج فلاں مقام انگریزوں سے چھین لیا گیا‘ آج فلاں مقام پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہوگیا‘ مگر حافظ ضامن صاحب مرحوم کی شہادت کے بعد پہلی خبر آئی کہ دہلی پر انگریز کا قبضہ ہوگیا اور یہی حال ہرجگہ کی خبروں کا تھا۔ اس سے پہلے گورے فوجی چھپتے پھرتے تھے مگر بعد میں معاملہ بالکل برعکس ہوگیا۔ دہلی کے سقوط کی خبر سے لوگوں کی ہمتیں بالکل پست ہوگئیں اور سب اپنے اپنے وطن کو واپس آگئے۔ تقدیر تدبیر پر غالب آگئی‘ ہندوستانیوں کو اپنے سابقہ اعمال کی سزا ملنی تھی۔گذشتہ مصائب ‘پاداش کے لئے احکم الحاکمین کے دربار عدالت میں کافی نہ تھے‘ اس لئے باوجود اس قدر جاں بازیوں کے برٹش شہنشا ہیت کو ہندوستان پر اس طرح مسلط کردیا گیا جس طرح کوڑے لگانے والے بھنگی جلاد کو مجرم پر مسلط کردیا جاتاہے۔ تحریک انقلاب ۱۸۵۷ء دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس انقلاب میں حصہ لینے والے ہندو اور مسلمان دونوں ہی تھے‘ فوجیوں میں بھی اور امراء میں بھی‘ عوام میں بھی اور خواص میں بھی۔ علماء میں مولانا احمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ ‘ مولانا فضل حق خیر آبادی‘ مفتی صدر الدین صاحب صد الصدور دہلی‘ مولوی عبد القادر صاحب ‘ قاضی فیض اللہ صاحب دہلوی‘ مولانا فیض احمد صاحب بدایونی‘ ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبر آبادی۔ الحاصل ان علماء نے آخر وقت تک اپنے فتویٰ کے مطابق عمل کیا‘ جنرل بخت خان اور اس کی فوج اور مجاہدین نے پوری داد شجاعت دی‘ مگر آپس کے غداروں نے (جن کے سرغنہ مرزا الٰہی بخش اور مرزا مغل شہزادہ تھے) ہرقسم کی ابتری پھیلادی اور نتیجہ وہی ہوا جو ایسی باتوں کا ہوتا ہے۔ ۱۹/ستمبر ۱۸۵۷ء کو پوری دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا اور انتہائی سفاکی سے دہلی میں قتل عام جاری کردیا گیا۔(ماخوذ نقش حیات مصنف حضرت مدنی)
ایسا کیوں ہوا
جانباز مرزا اپنی تصنیف انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۲۸ پر تحریر کرتے ہیں کہ:
۱:- شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان کو اس کی جرات اور بہادری کے اعزاز میں افواج ہند کا سپہ سلار مقرر کردیا۔ جنرل بخت خان نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا کہ: اگر شہزادے بھی کوئی غیر آئین حرکت کرتے پائے جائیں تو انہیں بھی سزا دی جائے گی۔ جنرل بخت خان سے پہلے یہ عہدہ مرزا مغل کے پاس تھا‘ مرزا مغل کو اپنا عہدہ چھن جانے کا رنج تھا۔
۲:- بہادر شاہ ظفر اپنے تمام شہزادوں میں سے شہزادہ خضر سلطان کو پسند کرتا تھا اور یہ ذہین بھی تھا‘ عام گمان تھا کہ شاہ کے بعد امور سلطنت اس کے سپرد ہوں گے ۔
۳:- ملکہ زینت محل جو بادشاہ کی محبوب ملکہ تھی‘ وہ مرزا جواں بخت کو ولی عہد سلطنت بنانا چاہتی تھی‘ کیونکہ مرزا جواں بخت اس کے بطن سے تھا اور باہر سے انگریز اس آگ کو مزید روشن کرنے کے لئے ایندھن مہیا کررہا تھا۔ اس اندرونی کھینچا تانی کے باعث تمام شہزادے جنرل بخت خان کے خلاف تھے‘” یوں اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ مرزا الٰہی بخش اور میر رجب علی بادشاہ کے نمک خوار بھی تھے اور انگریز کے تنخواہ دار بھی‘ یہ دونوں شہزادوں اور جنرل بخت خان کے درمیان رقابت کو وسیع کرنے میں انگریزوں کے مشورے پر کام کررہے تھے‘ دہلی پر قبضہ کے بعد جنرل بخت خان نے ۱۹/ ستمبر ۱۸۵۷ء کو بادشاہ سے کہا: آپ میرے ساتھ (اودھ) چلیں‘ میری جانثار فوج موجود ہے‘ ہم وہاں بیٹھ کر جنگ لڑیں گے‘ اس کے جواب میں بہادر شاہ ظفر نے کہا: تم کل مجھے ہمایوں کے مقبرہ میں ملو‘ اس رات غدار‘ الٰہی بخش نے بادشاہ سے مل کر اسے اپنے شیشے میں اتار لیا اور جنرل بخت خان کے ساتھ جانے سے منع کردیا۔ نیز بادشاہ کو یقین دلایا کہ انگریز آپ کو معاف کردیں گے‘ اس یقین دہانی پر بادشاہ نے جنرل بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا‘ جنرل بخت خان نے دہلی چھوڑ کر افواج کے ساتھ اودھ کا راستہ لیا۔ مرزا الٰہی بخش کی تجویز کامیاب رہی‘ اس کامیابی کی اطلاع جب رجب علی کو ہوئی تو اس نے مرزا الٰہی بخش کو لکھا کہ: اب آپ یہ کام کریں کہ باغیوں کے چلے جانے کے بعد بادشاہ کو چوبیس گھنٹے تک ہمایوں کے مقبرہ سے باہر نہ جانے دیں۔ رجب علی (۱۰۰) سو فوجی سواروں کے ساتھ بادشاہ کو لینے پہنچ گیا‘ بادشاہ انگریز کی پالکی میں سوار ہوگیا‘ بادشاہ کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ گرفتار کر لیا گیا ہے اس پر بادشاہ نے پوچھا :مجھے گرفتار کرنے والا ہیڈسن ہے ۔جی۔پھر بادشاہ نے ہیڈسن کو بلاکر کہا: میں آپ سے اپنے بیٹے اور بیوی کے لئے جان بخشی کا وعدہ سننا چاہتا ہوں۔ ہیڈسن: یہ وعدہ پختہ ہے‘ بادشاہ کے ساتھ جو شاہی ارکان گرفتار ہوئے‘ ان کی تعداد بانوے (۹۲) ہے‘ ۲۷/ جنوری ۱۸۵۸ء کو بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا‘ اسی دوران شہزادہ مرزا مغل‘ شہزادہ خضر سلطان‘ مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ہیڈسن انہیں رتھوں (یعنی گاڑی) پر سوار کرکے شہر سے ایک میل دور لے گیا اور وہاں انہیں برہنہ کرکے گولی ماکر شہید کردیا گیا‘ شہادت کے بعد ہیڈسن نے ان کا چلو بھر خون پیا اور کہا: اگر میں انکا خون نہ پیتا تو میرا دماغ خراب ہوجاتا۔ شہزادوں کے قتل کے بعد ان کے سرایک طشت ( تھال) میں رکھ کربادشاہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہیڈسن نے کہا: یہ آپ کی نظر ہے جو بند ہوگئی تھی اور جس کو جاری کرنے کے لئے آپ نے غدر میں حصہ لیا تھا‘ شہنشاہ نے جوان سال بیٹوں اور پوتوں کے کٹے ہوئے سر دیکھے‘ حیرت انگیز استقلال کے ساتھ کہا: الحمد للہ! تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے آیا کرتی ہے‘ اس کے بعد شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے سامنے لٹکادی گئیں اور ان کے سر جیل کے سامنے خونی دروازے میں لٹکا دیئے گئے۔ اس انتقامی کارروائی کے بعد مارچ ۱۸۵۸ء کو سرجان لارنس کے حکم پر بادشاہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مختصر یہ کہ کارروائی کے بعد یک طرفہ فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے لکھا:” فیصلے کے مطابق بادشاہ کو مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی جان بحش دی گئی اور جلاوطنی کی سزا دی گئی اور ساتھ ہی خوراک کے لئے چھ سو (۶۰۰) روپے ماہوار مقرر کردیا گیا“۔
اس کے بعد انہیں نومبر ۱۸۵۸ء کو بمع ان شاہی افراد کے رنگون روانہ کردیا گیا‘ رنگون پہنچنے کے بعد شاہی مجرموں کو گورے سپاہیوں کی حراست میں بندرگاہ سے باہر لایاگیا اور ایک بنگلے میں گورے سپاہیوں کے پہرے میں نظر بند کردیا گیا‘ تادم واپس ہندوستان کے سابق شہنشاہ یہیں رہے‘ آخر ۷/نومبر ۱۸۶۲ء بروز یک شنبہ اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور ان کا انتقال ہوا۔ کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے دو گز زمین بھی نہ مل سکی کوئے یار میں
باقی ماندہ مسلمان علماء اور مجاہدین کا معاملہ
جنرل بخت صاحب‘ ڈاکٹر وزیر خان صاحب اور مولوی فیض احمد صاحب مع اپنے ماتحتوں اور فوجیوں کے حالات‘ خطرناک دیکھ کر دہلی سے نکل کر لکھنؤ چلے گئے اور مولوی حمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے اور وہاں انگریز فوج سے خوب مقابلہ کیا‘ مگراپنوں ہی کی غداریوں سے شکست کھانا پڑی‘ اس لئے جب حالات خطرناک دیکھے تو شاہ جہان پور کو روانہ ہوگئے‘ آخری جنگ انگریزوں سے شاہ جہاں میں ہوئی اور یہاں بھی مختلف وجوہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یہ سب لوگ نیپال چلے گئے‘ مولوی حمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ کو راجہ پوائین بلدیو سنگھ نے دعوت کے بہانے سے بلا کر دھوکہ سے ۱۵/ جون ۱۸۵۸ء مطابق ۲/ ذوالقعدہ ۱۲۷۴ھ کو شہید کردیا۔
مولانا فضل حق خیر آبادی
۱۸۵۹ء میں سلطنت مغلیہ کی وفاداری یا فتویٰ جہاد کی پاداش یا جرم بغاوت میں مولانا ماخوذ ہوکر ستاپور سے لکھنؤ لائے گئے‘ مقدمہ چلا‘ عدالت نے حبس دوام دریائے شور کا حکم سنایا‘آپ نے کمالِ مسرت اور خندہ پیشانی سے سنا آخرش جزیرہ انڈمان روانہ کردیئے گئے‘ صاحبزدگان مولانا عبد الحق صاحب اور مولوی شمس الحق صاحب نے اپیل لندن میں دائر کردی تھی۔ خواجہ غلام غوث صاحب میر منشی لفٹنٹ مغربی وشمالی صوبہ اودھ سرگرم سعی تھے‘ بالآخر ولایت سے رہائی کا حکم آگیا‘ اس کو لے کر مولوی شمس الحق صاحب جزیرہ انڈمان روانہ ہوگئے‘ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ۱۲/ صفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۱۸۶۱ء کو مولانا فضل حق صاحب کا انتقال ہوگیا ہے‘ جنازہ حاضر ہے‘ بصد حسرت ویاس شریک دفن ہوئے اور بے نیل ومرام واپس ہوئے ۔(نقش حیات) معلوم ہونا چاہئے کہ مولانا فضل حق خیر آبادی حضرت شاہ عبد القادر اور حضرت شاہ عبد العزیز کے شاگرد تھے‘ علامہ خیر آباد کے استاد بھائی اور رفیق خاص مفتی صدر الدین صاحب آزردہ صدر الصدور نے بھی علامہ کی خاطر فتویٰ پر شہدت بالخیر لکھ کر دستخط کر دیئے تھے‘ گرفتاری کے بعد مفتی صاحب نے بتایا کہ: میں نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ جبراً دستخط کرنا پڑ رہے ہیں‘ بالجبر پر نقطے نہ لگائے تھے علماء وقت نے اسے بالخیر پڑھا اور مفتی صاحب نے الجبر بتاکر جان چھڑائی‘ البتہ جائداد واملاک کا حصہ ضبط کرلیا گیا ۔(نقش حیات‘ص:۲۶۳)
حاجی امداد اللہ‘ مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ
مخبروں کی ریشہ دوانیوں سے ان حضرات کے متعلق بھی بغاوت کا الزام لگایاگیا‘ حضرت حاجی صاحب بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوگئے‘ راستہ میں مختلف مقامات پر جہاں پہلے سے تعلقات تھے‘ ٹھہرتے جاتے تھے‘ مگر جاسوس پیچھے لگے ہوئے تھے‘ راستہ میں مختلف واقعات عبرتناک پیش آئے۔ پنجلاسہ (پنجاب) میں مقیم تھے‘ کسی نے حکومت کے یہاں مخبری کردی (اس زمانہ میں باغیوں کی تفتیش اور پکڑ دھکڑ بہت سختی سے ہو رہی تھی) کہ حضرت حاجی صاحب فلاں شخص کے اصطبل میں مقیم ہیں‘ کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) ضلع جوکہ انگریز تھا‘ خود سوار ہوکر آدھی رات کے قریب اصطبل کے دروازہ پر پہنچ گیا اور کواڑ کھلوانے چاہے‘ بڑے بھائی نے جوکہ مالک مکان تھے‘ انگریز سے کہا کہ: آپ نے اس وقت کیوں تکلیف فرمائی‘ کلکٹر نے کہا: گھوڑے دیکھنے کے لئے آیا ہوں‘ کواڑ کھولو‘ چنانچہ کواڑ کھولے گئے‘ دیکھا تو بستر لگاہوا ہے اور سب سامان لیٹنے کا درست ہے‘ لیکن حضرت حاجی صاحب موجود نہ تھے‘ ادھر ادھر دیکھا‘ کہیں پتہ نہ لگا‘ مالک مکان سے پوچھا: یہ بستر کس کا ہے‘ اس نے کہا: میرے چھوٹے بھائی کا ہے‘ لیکن انگریز نے اور کچھ نہ پوچھا اور گھوڑوں کو دیکھتے ہوئے واپس ہوگیا (غالباً) حضرت کو کشف سے یہ حال آمد انگریز کا معلوم ہوگیا کہ پہلے سے تشریف لے گئے اوریہ بھی ممکن کہ اس وقت بھی وہاں ہی تشریف رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے ابصار (آنکھوں سے پوشیدہ فرمادیا ہوکہ (کما فسر بعضہم قولہ تعالیٰ:
”وجعلنا بینک وبین الذین لایؤمنون بالآخرة حجابا مستوراً“۔ (اسرائیل:۴۵)
ترجمہ: ہم نے تم میں اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا“۔
اس قسم کے متعدد واقعات حضرت حاجی صاحب اور مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ اسرارہم کے پیش آتے رہے۔ دشمنوں کی انتہائی جد وجہد کے باوجود تینوں حضرات محفوظ رہے‘ کسی کا بال بیکا نہ ہوا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی وارنٹ کے بعد تین دن تک بتقاضائے احباب واعزہ روپوش رہے‘ اس کے بعد مکان سے باہر نکل آئے‘ لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ: جناب رسول اللہ ﷺ صرف تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے‘ وہ سنت پوری ہوگئی‘ اب روپوش ہونا خلاف سنت ہوگا۔ کسی کی نہ مانی اور قرب وجوار کے موضع میں کبھی نانوتہ میں‘ کبھی دیوبند میں کبھی املیا میں‘ کبھی آباد میں‘ کبھی جنگل میں پھرتے رہے۔ ایک مرتبہ قصبہ دیوبند چھتہ کی مسجد میں تھے کہ دوش آگئی‘ آپ اپنی جگہ سے ہٹ گئے‘ افسر مسجد میں داخل ہوا اور پوچھا کہ: مولوی قاسم کہاں ہیں؟ آپ پہلی جگہ کی طرف اشارہ کرکے بولے کہ ابھی تو یہاں تھے‘ دیکھ لو‘ کہیں مسجد میں ہوں گے‘ وہ ڈھونڈنے دوسری طرف گیا‘آپ مسجد کے دوسرے دروازے سے نکل کر جنگل کو چلے گئے‘ اس نے اور سپاہیوں نے مسجد میں چاروں طرف کونے کونے کو اور حجروں کو خوب دیکھا ‘مگر نہ ملے۔ اس طرح ہرجگہ مخبریاں ہوتی رہیں اور دوش آتی رہیں‘ مگر مولانا ہاتھ نہ آئے ۔
حضرت گنگوہی
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اپنی جگہ گنگوہ سے نہیں ٹلے‘ بالآخر گرفتار ہوئے۔ گنگوہ سے سہارن پور اور وہاں سے مظفر نگر لائے گئے۔ آپ پر علاوہ شرکت جہاد شاملی یہ بھی الزام تھا کہ سپاہیوں کی رائفل ان کے پاس ہے‘ آپ نے دونوں کا بالفاظ توریہ انکار کیا۔حاکم نے پوچھا کہ: تم نے خلاف گورنمنٹ ہتھیار اٹھایا؟ آپ نے جیب سے تسبیح نکال کر فرمایا کہ: یہ میرا ہتھیارہے۔ اس نے کہا: وہ بندوق کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھ سے بندوق سے کیا سروکار۔سپاہیوں کو حکم ہوا کہ ننگی تلوار لے کر ا سکے سر پر کھڑے ہوجاؤ ۔ الغرض جب آپ ان تمام تخویفات اور دھمکیوں سے متاثر نہیں ہوئے اور نہایت استقلال سے جواب دیتے رہے‘ سپاہی ننگی تلواروں سے آپ پر پہرہ دیتے رہے‘ آپ کو مظفر نگر جیل بھیج دیا گیا اور شہادتوں کے حصول کے لئے پولیس اور حکومت کوشش کرتی رہی‘ تاکہ ثبوت بہم پہنچا کر مقدمہ چلایا جائے۔ قید ہونے کے اوائل زمانہ میں یہی مشہورہو گیاتھا کہ مولانا رشید احمد صاحب کو پھانسی دیدی جائے گی اور انگریزوں کی بوکھلاہٹ بھی اس کی مؤید تھی۔ حضرت گنگوہی سے ایک مرتبہ کسی شخص نے دریافت کیا تھا کہ اعلیٰ حضرت (حاجی امداد اللہ صاحب) نے تو آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ: اطمینان رکھو‘ میں عرب روانہ ہوتے وقت تم سے مل کر جاؤں گا‘ مگر آپ گرفتاری وحوالات میں رہے‘ آپ کی رہائی سے قبل ہی اعلیٰ حضرت نے بیت اللہ کی جانب ہجرت فرمائی‘ گویا سائل کا مطلب یہ تھا کہ ملاقات کے خوش کن الفاظ محض تسلی کے لئے تھے‘ جس کا وقوع نہیں۔ حضرت نے بہت ہی ہلکی آواز سے فرمایا : اعلیٰ حضرت وعدہ خلاف نہ تھے‘ چنانچہ دوسرے طریق سے معلوم ہوا کہ باوجود سنگین پہرہ کے اعلیٰ حضرت جیل خانہ کے اندر قدم رکھا اورکئی گھنٹے باتیں کرکے شب ہی میں واپس ہوئے اور عرب کو روانہ ہوئے۔ مولوی ولایت حسین کی روایت ہے کہ حکیم صاحب جو اعلیٰ حضرت کے مرید انبالہ کے رہنے والے بندہ کے ساتھ سفر حج میں شریک تھے‘ فرمایا: جس زمانہ میں مولانا گنگوہی جیل خانہ میں تھے‘ اعلیٰ حضرت حاجی صاحب ایک دن فرمانے لگے کہ: میں نے کچھ سنا‘کیا مولوی رشید احمد کو پھانسی کا حکم ہوگیا؟ خدام نے عرض کیا کہ: حضرت! کچھ پتہ نہیں‘ ابھی تک تو کوئی خبر نہیں آئی‘ فرمایا: ہاں حکم ہو گیا‘ چلو‘ یہ فرما کر اٹھ کھڑے ہوئے‘ حکیم صاحب کا بیان تھا کہ برسات کا زمانہ تھا‘ مغرب کے بعد اعلیٰ حضرت اور میں غالباً مولوی مظفر حسین کاندھلوی غرض تین آدمی چلے‘ شہر سے باہر نکل کر تھوڑی دور جاکر اعلیٰ حضرت گھاس کے قدرتی سبزہ پر بیٹھ گئے اور کچھ دیر سکوت فرما کر گردن اوپر اٹھائی اور فرمایا: چلو مولوی رشید احمد کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا‘ خدا تعالیٰ کو ابھی ان سے بہت کام لینا ہے۔ چنانچہ چند روز بعد اس کا ظہور ہوگیا۔ (امداد المیثاق‘ ص:۱۷۲ از تذکرہ الرشید ص:۸۵ ماخوذ نقش حیات)
یہ سب باطنی تصرفات تھے‘ ورنہ ظاہری حیثیت سے کسی صاحب کی ان میں سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی‘ مگر قدرت نے ان سے کام لینا تھا‘ ان کی تعلیم وتربیت سے ایسے لوگ تیار کرانے تھے جوکہ بے دھڑک ہوکر بلاخوف وخطر میدان آزادی اور تحریک انقلاب میں جان کو ہتھیلی پر رکھ کر باوجود انگریز کے آہنی پنجہ اور انتہائی سفاکیت کے کود پڑیں یعنی مولانا محمود حسن صاحب شیخ الہند مرحوم اور ان کے تلامذہ‘ شاگرد اور متوسلیں کو پیدا کرنا تھا‘ اس لئے ان حضرات کو بچایا گیا تھا اور ہرطرح حفاظت عمل میں لائی گئی‘ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے دشمن کے گھر پیدا کیا گیا اور اس سے پرورش کرائی گئی‘ اسی طرح مولانا محمود حسن صاحب کو انگریز کے زیر حکومت پرورش کرایا گیا‘ حضرت کے والد ماجد انگریز کے ملازم تھے‘ مسٹن گونریوپی کہتا تھا کہ: ”ہم اگر مولوی محمود حسن کو جلاکر خاکستر کردیں تو اس کی خاک بھی ہم سے نفرت کرے گی“۔ جانباز مرزا انگریز کے باغی مسلمان میں تحریر فرماتے ہیں کہ: جب کسی بستی کے وارث اپنا کردار کھو بیٹھتے ہیں فطرت ان پر ایسے لوگ مسلط کردیتی ہے جن کی نسل تک کا پتہ نہیں چلتا‘ فاتح قوم مفتوح کے نشان تک مٹادیتی ہے۔ قرآن کریم کا بھی ارشاد ہے سورہ نمل: ۳۴ میں:
”ان الملوک اذا دخلوا قریةً افسدوہا وجعلوا اعزة اہلہا اذلة وکذلک یفعلون“۔
ترجمہ:․․․” جب بادشاہ کسی بستی میں فاتحانہ داخل ہوا کرتے ہیں تو بستی کو برباد کرڈالتے ہیں اور وہاں کے عزت دار باشندوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ ایسا ہی کریں گے“ ۔ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد انگریز پوری طرح دہلی پر قابض ہوگیا‘ پھر دہلی پر کیا گزری‘ گورے سپاہیوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ آوارہ چوپاؤں کی طرح جہاں چاہیں منہ مارتے پھریں‘ گھروں کے گھر اجڑ گئے‘ محلے برباد کر دیئے گئے ۔ رئیس اور امراء گدا گروں کی طرح نان جوی کے محتاج نظر آنے لگے۔ عصمت مآب عورتوں نے اپنی آبرو کی حفاظت میں کنوؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی پاک دامنی کو محفوظ رکھا۔امراء قتل ہوچکے تھے‘ جورہے وہ بھی دلی چھوڑ کر بھاگ گئے‘ دلی کا حسن خاک وخون میں تڑپ تڑپ کر ختم ہورہا تھا‘ کوئی کسی کا نہ تھا‘ جو کسی کا تھا وہ دم نہ بھر سکتا تھا‘ گلی کوچوں میں لوگ انگریز کے خوف سے تھر تھرا رہے تھے‘ چاندنی چوک کے ساتھ بنی ہوئی عظیم الشان حویلیوں کے دروازے کھٹکھٹاکر گورے سپاہی چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: لال بی بی دو‘ ورنہ گولی ماردیں گے(دلی کی حسیناؤں کا نام لال بی بی رکھا گیا جو مریم کی طرح معصوم اور سیتاسے زیادہ مقدس تھیں) دلی کی عصمت مآب بیبیوں کی عصمت سر بازار لٹ رہی تھی‘ لوگ در ودیوار سے ٹکرا رہے تھے۔ دلی والوں پر کھا نا پینا سب بند تھا‘ جو مکان سے باہر نکلتا اور پانی کی تلاش میں قدم بڑھاتا وہ زخم کھا کرخون میں نہایا ہوا گھر لوٹتا۔ گردنوں کی کوئی قیمت نہ تھی‘ بے دریغ کٹ رہی تھیں‘ فتح پور سے جامع مسجد تک پھانسیوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۵۲) شارع عام پر پھانسی گھر بنائے گئے اور پانچ پانچ یا چھ چھ آدمیوں کو روزانہ سزائے موت دی جاتی تھی۔ وال پول کا بیان ہے کہ تین ہزار آدمیوں کو پھانسی دی گئی‘ جن میں سے انتیس شاہی خاندان سے تعلق رکھتے۔
مؤلف تبصرة التواریخ لکھتا ہے کہ:
ستائیس ہزار مسلمان قتل کے گئے اور سات دن تک برابر قتل جاری رہا‘ زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلوا کر گرم تیل کے کڑھاؤ ڈلوانا اور فتحپور کی مسجد سے قلعہ کے دروازے تک درختوں کی شاخوں پر مسلمانوں کی لاشوں کا لٹکانا یہ سب کچھ کیا گیا۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: نگاہِ بدکا علاج
Flag Counter