Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 12
نگاہِ بدکا علاج
نگاہِ بدکا علاج


غرض یہ کہ زنا سے حفاظت کی ایک تدبیر اور ایک صورت تو یہ ہوئی کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور دوسری تدبیر جس سے زنا سے محفوظ رہ سکیں‘ وہ یہ ہے کہ ایمان والی عورتیں اپنی آرائش اور زیبائش کو ظاہر نہ کریں‘ مگر زیب وزینت کی وہ چیز جو عادتاً اور غالباً کھلی رہتی ہے یعنی جس کا چھپانا اور پوشیدہ رکھنا عادةً ممکن نہیں‘ جیسے چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہروقت چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے‘ بغیر منہ کھولے عورت گھر میں چل پھر نہیں سکتی اور بغیر ہاتھ کھولے گھر کا کام کاج نہیں کرسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے‘ اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے‘ مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اجنبی مردوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن جمال کا نظارہ کیا کریں اور ان سے آنکھیں لڑایا کریں۔
زیب وزینت کی حقیقت
زینت کے معنی آرائش اور زیبائش کے ہیں‘ خواہ وہ خلقی اور قدرتی ہو‘ جیسے چہرہ اور دونوں ہاتھ اور ہتھلیاں یا مصنوعی اور اختیاری ہو‘ جیسے پوشاک اور زیور یہ سب چیزیں زینت ظاہرہ یعنی ”الا ما ظہر منہا“ میں داخل ہیں‘ جن کا اظہار سوائے محارم کے اور کسی کے سامنے جائز نہیں‘ چنانچہ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ: سوائے محارم کے کسی کے سامنے عورت کو اپنی زینت کا کھولنا جائز نہیں۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ عورت کو اپنی زینت کو محارم کے سامنے ظاہر کرنا اور کھولنا جائز ہے‘ مگر شرط یہ ہے کہ محارم کے سامنے بھی اس کشف واظہار سے اپنے حسن وجمال کا اظہار مقصود نہ ہو۔ پس جب عورت کے زیور کی آواز فتنہ ہے تو خود عورت کی ذاتی آواز کس درجہ فتنہ ہوگی‘ امام غزالی نے لکھا ہے: عورت کا تو(غیر محرم سے) قرآن سننا بھی ناجائز اور حرام ہے اور تمام فقہاء اور ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ عورت کی اذان اور اقامت قطعاً ناجائز ہے‘ پس جلسوں میں تقریر کرنا‘ اخباروں میں تصویر اتروانا بلا شبہ حرام ہوگا‘ جب عورت کے زیور کی آواز فتنہ ہے اور اس کا اظہار ناجائز ہے تو خود عورت کی تصویر اور اس کی آواز کیسے فتنہ نہ ہوگی اور اس کا اظہار اور اشتہار کیوں حرام نہ ہوگا‘ خوب سمجھ لو کہ عورت کی تقریر اور تصویر سب زنا کے دروازے ہیں‘ شریعت مطہرہ ان کو بند کرنا چاہتی ہے اور یہ نفس کے بندے کھلے بندوں اس کو توڑنے کی فکر میں ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے خصوصاً مسلمانوں کو اور عموماً دنیا کو محفوظ رکھے ‘ آمین۔ (معارف القرآن ص:۱۲۲ مولانا ادریس کاندھلوی) مذکورہ آیت میں یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان والی عورتوں کو چاہئے کہ پردہ کا اس درجہ اہتمام کریں کہ چلنے کی حالت میں اپنے پیر زمین پر زور سے نہ ماریں‘کہ ان کا پوشیدہ زیور لوگوں کو معلوم ہوجائے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت جب راستہ چلتی اور اس کے پاؤں میں پازیب وغیرہ ہوتا تو اپنے پاؤں کو زمین پر مارتی‘ تاکہ مرد اس کی آواز سن لیں‘ اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو ایسی حرکات کرنے سے منع کردیا کہ جس سے ان کے زیور کی آواز مردوں تک پہنچنے اور مرد ان کی آواز سن کر ان کی طرف راغب ہوں۔ جس طرح زینت کے اظہار کی ممانعت ہے‘ اس طرح زینت اور آواز کا اظہار بھی موجب فتنہ ہے اور ممنوع ہے اور ظاہر ہے کہ خود عورت کی آواز زیور کی آواز سے زیادہ موجب فتنہ ہے‘ لہذا عورت کی آواز زینت کی آواز سے زیادہ حرام ہوگی‘ جیساکہ سورہٴ احزاب کی آیت:۳۲
”فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض“
۔اس بارے میں نص صریح ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو چاہئے کہ چلتے وقت ایسی حرکت نہ کریں جس سے مردوں کو عورتوں کے جانے یا چلنے کا علم ہوجائے اور ان کے پازیب کی آواز مردوں کی شہوت کو برانگیختہ کرنے کا سبب بنے اور اسی قسم سے ہے کہ عورت اپنے گھر سے خوشبو لگا کر نہ نکلے‘ اگرچہ وہ برقعہ اوڑھے ہوئے ہو‘ جیساکہ حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ آنحضرت انے فرمایا : جو عورت عطر لگا کر گھر سے نکلی اور کسی مجلس پر گزری تو وہ ایسی اور ایسی ہے یعنی زانیہ اور بدکار ہے ۔ (رواہ ابو داؤد ونسائی وترمذی) پس اگر ان دلدادگانِ مغربیت کے خیال کے مطابق الا ماظہر منہا سے عورتوں کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت ہوتی تو آئندہ آیت میں ان محارم: باپ ‘ بیٹا اور بھائی کے استثناء کی کیا ضرورت تھی اور اس سے پہلی آیت میں عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی۔ نیز اگر عام طور پر عورتوں کو چہرہ کھول کر پھرنا جائز ہوتا تو پھر کسی کے زنان خانے پر داخل ہونے کے لئے اجازت لینا فرض اور واجب نہ ہوتا‘ جیساکہ آیت میں ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتدخلوا بیوتاً غیر بیوتکم حتی تستأنسوا وتسلموا علی اہلہا‘ ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون“۔ (النور:۲۷)
ترجمہ:”اے ایمان والو!مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھروں کے سوا جب تک بول چال نہ کرلو اور سلام کرلوان گھر والوں پر یہ بہتر ہے تمہارے حق میں تاکہ تم یاد رکھو“۔
نیز قرآن کریم میں عورتوں کے متعلق یہ حکم آچکا ہے:
”وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ: اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور پہلے زمانہٴ جاہلیت کی طرح اپنی زیب وزینت ظاہر نہ کرو“۔
اگر عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کی اجازت ہوتی تو پھر اس حکم کی کیا ضرورت تھی؟
”واذا سالتموہن متاعا فاسئلوہن من وراء حجاب ذلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن“۔ (الاحزاب:۵۳)
ترجمہ․”اور جب تم عورتوں سے کوئی ضرورت کی چیز مانگو تو پردہ کے پیچھے کھڑے ہوکر مانگو‘ اسی میں تمہارے دلوں کی خوب ستھرائی اور پاکیزگی ہے“۔ معلوم ہوا کہ پردہ کے پیچھے سے مانگنا دونوں کے لئے طہارت قلب کا سبب ہے اور کھلے منہ سامنے آکر مانگنا نجاست قلب کا سبب ہے۔نیز اگر عورت کسی ضرورت کی بناء پر کسی غیر مرد سے پس پردہ کلام کرے تو اس کے لئے حکم یہ ہے:
”فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا “۔ (الاحزاب:۳۲)
ترجمہ: ان سے نرم لہجے میں بات نہ کرو‘ مبادا جس کے دل میں نفسانیت اور شہوت کا روگ ہو وہ تمہاری نرم بات سے تمہاری ذات کے لالچ میں نہ پڑ جائے“۔ پس جب عورت کی آواز فتنہ ہے تو اگر کھلے منہ کسی غیر مرد کے سامنے آنا جائز ہوتا تو اس حکم کی کیا ضرورت تھی‘ نیز اس سلسلہ کلام میں ایک حکم یہ آیا ہے:
”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“۔ (النور:۳۱)
ترجمہ: ”اور عورتوں کو چاہئے کہ چلتے وقت اپنے پاؤں زور سے زمین پرنہ ماریں‘ جس سے پوشیدہ زیور کی آواز معلوم ہو سکے“۔ پس جب زیور کی آواز فتنہ ہے تو خود عورت کی ذاتی آواز کس درجہ فتنہ ہوگی‘ پس معلوم ہوا کہ عورتوں کا کھلے منہ جلسوں میں اور مردوں کی پارٹیوں میں شرکت کرنا اور اپنی تصویر اتروانا بلاشبہ حرام ہے۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: قیامت کی علاماتِ کبریٰ
Flag Counter