Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

11 - 12
عصمتِ انبیاء وحرمتِ صحابہ
عصمتِ انبیاء وحرمتِ صحابہ


یہ حقیقت مسلم اور ہرشک وشبہ سے بالاتر ہے کہ نبوت ورسالت وہ اعلیٰ ترین منصب ہے جو حق تعالیٰ ذکرہ کی طرف سے مخصوص بندوں کو عطا کیا جاتاہے‘ تمام کائنات میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور نبوت انسانیت کی آخری معراجِ کمال‘ انسانیت کے بقیہ تمام مراتب وکمالات اس سے پست اور فروترہیں‘ انسانی فکر کی کوئی بلندی نبوت کی حدوں کو نہیں چھوسکتی‘ نہ انسانیت کا کوئی شرف وکمال اس کی گردِراہ کو پہنچ سکتا ہے‘ اس سے اوپر بس ایک ہی مرتبہ ہے اور وہ ہے حق تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت کا مرتبہ! منصبِ نبوت عقولِ انسانی سے بالاتر ہے‘ اس کی پوری حقیقت صرف وہی جانتا ہے جس نے یہ منصب عطا فرمایا یا پھر ان مقدس ہستیوں کو معلوم ہوسکتی ہے جن کو اس منصبِ رفیع سے سرفراز کیا گیا‘ ان کے علاوہ تمام لوگوں کا علم وفہم سر نبوت کی دریافت سے عاجز اور عقل اس کی ٹھیک ٹھیک حقیقت وکنہ کے ادراک سے قاصر ہے‘ جس طرح ایک جاہل علم کی حقیقت سے بے خبر ہے‘ اسی طرح غیر نبی نبوت کی حقیقت سے نا آشنا ہے‘ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ رسالت ونبوت کا منصب ِ رفیع تو درکنار معمولی ہنر وفن کا بھی یہی حال ہے‘ کسی فن کی صحیح حقیقت تک رسائی اسی صاحبِ کمال کے لئے ممکن ہے جسے وہ فن حاصل ہو اور اسی حد تک ممکن ہے جس حد تک اسے فنی رسوخ وکمال حاصل ہو۔ ہمارے حضرت استاذ امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری دیوبندی نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ:
”نبوت تو کیا اجتہاد کی حقیقت کے ادراک سے بھی ہم قاصر ہیں“۔
یعنی ”اجتہاد“ کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ محض اس کی ظاہری سطح ہے اور جتنی معلومات ہمیں حاصل ہیں وہ صرف سطحی معلومات ہیں (اسے منطقی اصطلاح میں علم بالوجہ کہتے ہیں) ورنہ اجتہاد کی حقیقت کا صحیح ادراک صرف مجتہد کو ہوسکتا ہے جسے یہ ملکہ حاصل ہو۔ اسی طرح نبوت کا علم بھی عام انسانوں کو محض آثار ولوازم کے اعتبار سے ہے‘ نبی علیہ الصلاة والسلام کے بارے میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ: نبوت کے لئے حق تعالیٰ جل ذکرہ ایک ایسی برگزیدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتاہے جو اپنے ظاہر وباطن‘ قلب وقالب‘ روح وجسد ہراعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے‘ وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطرت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء ومشیتِ الٰہی کے تابع ہوتی ہیں‘ ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے‘ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہردم اس کی نگرانی کرتی ہے‘اس کی ہرحرکت وسکون پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ بٹھادیا جاتا ہے اور وہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتا ہے‘ ایسی شخصیت سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال وممتنع ہے‘ اسی کا نام عصمت ہے اور ایسی ہستی کو معصوم کہا جاتا ہے‘ عصمت لازمہٴ نبوت ہے‘ جس طرح یہ تصور کبھی نہیں کیا جاسکتا کہ کسی لمحہ نبوت نبی سے الگ ہوجائے، اسی طرح اس بات کا وہم وگمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ عصمت نبوت اور نبی سے ایک آن کے لئے بھی جدا ہوسکتی ہے‘ معاذ اللہ۔ حضرات علمائے کرام نے تحقیق فرمائی ہے کہ ایک ہے: معصوم ،اور ایک ہے: محفوظ۔معصوم وہ ہے جس سے گناہ ومعصیت کا صدور محال ہو‘ اور محفوظ وہ ہے جس سے صدور معصیت محال تو نہ ہو، لیکن کوئی معصیت صادر نہ ہو یا آسان اور سادہ لفظوں میں یوں تعبیر کریں گے کہ: معصوم وہ ہے جو گناہ کرہی نہیں سکتا اور محفوظ کے معنی یہ ہیں کہ: گناہ کرتو سکتا ہے لیکن کرتا نہیں‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں اور اولیاء کرام رحمہم اللہ محفوظ ہیں۔ الغرض نبوت ورسالت کے عظیم ترین منصب کے لئے حق تعالیٰ اسی شخصیت کو بحیثیت نبی ورسول کے منتخب کرتا ہے جو حسب ونسب‘ اخلاق واعمال‘ عقل وبصیرت‘ عزم وہمت اور تمام کمالات میں اپنے دور کی فائق ترین شخصیت ہو‘ نبی تمام جسمانی وروحانی کمالات میں یکتا ئے زمانہ ہوتا ہے اور کسی غیر نبی کو کسی معتدبہ کمال میں اس پر فوقیت نہیں ہوتی‘ قرآنی وشرعی الفاظ میں اس شخصیت کا انتخاب اجتباء اور اختیار خود حق تعالیٰ فرماتا ہے‘ کون نہیں جانتا کہ حق تعالیٰ کا علم کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہے‘ اس کے لئے ظاہر وباطن اور سر وجہر سب عیاں ہے‘ ماضی ومستقبل اور حال کے تمام حالات بیک وقت اس کے علم میں ہیں‘ اس میں نہ غلطی کا امکان نہ جہل کا تصور‘ قرآن کریم کی بے شمار آیات میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے:
۱:۔”کان اللہ بکل شئ علیما“
یعنی اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
۲:۔”مایعزب عن ربک من مثقال ذرة فی الارض ولا فی السماء“(یونس:۶۱)
یعنی اور غائب نہیں تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی ‘ نہ زمین میں نہ آسمان میں۔
۳:۔”یعلم سرکم وجہرکم“ (الانعام :۳)
یعنی وہ جانتا ہے تمہارے پوشیدہ کو اور ظاہر کو۔
ظاہر ہے کہ جب حق تعالیٰ کا علم محیط نبوت ورسالت کے لئے کسی شخصیت کو منتخب کرے گا تو اس میں کسی نقص کے احتمال کی گنجائش نہیں رہ جاتی‘ اس منصب کے لئے جس مقدس ہستی پر حق تعالیٰ کی نظر انتخاب پڑے گی اور جسے تمام انسانوں سے چھانٹ کر اس عہدہ کے لئے چنا جائے گا‘ وہ اپنے دور کی کامل ترین‘ جامع ترین‘ اعلیٰ ترین اور موزوں ترین شخصیت ہوگی‘ البتہ خود انبیاء ورسل کے درمیان کمالات ودرجات میں تفاوت اور فرق مراتب اور بات ہے۔ نیز یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ نبوت ورسالت محض عطیہٴ الٰہی ہے‘ کسب واکتساب سے اس کا تعلق نہیں کہ محنت ومجاہدہ اور ریاضت ومشقت سے حاصل ہوجائے‘ دنیا کا ہر کمال محنت ومجاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے ،لیکن نبوت ورسالت حق تعالیٰ کا اجتبائی عطیہ ہے ،وہ جس کو چاہتاہے اس منصب کے لئے چن لیتا ہے‘ قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ تصریحات موجود ہیں:
۱:۔”اللہ یصطفی من الملائکة رسلاً ومن الناس“ ( الحج:۷۵)
یعنی اللہ چن لیتا ہے فرشتوں سے پیغامبر اور انسانوں سے
۲:۔”اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ“ (الانعام:۲۴)
یعنی اللہ کو خوب علم ہے جہاں رکھتا ہے وہ اپنے پیغامات۔
ان حقائق ِ شرعیہ کو سمجھ لینے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی نبی ورسول فرائض نبوت میں کوتاہی بھی کرسکتا ہے‘ کجا کہ کسی نبی نے۔ معاذ اللہ۔ اپنے فرائضِ منصبی میں کوتاہیاں کی ہوں‘ اس لئے یہ کہنا کہ: ”فلاں نبی سے فریضہٴ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں“ ”نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا“ یا یہ کہ ”فلاں نبی بغیر اذنِ الٰہی کے اپنی ڈیوٹی سے ہٹ گیا“ انتہائی کوتاہی کی بات ہے اور وہ اپنے اندر بڑے سنگین مضمرات رکھتی ہے۔ اسی طرح کسی مشکل مقام کی تہ کو نہ پہنچنے کی بناء پر یہ اٹکل پچو کلیہ گھڑ لینا کہ ”عام انسانوں کی طرح نبی بھی مومن کے بلند ترین معیارِ کمال پر ہر وقت قائم نہیں رہ سکتا‘ وہ بھی بسا اوقات تھوڑی دیر کے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے اور جب اللہ کی طرف سے اسے متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ عمل محض ایک ”جاہلیت کا جذبہ“ ہے تو نبی فوراً اسلامی طرز فکر کی طرف پلٹ آتا ہے“ نہایت خطرناک بات اور مقام نبوت سے ناشناسائی کی عبرتناک مثال ہے:
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
اسی طرح یہ کہنا کہ ”نبی اور رسول پر کوئی وقت ایسا بھی آتا ہے-- اور آنا چاہیئے-- جبکہ اس سے عصمت کا پردہ اٹھالیا جاتا ہے اور اس سے ایک دو گناہ کرائے جاتے ہیں، تاکہ اس کی بشریت ظاہر ہو“ یہ ایک ایسا خطرناک قسم کا غلط فلسفہ (سوفسطائیت) ہے جس سے تمام شرائع الٰہیہ اور ادیانِ سماویہ کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ نبوت سے عصمت کے جدا ہوجانے کے معنی یہ ہوئے کہ عین اس وقت نبی کی حیثیت ایک ایسی شخصیت کی نہیں ہوتی جو امت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو‘ اور جسے امین ومامون قرار دیا گیا ہو‘ اس وقت اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہوگی یا زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہئے کہ: عین اس حالت میں جبکہ نبی سے عصمت اٹھالی جاتی ہے وہ نبوت اور لوازم نبوت سے موصوف نہیں ہوتا ‘ ظاہر ہے کہ اگر یہ غلط منطق تسلیم کرلی جائے تو سارا دین ختم ہوجاتا ہے ۔نبی اور رسول کی ہر بات-- معاذ اللہ-- مشکوک ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی قول وعمل اور تلقین وتعلیم قابل اعتماد نہیں رہتی، کیونکہ ہر لمحہ یہ احتمال رہے گا کہ شاید یہ ارتفاعِ عصمت اور انخلاع عن النبوت کا وقت ہو-- بظاہر یہ بات جو بڑے حسین وجمیل فلسفہ کی شکل میں پیش کی گئی ہے‘ غور کیجئے تو یہ اس قدر غیر معقول اور ناقابلِ برداشت ہے کہ کوئی معقول آدمی جو شریعت الٰہی کو سمجھتا ہو‘ اس کی جرأت تو کجا اس کا تصور تک نہیں کرسکتا؟ جن لوگوں کی زبان وقلم سے یہ بات نکلی ہے۔۔ اور افسوس ہے کہ بڑے اصرار وتکرار سے مسلسل نکلتی جارہی ہے۔۔ ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انہیں نہ علم کی حقیقت تک رسائی ہوئی ہے نہ نبوت کے تقاضوں کو انہوں نے صحیح سمجھا ہے۔ اور یہ بات بھی کسی علم ودانش کا پتہ نہیں دیتی کہ ”جب تک ہم انبیاء کرام علیہم السلام کو عام انسانوں کی طرح دو چار گناہوں میں مبتلا نہ دیکھ لیں اس وقت تک ہمیں ان کی بشریت کا یقین ہی نہیں آئے گا۔“ کون نہیں جانتا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کھاتے ہیں‘ پیتے ہیں‘ انہیں صحت ومرض جیسے بیسیوں انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں‘ وہ انسانوں سے پیدا ہوتے ہیں اور ان سے انسانی نسل چلتی ہے‘ علاوہ ازیں وہ بار بار اپنی بشریت کا اعلان فرماتے ہیں‘ کیا ان تمام چیزوں کے بعد بھی اس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ جب تک ان سے عصمت نہیں اٹھالی جاتی اور دو ایک گناہ نہیں ہونے دیئے جاتے ،تب تک ان کی بشریت مشتبہ رہے گی؟ اور ہمیں ان کی بشریت کا یقین نہیں آئے گا؟ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھول چوک اور خطا ونسیان تو خاصہٴ بشریت ہے‘ مگر گناہ ومعصیت مقتصائے بشریت نہیں‘ بلکہ خاصہٴ شیطانیت ہے‘ انسان سے گناہ ہوتا ہے تو محض تقاضائے بشریت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ شیطان کے تسلط واغوا سے ہوتا ہے‘ اس لئے گناہوں کے ارتکاب سے انبیاء علیہم السلام کی بشریت ثابت نہیں ہوگی بلکہ اور ہی کچھ ثابت ہوگا اور جو لوگ بھول چوک اور ”معصیت“ کے درمیان فرق نہیں کرسکتے، انہیں آخرکس نے کہا ہے کہ وہ ان نازک علمی مباحث میں الجھ کر ”ضلوا فأضلوا“ (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا) کا مصداق بنیں۔ بہرحال یہ عصمت اور کمالات ِ نبوت تو ہر نبی کے لئے لازم وضروری ہیں۔ اب غور فرمایئے کہ جس مقدس ترین شخصیت کو تمام انبیاء ورسل کی سیادت وامامت کے مقام پر کھڑا کیا گیا ہو‘ جسے ختم نبوت ورسالت کبریٰ کا تاج پہنایاگیاہو‘ اور جسے: ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کے اعلیٰ ترین منصب سے سرفراز کیا گیا ہو(بآبائنا وامہاتنا ا) کائنات کی اس بلند ترین ہستی کے شرف وکمال‘ طہارت ونزاہت ‘ حرمت وعظمت‘ عفت وعصمت اور رسالت ونبوت کا مقام کون معلوم کرسکتا ہے؟ اگر ایسی فوق الادراک ہستی کے بارے میں بھی کوئی ایسا کلمہ کہا جائے کہ کسی وقت غیر معصومیت ان پر بھی آسکتی ہے تو کیا اس عظیم ترین جرم کی انتہاء معلوم ہوسکتی ہے؟ حضرت رسول اللہ ا جب خاتم النبیین ہوئے‘ اور منصب رسالت ونبوت کی سیادت کبریٰ سے مشرف ہوئے اور آپ اکی شریعت کو آخری شریعت اور قیامت تک آنے والی تمام قوموں اور نسلوں کے لئے آخری قانون بنایا گیا تو اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت تھی‘۔ ایک یہ کہ آسمانی قانون قیامت تک جوں کا توں محفوظ رہے‘ ہرقسم کی تحریف وتبدیل سے اس کی حفاظت کی جائے‘ الفاظ کی بھی اور معانی کی بھی‘ کیونکہ اگر الفاظ کی حفاظت ہو اور معانی کی حفاظت بھی نہ ہو‘تو یہ حفاظت بالکل بے معنی ہے۔ دوم یہ کہ جس طرح علمی حفاظت ہو اسی طرح عملی حفاظت بھی ہو۔اسلام محض چند اصول ونظریات اور علوم وافکار کا مجموعہ نہیں‘ بلکہ اہ اپنے جلو میں ایک نظام عمل لے کر چلتا ہے‘ وہ جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اصول وقواعد پیش کرتا ہے ،وہاں ایک ایک جزئیہ کی عملی تشکیل بھی کرتا ہے‘ اس لئے یہ ضروری تھا کہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلاة وسلام کی علمی وعملی دونوں پہلؤوں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایک ایسی جماعت کا سلسلہ قائم رہے جو شریعت مطہرہ کاا علم وعمل کی حامل وامین ہو‘ حق تعالیٰ نے دین محمدی کی دونوں طرح حفاظت فرمائی‘ علمی بھی اور عملی بھی۔ حفاظت کے ذرائع میں صحابہ کرام کی جماعت سر فہرست ہے‘ ان حضرات نے براہ راست صاحب وحی ا کو سمجھا‘ دین پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسل تک دین کو من وعن پہنچایا‘ انہوں نے آپ اکے زیر تربیت رہ کر اخلاق واعمال کو ٹھیک ٹھیک منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا‘ رضائے الٰہی کے لئے اپنا سب کچھ رسول اللہ ا کے قدموں پر نچھاور کردیا‘ ان کے کسی طرز عمل میں ذرا خامی نظر آئی تو فوراً حق مجدہ نے اس کی اصلاح فرمائی‘ الغرض حضرات صحابہ کرام کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے جن کی تعلیم وتربیت اور تصفیہ وتزکیہ کے لئے سرور کائنات محمد رسول اللہ ا کو معلم ومزکی اور استاذ واتالیق مقرر کیا گیا۔ اس انعام خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں ،کم ہے ۔جتنا فخر کریں، بجا ہے۔قراان کریم میں ارشاد ہے:
”لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولاً من انفسہم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین“۔ ( آل عمران:۱۶۴)
ترجمہ:”بخدا بہت بڑا احسان فرمایا اللہ نے مومنین پر کہ بھیجا ان میں ایک عظیم الشان رسول‘ ان ہی میں سے ‘ وہ پڑھتا ہے ان کے سامنے اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور گہری دانائی‘ بلاشبہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے“۔ آنحضرت اکی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی‘ اس لئے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لئے قابل اعتماد ہوں‘ چنانچہ قرآن وحدیث میں جابجا ان کے فضائل ومناقب بیان کئے گئے‘ چنانچہ:
الف: وحی خداوندی نے ان کی تعدیل فرمائی‘ ان کا تزکیہ کیا‘ ان کے اخلاص وللہیت پر شہادت دی اور انہیں یہ رتبہٴ بلند ملاکہ ان کو رسالت محمدیہ علی صاحبہا الف صلاة وسلام کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا،جیساکہ ارشاد ہے:
”محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ تراہم رکعا سجدا یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً‘ سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود‘ ‘ (الفتح:۲۹)
ترجمہ:․․․”محمد ا ‘ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور جو ایماندار آپ اکے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں شفیق ہیں‘ تم ان کو دیکھو گے رکوع‘ سجدے میں وہ چاہتے ہیں صرف اللہ کا فضل واس کی رضامندی ،ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدے کا نشان ہے“۔
گویا یہاں محمد رسول اللہ (محمد ا اللہ کے رسول ہیں) ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں حضرات صحابہ کرام کی سیرت وکردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آنحضرت ا کی صداقت میں شک وشبہ ہو‘ اسے آپ ا کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہئے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں وہ خود صدق وراستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوں گے
”کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا“
ب: حضرات صحابہ کے ایمان کو ”معیار حق“ قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی‘ بلکہ ان حضرات کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں پر نفاق وسفاہت کی دائمی مہر ثبت کردی گئی:جیساکہ ارشاد ہے:
”واذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا أمؤمن کما آمن السفہاء ألا انہم ہم السفہاء ولکن لایعلمون“۔ (البقرہ:۱۳)
ترجمہ:․․․”اور جب ان (منافقوں) سے کہا جائے‘ تم بھی ایسا ہی ایمان لاؤ جیسا دوسرے لوگ (صحابہ کرام) ایمان لائے ہیں” توجواب میں کہتے ہیں“ کیا ہم ان بے وقوفوں جیسا ایمان لائیں“؟ سن رکھو یہ خود ہی بے وقوف ہیں مگرنہیں جانتے“۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: برکاتِ رمضان
Flag Counter