کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
معذور کی تقریب اور اس کا حکم
سوال…بندہ کو گزشتہ ایک سال سے پیشاب کے بعد کچھ دیر تک پیشاب کے قطرے آتے رہتے ہیں، اندازاً10منٹ تک، اس کے علاوہ عام اوقات میں اگر شرم گاہ پر شلوار کے کپڑے کو دبایا جائے تو معمولی سا قطرہ موجود ہوتا ہے، معمولی دبانے سے قطرہ ظاہر نہیں ہوتا، خوب اچھی طرح دبانے پر معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی ہر بار نہیں، بلکہ جتنی بار چیک کروں اس میں اوسطاً نصف مرتبہ قطرہ موجود ہوتا ہے۔
جواب طلب امر یہ ہے کہ ایسی کیفیت میں، میں معذور شمار ہوں گا؟ واضح رہے کہ بندہ قید میں ہے اور بیت الخلا دوسری جگہ ہے، ہر بار حاجت کے لیے جانے پر کسی کو بلانا پڑتا ہے جو لے کر جائے اور کئی لوگوں کا ایک ہی مشترکہ بیت الخلا ہے اور نمازکے اوقات میں سب کو باری باری جانا ہوتا ہے، لہٰذا وقت کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔
میرا معمول یہ ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد کم از کم 10 منٹ تک انتظار کرتا ہوں، جب قطرے آنا بند ہو جائیں تب وضو کرتا ہوں، نماز کے لیے شلوار تبدیل کرتا ہوں اور استنجا بھی کرتا ہوں اور ہر نماز کے لیے وضو کرتا ہوں اور شلوار کو بھی دھوتا ہوں۔
1..سوال یہ ہے کہ ایک وضو سے ایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتا ہوں؟ مثلاً عصر ومغرب، یا تہجد کے لیے کیے گئے وضو سے فجر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
2..ہر بار شلوار دھونا اور استنجاء کرنا ضروری ہے؟ جب کہ پیشاب نہ کیا ہو، استنجا کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قطرے آرہے ہیں ،جب کہ جسم خشک ہونے کے بعد نہ شلوار میں کوئی اثر نظر آتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے، اسی طرح استنجا سے پہلے بھی قطرے نہ موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی محسوس ہوتے ہیں، ایسے میں جس شلوار میں صرف استنجا کیا ہو اس کو ہر بار نماز سے قبل دھونا ہو گا؟ میرا گمان یہ ہے کہ یہ صرف وسوسہ ہے، لیکن تصدیق چاہتا ہوں ۔از راہ کرم جواب مرحمت فرمائیں، الله پاک اجر عظیم عطا فرمائے اور شفا کے لیے دعا کی بھی درخواست ہے، نیز قضا نمازیں بھی اسی دوران پڑھ سکتا ہوں؟
جواب1..واضح رہے کہ آپ اپنی بیان کردہ صورت حال میں شرعاً معذور نہیں کہلا سکتے، اس لیے کہ شرعاً وہ شخص معذور کہلاتا ہے جو سلسل البول وغیرہ کی بیماری میں مبتلا ہو اور اسے کسی بھی فرض نماز کے پورے وقت میں سے اتنا وقت بھی عذرلاحق ہوئے بغیر نہ ملتا ہو، کہ جس میں وہ پاکی حاصل کرکے نماز ادا کرسکے، لہٰذا آپ پیشاب کرنے کے بعد اہتمام سے قطرے خشک کر لیا کریں، یہاں تک کہ قطروں کے خشک ہونے کا یقین ہو جائے، ہوسکے تو ٹشو پیپر کا استعمال کریں، تب وضو کرکے نماز ادا کر لی جائے، اس کے بعد محض وسوسے کی بنا پر (جب کہ کپڑے پر قطروں کے آثار نہ ہوں) وضو نہیں ٹوٹتا اور شلوار ناپاک نہیں ہوتی۔
2..قطرے نہ نکلیں تو ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔
کیا معاشرے میں رائج اسباب معیشت حرام ہیں؟
سوال… ہمیں آپ کی رائے لینے کے لیے رابطہ کرنا پڑا، آج معاشرے میں معیشت کے اسباب جتنے بھی دیکھ رہے ہیں حرام ہی نظر آرہے ہیں، کیا مسلمانوں میں کوئی کامل حلال نوکری یا کام ہے؟ جو وقت پر نماز، سچے ماحول میں جس کے ذریعہ20000 روپے تنخواہ ماہانہ، اس سے زیادہ، یا سات سو سوروپے روزانہ یا اس سے زیادہ مل سکتا ہے( چاہے ماہرفن ہو یا نہیں)؟ ہم الله سے استخارہ بھی کررہے ہیں اور ہم آپ کی خاص دعاؤں کے طلب گار ہیں، ہمارے علاقے میں پڑھے لکھے لوگ کم ہیں ،اس لیے ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں، آپ ہماری رہبری کیجیے ،از راہ کرم، حدیث پاک کا مفہوم ہے، جو مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں کوشش کرتا ہے، اس کو دس سال اعتکاف سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔ (فضائل اعمال)
جواب… یہ بات درست ہے کہ صنعتی انقلاب کے اس دور میں سود کو معیشت وتجارت کا ایک لازمی حصہ قرار دے دیا گیا ہے، اہلِ مغرب کا تویہ تصور ہے ہی، اب مسلمان تاجروں کا بھی یہ نظر یہ بن گیا ہے کہ سودی معیشت کی ہزار ہا خرابیوں کے باوجود تجارت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلم معاشرے میں سودی کاروبار کے علاوہ کوئی حلال کاروبار میسر نہیں۔
اسلام نے انسان کو روزی حاصل کرنے اور مال کمانے کی اجازت دی ہے، لیکن کمائی کے سلسلے میں دو باتوں کی خاص طور سے ہدایت دیتا ہے، ایک یہ کہ انسان خود کمائے، خود محنت ومزدوری کرے، دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، دوسرے یہ کہ وہ جو کمائے وہ حلال ہو، حرام کمائی نہ ہو۔ الله رب العزت نے مسلمانوں کو حکم دیا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ﴾․(البقرہ، آیت:172)
ترجمہ:”اے ایمان والو! جو ہم نے تم کو رزق دیا ہے اس میں سے پاک چیزوں کو کھاؤ۔“
جب کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کسبِ حلال کو ایک فریضہ قرار دیا ہے ”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة․“(السنن الکبری:236/6، ط: دارالحدیث)
ترجمہ:”حلال کمائی کا طلب کرنا، فرض عبادتوں کے بعد ایک فرض ہے۔“صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کیا اے الله کے رسول ”أي الکسب أطیب؟“ کون سی کمائی سب سے پاک ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم! نے فرمایا:”عمل الرجل بیدہ، وکل بیع مبرور“ آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ خرید وفروخت جو پاک ہو۔ آپ بطور پیشہ تجارت، شراکت، نوکری وغیرہ کو اسلامی احکام کے تحت بروئے کار لاسکتے ہیں، جو بھی پیشہ اختیار کرنے کا ارادہ ہو علماء حضرات سے مشورہ کرکے اختیار کیا جائے، تاکہ حرام کاروبار کی دلدل میں پھنس نہ جائیں اور ساتھ میں دعاؤں کا بھی اہتمام ہو۔ الله تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو رزق حلال عطا فرمائے ،حرام سے بچائے اور رزق حلال کے اسباب پیدا فرمائے۔ آمین
عقیقہ کے جانور کی کھال قصائی کو دینا جائز نہیں
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عقیقہ کے جانور کی کھال قصائی کو دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر اجرت کے عوض میں دی جائے، تو کیا اس کی قیمت واجب التصدق ہو گی؟
جواب… واضح رہے کہ عقیقہ کے جانور کے اکثر احکام قربانی کے جانور کی طرح ہیں اور قربانی کے جانور کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں ہے، لہٰذا عقیقہ کے جانور کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا درست نہیں، اگر دے دی تو اس کی قیمت کو صدقہ کیا جائے۔
پنشن ٹرسٹ، ویلفیئر ٹرسٹ، گریجویٹی ٹرسٹ، ای او بی آئی ٹرسٹ،5% ٹرسٹ کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمپنی میں مندرجہ ذیل 5 فی صد ٹرسٹ قائم کیے گئے ہیں:
1..5% ٹرسٹ۔2.. پنشن ٹرسٹ۔3.. ویلفیئر ٹرسٹ۔4.. گریجویٹی ٹرسٹ۔5.. ای او بی آئی ٹرسٹ
تمام پرائیویٹ کمپنیوں کو ایک قانون کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ اپنے منافع کا 5 فی صد منافع ملازمین کو دیں، ادارہ 5 فی صد کی رقم کو زیادہ سے زیادہ 9 ماہ تک کسی بھی بینک میں انوسٹ کرتا ہے اور 9ماہ کے بعد پرنسپل اماؤنٹ(اصل رقم انٹرسٹ یعنی منافع) کی رقم ملازمین میں تقسیم کرتا ہے، قانون کے تحت ادارے کے صرف عارضی اور مستقل کارکن (ورکرز) ہی اس 5 فی صد کے حق دار ہوتے ہیں۔ آفیسرز کو یہ رقم نہیں دی جاتی۔
1..ہمارا پہلا سوال اس مسئلے میں یہ ہے کہ منافع کی اصل رقم کے علاوہ منافع جائز ہے، ملازمین یہ منافع اور پرنسپل اماؤنٹ لے سکتے ہیں، جو کہ قانون کے تحت ادارہ ملازمین کو ادا کرتا ہے؟
2..کمپنی ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت تنخواہ اور مدت ملازمت کے تحت تمام ملازمین کو ریٹائرمنٹ/ فوتگی کے بعد پنشن ادا کرنے کا پابند ہے، ملازمین کی معلومات کے مطابق کمپنی نے اس فنڈ کی رقم کا ٹرسٹ بنایا ہوا ہے، اور اس تمام رقم کو مختلف مدوں میں انوسٹ کیا ہوا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کہیں یہ پنشن فنڈ بھی سود کے زمرے میں تو نہیں آتا اور ملازمین اس فنڈ سے مستفید ہو کر سود کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ یہ پنشن جائز ہے یا نہیں؟پنشن کی تمام رقم کمپنی کی مہیا کردہ ہے۔
3..کمپنی ماہانہ بنیاد پر تمام ملازمین سے ایک مخصوص رقم کی کٹوتی کرتی ہے، اس رقم کو بھی مختلف جگہوں پر انوسٹ کیا ہوا ہے، ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر/ بیٹا یا بیٹی کی شادی کے لیے ٹرسٹیوں کی سفارش پر کچھ رقم دیتی ہے، کیا یہ رقم بھی سود کے زمرے میں شامل ہے؟
4..گریجویٹی فنڈ کی رقم میں ملازمین کی تنخواہ سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی، یہ تمام رقم ادارے کی ہوتی ہے، ملازمین کو ان کے عہدوں اور سروس کے لحاظ سے گریجویٹی ملتی ہے، کمپنی نے اس فنڈ کو بھی مختلف بینکوں میں انوسٹ کیا ہے، آیا یہ رقم بھی سود کے زمرے میں شامل ہے یا نہیں؟
5..(ای او بی آئی) اس ٹرسٹ میں بھی ملازمین سے ماہانہ کٹوتی کرکے کمپنی گورنمنٹ پاکستان کو ماہانہ کچھ رقم دیتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ادارہ ملازمین کو ماہانہ بنیادوں پر پنشن دیتا ہے، اس نے بھی یہ رقم مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں میں لگائی ہوتی ہے، آیا یہ پنشن بھی سود تو نہیں ہے؟
جواب1—5..ملازمین کی تنخواہ کا جو حصہ کمپنی جبراً کاٹ کر مذکورہ فنڈز میں جمع کر دیتی ہے، اس پر ملنے والی اضافی رقم کا لینا جائز ہے، یہ رقم ملازمین کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، ملازم کی خدمت کا معاوضہ ہے، جو کہ اس کی ملکیت ہے، لیکن ابھی تک اس کے قبضہ میں نہیں آئی، تو اب اگر کمپنی اس کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی دیتی ہے، تو اس کا لینا او راپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
اگر ملازمین اختیاری طور پر اپنی تنخواہ کا مخصوص حصہ کمپنی کے فنڈز میں جمع کرائیں اور کمپنی انہیں بینک یادیگر ادارں میں انوسٹ کرے، تو ایسی صورت میں ملنے والی اضافی رقم کا لینا درست نہیں، اس لیے کہ یہ سود کے مشابہ ہے اور خطرہ ہے کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنا لیں گے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے اور اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ کمپنی کے وہ فنڈز جن میں ملازمین کی تنخواہ کا کوئی حصہ شامل نہیں ہوتا اور کمپنی اپنے وہ فنڈز بینک یا دیگر اداروں میں رکھ کر اس پر نفع حاصل کرتی ہے او رپھر اسے ملازمین پر تقسیم کرتی ہے، اس میں ملازمین کا عمل دخل نہیں ہوتا، بلکہ یہ انعام وعطیہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کا لینا جائز ہے۔
سوال میں مذکورہ فنڈز میں 5 فی صد ٹرسٹ، پنشن ٹرسٹ اور گریجویٹی ٹرسٹ میں ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں ہوتی، بلکہ کمپنی اپنی طرف سے وہ فنڈز ملازمین میں تقسیم کرتی ہے، لہٰذا اس کا لینا او راپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
ویلفیئر اور ای او بی آئی ٹرسٹ میں اگر ملازمین کی رقم سے جبری کٹوتی ہوتی ہے تو ریٹائرمنٹ پر اس پر ملنے والی اضافی رقم کو استعمال کرنا جائز ہے، البتہ اختیاری کٹوتی میں ملنے والی اضافی رقم میں چوں کہ شائبہ سود ہے، لہٰذا اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے اور صدقہ کر دیا جائے، البتہ اصل رقم کا لینا درست ہے۔
گاہک کو بڑھانے کی خاطر ناجائز طریقے اختیار کرنے کاحکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام، علمائے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں :
کہ ہمارے پڑوس میں ایک پرچون کی دکان ہے، اس دکان دار نے اس میں ٹی وی رکھا ہوا ہے اور وہ دکان دار دوکان میں اکثر اوقات ٹی وی چلاتا ہے، وہ دکان دار رات کے وقت اکثر ڈرامے وغیرہ چلاتا ہے او راگر کسی دن کرکٹ کا میچ ہو اس دن اس دکان میں لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے اور بہت سے لوگ کرکٹ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اب ٹی وی چلانے کے دوران دکان دار جو پیسے کماتا ہے یہ پیسے کمانا اس دکان دار کے لیے حرام ہوتے ہیں یا حلال ؟ یعنی دوکاندار کی آمدنی پر فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح اور دکان دار جو اپنی دکانوں میں میوزک وغیرہ چلاتے ہیں یہ میوزک لوگوں کوبلانے، دکان میں لانے کے لیے چلاتے ہیں۔
لہٰذا قرآن اور احادیث کی روشنی میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب… دکان دار نے کاروبار کے حجم اور گاہک کو بڑھانے کی خاطر جو طریقہ کار اختیار کیا ہے از روئے شریعت ناجائز اور قبیح فعل ہے ، اس کی وجہ سے لوگ گناہ اور ضیاع وقت میں مبتلا ہوہی جاتے ہیں او رمعاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، لہٰذا جلد از جلد اس قبیح عمل سے اجتناب کیا جائے، تاکہ گناہ کے وبال سے محفوظ رہا جاسکے۔
دکان دار کی آمدنی ناجائز نہیں ہے، تاہم اس میں کراہت ضرور ہے۔
مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان تین سے چارمنٹ کا وقفہ کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بندہ15 سال سے ماڑی پور میں امامت کے فرائض بحمدالله انجام دے رہا ہے، ہماری مسجد میں مجھ سے پہلے اور میرے اب تک کے عرصہ امامت کے دوران مغرب کی جماعت اذانِ مغرب کے اس قدر وقفہ کے بعد شروع کی جاتی ہے کہ مؤذن اذان سے فارغ ہو کر لاؤڈ اسپیکر وغیرہ درست کر لیتا ہے ، اس میں منٹ، ڈیڑھ منٹ او رکبھی کبھار دو منٹ بھی ہو جاتے ہیں، اس قدر وقفہ کا ہو جانا تو معمول ہے، البتہ اس کا اعلان نہیں کیا جاتا، ابھی مسجد کے کچھ حضرات کا خیال ہے کہ جس طرح بعض مساجد میں مغرب کی اذان کے بعد تین چار منٹ کا وقفہ کر لیا جاتا ہے اور اس کے لیے مساجد میں باقاعدہ اعلانات لگائے گئے ہیں اور مغرب کی نماز کے لیے اذان کے بعد اتنی دیر تک امام مؤذن سب انتظار کرتے ہیں، یہ طریقہ یہاں بھی شروع کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
1..مسجد میں جو طریقہ پہلے سے رائج ہے وہ افضل اور سنت کے مطابق ہے یا یہ نیا طریقہ؟
2..تین سے چار منٹ کا وقفہ اور اس کا باقاعدہ اعلان یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ وقت داخل ہونے کے بعد، مغرب کی نماز میں جلدی کرنا، چاہے سردی ہو یا گرمی، مستحب اور اقرب الی السنة ہے، کیوں کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مغرب کی نماز ادا فرما تے جس وقت سورج غروب ہو جاتا اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا، ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ ” میری امت خیر پر رہے گی جب تک مغرب کی نماز میں تاخیر نہ کرنے لگے“ اور اسی کے پیش نظر حضرات فقہا ئے کرام نے بھی تین آیات کے بقدر اور جلسہ خفیفہ سے زائد تاخیر نہ کرنے کی تصریح کی ہے۔ لہٰذا پہلے سے رائج طریقے کو ہی برقرار رکھا جائے ، تین چار منٹ تاخیر کا ضابطہ بنانے اور باقاعدہ اس کا اعلان لگانے سے اجتناب کیا جائے۔