نوجوانانِ اسلام کے لیے لمحہ فکریہ
مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
نوجوان نسل ملک وملت کے مستقبل کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے، جس پر ملک وملت کی ترقی وتنزلی موقوف ہے، یہی اپنی قوم او راپنے دین وملت کے لیے ناقابل فراموش کارنامے انجام دے سکتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان کی تباہی، قوم کی تباہی ہے، اگر نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے۔
لیکن موجودہ دور کے مسلم نوجوان کے پاس سب کچھ ہے، نہیں ہے تو صحیح اسلام نہیں ہے، صحیح ایمان نہیں ہے او راسے اپنے لٹنے پٹنے کا کوئی افسوس بھی نہیں، بلکہ وہ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“ کا مصداق ہے، اس کا لباس شرعی نہیں، اسے معلوم نہیں کہ اس کے پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : کپڑے کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہو گا، وہ دوزخ میں جلے گا۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال شرعی نہیں ہیں، اسے معلوم نہیں کہ بالوں کے سلسلے میں پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کیا ہدایات ہیں، کچھ مسلم نوجوان کے ہاتھوں میں طرح طرح کی کنگن نما چیزیں ہوتی ہیں، اسے معلوم نہیں کہ عورتوں سے مشابہت اسلام میں ممنوع ہے، اکثر مسلم نوجوانوں کو آپ دیکھیں گے کہ جیب میں موبائل ہے اور کان میں ایئر فون، نماز تو جانے دیں، اسے اذان سننے اور سن کر جواب دینے کی بھی فرصت نہیں ہے۔
آج کا مسلم نوجوان یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ شریعت نے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اس کا وجود، انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ خدائے وحدہ لاشریک لہ کی امانت ہے، لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا، اسے الله اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق استعمال کرنا، اس سے وہ کام لینا جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے او راسے نقصان وزیاں سے بچانا لازم ہے، صورت حال یہ ہے کہ انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو پہچان لیا اور جسم کو لگی بیماری کو دور کرنے کی بہت فکر کرتا ہے، مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیر لیں، وہ نماز ترک کرتا ہے، روزہ چھوڑتا ہے ، سگریٹ پیتا ہے، جام چھلکاتا ہے، گانے گاتا ہے، فلمیں دیکھتا ہے، نیٹ کا منفی استعمال کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے، احکام اسلام کو توڑتا ہے، والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور نہ جانے کیا کیا اسلام وانسانیت مخالف کام کرتا ہے، اگرچہ یہ سب غفلت وسستی کا نتیجہ ہیں، لیکن کیا ان سب کی وجہ سے اس کا دل دکھتا ہے اور کیا اسے اس بڑی او رمہلک بیماری کا احساس ہے اور کیا اس بیماری کو دور کرنے کی فکر دامن گیر ہے؟ نہیں، آخر کیوں؟ غفلت تو ویسے اسلام کے سارے شعبوں میں ہے، عقائد، احکام، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب میں گراوٹ ہے، البتہ نماز جیسی اہم عبادت میں سستی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اتنی پابندی سے بہ کثرت نماز چھوڑنے کا عادی ہے کہ بس الله کی پناہ، جب کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن، جن کے صدقہ میں ہمیں ایمان جیسی عظیم نعمت ودولت ملی، یعنی ہمارے پیارے رسول سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم رات دن فکر مند رہا کرتے تھے کہ کس طرح میرا کوئی امتی دوزخ میں نہ جائے، ہمارے نبی نے کہا: نماز مومن کی معراج ہے، نماز کفر واسلام کے درمیان حدِ فاصل ہے، نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اور فرمایا: جس نے قصداً نماز چھوڑ دی، اس نے کفر جیسا کام کیا۔ اس سے بڑھ کر خدانے کہا: نماز پڑھو اور فرمایا: بے شک نماز بے حیائی او ربری باتوں سے روکتی ہے۔ ان ارشادات عالیہ کے علاوہ کیا کوئی اور ارشاد ہو سکتا ہے، جو ہمیں نماز کا پابند بنائے؟ آج نماز، جسے اسلام کے ستون کی حیثیت حاصل ہے، اس سے اتنے نوجوان غافل ہیں کہ بقول ایک بڑے شخص کے کہ: آج لوگ اتنی کثرت سے نماز ترک کرنے کے عادی ہیں کہ آئندہ اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اغیار یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ نماز کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ بس ویسے ہی اختیاری عبادت ہے، سوال ہو گا کیوں؟ کیوں کہ اگر نماز ضروری عبادت ہوتی تو سارے مسلمان پڑھتے، حالاں کہ سب نہیں پڑھتے، ایسا ہو سکتا ہے خدا نہ کرے، اس کی ایک مثال ہے ، کئی سال پہلے ایک کالج میں ایک مسلم نوجوان کو داڑھی رکھنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا، اس نے ہائی کورٹ میں اس کے خلاف عرضی داخل کی، مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی، اس مسلم نوجوان کے وکیل نے مختلف دلائل کی روشنی میں داڑھی اسلام کا شعار ہے، کو ثابت کرنا چاہا، اخیر میں جج نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا کہ اسلام میں داڑھی بہت اہم اور لازمی چیز نہیں، کیوں کہ اگر لازمی چیز ہوتی، جیسا کہ آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے چہرے پر داڑھی ضرور ہوتی، کیوں کہ آپ بھی مسلمان ہیں۔ اس معاملہ کا کیا ہوا، وہ الگ قصہ ہے، لیکن اس جج کا تبصرہ اتنا دل شکن ہے کہ ہم مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے، آج مسلم نوجوان جمعہ وعیدین میں تو حاضر ہو جاتے ہیں، یہ بھی الله کا کرم ہے، لیکن وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جس خدا نے جمعہ وعیدین کو ضروری قرار دیا ہے، اسی خدا نے روزانہ پانچ نمازوں کو بھی فرض قرار دیا ہے، ہمارے ایمان کی بنیاد میں وہ کم زوری کیاہے جس کی وجہ سے یہ تفریق ہو جاتی ہے؟
دعوت وتبلیغ اور اصلاحی جلسے جلوسوں میں بھی کمی نہیں ہے، کمی ہے تو خود مسلم نوجوانوں میں او ربنیادی کمزوری عقائد کا صحیح نہ ہونا ہے، احکام، عقائد پر موقوف ہوتے ہیں، اگر عقائد میں پختگی ہوگی تو احکام میں سستی شاذ ونادر ہو گی، خدا کی وحدانیت اور رب کی ربوبیت ،اس کی قہاریت وجباریت کا استحضار نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے انسان کے اندر اپنے خالق ومالک کی وہ محبت پیدا نہیں ہوتی جو مطلوب ہے اور جو خالق ومالک کی عبادت پر انسان کو مجبور کرتی ہے او رجس کی وجہ سے انسان رب چاہی زندگی بسر کرتا ہے، کیوں کہ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے محبوب کی مرضی کے خلاف کام کیا تو ایک طرف تو میں دعویٰ محبت میں جھوٹ کہلاؤں گا اور دوسری طرف میرا محبوب مجھ سے خفا ہو جائے گا، جس کی وجہ سے اس کے قرب سے محرومی ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس محبوب کو تو ذرے ذرے کا علم ہے، دلوں میں پوشیدہ جذبات اور دماغ میں چھپے ہوئے خیالات سب کا علم ہے اور جہاں یہ چیز مقصود ہوتی ہے، وہاں احکام اسلام کی بجا آوری میں خلل واقع ہو جاتا ہے، آج مسلم نوجوانوں کی اکثریت اس بنیادی کمزوری کا شکار ہے اور اس کا دل مالک حقیقی کی محبت سے یکسر خالی تو نہیں، لیکن غیر الله کی محبت غالب ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، ظاہر سی بات ہے، ایک دل میں محبت کے کئی آشیانے نہیں ہو سکتے، اب جس کی محبت غالب ہوتی ہے، انسان اس کی مرضی کے خلاف کام نہیں کرتا او راگر اس کی مرضی کے خلاف کام ہو گیا تو اسے منانے کی ہزار کوششیں کرتا ہے۔
آج کا نوجوان دن بھر کی مصروفیات جس میں نماز کی مصروفیت نہیں ہوتی، سے تھکتا ہے تو سکون کی تلاش میں ٹی وی اور نیٹ پر وقت گزارتا ہے، یا سکون بخش اور سکون آور گولیاں لیتا ہے، لیکن اسے یہ نہیں سمجھ میں آتی کہ سکون، بلکہ حقیقی سکون ذکر ونماز میں ہے، نماز کو رہنے دیجیے، مختلف جگہوں پر کام کرنے والے کچھ مسلم نوجوان ایسے بھی ملیں گے جو پاکی کو ضروری نہیں سمجھتے، وہ کھڑے کھڑے بھی شروع ہو جاتے ہیں، مسلم نوجوان کے دوستوں کو شمار کریں تو اکثر غیر مسلم، بدکردار اور بداخلاق ملیں گے، ظاہر سی بات ہے، انسان پر اچھی اور بری صحبتوں کا اثر پڑتا ہے، حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ فرمایا کہ وہ شخص ہے جو تمہیں نیک کام کرتے ہوئے دیکھے، تو تمہاری مدد کرے اور برا کام کرتے ہوئے دیکھے تو تنبیہ کرے، اس معیار کے ہمارے مسلم نوجوان کے کتنے دوست ہیں؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
مغربی ممالک سے آئی ہوئی ہر چیز ہمارے مسلم نوجوان کو لائق تقلید معلوم ہوتی ہے، اس پر فیشن پرستی کا ایسا بھوت سوار ہے کہ اسے سنت رسول میں کوئی خاص دلچسپی نہیں، وہ یہود ونصاریٰ کی اندرونی سازشوں سے بے خبر ہے، اسے معلوم نہیں کہ یہود ونصاریٰ کا سب سے بڑا ہدف، مسلم قوم کے عقائد خراب کرنا، ان کے اخلاق اور نظام زندگی اور دینی ذوق کو برباد کرنا ہے، یہ سرد مہری مسلم نوجوان کو کہاں لے جائے گی، کہنا مشکل نہیں، ایک اقتباس پڑھیے اور حالات کی سنگینی کا انداز کیجیے۔
اے نوجوان! سن لو! تمہاری تباہی کے لیے یہود نصاریٰ کانفرنسیں کررہے ہیں، کئی کئی ممالک میں تمہاری تباہی کے لیے دماغ لڑائے جارہے ہیں، تمہارے لیے سازشیں ہو رہی ہیں ، سن لو! نوجوان ہی قوموں کے عروج وزوال کا سبب بنتا ہے، آئیے! اب ذرا آج کے نوجوان کو دیکھتے ہیں، آج وہ اپنا وقت شراب نوشی اور انٹرنیٹ کی فحش ویب سائٹس اور مغرب کی اندھی تقلید میں گزار رہا ہے، کل کے نوجوان کے ہاتھ قرآن پاک کے نسخے سے مزّین تھے، آج اس کے ہاتھ اشتراکیت، کمیونزم اور دوسرے مذاہب کی کتابوں اور فحش اور عریاں رسالوں سے کھیل رہے ہیں اور وہ قرآن کو فرسودہ اور رجعت پسند لوگوں کا نظام سمجھتا ہے، کل جس زبان سے نعرہٴ تکبیر اور کلمہ توحید کے نعرے بلند ہو رہے تھے، آج اس زبان سے بے غیرتی اور بے حیائی کے نعرے سنائے جارہے ہیں، افسوس! کہ آج ہمارا نوجوان کہا ں جارہا ہے؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے؟ ( نوجوان تباہی کے دہانے پر، ص:26)
اس گئے گزرے دور میں اگر کسی سے کچھ امید کی جاسکتی ہے تو وہ ہیں مدارس اور مدارس کے نوجوان طلبہ، آپ مدارس سے تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں اور موجودہ دور کے ماڈرن ، فیشن پرست نوجوان کے حالات کا جائزہ لیں تو اسلامی روح کانپ جائے گی، مدارس کا وجود ، خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، واقعی یہ اسلامی قلعے اور اسلام کا پاور ہاؤس ہیں، تہجد، اشراق، چاشت ، اوابین اور دیگر سنن ونوافل اور دیگر عبادات ومعاملات کی بزم آرائی انہیں سے ہے ، غم خواری، صلہ رحمی، ایثار، تقویٰ وطہارت او رخلوص وللہیت کی جھلک دیکھنی ہو تو یہاں کے پڑھے ہوئے طلبہ کرام کو دیکھیں، گویا یہ طلبہٴ مدارس ، دیگر غافل نوجوان مسلمان کا کفارہ ادا کررہے ہیں ، الله انہیں سلامت رکھے، اب انہیں نوجوان طلبہٴ مدارس کو یہ عزم وحوصلہ لے کر اٹھنا ہو گا کہ وہ ان نوجوانوں کی، گناہوں کے تلاطم میں پھنسی ہوئی کشتی کو ساحل سکون تک پہنچائیں گے کہ مرکزِ توجہ اور مرکزِ امید یہی طلبہ ہیں اور یہی حزب الله کا ایک حصہ ہیں، خدا مزید ہمت وحوصلہ دے!