Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 17
حضرت ابراہیم عليه السلام کا نمرود سے مناظرہ

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللّہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِن بَعْدِہِم مِّن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَلَکِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْہُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْہُم مَّن کَفَرَ وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَکِنَّ اللّہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:253)
یہ سب رسول فضیلت دی ہم نے ان میں بعض کو بعض سے، کوئی تو وہ ہے کہ کلام فرمایا اس سے الله نے اور بلند کیے بعضوں کے درجے اور دیے ہم نے عیسی مریم کے بیٹے کو معجزے صریح اور قوت دی اس کو روح القدس یعنی جبرائیل سے، اوراگر الله چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ جو ہوئے ان پیغمبروں کے پیچھے بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کے پاس صاف حکم، لیکن ان میں اختلاف پڑ گیا، پھر کوئی تو اس میں ایمان لایا او رکوئی کافر ہوا اور اگر چاہتا الله تو وہ باہم نہ لڑتے، لیکن الله کرتا ہے جو چاہے

ربط آیات:طالوت وجالوت کا واقعہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے معلوم ہوا جو آپ کے نبی ہونے کی واضح علامت ہے، اس قدر واضح نشانی کے باوجود کفار آپ کی نبوت پر تردد کا شکار تھے ، جس کا طبعی غم آپ کو لاحق رہتا ، ان آیات میں تسلی دی گئی ہے کہ آپ سے قبل بھی انبیا ورسول مبعوث ہوئے، جو فضائل وکمال کے مختلف درجات پر قائم تھے، ان کے پاس بھی نبوت کی واضح علامتیں تھیں، لیکن کسی نے موافقت کی تو کسی نے مخالفت، حق وباطل کی آویزش کا یہ سلسلہ روز ازل سے جاری ہے۔

تفسیر:انبیا علیہم السلام میں فرقِ مراتب
الله تعالیٰ کے تمام رسول نفسِ رسالت میں او رتمام انبیا نفسِ نبوّت میں برابر کے شریک ہیں، لیکن فضائل وکمالات، مراتب ومقامات میں باہم مختلف ہیں، کسی کی نبوّت محدود زمانے کے لیے تھی، کسی کی مخصوص قوم کے لیے، کسی کے امتی بے شمار ، کسی کے نہ ہونے کے برابر ،کوئی ایک کمال سے متصف، کوئی دوسرے شرف سے بامشرّف، صرف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات مجموعہ کمالات ہے ،آپ کی نبوت جن وانس اور ابد تک کے لیے ہے، آپ کو قرآن کریم جیسی معجز کتاب دی گئی، آپ سے سفر معراج میں انبیا ورسل کی امامت کرائی گئی ،ختم نبوت کا تاج آپ کے سر پر سجایا گیا ہے، اہل سنت والجماعت کے نزدیک آپ عليه السلام تمام انبیا علیہم السلام پر فضیلت رکھتے ہیں۔(نبراس:286) یاد رہے اس تفاوت مراتب کے باوجود سب انبیا ورسل، مخلوق کے لیے یکساں واجب الاحترام ہیں، کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک تمام انبیا ورسُل پر بصدق دل ایمان نہ لائے ۔ کسی نبی کے فضائل میں ایسا انداز بیان اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسرے انبیا کے متعلق توہین آمیز پہلو نکلتا ہو۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بارے میں دوسرے انبیا علیہم السلام سے ترجیح دینے سے منع فرمایا۔ (صحیح بخاری، باب وفاة موسیٰ، رقم الحدیث:3408)

حضرت عیسی عليه السلام کے متعلق نصرانی عقیدے کی تردید
﴿وَآتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَات﴾… حضرت عیسی عليه السلام، الله تعالیٰ کے جلیل القدر نبی ہیں، ان کے ہاتھوں سے غیر معمولی معجزات کا صدور ہوا، نصاری نے ان معجزات کو آپ کا ذاتی کمال سمجھ کر آپ کو شان الوہیت کا حامل قرار دیا ۔ اس آیت میں ”آتَیْْنَا“ کے لفظ سے بتایا گیا کہ ان کے پاس جو کمالات تھے ان کے ذاتی نہیں تھے، بلکہ ہمارے عطا کردہ تھے ،نیز وہ خدا تھے،نہ خدا زادہ، بلکہ ابن مریم ( مریم علیہا السلام کے فرزند) تھے، گوشت پوست سے بنے انسان تھے ،قرآن کریم نے حضرت عیسی عليه السلام کا تعارف ابن مریم سے فرماکر نصرانی عقیدے ”ابن الله“ پر ضرب لگائی ہے۔ نیز فرمایا ہم نے ان کی روح القدس کے ذریعے مدد کی، یعنی وہ محتاج تھے اور محتاج خدا نہیں ہوتا، روح القدس سے حضرت جبرائیل عليه السلام مراد ہیں ۔

آپ عليه السلام کو”بَیِّنَات“ کھلے معجزات دیے گئے ،جنہیں دیکھ کر ہر عقلِ سلیم رکھنے والا اور منصف مزاج شخص آپ کی نبوت کا قائل ہو جاتا، لیکن اس کے باوجودا ن سے اختلاف کرنے والوں کی کمی نہ تھی۔

اختلاف وقتال کی حکمتیں الله تعالیٰ ہی جانتے ہیں
اگر الله تعالیٰ چاہیں تو اپنے ارادے او رمشیّت سے سب کو ایمان کی دولت سے نوازیں دیں اوراختلاف وقتال کی نوبت ہی نہ آئے ، لیکن الله تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے، جس کا تقاضا یہی ہے کہ نیکی اور بدی کے انتخاب میں ہر شخص کو مکمل اختیار ہو، کسی پر کوئی جبر نہ ہو ، جب نیکی کی دعوت اٹھتی ہے تو برائی اپنے دفاع کے لیے بالمقابل آتی ہے اور زبان وبیان سے شروع ہونے والا اختلاف بالآخر میدان قتال تک پہنچتا ہی ہے۔اس کی مصلحتوں او رحکمتوں سے الله تعالیٰ کی ذات ہی پوری طرح واقف ہے:﴿وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَکِنَّ اللّہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْد﴾․

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ، اللّہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّہُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ یَؤُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:255-254)
اے ایمان والو! خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی پہلے اس دن کے آنے سے کہ جس میں نہ خریدوفروخت ہے اور نہ آشنائی اور سفارش اور جو کافر ہیں وہی ہیں ظالم الله اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، سب کا تھامنے والا ،نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند ،اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے، ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس؟ مگر اجازت سے، جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کرسکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے، مگر جتنا کہ وہی چاہے، گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں او رزمین کو اورگراں نہیں اس کو تھامنا ٰان کا اور وہی ہے سب سے برتر، عظمت والا

ربط آیات:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ…﴾ گزشتہ آیات میں بتایا گیا تھا کہ حق وباطل میں جنگ وجدال کا سلسلہ جاری رہے گا، ظاہر ہے اس کے لیے جانی قربانیوں کی طرح مالی قربانی کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اس آیت میں اسی کی ترغیب دی گئی ہے۔

انفاق فی سبیل الله میں جلدی کیجیے
زندگی نیکیاں جمع کرنے اور مال ومتاع کو مصارف خیر میں صرف کرنے کا بہترین موقع ہے، آنکھیں بند ہوتے ہی یہ مہلت ختم ہوجائے گی، اس لیے دنیا کی متاع حقیر کو آخرت کے لازوال خزانے میں تبدیل کرنے کے لیے دنیا کے ہر لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہیے، دنیا کی ہر چیز درہم ودینار سے یا تعلقات سے حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن روزِ آخرت میں جزا وسزا سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ کار گر نہ ہو گا ” ولاشفاعة“ کے لفظ سے اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔

اللّہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوم
ربط: گزشتہ آیت میں روزِ آخرت کی اجمالی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ وہاں کسی کو دم مارنے کی گنجائش نہیں ہو گی، نہ ہی کوئی حیلہ اور وسیلہ کار گر ہو گا، یہ حالات جان کر عظمت الہی کا تصور دل ودماغ پر چھاجاتا ہے، اسی مناسبت سے آگلی آیت میں صفات باری تعالیٰ کا تذکرہ کرکے اس کی مزید تشریح کی گئی ہے۔

آیت الکرسی کے فضائل
احادیث میں آیت الکرسی کے بڑے فضائل مذکور ہیں:
حضرت اُبیّ بن کعب رضي الله عنه سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے ابو منذر ( یہ آپ کی کنیت تھی)! تم جانتے ہو ؟ کہ کتاب الله میں کون سی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے؟ انہوں نے فرمایا: الله اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ عليه السلام نے دوبارہ استفسار فرمایا تو حضرت اُبیّ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ آپ عليه السلام نے فرمایا:اے ابو منذر! الله تجھے تمہارا علم مبارک کرے ،اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، قیامت کے دن اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اور عرش کے پائے سے لگی شہنشاہ حقیقی کی پاکی بیان کرے گی۔ (مسند احمد بن حنبل: رقم الحدیث:20771) ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس آیت کو قرآن کریم کی تمام آیتوں کا سردار قرار دیا ہے ۔ (مستدرک حاکم:2059) ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رات کو سوتے وقت اس آیت کو پڑھ لے وہ صبح تک شیطان سے محفوظ ہو گا۔ (صحیح بخاری: رقم الحدیث:2059)

اس کے علاوہ نمازوں کے بعد پڑھنے پر کئی فضائل منقول ہیں۔

الله تعالیٰ کی صفات مبارکہ
آیت الکرسی کی ابتدا توحید سے ہو رہی ہے ”لا إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ“ مسلمان کا عقیدہ توحید صاف، نکھرا اور واضح ہے۔ اس میں شرک کی کوئی آمیزش نہیں ہوتی۔”الْحَیُُّّ“ صفت حیات سے متصف، اسے کبھی نیند آئی ہے نہ اُونگھ اور نہ کبھی موت آئے گی، دنیا کے اکثر مذاہب میں معبود کے مرنے اور جینے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ ہندؤوں کے ہاں اوتاروں کا مرنا اور پھر جنم لینا اسی عقیدہ کی زندہ مثالیں ہیں اور مسیحیوں کا خدا صلیب پر جان سے گیا۔ موت سے ہم کنار ہونے والے معبود بننے کے مستحق نہیں ہیں۔

”الْقَیُّومُ“ اسی چیز کو کہتے جس کی کوئی ابتدا نہ ہو شروع سے موجود ہو ۔ پھر وہ دوسروں کو سنبھالے ہوئے ہو ۔ سب اپنے وجود میں اس کے محتاج اور وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔”لاَ تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ “ اُونگھ اور نیند سے مستغنی، ہندؤوں کے ہاں اوتار اُونگھتے بھی ہیں، سوتے بھی ہیں، مسیح اور یہودیوں کے ہاں تو الله تعالیٰ نے چھے روز میں آسمان وزمین پیدا کیے تو ساتویں روز اسے سستانے کی ضرورت پڑگئی تھی۔ ان تمام فاسد خیالات کی تردید ہو رہی ہے۔”لَّہُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ…“ کل موجودات ومعدومات کا مالک ، روز قیامت اس کی اجازت کے بغیرکسی میں سفارش کی ہمت ہی نہ ہو گی، تمام مخلوقات کے تمام جہات، غائب حاضر، مدرک، غیر مدرک محسوس، معقول، ماضی، حال، استقبال سب کا علم رکھتا ہے۔”وَسِعَ کُرْسِیُّہ“ اس کے علم نے آسمان وزمین کا احاطہ کر رکھا ہے، کرسی کا وہ معنی نہیں جو اردو میں متعارف ہے، کیوں کہ وہ جسم سے پاک ہے ،اسے کرسی کی ضرورت ہی نہیں۔

یہاں کرسی کا معنی ہے علم الہٰی ،یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور متعدد مفسرین نے انہیں کی پیروی کی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر، البقرہ ذیل آیت:255) کرسی کے اصلی معنی بھی علم کے ہیں، علمی صحیفوں کے لیے ”کُرْسِیُّہ“ کا لفظ مستعمل ہے۔کرسی کا دوسرا معنی قدرت وحکومت بھی ہے، کئی مفسرین نے یہ معنی بھی مراد لیے ہیں ، یعنی اس کی حکومت نے پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ( معالم التنزیل، البقرة ذیل آیت:255)”عَلِیٌّ عَظِیْمٌ“ یہ دو الفاظ دو مختلف صفات پر دلالت کرتے ہیں ”‘عَلِیُّ“ یعنی تمام صفات نقص کی نفی اور”عَظِیْمٌ“ تمام صفات کمال کے اثبات پر دلالت کرتا ہے۔ (روح المعانی، البقرة، ذیل آیت:255)

﴿لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ،اللّہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ یُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ أَوْلِیَآؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:257-256)
زبردستی نہیں دین کے معاملہ میں، بے شک جدا ہو چکی ہے ہدایت گم راہی سے، اب جوکوئی نہ مانے گم راہ کرنے والوں کو اور یقین لاوے الله پر تو اس نے پکڑ لیا حلقہ مضبوط، جو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سب کچھ سنتا جانتا ہے الله مدد گار ہے ایمان والوں کا، نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف او رجو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق ہیں شیطان، نکالتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف، یہی لوگ ہیں دوزخ میں رہنے والے ،وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے

ربط آیات:گزشتہ آیات میں پہلے حضور صلی الله علیہ وسلم کی رسالت بیان کی گئی، پھر الله تعالیٰ کی توحید وصفات کا تذکرہ کیا گیا، توحید ورسالت دین اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ اسے بیان کرکے اب بتایا جارہا ہے کہ ان عقائد کو اختیار کرنے میں جبر نہیں۔

قبول دین میں کوئی جبر نہیں ہے
الله تعالیٰ نے ایمان وکفر میں سے کسی کو بھی اختیا رکرنے میں پوری طرح چھوٹ دی ہے ، ہدایات کے واضح ہوچکنے کے بعد فطرت سلیمہ خود اس کی طرف بڑھتی ہے اور فطرت خبیثہ کفر پر قائم رہتی ہے ۔ اس آیت سے علماء نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ کفار کو زبردستی مذہب تبدیل کراکے مسلمان بنانا جائز نہیں۔ کیوں کہ الله تعالیٰ نے کوئی سابھی دین قبول کرنے پر جبر روا نہیں رکھا۔ بعض علماء کے نزدیک ”لاَ“ نہی کے معنی میں ہے۔ یعنی دین کے معاملے میں زبردستی مت کرو۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة ذیل آیت:256)البتہ قبول اسلام کے بعد احکامات شریعت پر عمل کرنے نہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، نہ ہی ارتداد کا اختیار ہے۔

”فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ…“ ”طاغوت“ گم راہ کرنے والے ہر فرد اور اطاعت الہٰی سے روکنے والے ہر سبب کو کہتے ہیں، اس میں شیطان اور انسانوں کو خدا کی نافرمانی کی طرف دھکیلنے والا ہر شخص، جماعت، ادارہ شامل ہے، یعنی جو شخص طاغوت کا انکار کرکے دین اسلام اور احکام شریعت کو تھام لے گا اس کے ہاتھ میں دنیا وآخرت کی کام یابی کا سہارا آجائے گا۔

اللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ
ربط: دین اسلام کے قبول کرنے پر اختیار دینے کے بعد ان لوگوں کی تعریف کی جارہی ہے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا اور کفار کی مذمت بیان کی جارہی ہے۔

تفسیر: الله ایمان والوں کا ساتھی ہے
”وَلِیّ“ کے معنی دوست اور بگڑی بنانے والے کے ہیں ، یعنی الله تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے ان کی بگڑی بنا دیتا ہے، ہربُرے وقت میں ان کی مدد کرتا ہے۔ انہیں نیکیوں کی توفیق دیتا ہے۔

کافروں کے دوست ”طاغوت“ ہیں، جو انہیں خدا کی نافرمانی پر قائم رکھتے ہیں، یہی دوستی انہیں جہنم میں لے جائے گی، جہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیِیْ وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللّہَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:258)
کیا نہ دیکھا تونے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت؟ اسی وجہ سے کہ دی تھی الله نے اس کو سلطنت، جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے او رمارتا ہے، وہ بولا میں بھی جِلاتا اور مارتا ہوں، کہا ابراہیم نے کہ بے شک الله تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے، اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے!! تب حیران رہ گیا وہ کافر اور الله سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو

ربط:اس آیت کریمہ سے دو واقعے بیان کرکے بتلایا جارہا ہے کہ الله تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو گم راہی کی اندھیر نگری میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑتا، بلکہ انہیں ہدایت کی روشن راہوں پہ لے آتا ہے، اس کے برعکس طاغوت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہمیشہ ضلالت کے اندھیروں میں سرگرداں رہتے ہیں۔

تفسیر:پہلا واقعہ،حضرت ابراہیم ں کا بادشاہِ وقت سے مناظرہ
حضرت ابراہیم عليه السلام نے بت پرست خاندان اور ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، ایسے معاشرے میں ہمیشہ بادشاہِ وقت کو جھوٹے خداؤں کا مظہر اور اوتار سمجھا جاتا ہے، اس دور کے بادشاہ نمرود کو بھی یہی دعوی خدائی تھا اور غرور سطلنت کے نشے میں لوگوں سے اپنے لیے سجدے کراتا تھا، حضرت ابراہیم عليه السلام نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، جس پر اس نے حضرت ابراہیم عليه السلام سے پہلا سوال یہ کیا۔ میرے علاوہ کس کو رب مانتے ہو؟ آپ عليه السلام نے فرمایا ”میرا رب وہ ہے جوزندہ کرتا ہے او رموت دیتا ہے۔ “ حضرت ابراہیم عليه السلام کا یہ جواب بالکل واضح تھا، کسی تشریح کا محتاج نہیں ہے ،بے جان چیز میں جان ڈالنے کا نام ”زندہ کرنا“ اور جان نکالنے کا نام ” مردہ کرنا“ ہے۔ یہ ذات باری تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، لیکن کوڑھ مغز نمرود اس حقیقت کو نہ بھانپ سکا اور کہنے لگا یہ عمل تو میں بھی کر سکتا ہوں ، بادشاہ ہونے کے ناطے اپنے فیصلے کے نفاذ پر مکمل اختیار رکھتاہوں، جس کا چاہوں سر قلم کرا دوں، جسے چاہوں جان بخشی کا پروانہ دے دوں۔ حضرت ابراہیم عليه السلام جان گئے یہ میرے مدعا کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،یا سمجھ چکا ہے، لیکن بحث کو طول دے کر الجھانا چاہتا ہے ، اس لیے آپ عليه السلام نے باری تعالیٰ کی دوسری صفت بیان فرمائی کہ میرا رب وہ ہے جو مشرق سے سورج نکالتا ہے، تم ذرا مغرب سے نکال کر دکھاؤ، نمرود حجّتِ ابراہیمی کا یہ وار سن کر بوکھلا گیا ،چیلنج کا جواب دینے سے عاجز آگیا، اگر وہ چاہتا تو الٹا یہ چیلنج حضرت ابراہیم عليه السلام کو دے سکتا تھا کہ مشرق سے سورج تو میں نکالتا ہوں، تم اپنے رب سے کہو مغرب سے نکال کر دکھائے، لیکن یہ جرأت بھی نہ ہوئی، کیوں کہ اسے یقین تھا اگر یہ چیلنج حضرت ابراہیم عليه السلام کو دیا تو ان کا رب سورج کو مغرب سے نکال دے گا، جس سے میرے جھوٹے دعوؤں کے تار پول کھل جائیں گے اور جھوٹی خدائی کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے، اس لیے نہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت اور نہ دینے کی جرات ، توحیدبار ی تعالیٰ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی، لیکن اقتدار کے گھمنڈ نے قبولِ حق کی توفیق نہیں دی۔

﴿أَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ أَنَّیَ یُحْیِیْ ہََذِہِ اللّہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَأَمَاتَہُ اللّہُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْماً أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی العِظَامِ کَیْْفَ نُنشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوہَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:259)
یا نہ دیکھا تونے اس شخص کو کہ گزرا وہ ایک شہر پر اور وہ گرا پڑا تھا اپنی چھتوں پر؟ بولا کیوں کر زندہ کرے گا اس کو الله؟ مرگئے پیچھے، پھر مردہ رکھا اس شخص کو الله نے سو برس، پھر اٹھایا اس کو، کہا تو کتنی دیر یہاں رہا؟ بولا میں رہا ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم ،کہا نہیں بلکہ تو رہا سو برس۔ اب دیکھ اپنا کھانا اورپینا سڑ نہیں گیا اور دیکھ اپنے گدھے کو او رہم نے تجھ کو نمونہ بنانا چاہا لوگوں کے واسطے اور دیکھ ہڈیوں کی طرف کہ ہم ان کو کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں، پھر ان پر پہناتے ہیں گوشت، پھر جب اس پر ظاہر ہوا یہ حال تو کہہ اٹھا کہ مجھ کو معلوم ہے کہ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر:دوسرا واقعہ: حضرت عزیر عليه السلام کے فوت ہونے اور زندہ ہونے کا
قرآن کریم نے تصریح نہیں کی کہ ”الذّی مرّ“ سے کس شخص کا قصہ بیان کیا جارہا ہے، تاہم حضرت علی بن ابی طالب رضي الله عنه او رجمہور مفسرین کے نزدیک یہ قصّہ حضرت عزیرعليه السلام کا ہے ، جب ان کا گزر بیت المقدس سے ہوا، جو مجوسی بادشاہ بخت نصر کے ظالمانہ حملوں سے اجڑ چکا تھا ، اس اجڑے دیار کی ویرانی کے مناظر دیکھ کر عالم تحیر میں ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ”الله تعالیٰ اس بستی کو فنا کے گھاٹ اترنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟“ حضرت عزیر علیہ السلام پکے اور سچے مؤمن تھے اور ایمان ویقین کی دولت سے بہرہ ور تھے، انہیں قیامت کے روزدوبارہ زندہ ہونے پر کوئی تردد نہ تھا، اس جملے سے انہوں نے قدرت الہٰی پراستعجاب کا اظہار کیا، جو ایمان کے منافی نہیں ہے ، الله تعالیٰ نے ان پر موت طار ی کر دی، جو سو سال تک محیط رہی، سو سال بعد انہیں حیات نو دے کر بتایا گیا کہ روز قیامت اسی طرح نئی زندگی دی جائے گی ، دوبارہ زندہ ہونے کے بعدان سے سوال ہوا آپ کتنا عرصہ موت کی نیند سوتے رہے؟ آپ نے فرمایا ایک دن یا اس سے کم ، ان کے زادِ راہ پر توجہ دلائی گئی، جو بالکل تازہ،باسی پن سے محفوظ، اپنی سابقہ حالت پر موجود تھا، جب کہ ان کی سواری گدھے کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں ، خدا نے اپنی قدرت کا مشاہدہ حضرت عزیر عليه السلام کو کرایا، گدھے کی ہڈیاں آ پس میں ملنے لگیں ، گوشت چڑھنے لگا، روح لوٹ آئی اور وہ زندہ ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، قدرت الہٰی کا یہ کرشمہ دیکھ بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا” میں یقین رکھتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے۔“

واقعہ عزیر عليه السلام سے عدمِ سماعِ انبیا عليه السلام پر استدلال کیا جاسکتا ہے؟
اس مسئلے پر بحث پڑھنے سے قبل یہ جان لیجیے کہ ”اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اور تمام انبیا علیہم السلام اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اپنی اپنی قبروں میں دنیا والے جسم کے ساتھ زندہ ہیں، ان کی روح قبر میں لوٹا دی گئی ہے ، عالم برزخ میں ان کو جو حیات حاصل ہے وہ شہید کو ملنے والی حیات سے زیادہ قوی ہے ، گنبد خضراء پر جو درود پڑھا جاتا ہے اسے آپ صلی الله علیہ وسلم بنفس نفیس خود سماعت فرماتے ہیں اور دور سے پڑھے گئے درود وسلام فرشتوں کے واسطے سے آپ تک پہنچائے جاتے ہیں۔“

جو شخص انبیا علیہم السلام کی حیات برزخیہ کو تسلیم نہ کرے وہ اس مسئلے میں اہل سنت والجماعت سے خارج ہے ، ایسے گم راہ لوگ اپنے دعوی میں حضرت عزیرعليه السلام کے مذکورہ واقعے سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک نبی پر سو سال کا عرصہ عالم برزخ میں گزرا، لیکن انہیں عالم دنیا کے انقلابات کا پتہ نہیں چل سکا، جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ انبیا علیہم السلام اپنی قبروں میں عالم دنیا سے لاتعلق رہتے ہیں، ان میں سننے کی کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔

اہل زیغ کا یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے، بلکہ اس آیت سے اپنے عقیدے کا استدلال کرنا ہی ان کے فہم نارسا کی دلیل ہے کیوں کہ…
پہلی وجہ… قرآن کریم کی آیت :﴿ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَة﴾ میں کوئی تصریح نہیں کہ اجڑی بستی سے گزرنے والا شخص کون تھا، تفسیری روایات میں کئی نام آتے ہیں، مثلاً ابن سحاق فرماتے ہیں کہ یہ خضر علیہم السلام تھے ، حضرت وہب فرماتے ہیں یہ ”ارمیا“ تھے۔ (النکت والعیون، البقرة تحت آیة رقم:259) حضرت مجاہد رحمہ الله فرماتے ہیں یہ بعثت اخروی پر شک وشبہ کرنے والا کوئی کافر شخص تھا، اکثرمعتزلہ اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔ (التفسیر الکبیر للرازی،البقرة تحت آیة رقم:259) حضرت علی رضي الله عنه ،حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں یہ حضرت عزیرعليه السلام تھے، اکثر مفسرین اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:259) یہاں تک تو تفسیری روایات میں ناموں کا اختلاف تھا، اس اختلاف سے قطع نظر اگر یہ تسلیم کر لیا جائے، یہ حضرت عزیر ہی تھے، پھر بھی انبیا علیہم السلام کے عدم سماع پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ،کیوں کہ حضرت عزیر عليه السلام کی نبوت میں بھی اختلاف ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ وہ نبی تھے یا نہیں ؟ (سنن ابی داؤد، باب فی التخییر بین الانیباء علیہم السلام رقم:4676) ایسے ظنی دائروں میں عقیدے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ؟

دوسری وجہ… معجزات سے عقائد کا اثبات نہیں ہوتا
اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے ان ظنیّات کو قطعیّات فرض کر لیں تو بھی عدم سماع انبیاعلیہم السلام کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ کیوں کہ مذکورہ واقعہ اوّل تا آخر معجزہ ہی معجزہ ہے ، کیوں کہ سو سال کے عرصے میں ہواؤں کے جھکڑ بھی چلیں ہوں گے ، آندھیوں اور طوفانوں کا گزر بھی ہوا گا، بہار وخزاں کے موسموں نے بھی اپنے رنگ دکھائے ہوں گے، بایں ہمہ ان کے زاد راہ پر کوئی فرق نہ پڑا ، نہ موسمی اثرات مرتب ہوئے نہ گردوغبار نے ڈیرے جمائے ،صرف ان کی سواری نے موسمی اور فطرتی اثرات قبول کیے، جس کی ہڈیاں وہاں بکھری پڑی تھیں ، اب سوچنے کا مقام یہی ہے کہ اگر گدھے کے گلنے سڑنے میں انقلابات عالم کا اثر تھا تو پھر زادِ راہ کیوں محفوظ رہا ؟ یہ حقیقت جاننے کے لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ پورا واقعہ خرقِ عادت کے زیر اثر رونما ہوا ہے، جسے معجزہ کہا جاتا ہے او رمعجزہ سے کبھی عقائد کے مسائل استنباط نہیں کیے جاتے۔

تیسری وجہ… عارضی موت میں برزخ کے احوال جاری نہیں ہوتے
بالفرض اسے معجزہ تسلیم نہ کیا جائے تو بھی عقیدہ عدم سماع انبیا عليه السلام ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کی موت عارضی تھی، اصلی نہ تھی، موت کی دو قسمیں ہیں :

موت معتاد: جسے موتِ اصلی یا موت اجل بھی کہہ سکتے ہیں، اس موت کے بعد میت کا تعلق عالم برزخ سے قائم ہو جاتا ہے اور برزخی احوال شروع ہو جاتے ہیں، موت اصلی کے بعد کوئی شخص دنیا میں لوٹ کر نہیں آتا، قرآن کریم میں ہے﴿إِذَا جَاء أَجَلُہُمْ فَلاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون﴾․(یونس:49) ( جب آپہنچے گا ان کا وعدہ، پھر نہ پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اورنہ آگے سرک سکیں گے) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿لَا یَذُوقُونَ فِیْہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَی﴾․(الدخان:56) ( نہ چکھیں گے وہاں موت، مگر جو پہلے آچکی۔)

موت کی دوسری قسم ہے
موت غیر معتاد: جسے موتِ عارضی بھی کہہ سکتے ہیں، اس موت سے انسان کا تعلق عالم برزخ سے قائم نہیں ہوتا، نہ ہی بزرخ کے احوال طاری ہوتے ہیں ، جس شخص پر یہ موت وارد ہو، اسے دوبارہ حیات لوٹا دی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنی مدتِ حیات مکمل کرکے موت اجل اور موت اصلی سے متصف ہو کر عالم برزخ میں داخل ہو، اس موت سے غرض فقط تنبیہ موعظت یا اظہار قدرت ہوتا ہے ، سابقہ امم میں اس طرح کی کئی اموات ہوئی ہیں، جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّہُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْیَاہُمْ﴾․(البقرة:243) ( کیا نہ دیکھا تونے ان لوگوں کو جو کہ نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، پھر فرمایا ان کو الله نے کہ مر جاؤ ،پھر ان کو زندہ کر دیا۔)

﴿وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ، ثُمَّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون﴾․ (البقرة:56-55)
( اورجب تم نے کہا اے موسی! ہم ہر گز یقین نہ کریں گے تیرا جب تک کہ نہ دیکھ لیں الله کو سامنے ،پھر تم کوآلیا بجلی نے اورتم دیکھ رہے تھے ،پھر اٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو، مر گئے پیچھے، تاکہ تم احسان مانو)حضرت عزیر عليه السلام پر یہی موت عارضی اور غیرمعتاد طاری ہوئی تھی، وہ عالم برزخ میں پہنچے ہی نہیں تھے، حیات وسماع کا ادراک کیسے کرتے ؟ یہ چیزیں تو عالم برزخ سے تعلق رکھتی ہیں۔

علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس موت کے غیر معتاد ہونے پر ایک اور دلیل بھی پیش کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ موت ایک ایسا فعل ہے جس میں طول زمانی نہیں ہوتا ،یہاں جو حضرت عزیر علیہ لاسلام پر موت آئی وہ سو سال تک ان پر طاری رہی ، جس موت میں امتدادِ زمانہ ہو وہ غیر معتاد ہوتی ہے ۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں:”فَأَمَاتَہُ اللّہُ مائة عَام أی فألبثہ میتاً مائة عامٍ، ولا بد من اعتبار ھذا التضمین، لأن الإماتة بمعنی اخراج الروح وسلب الحیاة مما لا یمتد“․(روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:259) مردہ رکھا الله نے اس شخص کو سو برس) یعنی سو سال تک ان پر موت طاری رکھی مذکورہ معنی کا اعتبار کرنا اس لیے ضروری ہے کہ موت اخراج روح اور سلب حیات کا نام ہے اوران جیسی چیزوں میں امتداد زمانہ نہیں ہوتا۔“

خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت عزیر عليه السلام کی موت غیر معتاد تھی، اس موت سے میت کا تعلق عالمِ برزخ سے قائم نہیں ہوتا، جہاں سماع وحیات کا ادراک ہوتا ہے ،اس لیے اس واقعے سے عدمِ سماع کا استدلال کرنا درست نہیں۔

چوتھی وجہ: کیا غیر مسموعات کا ادراک ثابت ہے؟
بالفرض ایک لمحے کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ”کَالَّذِ یْ مَرّ“ سے حضرت عزیرعليه السلام ہی مراد ہیں ، ان کی نبوت شک وشبہ سے بالاتر ہے، ان کا یہ واقعہ نہ خرق عادت ہے نہ ہی ان کی موت غیر معتاد ہے ، یہ سب کچھ تسلیم کیے جانے کے بعد بھی اس واقعے سے انبیا علیہم السلام کے عدمِ سماع پر استدلال کرنا درست نہیں، کیوں کہ انقلابات زمانہ امور مسموعہ میں سے نہیں ، اختلاف تو یہ ہے کہ میت کو امورِمسموعہ کا ادراک ہوتا ہے یا نہیں؟ غیر مسموعات کا ادراک محل نزاع سے خارج ہے ۔

واضح رہے کہ یہاں فقط نفس آیت کی تفسیر کے پیش نظر یہ باتیں تحریر کی گئی، حیات انبیا علیہم السلام کی مکمل تفسیر سورة بقرہ آیت نمبر105 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ (جاری)

Flag Counter